سفرِمحمود بے محابہ جلوتوں اور خلوتوں کی بارگاہ سیّدعبدالرشید نقشبندی
یہ احساسات لئے ہر صاحب ایمان روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا خواہاں رہتاہے ۔گھربیٹھے وہ جس قدر اور جس وارفتگی کے عالم میں اورباقاعدگی کے ساتھ وردِ درود وسلام میں رطب اللسان رہے لیکن روضے پر حاضری دینے کی پیاس ہمیشہ ہرگام پر روح کی یہ تمنا بے قرار کرتی رہتی ہے کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی چوکھٹ پر حاضر ہوکر اپنی عاجزی ، اپنی بے قراری اور اپنی بے انتہا عقیدت کا برملااظہار کرنے کا موقع نصیب ہو۔ ماہیٔ بے آب کی طرح ہرباشعورمسلمان ایسے موقعے کی تلاش میں رہتاہے کہ کب اللہ اس سفرمحمود کے اسباب بنائے ۔ خود پہ نظر پڑتی ہے توناممکنات کا دائرہ وسیع ہوتا جاتاہے ، بے مائیگی ،وسائل کی کمی ،ذاتی مصروفیات ، اہل وعیال سے وابستگی ، دینوی تفکرات یہ سب چیزیں بہ یک وقت دل ودماغ پر عود کرکے کم ہمتی اور غیر ممکنات کی لمبی فہرست آنکھوں کے سامنے لاچھوڑتی ہے ۔
یہی حال اس خاکسار کا تھا۔ مدتوں دست بدعا رہا کہ یہ نعمت عظمیٰ نصیب ہو ۔
’’حسبی اللہ لذی لا الا اللہ ھو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم‘‘۔یہ آیت کریمہ ہمیشہ میرے دل ودماغ پر دستک دے رہی تھی کہ اللہ کے حضور جو بھی نیک مقصد ،جوبھی صالح حاجت اور جو بھی پاک خواہش رکھی جائے وہ پورا کرنے کی قدرت رکھتاہے ۔والدین کے ساتھ حسن سلوک اور فرماں برداری بلاشک وشبہ ایسے منازل طے کرنے میں ممدومددگار ثابت ہوتاہے ۔کیوں نہ ہو ماں باپ کے دل سے ہی بنا کسی مصلحت کے صاف وشفاف التجا پھوٹ پڑتی ہے ،اپنے چہیتے ،تابعدار اور خداپرست اولاد کے حق میں کہ ع
اجابت از درِ حق مہر استقبال مے آید
اسی تجربے اور اسی حقیقت کے سہارے میں اور میری رفیقِ حیات کی آرزو پوری ہوئی اور سن 1991ء میں دونوں کے حق میں حج بیت اللہ کی انمول نعمت عظمیٰ نصیب ہوئی ۔ الحمد للہ۔
تجربہ یہ ہے کہ حج کے دوران مطلوبہ لوازمات کے بغیر حرمین شریفین کی بھرپور زیارت تشفی وتسلی سے نہیں ہوتی اور نہ معین وقت میں قریبی مشاہدات کا موقع نصیب ہوتاہے ۔
حج کا فریضہ اداکرنے سے فارغ ہونے کے بعد یا اس سے پہلے ہر شخص زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنی والہانہ عقیدت محبت اوراحترام کا اظہار کرنے کے لئے مدینہ منورہ جانے کے لئے کمر بستہ ہوجاتاہے ۔ ارشاد رسولؐ ہے حج سے فارغ ہونے کے بعد جو بھی میرے روضے پر نہ آئے میرے ساتھ زیادتی کرگیا ۔ ’’ جس شخص نے حج کیا لیکن میری قبر کی زیارت نہ کی اُس نے مجھ سے زیادتی کی ‘‘۔ اللہ اللہ کیا تاریخی فرمان مبارکہ اور کیا زندہ جاوید حقیقت ہے !! اسی حقیقت سے پردہ اُٹھ کے عاشق رسولؐ حضرت عبدالرحمٰن جامیؔ علیہ رحمہ کی زبان مبارک سے یہ التجا پھوٹ پڑی ۔
