Search This Blog

Friday 22 June 2012

نظم مملکت امورِ سلطنت - اسلام کا نظریۂ سیاست

نظم مملکت امورِ سلطنت
اسلام کا نظریۂ سیاست

عصرحاضرمیں جس طرح قرآن ،حدیث فقہ جیسے خالص اسلامی علوم پر زبردست کام ہواہے اوربیش بہاتحقیقات منظرعام پر آئی ہیں ۔اسی طرح علوم اسلامیہ کے دوسرے میدانوںمیں بھی علماء اورارباب فکرونظرنے بہترین کاوشیں کی ہیں۔چنانچہ اسلام کی سیاسی فکرپر بھی بہت کچھ لکھاگیاہے فقہ وافتاء کے مباحث اورفتاویٰ کے ضمن میں بھی سیاسی مباحث سے تعرض کیاگیاہے:(1) اورخاص اسلامی سیاست پر لکھی گئی تحریروںمیں بھی۔بعض اصحاب فکرنے قدماء کی کئی رایوں سے اختلاف کا اظہاربھی کیاہے اوربعض نے اکثروبیشتران کے خیالات کی ترجمانی پر اکتفاکیاہے بعض نے ان پر کچھ اضافے بھی کیے ہیں ۔اس مقالہ میں یہ جائزہ لیاجائے گاکہ حالیہ زمانہ بیسویں صدی کے ربع اخیراوراکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں جدیداسلامی فکرکے تناظرمیں اسلام کے سیاسی فکرمیں کیااضافہ ہواہے کون سے نئے مباحث زیرغورآئے ہیں اورکن نئی رائیو ںکا اظہارکیاگیاہے ۔
آج جب اس پہلوسے مطالعہ وتحقیق کی جائے کہ اسلامی سیاسی فکرمیںکیاکچھ نیاہواہے تو سب سے پہلے فقہ الاقلیات(2) اورفقہ الواقع (3)سے اعتناء کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اسلامی سیاسی فکرپرنئے لکھنے والوں(4)نے موجودہ دوراوراس کے سیاسی واجتماعی رجحانات کو سامنے رکھاہے اور مسلم اقلیتوںاوران کے مسائل وایشوزسے بھی بحث کی ہے کیونکہ مسلم اقلیتیں دنیاکی کل مسلم آبادی کا چالیس فیصدبتائی جاتی ہیں ( 5) لہٰذااسلامی سیاست پر گفتگومیںاتنی بڑی تعدادکو نظرانداز نہیں کیاجاسکتااورخاص طورپر جب بعض ممالک میں یہ اقلیتں نظام حکومت میں برابرکی شریک بھی ہوں جیسے کہ ہمارے ملک ہندوستان میں ہے ۔
اسلامی سیاسی فکر کے مطالعہ سے یہ محسوس ہوتاہے کہ قرآنی آیات یااحادیث نبویہ جو سیاست سے متعلق کلام کرتی ہیںوہ صرف اصولیات پر گفتگوکرتی ہیں،جزئیات اورتفصیلات سے نہیں ،اس لئے بیشترلوگوںکارجحان یہ ہے کہ شرعی حدودمیں رہتے ہوئے اورالاصل فی الاشیاء الاباحۃ کے قاعدہ فقہیہ سے استفادہ کرتے ہوئے تمدنی وسیاسی مسائل کی جزئیات وتفاصیل میں ہم آزادہوں گے اورانسانی تجربات اورافکارسے اس سلسلہ میں فائدہ اٹھایاجاسکے گا۔
اسلامی سیاست پر لکھنے والے موجودہ مصنّفین ومفکرین نے واضح طورپر لکھاہے کہ اسلامی سیاسی فکرمیں اصولی احکام یہ ہیں:
