Search This Blog

Saturday 30 June 2012

تعصبات کی بنیادیں

تعصبات کی بنیادیں

شاہ نواز فاروقی
- انسانی تاریخ میں تعصبات کی فراوانی ہے۔ اس فراوانی میں ہر طرح کے تعصبات ہیں۔ مذہبی تعصبات ۔ نسلی تعصبات۔ لسانی تعصبات۔ ذات پات کے تعصبات ۔ سماجی تعصبات ۔ معاشی تعصبات۔ سوال یہ ہے کہ اب تعصبات کی بنیاد کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حقیقی مذہب سے انحراف تعصب کی اصل وجہ ہے۔ مذہب کی تعلیمات عیاں ہیں۔ مذہب بتاتا ہے کہ تمام انسان اللہ کے بندے اور حضرت آدمؑ کی اولاد ہیں اور انہیں رنگ اور نسل کے اعتبار سے ایک دوسرے پر کوئی فضلیت حاصل نہیں۔ لیکن انسانوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ ابتداً مذہب کو مسترد نہیں کرتے البتہ اپنے مفادات کے مطابق حقیقی مذہب کے دائرے ہی میں ایک جعلی مذہبی ایجاد کرلیتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہودیت کوئی نسلی حقیقت نہیں تھی البتہ انبیاء و مرسلین کی بڑی تعداد بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئی۔ یہ اصولی اعتبار سے شکر کا مقام تھا۔ لیکن یہودیوں نے شکر کے مقام کو تعصب کا مقام بنادیا۔ انہوں نے سمجھا کہ ہم دائمی طور پر اللہ کی پسندیدہ قوم اور پسندیدہ نسل ہیں اورگویا ہمیں ہدایت کا ٹھیکہ مل گیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی تاریخ کو نسلی برتری کی تاریخ بنادیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے رسول اکرمؐ کی نبوت کا انکا ربھی اس بنیاد پر کیا کہ آپؐ حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد میں سے کیوں ہیں؟ یعنی بنی اسرائل کا نسلی زعم اتنا بڑھا ہوا تھا کہ وہ اعلان کے بغیر خدا کو بھی چیلنج کررہے تھے اور کہہ ر ہے تھے کہ آخر خدا نے سردار انبیاء کو بنی اسماعیل میں کیوں مبعوث فرمایا؟ ظاہر ہے کہ یہودی خدا کے منکر نہیں تھے اور نہ ہی وہ اپنے مذہب کو ترک کرنے کا اعلان کررہے تھے مگران کا یہ طرز عمل اس امر کی غمازی کررہا تھا کہ انہوں نے مذہب کی بنیادوں سے قطع تعلق کرلیا ہے۔ ہندو ازم میں ذات پات کا کوئی نظام موجود نہ تھا۔ ہندو ازم میں برہمن‘ کھشتری ‘ ویش اور شودر کوئی نسلی حقیقت نہ تھے بلکہ یہ انسانوںکی روحانی یا نفسیاتی اقسام تھیں۔ برہمن وہ لوگ تھے جن کی روحانی استعداد سب سے زیادہ تھی اور وہ وحی و ابہام کی روایت کو سب سے زیادہ سمجھنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور آسمانی پیغام کی تشریح و تعبیروہ زیادہ صحت کے ساتھ کرسکتے تھے۔ کھشتری وہ لوگ تھے جو ریاست کا نظام چلانے اور اس کا دفاع کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتے تھے۔ ویش انسانوں کی وہ قسم تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ’’عقل معاش‘‘ زیادہ دی تھی چنانچہ وہ کاروبار کی غیر معمولی اہلیت رکھتے تھے۔ ان تمام کے برعکس شودر انسانوں کی وہ قسم تھے جو صرف جسمانی محنت کی اہلیت رکھتے تھے۔ اس کے معنی یہ تھے کہ برہمن کے گھر میں شودر اور شودر کے گھر میں برہمن پیدا ہوسکتا تھا۔ اور مہا بھارت میں یہی لکھا ہوا بھی ہے۔ لیکن برہمنوں نے روحانی حقائق کو نسلی حقائق بنادیا اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہیں مذہب سے زیادہ اپنے طبقے کا مفاد عزیز ہوگیا تھا۔ عیسائیت خود کو آفاقی مذہب کہتی ہے اور اس میں اسلام کی طرح مذہب تبدیل کرکے آنے والوں کے لیے جگہ ہے۔ لیکن عیسائیت کی عملی صورتحال کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سلطنت روما کے ساتھ یکجائی کے بعد عیسائیت ایک ’’یورپی تجربہ‘‘ بن کر رہ گئی اور اس پر یورپی رنگ ہی نہیں یورپی نفسیات بھی غالب آگئی ہے چنانچہ عیسائیت کی گزشتہ ایک ہزار سال کی تاریخ میں جتنے پوپ ہوئے ہیں وہ سب سفید فام یورپی تھے۔ چونکہ عیسائیت ایک یورپی حقیقت بن کر رہ گئی اس لیے اس کے تہذیبی و علمی کمال کا مرکز بھی یورپ ہی ہے۔ اسلامی تاریخ میں بھی عرب و عجم کا تعصب موجود رہا ہے اور برصغیر میں ایرانی اور ترکش نفسیات باہم دست و گریباں رہی ہے۔ لیکن اسلامی تاریخ کا کمال یہ ہے کہ اس میں تعصبات متن میں نہیں حاشیے میں موجود ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ مسلمان جہاں گئے انہوں نے وہاں تہذیبی و علمی کمال پیدا کرکے دکھایا۔ انہوں نے مکے اور مدینے میں روحانی اور علمی کمال پیدا کرکے دکھایا۔ بغداد اور غرناطہ میں روحانی و علمی تاریخ رقم کرکے دکھائی۔ سمرقند و بخارا میں روحانی و علمی عظمت کی داستانیں تحریر کرکے دکھائیں اور بھارت میں بہت بڑا روحانی علمی اور تہذیبی ورثہ تخلیق کرکے دکھایا ۔ مسلمان نسلی اورلسانی تعصب میں مبتلا ہوتے تو یہ منظر نامہ وجود ہی میں نہیں آسکتا تھا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مسلمان اپنی تاریخ کے مختلف ادوار میں ناقص العمل تو رہے ہیں ناقص الایمان نہیں رہے۔ تاریخ میں تعصب کی ایک بنیاد یہ ہے کہ انسان اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی تقدیر کاخود خالق ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ کسی خاص نسل‘ زبان یا گھرانے میں پیدا ہوگئے تو یہ بڑی بات ہے۔ حالانکہ کسی جگہ پیدا ہونا انسان کے بس کے دائرے سے باہر کی چیز ہے۔ چنانچہ تعصب کی مذہبی کیا کوئی عقلی بنیاد بھی سرے سے موجود نہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کو جہاں چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے۔ چنانچہ کسی کی امارت میں اس کے لیے کوئی فخر کی بات نہیں۔ کسی کے لیے سید ہونے میں فی نفسیہہ کوئی اعزاز کا پہلو نہیں۔ کسی کے یورپی یا غیریورپی ہونے میں کوئی کارنامہ موجود نہیں۔ اسلام انسان کے اندر موجود نمود یا Expression کی شدید آرزو کو سمجھتاہے اور وہ اسے نظرانداز کرنے یا کچلنے کے بجائے اظہار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ لیکن وہ اس کے لیے فضیلت کے دو میدان مقرر کرتا ہے۔ایک میدان تقویٰ کا میدان ہے۔ اسلام انسان سے کہتا ہے کہ اس میدان میں جتنا دوڑ کر دکھاسکتے ہو دکھائو۔ اس میدان کے ’’امکانات‘‘ کبھی نہ ختم ہونے والے ہیں۔ اسلام نے دوسرا میدان علم کے دائرے کو بنایا ہے اور وہ انسان سے کہتا ہے کہ اس میدان کے امکانات بھی کبھی نہ ختم ہونے والے ہیں۔ تمہارے جتنے ولوے ہیں جتنی آرزوئیں ہیں، یہاں انہیں پوری شدت کے ساتھ بروئے کا رلاکر دکھائو۔ اس سے تمہارا بھی بھلا ہوگا تمہاری قوم ملت یا امت بھی اس سے فیض اٹھائے گی اور باقی ماندہ انسانیت بھی تمہارے روحانی اور علمی کمالات سے فائدہ اٹھائے گی۔

No comments:

Post a Comment