Search This Blog

Sunday 17 June 2012

شوگر بیماری اور ڈپریشن

شوگر بیماری اور ڈپریشن


 شوگر بیماری ( ڈیابٹیس ، مرضِ قند، زیابیطس ، میٹھی بیماری ،) ایک وبائی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ کروڑوں لوگ اس بیماری کے چنگل میں پھنس چکے ہیں اور جانے کتنے لوگ بے خبری کے عالم میں اس بیماری کی پیچیدگیوں کے شکار ہوتے جا رہے ہیں ۔ شوگر بیماری نوع دوم کو کنٹرول کرنا نا ممکن نہیں پر ذرا مشکل ہے ۔ اس بیماری کو کنٹرول کرنے میںکئی دشواریاں اور رکاوٹیں در پیش آتی ہیں جن کی وجہ سے ڈاکٹر اور مریض دونوں پریشان ہو جاتے ہیں ۔ اگر بیماری کو کنٹرول کرنے کے لئے ایک منظم طریقہ علاج ،جس میں حیاتیاتی ، سماجی اور نفسیاتی پہلوئوں کو مد نظر رکھا جائے تو مریض اور معالج کی پریشانی میں نمایاں کمی واقع ہو سکتی ہے ۔ شوگر بیماری ایک مزمن بیماری ہے جس میں مبتلا ہو کر مریض کو تا آخر عمر ادویات کا استعمال کرنے کے علاوہ با قاعدہ آزمایشات کرنا پڑتی ہیں، اس لئے یہ ایک بڑا کٹھن کام ہے ۔ یہ بیماری جسم کے ہر ریشہ، خلیہ اورپھر روح کو چیلنج کرتی ہے، اس لئے اس’’ بے لگام گھوڑی ‘‘ کو قابو میں رکھنے کیلئے بہت سارے پہلوئوں کو مد نظر رکھنا ہوتا ہے ۔ بقول ایک سائنس دان ’’ شوگر کنٹرول کرنا آسان نہیں، یہ ایک ایسا کام ہے جسے انجام دینے کے لئے پوراگائوں چاہئے ‘‘۔
ایک معالج کیلئے شوگر بیماری نوعِ دوم پر قابو پانا ایک ایسا چلینج ہے جس کا سامنا کرتے کرتے اسے بار بار ناراحتی کا سامنا کرناپڑتا ہے اور وہ مضطرب بھی ہو جاتا ہے ۔ تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ ایچ بی اے ون سی، مضر کولسٹرول اور ہائی بلڈ پریشر کو نارمل حدود میں لانے سے بیماری کی پیچیدگیوں کو بہت حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ خوش قسمتی سے دورِ حاضرہ میں ایسا علاج و معالجہ دستیاب ہے جس سے ان تینوں کو اعتدال میں رکھا جا سکتا ہے ۔ بد قسمتی سے لاکھ کوشش کے باوجود صرف 48فیصد بیماروں میں ایچ بی اے ون سی کو نارمل حدود میں رکھا جا سکتا ہے ۔ 33فیصد مریضوں میں مُضر کولسٹرول اور ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور بحیثیت مجموعی صرف 7فیصد مریضوں میں یہ تینوں منزلیں طے کی جا سکتی ہیں ۔
شوگر بیماری مریضوں کے لئے بھی ایک چلینج اور پریشان کن مسئلہ ہے ۔ اس بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد مریض کی زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوتا ہے، اسکی جسمانی ، ذہنی، نفسیانی اور روحانی صحت پر اثر پڑتا ہے اور پھر اسکے لئے عمر بھر ڈھیر ساری دوائیاں، غذائی پابندیاں ، اضافی ورزش ، بار بار ٹیسٹ کرنا ، بار بار ڈاکٹروں کے پاس حاضری دینا جیسے مسائل ناراحت کنندہ بوجھ بن جاتے ہیں ۔مریض کے لئے ایک اور چلینج یہ ہوتا ہے کہ اسے یہ ساری تبدیلیاں اپنی روز مردہ زندگی کے معمولات میں شامل کرنا پڑتی ہیں ۔ ان تبدیلیوں پر مریض کے کلچر ، اعتقادات ، مذہبی اقدار، خاندانی پس منظر ، سماجی، اقتصادی و نفسیاتی حالات کا گہرا اثر پڑتا ہے ۔
شوگر بیماری کے بنیادی وجوہات اور اسے قابو میں رکھنے کے لئے ادویات اور علاج و معالجہ کی مکمل جانکاری لازمی ہے ۔ اس سے نسخہ لکھنے اور بیماری کو ’’ مانیٹر ‘‘ کرنے میں بڑی آسانی ہوگی لیکن صرف’’ یہی علم ‘‘ کافی نہیں ہے بلکہ شوگر بیماری کے کامیاب علاج کے لئے سماجی اور نفسیاتی پہلوئوں کی علمیت رکھنا بے حد ضروری ہے ۔ اگر بیماری کا علاج شروع کرنے سے پہلے اور دوران ِعلاج ان پہلوئوں کی شناسائی اور فہم نہیں ہے تو معالج اور مریض دونوں نا امیدی ،پریشانی ، ذہنی دبائو ، بے ترتیبی ، غصہ اور تھکاوٹ کے شکار ہو سکتے ہیں ۔ ان علامات سے احساس نا کامی اور احساسِ’’ کچھ نہیں ہو سکتا ہے ‘‘ کا آغاز ہوتا ہے اور یہ احساس معالج اور مریض کے حرکات و سکنات، آنکھوں کے اشاروں یا غیر مبہم الفاظ سے واضح ہوتا ہے ۔ اکثر مریض اس موڑ پر ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔
شوگر بیماری میں مبتلا مریض اپنی بیماری کے بارے میں کیا کہتے ہیں
=…مجھے نہیں لگتا کہ مجھے میری بیماری کے متعلق جانکاری دی گئی ہے، مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ بیماری کیوں ہوتی ہے اور اس کے علائم کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں ۔ کسی بھی ڈاکٹر نے میری پوری بات نہیں سنی ۔ میں پریشان ہوں …!
=… میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کھائوں اور کیا نہیں کھائوں ۔ میں پریشان ہوں ۔ مکمل پرہیز کے باوجود بھی میر ا شوگر کنٹرول نہیں ہوتا ہے ۔ ڈاکٹروں کی باتیں میری سمجھ سے باہر ہیں … خدا جانے میرا کیا ہو گا ۔
=… میں نے کولسٹرول دوائی کھانا چھوڑ دی کیونکہ اسے کھانے کے بعد میری آنکھوں کی بینائی جیسے غائب ہو گئی، میں تو اندھا ہو گیا تھا ۔ جب میری بینائی ٹھیک ہوگی تب ہی میں کوئی دوسری دوائی استعمال کروں گا ۔
٭… میں شوگر بیماری کے لئے گیارہ برس سے دوائیاں لے رہا ہوں مگر مجھے لگتا ہے کہ میں ڈپریشن میں مبتلاہوں۔ ڈاکٹر نے مجھ سے کبھی پوچھا ہی نہیں کہ میری دماغی حالت کیسی ہے ۔ وہ صرف شوگر کے لئے دوائیاں لکھتا ہے ۔ دوسری بات سننے کے لئے اس کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔
=… اپنی بیماری کے متعلق سوچنے سے کیا فائدہ، جو ہونا ہو گا، وہ ہو کے رہے گا ۔ میں کیا کر سکتا ہوں، میرے ہاتھ میں کیا ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ دوائیاں اب بے اثر ہو گئی ہیں، مجھے کچھ اور سوچنا چاہئے ۔
٭… میں کچھ بھی نہیں کھاتا ہوں، پھر بھی میرا شوگر نارمل نہیں رہتا ہے ،میں زندگی سے تنگ آ چکا ہوں، میرا جی چاہتا ہے کہ چیخوں چلائوں مگر …
٭… میں ورزش کیسے کروں ، میرے تو دونوں گھٹنے کمزور ہیں ،تھوڑی دیر ورزش کرنے کے بعد ان میں شدید درد ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر میری بات سمجھتا ہی نہیں ، صرف دوائیاں لکھتا ہے ،مجھے لگتا ہے کہ اب مجھے کسی روحانی بزرگ سے ملنا چاہئے کیوں کہ مجھے سکون ہی نہیں ملتا ہے
=… میرے لئے سب سے بڑا مسئلہ شوگر کنٹرول کرنا ہے ، پرہیز اور ورزش کرنا بہت مشکل ہے ،میرا شوگر کبھی اوپر کبھی نیچے ہوتا، میں اتنا تنگ آ چکا ہوں کہ مجھے لگتا ہے کہ کہیں میں خود کشی …!
=… میں شوگر بیماری کی وجہ سے چالیس برس کی عمر میں بوڑھا ہو گیا ہوں، میں جنسی کمزوری میں مبتلا ہو گیا، وہ میں کس سے کہوں ، ڈاکٹر میری بات سنتا ہی نہیں، آجکل میرا شوگر بھی آوٹ آف کنٹرول ہے، میں زندگی سے تنگ آ چکا ہوں …
=… میں ہر وقت پریشان اور بے قرار رہتا ہوں ،کسی کام میںمیرا دل نہیں لگتا ہے ، میں ہر وقت رونا چاہتا ہوں ۔میرا شوگر کنٹرول ہی نہیں ہوتا ہے ، ڈاکٹر صرف شوگر کے لئے دوائیاں لکھتا ہے میری بات غور سے سنتا ہی نہیں …میں کیا کروں۔
مریضوں کی ان باتوں سے ظاہر ہے کہ ان میں سے اکثر مریضوں کو نفسیاتی مسائل در پیش ہیں اور ان کے معالج اس طرف توجہ نہیں دیتے ہیں ۔ تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ شوگر کنٹرول کرنے میں درج ذیل عوامل رکاوٹ بنتے ہیں ۔
=…ذہنی بیماری ڈپریشن میں مبتلا ہونا
=… بیماری کے متعلق مکمل جانکاری نہ ہونا
=… مکمل علاج و معالجہ کے لئے اخراجات کا بوجھ برداشت نہ کرنا
=… ٹرانسپورٹ سہولیات کا میسر نہ ہونا
=… ڈاکٹروں کی لا پرواہی اور عدم توجہی
=… ڈاکٹروں کے پاس وقت کی کمی 
            ڈپریشن شوگر کنٹرول کرنے میں آہنی دیوار بن کے کھڑا ہو جاتی ہے ۔ ڈپریشن اور شوگر دو طرفانہ مسئلہ ہے ۔ شوگر بیماری کا ڈپریشن کے ساتھ بہت یارانہ لگتا ہے ۔جو افراد طویل مدت تک ڈپریشن جیسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا رہے ہوں، ان کے شوگر بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور شوگر بیماری میں مبتلا افراد اکثر ڈپریشن میں مبتلا ہوتے ہیں ۔60فیصد شوگر بیمار زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ڈپریشن کے آہنی قفس میں مقید ہو جاتے ہیں
۔ بدقسمتی سے اس بیماری کی طرف ڈاکٹر اور مریض بالکل توجہ نہیں دیتے ہیں ۔ اگر شوگر بیماری میں مبتلا مریض کا شوگر کنٹرول نہیں ہوپا رہا ہے تو باقی وجوہات کو مد نظر رکھ کر ڈپریشن کی طرف بھی توجہ دینا بے حد ضروری ہے کیوں کہ ڈپریشن میں مبتلا مریضوں کا بلڈ شوگر کنٹرول میں نہیں رہتا ہے ۔مریضوں کے بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے معالج ان کی زندگی کا نفسیاتی پہلو یکسر نظر انداز کرتے ہیں ۔
وہ صرف دوائیاں لکھتے ہیں جن سے شوگر کنٹرول ہو مگر مریض کی زندگی میں جھانکنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ہیں ۔ شوگر بیماری میں مبتلا مریض کو دوائیوں کے علاوہ مشاورت کی ضرورت ہوتی ہے اور اسے ہر قدم پر ’’ سہارے ‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ’’ وہ گر نہ جائے ‘‘۔
ڈپریشن اور شوگر بیماری کے علاج کے درمیان بھی گہرا ربط ہے۔ جب ایک شوگر بیمار ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتا ہے تو وہ زندگی سے مایوس ہو جاتا ہے، اسے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگتی ہے اور وہ اپنی طرف کم توجہ دیتا ہے ۔ وہ وقت پر دوائیاں نہیں لیتا ہے ،باقاعد ورزش نہیں کرتا ہے ، پرہیز کی طرف توجہ نہیں دیتا ہے، اسطرح اسکی بیماری بے قابو ہو جاتی ہے ۔ تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ ڈپریشن میں مبتلا شوگر بیماروں کا شوگر کنٹرول میں نہیں رہتا ہے، اس لئے بیماری کی پیچیدگیوں کا احتمال حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ ڈپریشن میں مبتلا مریض اپنے معالج کو بھی پریشان اور مایوس کرتے ہیں کیونکہ وہ وقت پر اپنے معالج کے پاس حاضری نہیں دیتے ، دوائیاں وقت پر اور مقدار کے مطابق نہیں لیتے ہیں، باقاعدہ ورزش نہیں کرتے ہیں اور کھانے پینے کے معاملے میں لا پرواہی سے کام لیتے ہیں، اس طرح ان کا شوگر قابو سے باہر ہو جاتا ہے اور اس کے لئے وہ اپنے معالج کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جبکہ ان کی بیماری ڈپریشن کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے ۔اگر ڈپریشن کابر وقت صحیح اور پورا علاج نہ کیا گیا تو شوگر کی سطح بڑھتی رہے گی اور جب شوگر کی سطح بڑھتی رہے گی تو ڈپریشن کے علائم اور ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے گا اور اس طرح مریض کے لئے مختلف پیچیدگیوں کا احتمال  بڑھتا رہے گا۔ حالیہ تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ شوگر کنٹرول کرنے میں ڈپریشن جیسی بیماری سب سے بڑی ( مگر قابل علاج ) رکاوٹ ہے ۔
اگر آپ شوگر بیماری میں مبتلاہیں اور پچھلے دو ماہ سے درج ذیل علائم محسوس کر رہے ہیں تو اس بات کے قوی امکان نہیں کہ آپ ڈپریشن کی دلدل میں پھنس چکے ہیں ۔ اپنے معالج یا ماہر نفسیات سے مدد مانگئے ۔ وہ آپ کو اس دلدل سے نکالے گا ۔
=… اداسی ، مایوسی ، افسردگی ، پریشانی ، اضطراب ،بے قراری ، دل کی دھڑکنوں میں بے اعتدالی ، نا امیدی ، روز مرہ کے کاموں میں دلچسپی کم ہو گئی ہے ، کمزوری ، جلدی تھک جانا ، کسی بھی کام میں دل نہیں لگتا ہے ، خوشی محسوس نہیں ہو رہی ہے ، جنسی کمزوری ، یاداشت میں خلل ،نیند میں خلل ، روز مرہ کے کاموں میں توجہ مرکوز کرنے میں نا کامی ، باربار آنکھوں میں آنسو آتے ہیں، سینے پر دبائو ، بھوک نہیں لگتی ہے ، اپنے آپ سے نفرت سی ہونے لگی ہے ، اکیلا پن محسوس ہونے لگا ہے ، یہ احساس کہ دوسرے آپ میں دلچسپی نہیں لیتے ہیں ، زندگی بوجھ لگنے لگی ہے ، خود کشی کے خیالات آنے لگے ہیں ۔
ان علامات میں سے چار سے زائد علامات اگر ایک یا دو ماہ سے آپ کو ستا رہے ہیں تو آپ ڈپریشن کے مریض ہیں اور آپ کو علاج اور کونسلنگ کی ضرورت ہے ۔ ڈپریشن کا علاج کروایئے تاکہ آپ کا شوگر قابو میں رہے اور آپ کی زندگی میں نئی بہار آئے ۔

No comments:

Post a Comment