J
یوروپی معاشرتی نظام کا زوال
ایس اے ساگر
ناروے میں قتل عام کے بعد میڈیا میں مختلف قسم کے رد عمل سامنے آرہے ہیں۔اندھا دھند فائرنگ کے تار جہاں واقعے کے ذمہ دار آندرس بری یوک کی صلیبی جنگ سے جو ڑے جارہے ہیں وہیں پچھلے برسوں میں جاری خون خرابے کا بسیط جائزہ لیا گیا ہے۔ایک طرف ناروے میں کم از کم 93 افراد کا قاتل آندرس بیہرنگ برییوک خود کو ایک پارسا صلیبی جنگجو تصورکرتا ہے جس کا مشن یوروپ کو اسلام کی بڑھتی ہوئی یلغار سے بچانا ہے جبکہ دوسری جانب اس بربریت کیلئے معاشرتی نظام کے زوال کو قرار دیا جارہا ہے۔واضح رہے کہ امریکہ اور یوروپ وہ ترقی پذیر ممالک کیلئے ایسے تہذیب یافتہ خطے ہیں جن کے تمدن کی مثالیں دی جاتی ہیں جہاں زندگی گزارنا کروڑوں دیگر لوگوں کیلئے ایک ایسا خواب ہے جسے پورا کرنے کیلئے وہ اپنی زندگیوں کو بھی داو پر لگانے سے گریز نہیں کرتے جبکہ مشرقی ممالک میں موجود مغربی ممالک کے سفارتخانوںمیں ترک وطن کیلئے طویل قطاروں کا نظرآنا ایک معمول کی بات ہے تاہم ان ’مہذب ممالک‘کے باطن کی تصویر اسکے شفاف چہرے کے مقابلے میں بالکل بدصورت ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اجتماعی زندگی کے علاوہ انفردی زندگی میں یہاںگزشتہ 20 سال کے دوران اندھا دھند فائرنگ کے باعث ہلاکتوں کے متعدد واقعات ہوئے ہیں۔اس کے پیچھے کارفرما عوامل کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ مغربی دنیا بنیادی طورپر سرمایہ دارانہ نظام معاشرت پر یقین رکھتی ہے جسے آسان لفظوں میں مادی طرززندگی بھی کہا جاسکتا ہے یعنی دولت کا حصول وہاں وہاں بسنے والے افراد کامقصد حیات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برسوں سے جاری معاشرتی زوال کے سبب پرتشدد واقعات پیش آتے رہے ہیں جو یہاں کے رہنے والوں کی ذہنی حالت کے ترجمان ہے۔دراصل یہاں سماجی ڈھانچہ پانچ طبقات میں منقسم ہے۔کل آبادی کے ایک فیصد پر مشتمل اعلیٰ یا upper classطبقہ ہے جو اثررسوخ، عزت اورملکی دولت کے ایک تہائی ملکیت رکھتا ہے۔اس کے بعد اعلیٰ متوسط طبقہ یا Upper middle classہے۔آبادی کا 15فیصدہونے کے ساتھ تمام اعلیٰ پیشہ وارانہ ملازمتوں پر کام کرنیوالا یہ طبقہ ماہانہ لاکھوں ڈالر کمالیتا ہے۔اسکے بعدنچلامتوسط طبقہ ہے جوآبادی کا بیس فیصد طبقہ ہونے کے ساتھ بنیادی طور پر دکاندار اور درمیانے درجے کی ملازمتوں پر قابض رہتا ہے۔پھر 45فیصد مزدور یا ملازمت پیشہ افراد ہے جو کم تعلیم یافتہ ہونے کے باعث زندگی کی گاڑی بمشکل کھینچنے پر مجبور ہیں۔سب سے آخر میں نچلا طبقہ یا غریب افراد جو سرکاری امداد کے بغیرخودکشیوں پر مجبور ہوجائے۔1974 میں اسٹین فورڈ ریسرچ انسٹیوٹ اور چارلس ایف کیٹرنگ فاونڈیشن کے تعلیمی ادارے نے امریکی معاشرے پر ایک تحقیق ’انسان کے بدلتے رخ‘ کے معروضات کے تناظر میں مغربی معاشرے کا جائزہ لیا تھا۔تحقیق میں ان ممالک میں بسنے والے افراد کی بنیادی فطرت میں تبدیلی کا جائزہ لیا گیا تھا جس سے محض امریکہ میں جاری موجودہ بحران کے بارے میں جاننے میں کافی مدد ملی۔تحقیق میںمتعدد بحرانوں کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ گلوبلائزیشن یاعالمگیریت اور سرمایہ دارانہ نظام کے تسلط سے نظام معاشرت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا رہا ہے جس کے نتیجے میں معاشی اور سیاست کا بنیادی نظام اتنا غیرمنصفانہ ہوکر سماجی بدامنی کا باعث بنا ہے۔ معیشت اپنے وزن تلے دب کر تشدد اورخودکشی کی طرف مائل ہے جس کے نتیجے میں ہولناک سماجی بحران پیداہوا ہے جو اندھا دھندفسادات اور انقلابات کی شکل میں ڈھل کر ریاست کو تباہی کے کنارے پر پہنچاتا رہا۔واضح رہے کہ موجودہ معاشی بحران کوئی ایک آدھ ہفتے یا مہینے تک محدود نہیں۔ اگر آپ مغرب کے دورے پر جائیںاور وہاں کے شہریوں سے گفتگو کریں تو آپ پر تھوڑی دیر میں ایک انکشاف ہوجائیگا کہ امریکی شہری اپنے گھروں سے باہر چہل قدمی یہاں تک کے اپنے گھر کے باہر بھی اکیلے گھومنے سے خوفزدہ ہیں۔انکے اس خوف کی وجہ گلیوں میں لوٹ مار اور قتل و غارت کا طوفان ہیں جس سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔مغبی ممالک کا تو ذکر ہی کیا ‘محض امریکی محکمہ انصاف کے مطابق امریکہ کے شہروں میں اوسطاً ہر بائیس منٹ میں کسی فرد کا قتل ہوجاتا ہے، ہر پانچ منٹ میں ایک آبروریزی کی واردات ہوتی ہے تو ایک ڈکیتی 49سیکنڈ بعد رپورٹ ہوتی ہیںجبکہ چوریوں کی شرح تو ہر دس سکینڈ کی ہے۔محکمہ انصاف کے ہی مطابق ہر برس جرائم کے باعث امریکہ کو 675ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے جس میں جانی نقصان یا ذہنی صدمے کا کوئی حساب شامل نہیں۔ اسی طرح اگست 2008 میں ایک سروے جسکا عنوان تھا’امرےکہ کا سیاسی اور معاشرتی نظام کے زوال کا آغاز‘جسکے مطابق 70فیصد امریکی عوام کا ماننا ہے کہ امریکہ دنیا میں اپنی عزت اور اہمیت کھو رہا ہے، جبکہ ہر 10میں سے 8امریکیوں یعنی 80فیصدکا خیال تھا کہ امریکہ کا نظام تعلیم غیرمعیاری ہوچکا ہے اور نوجوان تعلیم میں دلچسپی سے کترانے لگے ہیں۔سروے کے مطابق امریکہ میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دنیا میں سب سے زیادہ مایوسی کا شکار ہیں جس سے نجات کیلئے غلط راہوں کا انتخاب امریکی معاشرے کو تباہی کی طرف لے جارہا ہے۔انکے مطابق ماہانہ پانچ لاکھ ڈکیتی کی وارداتیں ہوتی ہیں، جن میں سے ڈھائی لاکھ کی رپورٹ پولیس کے درج کرائی جاتی ہے جس میں سے صرف 30ہزار مجرم پکڑے جاتے ہیںتاہم عدالتی کارروائیوں کے دوران 24ہزار رہا ہوجاتے ہیں اور صرف چھ ہزار کو سزا دیکر جیل بھیجا جاتا ہے جنھیں زیادہ سے زیادہ تیرہ ماہ کی سزا ہوتی ہیں۔ظاہر ہے کہ مجرموں کو جب سزا کا ڈر ہی نہیں تو معاشرے میں جرائم کی شرح اور سماجی ابتری میں اضافہ تو ہونا ہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہرمغربی شہری اپنے گھر سے باہر نکلنے سے خوفزدہ ہے۔ جرائم F.B.I کے مطابق 2007 میں 16929قتل کی وارداتیں ہوئی جبکہ ہر قسم کی جرائم کی وارداتوں کو ملا کر ایک کروڑ پچیس لاکھ کیسوں کا اندراج پولیس نے کیا۔واضح رہے کہ ہزاروں کیس ایسے ہوتے ہیں جنکے متاثرین پولیس کے پاس جانے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ بے گناہوں سے تو مغربی جیلیں بھری ہوئی ہیں لیکن مجرم آزاد گھوم رہے ہیں۔اگر پکڑے بھی جاتے ہیں تو ناقص عدالتی نظام کے باعث مجرموں کو بہت کم تعداد میں سزا ملتی ہے۔مثلاً فائرنگ کی واردات کاجائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ماضی کے متعدد برسوں سے یہاں فرسٹریشن کے واقعا پیش آتے رہے ہیں۔ حال ہی میںناروے میں مبینہ طور پر دائیں بازو کے ایک مسیحی حملہ آور کی فائرنگ سے کم سے کم 93 افراد ہلاک ہوئے۔ گزشتہ 20 سال کے دوران دنیا بھر میں ایک یا دو مسلح افراد کی جانب سے لوگوں پر فائرنگ کے بدترین واقعات درج ذیل ہیں:اپریل 1982، جنوبی کوریا – سانگ نامدو میں شراب کے نشے میں دھت وو بم کونگ نامی پولیس افسر نے رائفلوں اور دستی بموں کی مدد سے 57 افراد کو ہلاک اور 38 کو زخمی کر دیا جس کے بعد اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔19 اگست 1987، برطانیہ – انگلینڈ کے شہر ہنگر فورڈ میں 27 سالہ مسلح شخص مائیکل ریان نے 16 افراد کو ہلاک اور 11 کو زخمی کرنے کے بعد خود کو گولی مار لی جبکہ جولائی 1989، فرانس – سوئٹزر لینڈ کی سرحد کے نزدیک لکسیول گاو کے ایک فرانسیسی کاشت کار نے اپنے اہل خانہ سمیت 14 افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ پولیس نے اسے گولی مار کر زخمی کرنے کے بعد گرفتار کر لیا۔دسمبر 1989، کینیڈا – جنگی فلمیں دیکھنے کے شوقین 25 سالہ شخص نے خواتین سے نفرت پر یونیورسٹی آف مانٹریال میں فائرنگ کر کے 14 نوجوان خواتین کو ہلاک کرنے کے بعد اپنی زندگی کا بھی خاتمہ کر لیا۔نومبر 1990، نیوزی لینڈ – نیوزی لینڈ کے ایک چھوٹے سے ساحلی گاوں اراموآنا میں تنہائی کا شکار مسلح شخص نے 24 گھنٹے تک فائرنگ میں 11 مرد و خواتین اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پولیس نے اسے ہلاک کر دیا جبکہ ستمبر 1995، فرانس – سیورس شہر میں 16 سالہ نوجوان نے والدین سے جھگڑا ہونے کے بعد رائفل سے اندھا دھند فائرنگ کر کے 16 افراد کو ہلاک کرنے کے بعد خود کو گولی مار لی۔13 مارچ 1996، برطانیہ – اسکاٹ لینڈ کے شہر ڈنبلین میں تھامس ہملٹن نامی مسلح شخص ایک پرائمری اسکول میں جا گھسا جہاں اس نے 16 بچوں اور ان کے استاد کو فائرنگ کر کے ہلاک کرنے کے بعد اپنی زندگی ختم کر لی۔اپریل 1999، امریکہ – لٹلٹن، ڈینور میں بھاری ہتھیاروں سے مسلح دو نوعمر لڑکوں نے کولمبین ہائی اسکول میں فائرنگ کر کے 13 طلبہ اور عملے کے اراکین کو ہلاک کر دیا اور اس کے بعد اپنی زندگیوں کا بھی خاتمہ کر لیا۔جولائی 1999، امریکہ – اٹلانٹا میں ایک مسلح شخص نے اپنی بیوی اور دو بچوں کو قتل کرنے کے بعد دو بروکر ہاوسز میں نو افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ پانچ گھنٹے بعد اس نے خودکشی کر لی۔جون 2001، نیپال – نیپال کے ولی عہد دیپندرا نے محل میں شاہی خاندان کے آٹھ افراد کو ہلاک کر دیا۔ بعد میں اس نے خود کو بھی گولی مار لی اور چند روز بعد چل بسا۔ بعد میں اس کا ایک زخمی بھائی بھی مر گیا جس سے ہلاکتوں کی تعداد 10 ہو گئی۔26 اپریل 2002، جرمنی – مشرقی جرمنی کے شہر ارفورت میں 19 سالہ رابرٹ اشٹائن ہاوسر نے یہ کہتے ہوئے فائرنگ کر دی کہ وہ ریاضی کا امتحان نہیں دے گا۔ فائرنگ کے دوران اس نے گوٹن برگ جمنازیم میں 12 اساتذہ، ایک سیکرٹری، دو طلبہ اور ایک پولیس اہلکار کو ہلاک کر دیا اور بعد میں خودکشی کر لی۔اکتوبر 2002، امریکہ – واشنگٹن ڈی سی کے علاقے میں جان محمد اور لی مالوو نامی افراد نے ہدف بنا کر 10 افراد کو ہلاک کر دیا جس سے علاقے میں دہشت کی لہر دوڑ گئی۔