مشرف گرچہ جامیؔ شد زلطفش
خدایا ایں کرم بار دگر کُن
خاکسار نے تاجدارمدینہ ؐ کی مبارک چوکھٹ پہ پہلا قدم رکھ کے التجا کی ۔ الٰہی ایں کرم ابداً ابداکُن۔
اجابت کا وقت تھا۔ حاضری کا اِذن ملا اور خاکسار سن 1991ء سے بلاناغہ تا ایں دم الحمد اللہ دربارنبویؐ میں حاضری دیتا آیاہوں ۔ اکیلے نہیں اپنی رفیقۂ حیات کے ہمراہ۔ ضروری ہے کہ اپنے مشاہدات اور اپنے تجربات سے قارئین کو بھی سلسلہ وار آگاہ کروں ۔ انشاء اللہ
مکہ معظمہ میں وارد ہوکے ہر عازم حج یا ہر زائر عمرہ کرنے کی خاطر کمر بستہ ہوجاتاہے ۔میقات میں احرام باندھ کے تلبیہ کے ساتھ یعنی اللہ کے وحدہ لاشریک ہونے کی گواہی دینا ۔خانۂ کعبہ کے گرد طواف کے سات چکر کی تکمیل کے لئے عزم واستقلال کے ساتھ رُکن یمانی سے طواف کی ابتداء ۔ پیارے رسولؐ کی پیاری دعائیں زبان پر لاکے اپنے آپ کا محاسبہ کرتے کرتے اتباع سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکمیل کرنا۔اللہ اللہ کیا منظر ہے ۔ کیسی ابدی حقیقت ہے کعبے کے خدا سے ملتجی ہونا ،حاضر وناضر جان کر کہنا ؎
یا اللہ العالمین بارگاہ آوردہ ام
بردرت ایں باز باپشت دوتاہ آوردہ ام
چشم رحمت برکشا موئے سفیدی من بہ مین
ترانکہ از شرمندگی روئے سیاہ آوردہ ام
میرے اللہ گناہوںکے بارے میں میری کمر دوہری ہوگئی ہے اور گناہوںکا یہ پلندہ لئے نیم کمر تمہارے حضور کھڑا ہو ۔
بارالٰہا! اپنی رحمت کی ایک نگاہ سے میرے سفید ریش کی طرف توجہ فرما کیونکہ شرمندگی اور کم طاعتی کی بناء پر سارے وجود پرشرمندگی چھائی ہوئی ہے ۔ سیاہ چہرہ لئے سارے وجود پر گناہوں کے بادل چھائے ہوئے ہیں ۔نظر کرم بارخدایا ایک نظر کرم ۔
تاریخ گواہ ہے کہ صفا سے مروہ اور واپس مروہ سے صفا کی پہاڑیوں کے درمیان سعی کرنا اس بات کی یاد دہانی کرتاہے کہ حضرت حاجرہؑ نے کیسے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیاس بھانپتے ہوئے ان دوپہاڑیوں کے درمیان تگ ودو کی تھی کہ کہیں پانی کی ایک بوند ملے ۔پیاسے بچے کی پیاس بجھا سکوں ۔ ایک طرف یہ بے قرار ی اور دوسری طرف یہ خدشہ کہ بچے کو کوئی گزند نہ پہنچے ۔ حضرت حاجرہؑ کی دوڑ دھوپ اللہ کوپیاری لگی ۔ حکم ہوا کہ ہم بھی اس کی اتباع کرکے تیز تیز قدم اٹھاکے دکھائے ہوئے نشانے سے دکھائے ہوئے نشانے تک کی مسافت طے کریں ۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیاں رگڑرگڑ کے جو چشمہ باری تعالیٰ کے فضل وکرم سے پھوٹ پڑا اس کے پانی کو زَم زَم کہتے ہیں ۔چشمے کے پانی کی رفتار اس قدر تیزتھی کہ حضرت حاجرہؑ پکاراُٹھیں زَم زَزم (یعنی ٹھہرجا۔ٹھہرجا)۔اندازہ کریں کس سَن سے لے کر آج کے ہجری سن تک یہ آبِ ذلال رواں دواں ہے اور ہرکسی کی پیاس بجھانے کے لئے دستیاب۔ دن رات رحمت وشفقت کا یہ سلسلہ قائم ودائم ہے اور قائم ودائم رہے گا ۔