۱۔ حاکمیت مطلقہ یاsovereigntyصرف خداکی ہے نہ کسی بادشاہ کی ہے اورنہ جمہورکی ۔اسلام میں مذہب زندگی کا ایک ضمیمہ نہیں بلکہ پوری زندگی پر حاوی ہے۔وہ خدااوربندے کے تعلق کے علاوہ انسان اورانسان کے تعلق سے بحث کرتاہے ،ساتھ ہی انسان اورکائنات سے تعامل سے بھی بحث کرتاہے اورحاکمیت الٰہ کا لازمی تقاضہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی ہے۔
۲۔دوسرایہ کہ مسلمانوں کے باہمی معاملات شوری اورنمائندگی پر مبنی ہوں گے۔
۳۔تمام شہریوں کے بنیادی وشخصی انسانی حقوق اورشخصی آزادیوں کی حفاظت کی جائے گی جن میں حریت دین وعقیدہ اور حریت فکروعمل بھی داخل ہیں۔ان اصولوں کے دائرہ میں رہتے ہوئے دوسرے نظامہائے سیاست سے تمدنی ،تیکنیکی اور انتظامی امورمیں استفادہ کیاجاسکتاہے ۔اس بارے میںصاحبزادہ ساجدالرحمٰن صدیقی کہتے ہیں :’’مثال کے طورپر اسلام میں شوری اور نمائندگی کا اصول موجودہے مگراس شوری کے وجودمیں لانے کی کوئی محسوس ومخصوص صورت متعین نہیں کی گئی ہے۔امیرالمومنین کو امورحکومت طے کرنے کے لیے مشورہ کا حکم ہے ۔اب وہ حصول مشورہ کے لئے کیاطریقہ اختیارکرے ،قومی اسمبلی ہو،سینیٹ ہویاان جیساکوئی ادارہ اسلام اس سے بحث نہیں کرتا ۔(6) لہٰذاجمہوریت وڈیموکریسی سے اس ضمن میں فائدہ اٹھایاجاسکتاہے۔ اورانتم اعلم باموردنیاکم  (تم لوگ امور دنیا میں مجھ سے بہتر واقف ہو )(مسلم :حدیث نمبر6127)کی نص اس سلسلہ میں رہنمااصول بن سکتی ہے جس سے یہ مستنبط ہوتاہے کہ تمدنی وانتظامی امورکی جزئیات وتفاصیل میں شرع انسانی تجربہ وعقل کو آزادچھوڑناچاہتی ہے۔
اسی طرح موجودہ زمانے میں بنیادی حقوق اورانسانی آزادیوں کے تحفظ پر بڑازوردیاجاتاہے ،اسلام نے بھی اصولی طورپر انسانی جان ومال کے احترام ،عقیدہ فکرکی آزادی کی ضمانت دی ہے لہٰذااس معاملہ میں اسلام مغرب کے ساتھ ہے ۔جمہوری نظام میں نظری طورپر کئی خرابیاں موجودہیں ،ان خرابیوں سے دامن بچاتے ہوئے اس کی اچھائیوں کو اختیارکرنے میں کوئی حرج نہیں۔بعض لوگ الفاظ کے پیچ وخم میں الجھتے ہیں اورجمہوریت وسیکولرازم سے ہرحال میں بڑا انقباض محسوس کرتے ہیں اوربعض تو ان کو مطلقاً کفروشرک قراردینے سے بھی نہیں چوکتے ،لیکن یوسف القرضاوی کی رائے میں : ’’  الدولۃ الاسلامیۃ دولۃ شوریۃ تتوافق مع جوھر الدیموقراطیۃ ‘‘۔ اس بنیادپر اسلام کی سیاسی فکر کو حرکی اورڈائنامک کہاجاسکتاہے۔
۴۔عدل وانصاف : ارشاد باری تعالی ٰہے :انصاف کیاکرو،یہی پرہیز گاری کی بات ہے ۔ (المائدہ :8) ساجدالرحمن صدیقی کے لفظوں میں’’اب یہ انصاف مہیاکرنے کے لیے کون سا نظام ترتیب دیاجائے ؟عدالتوں کے کتنے درجے مقررکیئے جائیں؟ اسلام کو ان تفاصیل سے بحث نہیں ،اس کا تقاضاتو حصول انصاف کا ہے ذرائع سے کوئی سروکارنہیں  ۔
ان اصولی احکام کے دائرہ میں رہتے ہوئے جزئیات وتفاصیل میں اسلامی سیاست دوسرے وضعی نظامہائے سیاست سے بہت سے امورمیں استفادہ کرسکتی ہے ۔مثال کے طورپر ووٹنگ اورانتخاب کے طریقہ ٔکارسے کام لیاجاسکتا ہے۔یہ دونوں ایسے طریقے ہیں جن سے ابجابی اورمنفی دونوںدائروں میں کام لیاجا سکتا ہے۔ اس طریقہ سے اچھا حکمراں اوراچھے نمائندے اقتدارمیں لائے جاسکتے ہیں تو ان کی غلطیوں اورنقصان سے بچنے کیلئے ان کو اسی طریقہ سے کام لے کر ہٹایابھی جاسکتاہے ۔مسیحیت میں پوپ (مذہبی رہنما)کو خداکا براہ راست نمائندہ سمجھاجاتااورحکمرانوںسے بالاتراتھارٹی ماناجاتاتھا۔اسلام میں نہ صرف یہ کہ ایساکوئی ادارہ تجویز نہیں کیاگیابلکہ اس تصورکی نفی کی گئی ۔مفتی محمدزاہداس سلسلہ میںاپنی رائے یوں دیتے ہیں: ’’اب فرض کریں کہ منصبِ اقتدارپر جولوگ فائز ہیںوہ اگراپنے فرائض ٹھیک سے ادانہیں کرتے ہیں تو ان کے عزل ونصب کی جو چندصورتیں ممکن ہوسکتی ہیںوہ یہ ہیں۔ (۱)حکمرانوںکے اوپرکوئی بالاتراتھارٹی ہوجوکہ اس کام کوکرسکے ۔ایساادارہ آئیڈیل اسلامی تصورسیاست میں خلافت کا ہے۔ خلیفہ یہ کام کرسکتاہے مگرموجودہ صورت حال میں عالم اسلامی میں نہ تو خلافت کا ادارہ قائم ہے اورنہ مستقبل قریب میں اس کاکوئی امکان دکھائی دیتا ہے۔
(۲) حکمراں خود معزول ہوجائے اوررضاکارانہ اپنے اقتدارکو کسی دوسرے کو منتقل کردے ،یہ صورت بھی بظاہربہت rare ہے ۔
(۳) ایک شکل یہ ہے کہ خودرعایاکو اپنے حکمرانوں کو معزول کرنے کا اختیارحاصل ہو۔اسلام کے مزاج اوراس کے تعلیم کردہ سیاسی تصورات سے یہی صورت زیادہ ہم آہنگ ہے۔
موجودہ دورمیں جمہوریت کے انتخابی سسٹم اوراورووٹنگ سے اس سلسلہ میں فائدہ اٹھایاجاسکتاہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاستی قوت کے بالمقابل جن اجتماعی اداروں کی ضرورت ہوتی ہے وہ پہلے عوام کو دستیاب نہیں ہواکرتے تھے اب تمدنی وتہذیبی احوال کے بدل جانے سے ان اداروںسے کام لیناعوام کے لئے بھی ممکن ہے۔ماضی میں اقتدارمیں تبدیلی لانے کے لئے عوام کو تلوارہاتھ میں لینے کی ضرورت ہواکرتی تھی، اب وہ کام تلوارکی بجائے ووٹنگ سے لیاجاسکتاہے۔آج انتخابی نظام نے یہ ممکن بنادیاہے کہ بغیرقوت استعمال کیے ان کو الیکشنی طریقہ کارکے ذریعہ بدل دیاجائے۔

No comments:

Post a Comment