Search This Blog

Sunday 24 June 2012

ہار کے حیرت انگیز کرشمے

ہار کے حیرت انگیز کرشمے

- مولانا محمد یوسف اصلاحی
قاضی ابوبکر محمد ابن عبدالباقی رحمتہ اللہ علیہ تاریخ اسلام کے وہ گوہرِ آبدار ہیں جن کی آب و تاب آج نو صدیاں گزرنے کے بعد بھی بدستور باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گی۔ ان کا شمار پانچویں صدی کے مشہور اولیائے امت میں ہوتا ہے۔ علامہ ابن رجب رحمتہ اللہ علیہ نے طبقات حنابلہ میں ان کی امانت و دیانت اور اس کی حیرت انگیز برکتوں کا ایک عجیب و غریب اور ناقابلِ فراموش واقعہ درج کیا ہے جو خود قاضی صاحب ہی نے مزے لے لے کر بیان کیا ہے: ’’میں مکہ معظمہ میں مقیم تھا۔ انتہائی افلاس اور ناداری کا دور تھا۔ فقر و فاقے کی زندگی تھی۔ ایک دن کئی وقت کے فاقوں سے نڈھال، بھوک سے بے قرار گھر سے نکلا کہ شاید کچھ مل جائے۔ کچھ ہی دور گیا تھا کہ ایک گلی میں زمین پر ایک خوب صورت تھیلا پڑا نظر آیا۔ خوب صورت تھیلا ریشم کی رنگین ڈوری سے بڑے سلیقے کے ساتھ بندھا ہوا تھا۔ میں رکا اور سوچا اس میں تو یقینا کوئی قیمتی چیز ہے… آگے بڑھ کر اٹھالیا اور گھر لے آیا۔ گھر آکر بڑے اشتیاق سے کھولا اور بے اختیار میری زبان سے نکلا: سبحان اللہ! ایسے نفیس اور آبدار موتیوں کا ہار میں نے کبھی تصور میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ میں حیرت سے اُسے دیکھتا رہا اور اس کی چمک دمک پر تعجب کرتا رہا۔ اسی میں کافی دیر ہوگئی، بھوک نے پھر چونکا دیا اور میں پھر باہر نکلا کہ شاید بھوک مٹانے کے لیے کچھ ہاتھ آجائے۔ بازار کے قریب پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ صورت کھڑے اعلان کررہے ہیں، اور ان کے ہاتھ میں ایک تھیلی ہے۔ ان کے نورانی چہرے پر پریشانی کے آثار ہیں اور وہ بار بار کہہ رہے ہیں: ’’بھائیو! میرا ایک قیمتی ہار کھو گیا ہے، جس بھائی کو بھی ملے وہ مجھ تک پہنچا دیں، میں ان کا احسان مند ہوں گا اور پانچ سو اشرفیوں کی یہ تھیلی ان کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کروں گا‘‘۔ میں اعلان سنتے ہی سمجھ گیا کہ ہار انہی بزرگ کا ہے… میں نے آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ پکڑا اور کہا ’’حضرت! میرے غریب خانے پر تشریف لے چلیے۔‘‘ وہ بے تامل میرے ساتھ ہولیے۔ شاید انہیں احساس ہوگیا کہ ان کا ہار مجھے ملا ہے۔ وہ میرے ساتھ چل رہے تھے اور میں اس سوچ میں غرق تھا کہ پانچ سو اشرفیاں، حلال دولت، بالکل حلال، تحفہ، بالکل جائز تحفہ، اب میں بھوکا نہیں رہوں گا، ناداری کی تاریکی چھٹ گئی، فقرو فاقے کا دور بیت گیا۔ میں خوشی میں جھوم اٹھا۔ ہم گھر کے دروازے پر پہنچے اور میری سوچ کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ گھر لے جاکر میں نے ان کو بٹھایا اور پوچھا ’’کہیے صاحب! آپ اپنے تھیلے کی کچھ نشانیاں بتاسکیں گے؟‘‘ ’’جی ہاں کیوں نہیں‘‘۔ بڑے میاں نے خوش ہوکر کہا، اور پھر ایک ایک کرکے ساری نشانیاں بتادیں۔ چھوٹے بڑے موتیوں کی تعداد، ان کا رنگ، ڈوری کا رنگ، حد یہ کہ ریشم کے جس دھاگے سے تھیلا بندھا ہوا تھا اس کا رنگ بھی بتادیا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ ہار انہی کا ہے اور میں نے فوراً تھیلا لاکر ان کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ بڑے میاں نے کانپتے ہاتھوں سے تھیلا کھولا اور ہار دیکھ کر ان کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا، ’’آپ کا بہت بہت شکریہ! آپ نے بڑا احسان کیا۔ خدا آپ کو اپنے غیب کے خزانوں سے اس دیانت و سعادت کا ایسا بدلہ دے کہ آپ کی روح خوش ہوجائے‘‘۔ بڑے میاں نے یہ کہتے ہوئے پانچ سو چمکتی اشرفیوں کی تھیلی میری گود میں ڈال دی اور بڑی ہی احسان مندی اور شکر گزاری کے ساتھ اصرار فرماتے رہے کہ ’’لیجیے یہ قبول فرما لیجیے، انکار نہ کیجیے۔ یہ تحفہ ہے، میں نے تو خود ہی اس کا وعدہ کیا تھا۔ اعلان کیا تھا، آپ کو اس کے لینے میں کیا عذر!‘‘ اور میں عجیب شش و پنج میں تھا۔ میں فقیر و نادار، تنگ دستی اور بے کسی کا عالم، کئی وقت کا فاقہ اور پھر حلال، طیب مال، خوشی کا تحفہ… میں نے فیصلہ کیا کہ لے لینا چاہیے، لیکن دوسرے ہی لمحے غیرت اور خودداری نے جھنجھوڑا: بے وجہ احسان، مفت کی مزدوری، آخر تم نے کون سا کارنامہ انجام دیا ہے جو پانچ سو اشرفیاں لینے کے لیے ہاتھ بڑھا رہے ہو! یہ کہ تم نے ان کا ہار ان کو دے دیا! ہار تو ان کا تھا ہی، تم نے کیا احسان کیا! ان کا ہار تو ان کو ملنا ہی چاہیے تھا۔ کیا اپنا دینی اور اخلاقی فرض پورا کرکے انسان سے مزدوری لوگے جو خود خدا کا فقیر اور محتاج ہے؟ میرے دماغ نے جھرجھری لی اور میں نے دوٹوک الفاظ میں فیصلہ سنایا: ’’حضرت! آپ کی محبت کا شکریہ، لیکن میں یہ اشرفیاں نہیں لے سکتا۔ آپ کا مال خدا آپ ہی کو مبارک کرے‘‘۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے فیصلہ کن انداز سے بڑے میاں کچھ کڑھن سی محسوس کررہے ہیں تو میں نے عرض کیا: ’’حضرت! آپ کچھ احساس نہ کریں، آپ خود ہی غور فرمائیں، آپ کا ہار آپ کو پہنچاکر میں نے کون سا کمال کیا ہے! یہ تو میرا فرض تھا۔ میری دیانت کا تقاضا تھا۔ میں جانتے بوجھتے آپ کی چیز کو نہ پہنچاتا تو مجرم ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے جو معاوضے کے قابل ہو اور میں آپ سے اس کا معاوضہ لوں‘‘۔ خدا کا شکر ہے میں اپنے فیصلے میں کامیاب رہا۔ کافی کشمکش رہی، لیکن خدا نے مجھے اپنے غیرت مندانہ فیصلے پر جمنے کی داخلی قوت بخشی۔ کشمکش خارج میں بھی تھی اور داخل میں بھی… خارج میں کشمکش یہ تھی کہ بڑے میاں شدید اصرار کررہے تھے۔ بزرگ آدمی، پیار بھرا انداز، معقول دلائل اور شکرگزاری کے جذبے سے سرشار… اگر خدا میری دست گیری نہ فرماتا تو میں ضرور ڈگمگا جاتا… داخل میں کشمکش یہ تھی کہ میں انتہائی ضرورت مند تھا، جو کچھ مل رہا تھا بالکل حلال تھا، اس کا مالک اپنی خوشی سے تحفہ دے رہا تھا اور تحفہ قبول کرنے میں کوئی قباحت نہیں، لیکن میری عزتِ نفس اور غیرت مجھے بار بار چیلنج کرتی کہ اپنی دیانت سستے مول بیچ رہے ہو! اس کی قیمت اس خدا سے کیوں نہیں مانگتے جو آدمی کے تصور سے کہیں زیادہ دیتا ہے۔ اور آخرکار میں نے قطعی فیصلہ سنایا۔ خدا نے مجھے اس امتحان میں کامیاب فرمایا اور میں نے فرض کو فرض کی طرح ادا کرکے یوں محسوس کیا جیسے دونوں جہان کی دولت سے میرا دل مالامال ہے۔ ناداری اور فقر و فاقے کے باوجود میں آج خود کو دنیا کا سب سے بڑا غنی محسوس کررہا تھا… بڑے میاں ہار لے کر روانہ ہوگئے۔ اب سنیے خدا کی قدرت کے کرشمے۔ بے شک خدا بڑا ہی باریک بین ہے۔ اس کی تدبیریں بڑی ہی زمین دوز ہوتی ہیں۔ وہ حالات کے رخ کو وہاں وہاں سے پھیرتا ہے جہاں کوتاہ نظر انسان کی نگاہ نہیں پہنچتی۔ وہ اندھیرے کنویں کی تہہ سے تختِ مصر کو جنم دیتا ہے، وہ حدیبیہ کے بظاہر شکست خوردہ معاہدے کو فتح مکہ کی دستاویز بناتا ہے، وہ مکے سے مظلومانہ ہجرت کو فاتحانہ داخلے کا پیش خیمہ بناتا ہے… بس ضرورت اس بات کی ہے کہ آدمی اسی کی خاطر صبر و ثبات دکھائے اور سارے سہاروں سے بے نیاز ہوکر اسی کا سہارا پکڑے۔ ایک فاقہ مست نادار بھوک سے بے تاب ہے۔ اس کو پانچ سو اشرفیاں پیش کی جارہی ہیں۔ وہ انتہائی ضرورت مند ہے اور تحفہ دینے والا اصرار کررہا ہے… احسان مند ہورہا ہے، لیکن فاقہ مست صرف اس لیے انکار کررہا ہے کہ اپنے حسنِ عمل کا انعام اُس سے لوں گا جس نے اس بزرگ کو بھی یہ اشرفیاں دی ہیں، یہ بیش قیمت ہار دیا ہے، اور جو اتنا دیتا ہے کہ لینے والا تھک جائے۔ اس کے بعد جو کچھ پیش آیا وہ بڑا ہی حیرت انگیز اور ایمان افروز ہے۔ ہوا یہ کہ کچھ ہی دنوں کے بعد میں سفر کے ارادے سے مکہ معظمہ سے روانہ ہوکر ایک کشتی میں سوار ہوا۔ کشتی میں اچھے خاصے مسافر تھے۔ کشتی خراماں خراماں پانی کے سینے کو چیرتی ہوئی چلی جارہی تھی اور ہم سب مسافر مگن تھے کہ یکایک ہوا تیز ہوئی، موجیں اٹھیں، کشتی سے ٹکرائیں اور ہماری کشتی منزل سے دور بیچ دریا میں ہچکولے کھانے لگی۔ بپھری ہوئی موجوں نے کشتی توڑ دی اور مختلف منزلوں کو جانے والے مسافر ایک ایک کرکے ایک ہی منزل کی طرف روانہ ہونے لگے۔ میں بھی سوچ رہا تھا کہ میرا یہ سفر، سفرِ آخرت ہی ہوگا، لیکن خدا جس کو زندہ رکھنا چاہے موجیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ خدا کی قدرت، میں اسی تختے پر بدستور بیٹھا رہا جس پر بیٹھا تھا۔ کشتی ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی، مسافر سب ڈوب گئے۔ اب میں تھا، کشتی کا یہ ٹکڑا تھا اور موجیں اس تختے کو دھکیل رہی تھیں۔ میں موجوں کے رحم و کرم پر بہہ رہا تھا۔ مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ کہاں جارہا ہوں۔ اپنی بے بسی دیکھ کر میرا دل بھر آیا اور بے اختیار میرے دونوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھ گئے: خدایا میں نے کبھی زندگی میں تیرے سوا کسی کا سہارا نہیں ڈھونڈا۔ خدایا! کیا آج تُو مجھے ان خونخوار موجوں کے حوالے کررہا ہے۔ اور خدا کی رحمت کو جوش آیا۔ قدرت کے ہاتھوں نے ان موجوں کی گردن موڑ دی، اور اب میں نہایت مطمئن، تختے پر بیٹھا بہہ رہا تھا۔ تختہ برابر چلتا رہا۔ ایک مدت کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ساحل قریب آرہا ہے اور میں آبادی سے قریب ہورہا ہوں۔ اور ایک دن قدرت کے ہاتھ نے تختے کو ساحل سے لگادیا۔ میں خشکی میں اترا۔ کافی دنوں کے بعد میں نے خشکی دیکھی اور میں شکر کے جذبات سے سرشار سجدۂ شکر بجالایا۔ یہ ایک جزیرہ تھا۔ بڑا ہی حسین اور شاداب جزیرہ… جزیرے میں مسلمان آباد تھے۔ مسجدوں کے مینار اپنی عظمت کی گواہی دے رہے تھے۔ میں آبادی میں گیا اور ایک مسجد میں پہنچا۔ خدا کے شکر سے میرا سینہ لبریز تھا۔ محبت کے جذبات امڈ رہے تھے۔ میں نے قرآن پاک اٹھایا اور جذبے میں بلند آواز سے نہایت درد کے ساتھ تلاوت کرنے لگا۔ جزیرے کے لوگوں نے جب میری آواز سنی تو ایک ایک کرکے جمع ہونے لگے اور پورے جزیرے میں میری آمد کا چرچا ہونے لگا۔ لوگ میرے پاس آتے اور مجھ سے مل کر روحانی سکون محسوس کرتے۔ میں اُن کی چمکتی پیشانی کی شکنوں میں ان کی عقیدت و محبت کے جذبات پڑھتا اور شفقت و الفت میں ان سے لپٹ لپٹ جاتا۔ دن گزرتے رہے اور یہ لوگ مجھ سے قریب ہوتے رہے۔ میری تلاوت اور قرأت نے لوگوں پر بڑا اثر کیا، اور انہوں نے درخواست کی کہ آپ ہمیں بھی اسی طرح قرآن پڑھنا سکھادیں۔ میں نے خوش دلی سے ان کی درخواست منظور کرلی اور قرآن پڑھانے کا مدرسہ کھل گیا۔ قرآن پڑھنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا اور جزیرے والوں میں میری بڑی شہرت پھیل گئی۔ لوگ میرا بے حد احترام کرتے اور قرآن کی بدولت دن بدن میرا اکرام و اعزاز بڑھنے لگا۔ لوگ اپنی حیثیت کے مطابق ہر طرح کے تحفے لاتے اور محبت کا اظہار کرتے۔ میں ایک دن بیٹھا مسجد میں رکھی ہوئی پرانی کتابیں دیکھ رہا تھا کہ قرآن پاک کے کچھ اوراق ملے انتہائی خوش خط۔ خوش خطی سے مجھے دلچسپی تھی ہی۔ میں نے وہ اوراق بڑی احتیاط سے اپنے پاس سنبھال کر رکھ لیے۔ جب بھی میں ان اوراق پر نظر ڈالتا کاتب کی فنکاری پر دل مسرور ہوجاتا۔ ایک دن کچھ لوگوں نے میرے پاس وہ اوراق دیکھے اور ان سے میری غیر معمولی دلچسپی کو بھی بھانپ گئے۔ لوگوں نے محسوس کرلیا کہ مجھے اس فن سے بھی لگائو ہے۔ پھر کچھ لوگ مُصر ہوئے کہ ہمیں بھی خوش خطی سکھا دیجیے۔ اور میں نے فراخ دلی سے یہ فن بھی لوگوں کو سکھانا شروع کردیا۔ اب میرے پاس ہر وقت لوگ جمع رہتے۔ بچے بھی، جوان بھی، بوڑھے بھی۔ کوئی قرأت سیکھتا، کوئی کتابت سیکھتا اور کوئی یونہی میری صحبت میں بیٹھنے کو سعادت سمجھتا۔ میں حیران تھا کہ خدائے بے نیاز نے ایک گمنام بے مایہ بندے کو کیسی عزت، شہرت اور مقبولیت بخشی! لوگ ایسے گرویدہ ہوگئے کہ جس کو جب بھی موقع ملتا، میرے پاس بیٹھ کر سکون پاتا۔ اور جس کو میسر ہوتا، اچھے سے اچھا تحفہ میرے لیے لاتا۔ اور تھوڑے ہی دنوں میں خدا نے مجھے مالامال کردیا۔ اس طرح وہاں رہتے رہتے کافی دن گزر گئے اور وہاں کے باشندے مجھ سے انتہائی مانوس ہوگئے، تو بعض سمجھدار لوگوں نے آپس میں مشورہ کیا، اور پھر یہ مخلصین میری رائے معلوم کرنے میرے پاس آئے، میں خاموش رہا۔ لوگوں نے پھر اصرار کیا اور خود ہی کہنے لگے کہ یہاں ایک نہایت ہی خدا رسیدہ بزرگ تھے، اللہ نے انہیں سب ہی کچھ دے رکھا تھا، آپ کے آنے سے کچھ روز پہلے ان کا انتقال ہوگیا۔ جزیرے والے ان کو بہت مانتے تھے۔ اور تھے بھی وہ واقعی بڑے پارسا، خدا ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ ان کی ایک بہت ہی حسین و جمیل اور سلیقہ مند لڑکی ہے۔ ہر فن میں ہوشیار، بڑی ہی نیک سیرت… اگر آپ پسند فرمائیں تو ہم آپ کا پیغام دے آئیں۔ بڑا ہی دیندار گھرانہ ہے۔ آپ کے لیے تو انتہائی مناسب رشتہ ہے، اور اُن کو بھی آپ سے زیادہ موزوں رشتہ نہ ملے گا۔ بس آپ کی رضامندی کی دیر ہے۔ میں نے اوّل اوّل تو کوئی خاص توجہ نہ دی، لیکن ان لوگوں کی یہ باتیں سن کر میرے دل میں بھی ہلچل شروع ہوئی۔ میں نے سوچا میں جوان آدمی ہوں۔ شادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، مجھے بھی خدا نے ہر سہولت دے رکھی ہے، اور پھر لڑکی ایک خدا رسیدہ بزرگ کی نشانی ہے۔ نیک بیوی تو دنیا کی سب سے گراں مایہ نعمت ہے۔ اس سے انکار تو یقینا محرومی ہے… اور میں نے اپنی رضامندی کا اظہار کیا۔ لوگ اتنے خوش ہوئے کہ جیسے انہیں کوئی بہت بڑی نعمت ہاتھ لگ گئی… اور پھر چند ہی روز میں خدا کے فضل و کرم سے میری شادی ہوگئی۔ شادی کے بعد جب اس لڑکی سے میری پہلی ملاقات ہوئی تو اس کے گلے کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ اور پیکر حیرت بنا اس کے گلے کو دیکھتا رہا۔ لڑکی چندے آفتاب چندے ماہتاب تھی لیکن میرے لیے تو سب سے زیادہ کشش اس ہار میں تھی جو وہ پہنے ہوئے تھی، اور میں اس ہار کو دیکھتا ہی رہ گیا۔ بیوی کو بھی میری اس بے توجہی کی حرکت پر بڑی حیرت تھی اور گھر کے دوسرے لوگ بھی حیران تھے کہ خدا نے چاند سی بیوی دی جو حسن و سلیقے کا پیکر ہے… اور یہ حضرت اس کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے موتیوں پر نگاہیں جمائے ہوئے ہیں… میں سوچ رہا تھا کہ پروردگار یہ ہار اس لڑکی کے پاس کہاں سے آیا! یہ تو وہ ہار ہے جو مجھے مکے کی ایک گلی میں ملا تھا۔ اور پھر مجھے ہار کے مالک یاد آئے اور ان کا پیار بھرا اصرار۔ پورا منظر میری آنکھوں میں پھر گیا، میری آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور میری نگاہیں ہار پر جمی ہوئی تھیں۔ جب کافی دیر ہوگئی تو گھر کے لوگوں نے میری اس حیرانی اور عجیب و غریب حرکت پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا: ’’میاں! یہ عجب بات ہے، خدا نے تمہیں چاند سی دلہن بخشی ہے اور تم ہو کہ اس کی طرف توجہ کرنے کے بجائے ٹکٹکی باندھے ہار کو دیکھے جارہے ہو، آخر یہ کیا بات ہے؟