شاعرمشرق کے قلبی جذبات عمران بن رشید
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا
تاریخ گواہ ہے کہ ہزاروں سال کے بعد ہی قوم میں کوئی ایسا شخص جنم لیتاہے جو قوم کے درد وکرب کو محسوس کرکے اس کی مرہم پٹی کرتاہے ، قومی کو ظلمت سے نکال کر روشنی میں لے آتاہے، قوم کو دنیا پرستی سے نجات دلا کر خداکی طرف متوجہ کرتاہے ۔
ملت اسلامیہ کے عصری حالات کو غور سے دیکھا جائے تو ملک عرب کے انہی حالات کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آتاہے ۔ مسلمان اُسی روش کو اختیار کررہے ہیں ،اُسی جہالت اور لادینی کو مسلم سماج میں فروغ مل رہاہے ۔ لوگ انہی خرافات میں چلے گئے ہیں ۔ مسلمانوں کے دلوں سے ایمان کی حرارت کا وہ جذبہ نکل چکاہے اور ایسے حالات میں مرحوم علامہ اقبال نالاں ہوکر کہتے ہیں ؎
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
اقبال ؒ کے اس بلند تخیل سے بآسانی سمجھ میں آسکتاہے کہ مرحوم مسلمانوں کی حالت زار سے کتنے پریشاں خاطرتھے ۔ملت اسلامیہ جس بربادی اور زوال کی طرف بڑھ رہی ہے ،اقبال ؒنے ہمیشہ اپنے فکر وفہم کے ذریعے سے اس طوفان کو روکنے کی کوشش کی ۔ ایک مسلمان کا مقام ومرتبہ کیاہے اقبال اس بات سے بخوبی واقف تھے مگر جب یہی مسلمان اپنا وقار کھوبیٹھا، اپنی خود ی کو فراموش کربیٹھا، اپنی عزت وآبرو کا سودا کربیٹھا ،جب یہی مسلمان دوسرے مسلمان کا دشمن بن گیا اس میں ’’میں اور تو ‘‘ کا معاملہ شروع ہوگیا اور یہ فرقوں میں بٹنے لگے تو اقبال ؒ کے دل سے ندا آئی ؎
بدلے یک رنگی کے یہ ناآشنائی ہے غضب
ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب
اقبالؒ کے دل میں ملت اسلامیہ کے لئے جو درد تھا اُس نے ہمیشہ اقبال کو خون کے آنسو رلایا ہے کیونکہ عصر حاضر کے مسلمان اپنے مقام ومرتبہ اور وقار سے ناآشنا ہیں ۔ انہوں نے اپنی تہذیب کوچھوڑکر اغیار کی ناپاک تہذیب کو پسندیدہ بنایا ، وہ دین اور مذہب کے دائرے میں شامل ہیں مگر دین کی روح سے بیگانہ ہیں وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ تو خوب کرتے ہیں مگر اپنے وجود اور مقصد سے بے خبر ہیں ، وہ رسول ؐ کے مطیع وفرماں بردار ہونے پر فخر کرتے ہیں مگر رسولؐ کی محبت سے دل خالی ہواور اقبال کے بقول وہ شخص کافرہے جو رسول اللہ ؐسے عشق نہ رکھتا ہو ؎
طبع مسلم از محبت ظاہر است
مسلم از عاشق نیا شد کافر است
جب مسلمان اپنے وجود ،اپنی حقیقت اور اپنے مقصد سے بے خبر ہوگئے، دین کے اسرار ورموز سے بیگانہ ہوگئے تو دنیا اُن پر مسلط ہوگئی۔ اُن کا وجود ہی کھوگیا وہ دنیا میں ہوتے ہوئے بھی اپنی پہچان سے محروم ہیں۔ایک دور ایسا بھی تھاکہ جب مسلمان اپنا سرکسی کے سامنے جھکانے سے اپنا سرکٹانا بہتر جانتا تھا تاکہ اسلام کی شان میں کوئی کمی واقع نہ ہوتی تھی ۔
زمین وآسمان نے ہزاروں ایسے مناظر دیکھے ہیں کہ جب مسلمانوں کو قتل کیا گیا ، ان کے اجسام کے دوٹکڑے کردئے گئے ،ملت اسلامیہ کی عزت وآبرو ، شان اور وقار بچانے کے لئے انہوں نے دنیا کی دولت اور عیش وعشرت تک قربان کردی ۔مگر افسوس کہ آج مسلمان کے ہاتھوں ہی مسلمان کی عزت وآبرو کا سودا ہورہاہے ۔ مسلمان ہی اسلام کا رہزن بن گیا وہ دنیا پرستی میں مبتلا ہوگیا، زمین کے جس جس حصے پر مسلمان آباد ہیں وہ ذلیل وخوار ہورہے ہیں انہیں زوال آگیا ہے اور وہ پستی میں چلے گئے ہیں کہ زمین وآسمان بھی حیرت میں پڑ گئے ۔
’’مسلمانوں کے اس زوال وپستی کا دور آسمان نے بہت ہی کم دیکھا ہوگا۔ جبرئیل علیہ السلام کا دل بھی تڑپ اٹھاہے ۔ آج کے اس دور میں خوبصورت بت خانہ تعمیر کیا گیا ہے جس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ کافر بت تراشتاہے اور آج کا نام نہاد مسلمان اس کی پرستش کررہاہے ۔‘‘
اگرچہ دنیاوی اعتبار سے آج کے مسلمان نے بہت ترقی کرلی ہے مگر کیوں اس کے باوجود بھی دنیا بھر میں مسلمان ذلیل وخوار ہورہے ہیں ؟ کیوں وہ زوال وپستی کے شکار ہوگئے ہیں ؟ کیوں مسلمان کا دل سکون سے محروم ہے ۔اگرچہ وہ تلاوت قرآن اور پنچ گانہ نماز کا پابند ہے ۔ وہ اپنا ماضی بھلا کر اپنا مستقبل بناناچاہتاہے جوکہ انسان کے بس کی بات نہیں ، وہ نماز تو پڑھ رہاہے مگر نماز کی روح سے ناآشنا ہے۔وہ بھول گیا کہ وہ کس پیڑ کی ٹہنی ہے ، وہ بھول گیا کہ مسلمان اپنی جان قربان کرنے والا مسلمان تھا نہ کہ کسی کی جان لینے والا ، وہ بھول گیا کہ اسے اپنے اسلاف نے کون سا سبق پڑھایاتھا ، وہ بھول گیا کہ قرآن کو از بر کرنے سے انسان مسلمان نہیں بنتا !!
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر
اب بآسانی سمجھ میں آسکتاہے کہ علامہ اقبال ؒ ملت اسلامیہ میں کون سی بیداری کے طالب تھے ۔ انہوں نے اپنی 61سالہ زندگی میں مسلمانوں کے حالات پر غوروفکر کرکے انہیںخوابِ غفلت سے جگانے کا جو کام کیا ہے وہ قابلِ تحسین ہے ۔
|
Search This Blog
Wednesday 20 June 2012
شاعرمشرق کے قلبی جذبات
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment