عمل کی شاہراہ تک
- روشن زرین
مثل مشہور ہے کہ ’’سفر وسیلۂ ظفر ہے‘‘۔ ماضی میں بھی یہ جملہ افراد و اقوام پر صادق آتا تھا اور یقینا آج بھی صداقت رکھتا ہے۔ لیکن آج دورانِ سفر ہمارے کانوں میں زہر گھولتا تیز میوزک اور ناروا گانوں کے بول مسافروں کے لیے منزلِِ مقصود تک پہنچتے پہنچتے کئی مرتبہ ذہنی کوفت کا باعث بنتے ہیں تو ایسے میں ظفر کا تصور تو نہ جانے کن بھول بھلیوں میں رہ جاتا ہے (اور مسافر بخیریت گھر واپس پہنچ جانے کو ہی غنیمت جانتا ہے)۔ ایسے ہی ایک سفر میں کانوں میں پڑنے والے الفاظ جن میں اللہ سے دو دل نہ دینے کا شکوہ ہورہا تھا، سن کر خیال گزرا کہ اگر حقیقت میں رب کریم ہمارے سینوں میں دو دل رکھ دیتا تو انسان کبھی یکسو ہوسکتا تھا! ایک دل مشرق کی طرف چلتا تو دوسرا مغرب کی جانب لپکتا۔ ایک رب کے آگے جھکتا تو دوسرا… پھر دل و دماغ میں کشمکش کے بجائے دل، دل میں کشمکش جاری رہتی تو انسان کتنے اضطراب اور خلجان کا شکار رہتا! حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل کی یکسوئی تو انہیں خلیل اللہ بناگئی، دنیا کا امام بنا گئی۔ انسانی تخلیق میں کتنی حکمتیں پوشیدہ ہیں یہ انسان سمجھ ہی نہیں سکتا۔ پھر اللہ سے شکوہ کرتے اور سنتے ہمیں خوف بھی نہیں آتا! سچی بات یہ ہے کہ ہم ایک بے شعور قوم ہیں۔ آپؐ فرماتے ہیں: میں آلاتِ موسیقی توڑنے کے لیے آیا ہوں۔ یہ بات طے ہے کہ گانے سے دل میں نفاق پیدا ہوتا ہے۔ پھر نفاق فساد کی جڑ ہے، اور اس جڑ کے ساتھ ڈرائیونگ…! ڈرائیور کے ذہنی دبائو کے سبب حادثات کا رونما ہونا عام بات ہوگئی۔ ہاں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی مسافر ہمت کرکے کنڈیکٹر و ڈرائیور سے میوزک بند کرنے کو کہتا ہے اور وہ مان بھی جاتے ہیں، اس طرح جہاں دوسرے مسافروں کے لیے سفر آسان اور اطمینان کا باعث بنتا ہے وہیں منع کرنے والے کے لیے نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کے باعث سفر وسیلہ ظفر بن جاتا ہے۔ لیکن جب فرد اپنا فریضہ انجام دینے سے ہچکچاتا ہے اور میوزک کی تیز دھنیں ڈرائیور کے ذہنی دبائو میں اضافے کا سبب بنتی ہیں تو رفتار کا تیز ہوجانا اور گاڑی کے قابو سے باہر ہوکر حادثے کا خطرہ، اور بسا اوقات محض خطرہ نہیں بلکہ حادثے کا واقع ہوجانا مسافر کے فرضِ منصبی سے غفلت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر زندگی کے سفر میں بھی کفر، اسلام، علم، عمل کی چورنگی سے ہم عمل کی شاہراہ پر قدم بڑھادیں تو کامیابی یقینی ہے۔ |
No comments:
Post a Comment