سعودی عرب کے خادم حرمینِ شریفین اور دیگر حکمرانوںکی اَنتھک کوششوں کے صدقے آج کل مکہ معظمہ کی تعمیر وتوسیع کا کام زور وشور سے جاری وساری ہے ۔ اس سال اپریل کے مہینے میں جومنظر میں نے دیکھا وہ قابل ذکر ہے ۔ مکہ کے پہاڑ اور پہاڑیوں کو چیر کر جدید مشینوں اور آلات سے زمین بوس کیا جارہاہے ۔فن تعمیر کا ایک منفرد اورقابل دید منظر آنکھوں کوخیرہ کرجاتاہے ۔اب تک گرائے گئے پہاڑوں پر فلک نما تعمیرات ایستادہ ہیں جن میں خالصتاً زائرین کی رہائش اور خورد ونوش کے قابل دید انتظامات میسرہیں۔ یاد رہے تاحال زائرین کی تعداد میں ہوشربا اضافے سے مکہ معظمہ میں رہائش کے لئے زمین تنگ محسوس کی جارہی تھی ،زائرین اور حج کا کا مقدس فریضہ ادا کرنے کے لئے جو لوگ واردِ مکہ ہوتے تھے ان کی لاجنگ بورڈنگ کے لئے عربوں کے رہائشی مکان ہی میسر تھے، ہوٹلوں کی تعداد نسبتاً کم تھی ۔ آج حرم کے باہر دیدہ زیب ٹاور نصب ہے جس کے بیچ ایک کلاک لگاہواہے ۔ اسے مکہ ٹاور کہاجاتاہے ۔
اسی حرم پاک کے باہر ایسے تاریخی مقامات موجود ہیں جن کا تعلق حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے ہے ’’جنت الماوا‘‘ جہاں حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا مدفن ہے ۔
باب السلام کے روبرو نبی جہاں آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا تولد مسعود ہوا ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ خانۂ کعبہ کی طرف جاتے او رآتے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی باب السلام سے حرم کے اندر اپنے قدوم مبارک ٹھہراتے ۔ ایسے ہی مسجد نبوی ؐمدینہ منورہ میں آپؐ کا ورودِ مسعود ہوتا ۔ مکہ معظمہ سے چار پانچ کلومیٹر کی دوری پر میدانِ عرفات اپنی روایتی شان وشوکت سے قائم ودائم ہے ۔ یہ مسافت طے کرتے وقت اس بات کا شدید احساس ہوتا ہے کہ قدوم مبارک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک نشانات سے یہ پہاڑ ، یہ درّے، یہ گذرگاہیں منور ومعطر ہیں ۔ منا،مسجدنمیرہ ، مسجدخیف ،جبل رحمہ ، مزدلفہ یہ وہ مقام ہیں جن کی ایک ابدی تاریخ ہے ، خصوصاًجبل رحمہ جہاں سے ہمارے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری خطبہ ارشاد فرمایا اور اللہ تبارک تعالیٰ کے روبرو عوام الناس کی شہادت اس ضمن میں حاصل کی کہ اللہ عزوجل کی امانت یعنی قرآن مجید خلوص اور دیانتداری کے ساتھ اپنی امت کے حوالے کی ۔
|
Search This Blog
Friday 8 June 2012
سفرِمحمود . بے محابہ جلوتوں اور خلوتوں کی بارگاہ
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment