Search This Blog

Thursday, 26 April 2012

خلافت فاروقی -عصر حاضر میں ایک قابلِ تقلید دور حکومت

خلافت فاروقی -عصر حاضر میں ایک قابلِ تقلید دور حکومت
 

خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطابؓ کا عہدِ خلافت ایک مثالی، قابل فخر اور قابل تقلید دورِ حکومت تھا۔ چودہ سو سال قبل ایک بہترین نظامِ حکومت دیا جبکہ عرب حکومت کے بنیادی قواعد سے نا آشنا تھے۔ وسیع سلطنت کے باوجود امور حکمرانی پر مکمل کنٹرول تھا۔ امن و امان ، بنیادی ضروریات کی فراہمی، تعلیم و تربیت، عدل و انصاف اور مختلف انواع کے ترقیاتی کاموں کے اعتبار سے ایک مثالی دور تھا۔ آج کے دور کے حکمرانوں کے لیے مینارہ نور ہے۔ اس کی روشنی میں آج انداز حکمرانی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ دور فاروقی کی بعض اہم خصوصیات حسبِ ذیل ہیں:

۱۔ صوبوں اور اضلاع کی تقسیم

نظامِ حکومت کی ابتداء تقسیم کار پر ہے۔ اسلام میں عمر فاروقؓ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے اس کا آغاز کیا اور ملک کو صوبہ جات اور اضلاع میں تقسیم کیاجیسے آپ نے فلسطین کے دو صوبے بنائے ۔ ایک کا صدر مقام’’ ایلیا ‘‘اور دوسرے کا ’’رملہ‘‘قرار دیا۔ اسی طرح مصر کو دو صوبوں میں تقسیم کیا۔ ایک کے 28 اور دوسرے کے 15 اضلاع تھے۔ پھر صوبوں میں والی، کاتب، کاتبِ دیوان، صاحب الخراج (کلکٹر)، صاحب احداث (پولیس آفیسر)، صاحب بیت المال (افسر خزانہ) اور قاضی مقرر کیے۔ اسی طرح اضلاع میں بھی عامل، افسر خزانہ اور قاضی ہوتے تھے۔( تاریخ طبری) آج صدیوں بعد اختیارات کی تقسیم (Devolution of powers)کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے زیادہ صوبے اور اضلاع بنانے اور ان کو اختیارات دینے کے تجربات کیے جا رہے ہیں۔ اس پر بہتر طریقے سے عمل کی ضرورت ہے۔

۲۔ نئے شہروں کو بسانا

عمر فاروقؓ کے دور میں بصرہ، کوفہ، فسطاط، موصل جیسے معروف شہر بسائے گئے۔(تاریخ طبری؛ فتوح البلدان) ان شہروں کی
تاریخی اور علمی اعتبار سے شہرت سب پر عیاں ہے۔ آج کے دور میں ہمارے شہر آبادی اور مسائل کے اعتبار سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی، ٹریفک اور پانی
جیسے کئی مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سو آج دور فاروقی کی تقلید کرتے ہوئے بہتر محل وقوع اور سہولیات کے ساتھ نئے شہر بسانے کی ضرورت ہے تا کہ لوگوں کی
مخصوص شہروں میں نقل مکانی کے رجحان میں بھی کمی آئے اور انہیں بہتر سہولیات بھی میسر آئیں۔

۳۔ عدلیہ کو رشوت سے بچانے کے لیے اقدامات

عمر فاروقؓ اکثر عملی امتحان اور ذاتی تجربہ کے بعد لوگوں کا انتخاب کرتے تھے۔ آپ
نے ججز کو ناجائز وسائل آمدنی سے روکنے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ (شبلی نعمانی، الفاروق)
(i) زیادہ تنخواہیں مقرر کیں تا کہ ان کو بالائی رقم کی ضرورت نہ پڑے۔
(ii) ان کا دولت مند اور معزز گھرانوں سے تعلق ہو تا کہ وہ رشوت کی طرف راغب نہ ہوں اور کسی معزز اور با اثر آدمی کا رعب ان کے فیصلے پر موثر نہ ہو۔
(iii) ججز کو تجارت اور خرید و فروخت کرنے کی اجازت نہ تھی۔ یہ وہ اصول ہے جو مدتوں کے تجربات کے بعد ترقی یافتہ ممالک میں اختیار کیا گیا تا کہ ججز کو تجارت
کے دوران ان سے کوئی معمولی چیز مہنگے داموں خریدنے یا مہنگی چیز سستے داموں فروخت کر کے بالواسطہ رشوت نہ دی جائے۔
سو آج کے دور میں عدلیہ کے علاوہ دیگر انتظامی آفیسرز کے حوالے سے بھی ایسے اقدامات کر کے رشوت سے بچایا جا سکتا ہے۔

۴۔ عدل کا ارزاں و آسان ہونا

عہد فاروقی میں آبادی کے لحاظ سے قضاۃ کی تعداد کافی تھی نیز حضرت عمرؓ کے اصول اور آئین اس قدر سہل اور آسان تھے
کہ عدل و انصاف کے حاصل کرنے میں ذرا بھی دقت نہیں ہو سکتی تھی۔ آجکل مہذب ملکوں نے عدل و انصاف اور داد رسی کو ایسی قیود میں جکڑ دیا ہے کہ داد خواہوں کو
دعوی سے باز آنا حصولِ عدل کی نسبت آسان ہے۔ (شبلی نعمان ، الفاروق)
سو آج کے دور میں عدل کا حصول مہنگا ہونے اور طوالت کے باعث مشکل ہو گیا ہے اور یوں نظامِ عدل غیر مؤثر ہو کر ظالموں اور مجرموں کی مدد اور مظلوموں سے زیادتی
کا سبب بن رہا ہے ۔ سو فوری ، سستا اور سہل عدل و انصاف آج کی اہم ضرورت ہے۔

۵۔ عمال کی اصلاح کے لیے اہم اقدامات

عمر فاروقؓ نے عمال کی اصلاح کے لیے بہت سے اقدامات کیے۔ بعض اقدامات کا ذکر حسب
ذیل ہے:
(i) عمال کے تقرر کے لیے مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوتا۔ بعض اوقات صوبے اور ضلع کے لوگوں کو حکم دیا جاتا کہ قابل ترین شخص کا انتخاب کر کے بھجوائیں۔
(ii) عامل مقرر کرتے وقت اس کے مال و اسباب کی مکمل فہرست تیار کرا کر محفوظ رکھی جاتی تھی اور اگر عامل کی مالی حالت میں غیر معمولی ترقی ہوتی تھی تو اس سے
مواخذہ کیا جاتا تھا۔ (فتوح البلدان)عصر حاضر میں اس ضابطے پر عمل درآمد کی اشد ضرورت ہے تا کہ کرپشن سے ممکنہ حد تک بچا جا سکے۔
(iii) ہر عامل سے عہد لیا جاتا تھا کہ وہ ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہوگا۔ نفیس،قیمتی اور باریک کپڑے نہیں پہنے گا۔غیر معمولی کھانا نہیں کھائے گا۔ دروازے پر دربان
نہ رکھے گا۔ اہل حاجت کے لیے دروازہ ہمیشہ کھلا رکھے گا۔ (کتاب الخراج) بلند و بالا رہائش گاہیں نہ بنائیگا۔ (بخاری ، الادب المفرد)
یہ شرطیں اکثر تقرری کے کاغذات پر درج کی جاتیں اور ان کو مجمع عام میں پڑھ کر سنایا جاتا تھا۔ ان شرطوں کا مقصد یہ تھا کہ عمال اپنے آپ کو دیگر لوگوں سے
ممتاز خیال نہ کریں بلکہ ان عہدوں کو ذمہ داری سمجھیں اور انتہائی سادگی سے گذر اوقات کریں۔ اور یوں لوگوں کو ان سے ملنے اور مسائل حل کرانے میں مشکلات کا
سامنا نہ کرنا پڑے۔ آج کے دور میں وزراء ، اراکین پارلیمنٹ اور آفیسرز پر مخصوص اعلیٰ قسم کی گاڑیوں ، انتہائی قیمتی اور متکبرانہ کپڑے، خاص ڈشز اور سکیورٹی وپروٹو
کول کے نام پر عوام الناس اور حکمرانوں کے مابین حائل رکاوٹوں کا خاتمہ ضروری ہے تا کہ وہ ذہنی طور پر اپنے آپ کو مخدوم کی بجائے خادم سمجھیں اور عوامی مسائل بھی
ان تک با آسانی اور براہ راست پہنچ سکیں۔
(iv) زمانہ حج میں تمام عمال کو حکم دیا جاتا کہ وہ حاضر ہوں۔ تمام لوگوں کی موجودگی میں عمر فاروقؓ اعلان فرماتے کہ جس کسی کو کسی عامل سے کچھ شکایت ہو تو پیش
کرے۔ (تاریخ طبری) سو ان شکایات پر احکامات جاری ہوتے۔ بعض اوقات تحقیقات کے عمل کے بعد ان کا تدارک کیا جاتا ۔ تحقیقات کے لیے ایک
خاص عہدہ کیا گیااس کے سربراہ بزرگ صحابی محمد بن مسلمہ انصاریؓ تھے۔
(v) عمال کی دیانت اور راستبازی کے قائم رکھنے کے لیے نہایت عمدہ اصول اختیار کیا تھا کہ ان کی زیادہ تنخواہیں مقرر کیں۔ یورپ نے مدتوں کے تجربے کے
بعد یہ اصول سیکھا ہے۔ اور ایشیائی سلطنتیں تو اب تک اس راز کو نہیں سمجھیں جس کی وجہ سے رشوت اور غبن ایشیائی سلطنتوں کا خاصہ ہو گیا ہے۔ (الفاروق)

۶۔ نہروں کا اجراء

عمر فاروقؓ نے زرعی زمینوں کی آب پاشی ، بحری آمدو رفت اور لوگوں کے لیے پانی کی فراہمی ایک اعلیٰ قسم کا نہری نظام دیا۔ زراعت کے
علاوہ بعض اہم نہریں انہوں نے جاری کیں جیسے نہر ابو موسیٰ ، نہر معقل، نہر سعد، نہر امیر المؤمنین۔ (الفاروق) آج کے دور میں بھی پانی کی فراہمی، تجارتی مقاصد اور
زرعی مقاصد کے لیے نہروں کی تعمیر بڑی اہمیت کی حامل ہے۔

۷۔ خلیفہ وقت کا مشاہرہ

خلافت سے پہلے عمر فاروقؓ تجارت کے ذریعہ سے کسب معاش کرتے تھے۔ خلافت کی مہمات کے باعث یہ شغل برقرار نہیں
رہ سکتا تھا۔ صحابہ کرامؓ کو جمع کر کے اپنی ضروریات بیان کیں اور کہا کہ بیت المال میں سے کس قدر اپنے مصارف کے لیے لے سکتا ہوں۔ حضرت علیؓ نے
فرمایا’’صرف معمولی درجہ کی خوراک اور لباس‘‘ چنانچہ ان کے اور ان کی بیوی بچوں کے لیے بیت المال سے کھانا اور کپڑا مقرر ہو گیا ۔ (تاریخ طبری)
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اتنی وسیع سلطنت کا خلیفہ بیت المال سے مالِ مفت سمجھ کراپنی ذات یا اپنے خاندان پر بے دریغ پیسہ نہیں خرچ کر رہا۔ سو تعیشات پر خرچ کرنا تو
درکنار بنیادی ضروریات کے لیے بھی مناسب سا خرچ بیت المال سے لینے پر اکتفا کیا۔ جب خلیفہ ایسی مثال اپنی ذات کے لیے قائم کرے گا تو وہ اپنے عمال پر
بہترین سواری (ترکی گھوڑے)، قیمتی اور نفیس کپڑے، غیر معمولی کھانے ،دربان نہ بٹھانے جیسی شروط نافذ کر سکے گا (مصنف ابن ابی شیبہ؛تاریخ طبری) اس لیے آج
حکمرانوں کو خود ایسی مثالیں قائم کرنہ ہوں گی تا کہ ملکی پیسہ تعیشات پر خرچ نہ ہو۔