‘‘ میں نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے کہنا شروع کیا: ’’ایک زمانہ تھا کہ میں مکہ معظمہ میں رہا کرتا تھا۔ بڑے ہی تنگی کے حالات تھے۔ ایک دن بھوک سے بیتاب گھر سے باہر نکلا کہ شاید کچھ ہاتھ آجائے، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک تھیلا ریشم کی ڈوری سے بندھا ہوا پڑا ہے، میں نے اسے اٹھالیا۔ اٹھا کر گھر لایا، جب کھولا تو انتہائی نفیس موتیوں کا بیش قیمت ہار تھا۔ تھیلا گھر میں رکھ کر پھر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ اسی ہار کے بارے میں اعلان کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جو بھی مجھ کو میرا ہار دے گا میں اس کی خدمت میں پانچ سو اشرفیاں تحفے میں پیش کروں گا۔ میں انہیں اپنے ساتھ گھر لایا اور ان کا ہار ان کی خدمت میں پیش کیا، بزرگ بہت ہی خوش ہوئے اور بڑے اصرار کے ساتھ مجھے پانچ سو اشرفیاں دینے لگے۔ میں نے کہا: حضرت! میں یہ اشرفیاں ہرگز نہ لوں گا۔ میں نے آپ کی چیز آپ کو پہنچاکر کوئی کمال نہیں کیا ہے… اپنا فرض ادا کیا ہے۔ ان کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا اور انہوں نے دل کی گہرائیوں سے مجھے دعا دی: ’’خدا آپ کو اس دیانت و سعادت کا ایسا بدلہ دے کہ آپ کی روح خوش ہوجائے‘‘۔ میری یہ عجیب و غریب داستان سننے کے لیے خاندان کے سب ہی عورت مرد جمع ہوگئے تھے اور میں جذبے میں کہے جارہا تھا ’’پھر وہ ہار لیے یہ نورانی چہرے والے بزرگ دعائیں دیتے ہوئے چلے گئے۔‘‘ یہ عجیب و غریب آپ بیتی سن کر چاروں طرف سے سبحان اللہ، سبحان اللہ کی آوازیں بلند ہوئیں اور ایک شور برپا ہوگیا۔ پھر ان لوگوں نے مجھے بتایا کہ یہی وہ ہار ہے اور وہ ہار والے بزرگ آپ کے خسر تھے۔ وہ اپنی زندگی میں اکثر آپ کو یاد کرتے رہتے تھے اور کہا کرتے: میں نے اپنی زندگی میں ایک ایسا سچا مسلمان دیکھا ہے کہ پھر اس جیسا مسلمان زندگی بھر دیکھنے کو نہیں ملا۔ اس نے لاکھوں کا ہار خاموشی سے نکال کر مجھے دے دیا اور اس کی غیرت اور خودداری نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ وہ اپنی دیانت کو پانچ سو اشرفیوں کے انعام سے ملوث کرے۔ وہ بڑی حسرت سے کہا کرتے: ’’کاش وہ نوجوان مجھے پھر مل جاتا تو میں اپنی پیاری بچی کا اس کے ساتھ نکاح کردیتا‘‘۔ اور آخر دنوں میں تو وہ آپ کو بہت ہی یاد کرتے تھے اور اکثر ان کی زبان پر یہ جملے ہوتے ’’کاش وہ نوجوان مجھے مل جاتا تو میں اپنی پیاری بیٹی اس کے حوالے کردیتا…‘‘ اور آج ہماری آنکھوں نے یہ ایمان افروز منظر دیکھا کہ خدا نے اپنے اس صالح بندے کی دعا قبول فرمائی۔ میرا رواں رواں خدا کے شکر سے سرشار تھا۔ میں نے خوشی کے آنسو پونچھے اور بے اختیار اپنے محسن خدا کے حضور سجدے میں گر پڑا۔

No comments:

Post a Comment