16 اپریل 2007، امریکہ بلیکس برگ، ورجینیا میں قائم ورجینیا ٹیک یونیورسٹی میں ایک مسلح شخص نے اندھا دھند فائرنگ کے ذریعے 32 افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔7 نومبر 2007، فن لینڈ – ہیلسنکی کے نزدیک جوکیلا ہائی اسکول میں پیکا ایرک اوینن نامی طالب علم نے چھ ساتھی طلبہ ، اسکول کی نرس اور پرنسپل کو ہلاک کرنے کے بعد خودکشی کر لی۔23 ستمبر 2008، فن لینڈ – شمال مغربی فن لینڈ کے علاقے کاوجوکی میں متی ساری نامی طالب علم نے ایک فنی اسکول میں فائرنگ کر کے 9 دیگر طلبا اور عملے کے ایک رکن کو ہلاک کرنے کے بعد اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔11 مارچ 2009، جرمنی – سیاہ جنگی لباس میں ملبوس ایک 17 سالہ مسلح شخص نے اشٹٹ گارٹ کے نزدیک ایک اسکول میں نو طلبہ اور تین اساتذہ کو ہلاک کر دیا۔ اس نے ایک نزدیکی کلینک میں ایک اور شخص کو ہلاک کر دیا۔ بعد میں وہ پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ واقعے میں دو راہگیر اور دو پولیس اہلکار شدید زخمی ہوئے اور مسلح شخص سمیت کل 16 افراد ہلاک ہوئے۔2 جون 2010، برطانیہ – دیہی کاونٹی کمبریا میں مسلح شخص ڈیرگ برڈ نے مختلف علاقوں میں لوگوں پر فائرنگ کی جس میں 12 افراد ہلاک اور 11 زخمی ہو گئے۔ ڈیرگ نے بعد میں خود کو ہلاک کر لیا۔30اگست 2010، سلوویکیا – دارالحکومت براٹسلاوا کے نزدیک ایک مسلح شخص نے خانہ بدوش روما خاندان کے چھ افراد اور ایک اور عورت کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور خودکشی کر لی۔ واقعے میں چودہ افراد زخمی بھی ہوئے۔22 جولائی 2011، ناروے – پولیس نے ایک مسلح شخص کو گرفتار کیا جس پر اٹویا نامی جزیرے پر ناروے کی حکمران سیاسی جماعت کے ایک یوتھ کیمپ میں فائرنگ کر کے کم سے کم 84 افراد کو ہلاک کرنے کا الزام ہے۔ آندرس بیہرنگ برییوک پر دیگر ہلاکتوں کے علاوہ اوسلو کے مرکز میں سرکاری عمارت کے باہر بم دھماکہ کرنے کا الزام ہے جس میں سات افراد ہلاک ہوئے۔ان تمام واقعات سے ہٹ کرآندرس کو جن الفاظ سے نفرت ہے ان میں کثیر الثقافتی معاشرہ بھی شامل ہے لہٰذاناروے میں بائیں بازو کے نوجوانوں کے سمر کیمپ میں خون کی ہولی کھیلنے اور سرکاری دفاتر کی عمارت کو بم حملے کا نشانہ بنانے والے 32 سالہ شخص سے کسی قسم کے اظہار ندامت کی توقع رکھنا عبث ہے۔ہلاکت خیز مہم شروع کرنے سے چند روز قبل اس نے سرقہ شدہ مواد پر مبنی آن لائن منشور میں لکھا کہ قرون وسطٰی کے صلیبی جنگجووں کا نائٹس ٹیمپلر نامی آرڈر 2002 میں لندن میں دوبارہ وضع کیا گیا تھا۔آندرس بیہرنگ، جو اس وقت دہشت گردی کے الزام میں پولیس کی حراست میں ہے، نے لکھا کہ اس آرڈر کا مقصد مقامی حقوق کی مسلح تنظیم اور صلیبی تحریک یعنی جہاد مخالف تحریک بنانا ہے۔ اس کا ماننا تھا کہ ایک بار جب آپ نے حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تو پھر ہر ممکن حد تک زیادہ سے زیادہ افراد کو موت کے گھاٹ اتارنا ضروری ہے ورنہ حملے کا مطلوبہ نظریاتی اثر کمزور پڑ جائے گا۔اس کی تحریر سے اس کے ذہن کی عکاسی ہوتی ہے جس پر جنگجویانہ تصوراتی کمپیوٹرکھیلوں کا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ اس کا غصہ یوروپ کی آزاد خیال سیاسی مقتدرہ پر ہے جو اس کے نزدیک یوروپ کی تباہی کو فروغ دے رہی ہے۔اس نے خودتسلیم کیا ہے کہ اس کی سوچ میں بڑی تبدیلی1999میں کوسووو تنازعے میں سربیا پر بمباری کے نیٹو آپریشن میں ناروے کی شمولیت کے بعد آئی۔
sa.sagar7@gmail.com+919811231871
ناروے میں قتل عام کے بعد میڈیا میں مختلف قسم کے رد عمل سامنے آرہے ہیں۔اندھا دھند فائرنگ کے تار جہاں واقعے کے ذمہ دار آندرس بری یوک کی صلیبی جنگ سے جو ڑے جارہے ہیں وہیں پچھلے برسوں میں جاری خون خرابے کا بسیط جائزہ لیا گیا ہے۔ایک طرف ناروے میں کم از کم 93 افراد کا قاتل آندرس بیہرنگ برییوک خود کو ایک پارسا صلیبی جنگجو تصورکرتا ہے جس کا مشن یوروپ کو اسلام کی بڑھتی ہوئی یلغار سے بچانا ہے جبکہ دوسری جانب اس بربریت کیلئے معاشرتی نظام کے زوال کو قرار دیا جارہا ہے۔واضح رہے کہ امریکہ اور یوروپ وہ ترقی پذیر ممالک کیلئے ایسے تہذیب یافتہ خطے ہیں جن کے تمدن کی مثالیں دی جاتی ہیں جہاں زندگی گزارنا کروڑوں دیگر لوگوں کیلئے ایک ایسا خواب ہے جسے پورا کرنے کیلئے وہ اپنی زندگیوں کو بھی داو پر لگانے سے گریز نہیں کرتے جبکہ مشرقی ممالک میں موجود مغربی ممالک کے سفارتخانوںمیں ترک وطن کیلئے طویل قطاروں کا نظرآنا ایک معمول کی بات ہے تاہم ان ’مہذب ممالک‘کے باطن کی تصویر اسکے شفاف چہرے کے مقابلے میں بالکل بدصورت ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اجتماعی زندگی کے علاوہ انفردی زندگی میں یہاںگزشتہ 20 سال کے دوران اندھا دھند فائرنگ کے باعث ہلاکتوں کے متعدد واقعات ہوئے ہیں۔اس کے پیچھے کارفرما عوامل کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ مغربی دنیا بنیادی طورپر سرمایہ دارانہ نظام معاشرت پر یقین رکھتی ہے جسے آسان لفظوں میں مادی طرززندگی بھی کہا جاسکتا ہے یعنی دولت کا حصول وہاں وہاں بسنے والے افراد کامقصد حیات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برسوں سے جاری معاشرتی زوال کے سبب پرتشدد واقعات پیش آتے رہے ہیں جو یہاں کے رہنے والوں کی ذہنی حالت کے ترجمان ہے۔دراصل یہاں سماجی ڈھانچہ پانچ طبقات میں منقسم ہے۔کل آبادی کے ایک فیصد پر مشتمل اعلیٰ یا upper classطبقہ ہے جو اثررسوخ، عزت اورملکی دولت کے ایک تہائی ملکیت رکھتا ہے۔اس کے بعد اعلیٰ متوسط طبقہ یا Upper middle classہے۔آبادی کا 15فیصدہونے کے ساتھ تمام اعلیٰ پیشہ وارانہ ملازمتوں پر کام کرنیوالا یہ طبقہ ماہانہ لاکھوں ڈالر کمالیتا ہے۔اسکے بعدنچلامتوسط طبقہ ہے جوآبادی کا بیس فیصد طبقہ ہونے کے ساتھ بنیادی طور پر دکاندار اور درمیانے درجے کی ملازمتوں پر قابض رہتا ہے۔پھر 45فیصد مزدور یا ملازمت پیشہ افراد ہے جو کم تعلیم یافتہ ہونے کے باعث زندگی کی گاڑی بمشکل کھینچنے پر مجبور ہیں۔سب سے آخر میں نچلا طبقہ یا غریب افراد جو سرکاری امداد کے بغیرخودکشیوں پر مجبور ہوجائے۔1974 میں اسٹین فورڈ ریسرچ انسٹیوٹ اور چارلس ایف کیٹرنگ فاونڈیشن کے تعلیمی ادارے نے امریکی معاشرے پر ایک تحقیق ’انسان کے بدلتے رخ‘ کے معروضات کے تناظر میں مغربی معاشرے کا جائزہ لیا تھا۔تحقیق میں ان ممالک میں بسنے والے افراد کی بنیادی فطرت میں تبدیلی کا جائزہ لیا گیا تھا جس سے محض امریکہ میں جاری موجودہ بحران کے بارے میں جاننے میں کافی مدد ملی۔تحقیق میںمتعدد بحرانوں کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ گلوبلائزیشن یاعالمگیریت اور سرمایہ دارانہ نظام کے تسلط سے نظام معاشرت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا رہا ہے جس کے نتیجے میں معاشی اور سیاست کا بنیادی نظام اتنا غیرمنصفانہ ہوکر سماجی بدامنی کا باعث بنا ہے۔ معیشت اپنے وزن تلے دب کر تشدد اورخودکشی کی طرف مائل ہے جس کے نتیجے میں ہولناک سماجی بحران پیداہوا ہے جو اندھا دھندفسادات اور انقلابات کی شکل میں ڈھل کر ریاست کو تباہی کے کنارے پر پہنچاتا رہا۔واضح رہے کہ موجودہ معاشی بحران کوئی ایک آدھ ہفتے یا مہینے تک محدود نہیں۔ اگر آپ مغرب کے دورے پر جائیںاور وہاں کے شہریوں سے گفتگو کریں تو آپ پر تھوڑی دیر میں ایک انکشاف ہوجائیگا کہ امریکی شہری اپنے گھروں سے باہر چہل قدمی یہاں تک کے اپنے گھر کے باہر بھی اکیلے گھومنے سے خوفزدہ ہیں۔انکے اس خوف کی وجہ گلیوں میں لوٹ مار اور قتل و غارت کا طوفان ہیں جس سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔مغبی ممالک کا تو ذکر ہی کیا ‘محض امریکی محکمہ انصاف کے مطابق امریکہ کے شہروں میں اوسطاً ہر بائیس منٹ میں کسی فرد کا قتل ہوجاتا ہے، ہر پانچ منٹ میں ایک آبروریزی کی واردات ہوتی ہے تو ایک ڈکیتی 49سیکنڈ بعد رپورٹ ہوتی ہیںجبکہ چوریوں کی شرح تو ہر دس سکینڈ کی ہے۔محکمہ انصاف کے ہی مطابق ہر برس جرائم کے باعث امریکہ کو 675ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے جس میں جانی نقصان یا ذہنی صدمے کا کوئی حساب شامل نہیں۔ اسی طرح اگست 2008 میں ایک سروے جسکا عنوان تھا’امرےکہ کا سیاسی اور معاشرتی نظام کے زوال کا آغاز‘جسکے مطابق 70فیصد امریکی عوام کا ماننا ہے کہ امریکہ دنیا میں اپنی عزت اور اہمیت کھو رہا ہے، جبکہ ہر 10میں سے 8امریکیوں یعنی 80فیصدکا خیال تھا کہ امریکہ کا نظام تعلیم غیرمعیاری ہوچکا ہے اور نوجوان تعلیم میں دلچسپی سے کترانے لگے ہیں۔سروے کے مطابق امریکہ میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دنیا میں سب سے زیادہ مایوسی کا شکار ہیں جس سے نجات کیلئے غلط راہوں کا انتخاب امریکی معاشرے کو تباہی کی طرف لے جارہا ہے۔انکے مطابق ماہانہ پانچ لاکھ ڈکیتی کی وارداتیں ہوتی ہیں، جن میں سے ڈھائی لاکھ کی رپورٹ پولیس کے درج کرائی جاتی ہے جس میں سے صرف 30ہزار مجرم پکڑے جاتے ہیںتاہم عدالتی کارروائیوں کے دوران 24ہزار رہا ہوجاتے ہیں اور صرف چھ ہزار کو سزا دیکر جیل بھیجا جاتا ہے جنھیں زیادہ سے زیادہ تیرہ ماہ کی سزا ہوتی ہیں۔ظاہر ہے کہ مجرموں کو جب سزا کا ڈر ہی نہیں تو معاشرے میں جرائم کی شرح اور سماجی ابتری میں اضافہ تو ہونا ہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہرمغربی شہری اپنے گھر سے باہر نکلنے سے خوفزدہ ہے۔ جرائم F.B.I کے مطابق 2007 میں 16929قتل کی وارداتیں ہوئی جبکہ ہر قسم کی جرائم کی وارداتوں کو ملا کر ایک کروڑ پچیس لاکھ کیسوں کا اندراج پولیس نے کیا۔واضح رہے کہ ہزاروں کیس ایسے ہوتے ہیں جنکے متاثرین پولیس کے پاس جانے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ بے گناہوں سے تو مغربی جیلیں بھری ہوئی ہیں لیکن مجرم آزاد گھوم رہے ہیں۔اگر پکڑے بھی جاتے ہیں تو ناقص عدالتی نظام کے باعث مجرموں کو بہت کم تعداد میں سزا ملتی ہے۔مثلاً فائرنگ کی واردات کاجائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ماضی کے متعدد برسوں سے یہاں فرسٹریشن کے واقعا پیش آتے رہے ہیں۔ حال ہی میںناروے میں مبینہ طور پر دائیں بازو کے ایک مسیحی حملہ آور کی فائرنگ سے کم سے کم 93 افراد ہلاک ہوئے۔ گزشتہ 20 سال کے دوران دنیا بھر میں ایک یا دو مسلح افراد کی جانب سے لوگوں پر فائرنگ کے بدترین واقعات درج ذیل ہیں:اپریل 1982، جنوبی کوریا – سانگ نامدو میں شراب کے نشے میں دھت وو بم کونگ نامی پولیس افسر نے رائفلوں اور دستی بموں کی مدد سے 57 افراد کو ہلاک اور 38 کو زخمی کر دیا جس کے بعد اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔19 اگست 1987، برطانیہ – انگلینڈ کے شہر ہنگر فورڈ میں 27 سالہ مسلح شخص مائیکل ریان نے 16 افراد کو ہلاک اور 11 کو زخمی کرنے کے بعد خود کو گولی مار لی جبکہ جولائی 1989، فرانس – سوئٹزر لینڈ کی سرحد کے نزدیک لکسیول گاو کے ایک فرانسیسی کاشت کار نے اپنے اہل خانہ سمیت 14 افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ پولیس نے اسے گولی مار کر زخمی کرنے کے بعد گرفتار کر لیا۔دسمبر 1989، کینیڈا – جنگی فلمیں دیکھنے کے شوقین 25 سالہ شخص نے خواتین سے نفرت پر یونیورسٹی آف مانٹریال میں فائرنگ کر کے 14 نوجوان خواتین کو ہلاک کرنے کے بعد اپنی زندگی کا بھی خاتمہ کر لیا۔نومبر 1990، نیوزی لینڈ – نیوزی لینڈ کے ایک چھوٹے سے ساحلی گاوں اراموآنا میں تنہائی کا شکار مسلح شخص نے 24 گھنٹے تک فائرنگ میں 11 مرد و خواتین اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پولیس نے اسے ہلاک کر دیا جبکہ ستمبر 1995، فرانس – سیورس شہر میں 16 سالہ نوجوان نے والدین سے جھگڑا ہونے کے بعد رائفل سے اندھا دھند فائرنگ کر کے 16 افراد کو ہلاک کرنے کے بعد خود کو گولی مار لی۔13 مارچ 1996، برطانیہ – اسکاٹ لینڈ کے شہر ڈنبلین میں تھامس ہملٹن نامی مسلح شخص ایک پرائمری اسکول میں جا گھسا جہاں اس نے 16 بچوں اور ان کے استاد کو فائرنگ کر کے ہلاک کرنے کے بعد اپنی زندگی ختم کر لی۔اپریل 1999، امریکہ – لٹلٹن، ڈینور میں بھاری ہتھیاروں سے مسلح دو نوعمر لڑکوں نے کولمبین ہائی اسکول میں فائرنگ کر کے 13 طلبہ اور عملے کے اراکین کو ہلاک کر دیا اور اس کے بعد اپنی زندگیوں کا بھی خاتمہ کر لیا۔جولائی 1999، امریکہ – اٹلانٹا میں ایک مسلح شخص نے اپنی بیوی اور دو بچوں کو قتل کرنے کے بعد دو بروکر ہاوسز میں نو افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ پانچ گھنٹے بعد اس نے خودکشی کر لی۔جون 2001، نیپال – نیپال کے ولی عہد دیپندرا نے محل میں شاہی خاندان کے آٹھ افراد کو ہلاک کر دیا۔ بعد میں اس نے خود کو بھی گولی مار لی اور چند روز بعد چل بسا۔ بعد میں اس کا ایک زخمی بھائی بھی مر گیا جس سے ہلاکتوں کی تعداد 10 ہو گئی۔26 اپریل 2002، جرمنی – مشرقی جرمنی کے شہر ارفورت میں 19 سالہ رابرٹ اشٹائن ہاوسر نے یہ کہتے ہوئے فائرنگ کر دی کہ وہ ریاضی کا امتحان نہیں دے گا۔ فائرنگ کے دوران اس نے گوٹن برگ جمنازیم میں 12 اساتذہ، ایک سیکرٹری، دو طلبہ اور ایک پولیس اہلکار کو ہلاک کر دیا اور بعد میں خودکشی کر لی۔اکتوبر 2002، امریکہ – واشنگٹن ڈی سی کے علاقے میں جان محمد اور لی مالوو نامی افراد نے ہدف بنا کر 10 افراد کو ہلاک کر دیا جس سے علاقے میں دہشت کی لہر دوڑ گئی۔16 اپریل 2007، امریکہ بلیکس برگ، ورجینیا میں قائم ورجینیا ٹیک یونیورسٹی میں ایک مسلح شخص نے اندھا دھند فائرنگ کے ذریعے 32 افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔7 نومبر 2007، فن لینڈ – ہیلسنکی کے نزدیک جوکیلا ہائی اسکول میں پیکا ایرک اوینن نامی طالب علم نے چھ ساتھی طلبہ ، اسکول کی نرس اور پرنسپل کو ہلاک کرنے کے بعد خودکشی کر لی۔