۸۔ ناگہانی صورتِ حال اور خلیفہ وقت

قحط سالی ہو یا کوئی اور ناگہانی صورتِ حال میں عمر فاروقؓ نے اس دوران جو معمولات اپنائے وہ حسب
ذیل ہیں۔ (الفاروق)
(i) بیت المال کا تمام نقد وغلہ صرف کیا۔ (ii) پھر تمام صوبوں کے افسروں کو کہا کہ ہر جگہ سے غلہ روانہ کیا جائے۔
(iii) قحط زدہ لوگوں کا نقشہ بنوایا گیا اور تمام لوگوں کے نام اور غلہ کی مقدار کا رجسٹر تیار ہوا۔ ہر شخص کو چیک تقسیم کیا گیا جس کے مطابق اس کو روزانہ غلہ ملتا تھا۔
چیک پر حضرت عمرؓ کی مہر ثبت ہوتی تھی۔
(iv) حضرت عمرؓہر روز 20 اونٹ خود ذبح کراتے اور قحط ذدہ افراد کو کھلاتے۔
(v) ایسے مواقعوں پر بھی لوگوں میں کاہلی اور مفت خوری کا رواج پیدا نہیں ہونے دیتے تھے۔
(vi) جس سال عرب میں قحط پڑا، ان کی عجیب حالت ہوئی، جب تک قحط رہا گوشت، گھی، مچھلی غرض کوئی لذیز چیز نہ کھائی۔ (سیوطی، تاریخ الخلفاء؛ شبلی، الفاروق)
اس سے معلوم ہوا کہ ناگہانی صورت حال میں خلیفہ وقت اپنے سارے وسائل کو بروئے کار لائے ، نظم و ضبط سے تقسیم کا انتظام کرے، قوم کو مفت خوری کی
عادت نہ پڑنے دے نیز خود غیر معمولی اور اعلیٰ قسم کے کھانے ترک کر دے۔ایسے حالات میں یا مقروض ملک کے حکمرانوں کو بڑے قافلوں کے ساتھ غیر ملکی سفروں ،
اعلیٰ ہوٹلز میں قیام اور اس کے علاوہ بھی قومی خزانے سے بے دریغ خرچ کرتے ہوئے اسوۂ فاروقی کو سامنے رکھنا چاہئیے۔

۹۔ لازمی تعلیم کا انتظام

عمر فاروقؓ نے ہر جگہ قرآن حکیم کی تعلیم کا انتظام کیا۔ معلمین قرآن کے لیے اچھی تنخواہیں مقرر کیں۔ خانہ بدوش بدوؤں کے
لیے بھی قرآن حکیم کی لازمی تعلیم کا انتظام کیا گیا۔اسی طرح تمام اضلاع میں یہ احکامات پہنچائے گئے کہ بچوں کو شہسواری اور کتابت کی تعلیم دی جائے۔ (الفاروق)
سو آج کے دور میں لازمی تعلیم کے تصور پر زور دیا جا رہا ہے۔ عمر فاروقؓ نے صدیوں قبل یہ کام کیا۔ پھر قرآن کی تعلیم کا اہتمام کیا اورمعلمین کی تنخواہیں
خلافت کی طرف سے دی گئیں۔ آج کے دور میں یہ امر خالصۃً پرائیویٹ سیکٹر میں دے دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے مذہب میں فرقہ واریت اور انتہا پسندی آئی ہے۔

۱۰۔ فلاحی ریاست

خلافت فاروقی ایک مکمل فلاحی ریاست تھی۔ ان کے عہد میں پیداوار اور آمدنی میں نمایاں ترقی ہوئی۔ بلا تخصیص مذہب غربا اور مساکین کے
روزینے مقرر کیے گئے۔ لاوارث افراد کے تمام مصارف کا انتظام بھی بیت المال کے ذمے تھا۔ (الفاروق)یہ وہ دور تھا جب تمام رعایا کی بنیادی ضروریات کا بہت
خیال رکھا جاتا تھا۔ حضرت عمرؓ کا یہ قول اس حوالے سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے: اگر فرات کے کنارے بکری کا ایک بچہ بھی بھوک سے مر گیا تو عمر سے اس کے
بارے پوچھ گچھ ہوگی۔ (ابن جوزی ، سیرۃ عمر )ایک اور روایت میں بکری کی بجائے اونٹ کے الفاظ آئے ہیں۔ (طبقات ابن سعد)سو آج اس طرح کی فلاحی
ریاست کے قیام کی ضرورت ہے جہاں ہر فرد کو اس کی بنیادی ضروریات پہنچائی جائیں۔
دور فاروقیؓ کے نظام حکومت کی بعض اہم خصوصیات کا ذکر کیا گیا یہ نظام آج کے دور کے کسی بھی نظام حکومت سے کہیں بلند تر اور بہتر تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا
ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو اس دور حکومت کی تقلید کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم حقیقی اسلامی اور فلاحی ریاست کو اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کر سکیں۔ آمین

No comments:

Post a Comment