23 ستمبر 2008، فن لینڈ – شمال مغربی فن لینڈ کے علاقے کاوجوکی میں متی ساری نامی طالب علم نے ایک فنی اسکول میں فائرنگ کر کے 9 دیگر طلبا اور عملے کے ایک رکن کو ہلاک کرنے کے بعد اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔11 مارچ 2009، جرمنی – سیاہ جنگی لباس میں ملبوس ایک 17 سالہ مسلح شخص نے اشٹٹ گارٹ کے نزدیک ایک اسکول میں نو طلبہ اور تین اساتذہ کو ہلاک کر دیا۔ اس نے ایک نزدیکی کلینک میں ایک اور شخص کو ہلاک کر دیا۔ بعد میں وہ پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ واقعے میں دو راہگیر اور دو پولیس اہلکار شدید زخمی ہوئے اور مسلح شخص سمیت کل 16 افراد ہلاک ہوئے۔2 جون 2010، برطانیہ – دیہی کاونٹی کمبریا میں مسلح شخص ڈیرگ برڈ نے مختلف علاقوں میں لوگوں پر فائرنگ کی جس میں 12 افراد ہلاک اور 11 زخمی ہو گئے۔ ڈیرگ نے بعد میں خود کو ہلاک کر لیا۔30اگست 2010، سلوویکیا – دارالحکومت براٹسلاوا کے نزدیک ایک مسلح شخص نے خانہ بدوش روما خاندان کے چھ افراد اور ایک اور عورت کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور خودکشی کر لی۔ واقعے میں چودہ افراد زخمی بھی ہوئے۔22 جولائی 2011، ناروے – پولیس نے ایک مسلح شخص کو گرفتار کیا جس پر اٹویا نامی جزیرے پر ناروے کی حکمران سیاسی جماعت کے ایک یوتھ کیمپ میں فائرنگ کر کے کم سے کم 84 افراد کو ہلاک کرنے کا الزام ہے۔ آندرس بیہرنگ برییوک پر دیگر ہلاکتوں کے علاوہ اوسلو کے مرکز میں سرکاری عمارت کے باہر بم دھماکہ کرنے کا الزام ہے جس میں سات افراد ہلاک ہوئے۔ان تمام واقعات سے ہٹ کرآندرس کو جن الفاظ سے نفرت ہے ان میں کثیر الثقافتی معاشرہ بھی شامل ہے لہٰذاناروے میں بائیں بازو کے نوجوانوں کے سمر کیمپ میں خون کی ہولی کھیلنے اور سرکاری دفاتر کی عمارت کو بم حملے کا نشانہ بنانے والے 32 سالہ شخص سے کسی قسم کے اظہار ندامت کی توقع رکھنا عبث ہے۔ہلاکت خیز مہم شروع کرنے سے چند روز قبل اس نے سرقہ شدہ مواد پر مبنی آن لائن منشور میں لکھا کہ قرون وسطٰی کے صلیبی جنگجووں کا نائٹس ٹیمپلر نامی آرڈر 2002 میں لندن میں دوبارہ وضع کیا گیا تھا۔آندرس بیہرنگ، جو اس وقت دہشت گردی کے الزام میں پولیس کی حراست میں ہے، نے لکھا کہ اس آرڈر کا مقصد مقامی حقوق کی مسلح تنظیم اور صلیبی تحریک یعنی جہاد مخالف تحریک بنانا ہے۔ اس کا ماننا تھا کہ ایک بار جب آپ نے حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تو پھر ہر ممکن حد تک زیادہ سے زیادہ افراد کو موت کے گھاٹ اتارنا ضروری ہے ورنہ حملے کا مطلوبہ نظریاتی اثر کمزور پڑ جائے گا۔اس کی تحریر سے اس کے ذہن کی عکاسی ہوتی ہے جس پر جنگجویانہ تصوراتی کمپیوٹرکھیلوں کا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ اس کا غصہ یوروپ کی آزاد خیال سیاسی مقتدرہ پر ہے جو اس کے نزدیک یوروپ کی تباہی کو فروغ دے رہی ہے۔اس نے خودتسلیم کیا ہے کہ اس کی سوچ میں بڑی تبدیلی1999میں کوسووو تنازعے میں سربیا پر بمباری کے نیٹو آپریشن میں ناروے کی شمولیت کے بعد آئی۔
sa.sagar7@gmail.com+919811231871
No comments:
Post a Comment