Search This Blog

Monday 25 June 2012

کیوں نہ ہو اُستاد ایسا ؟

کیوں نہ ہو اُستاد ایسا ؟
افکار میں اطوار میں کردار میں یکتا


تعلیمی نظام میںمدرس یعنی معمار قوم ایک مرکزی حیثیت کا حامل ہوتا ہے جو طالبان علم کی تعلیم و تدریس کے علاوہ ان کی معاشرتی و سماجی آبیاری کا ضامن ہوا کرتا ہے۔منزل مقصود کے حصول کے لئے  علم و عمل کی راہوں پہ گامزن ان طلبہ و طالبات کی تربیت و ترجمانی میں ایک استاد یا مدرس کو نہائت ہی اہم کردارادا کرنا ہوتا ہے۔لہٰذا تمام اہلیان دانش و فہم کو یہ ناقابل تردید حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ یہ ایک مدرّس ہی ہے جو دراصل متعلّمین کے افکار میں نہ صرف جِلّا پیدا کرسکتا ہے بلکہ ان کے شعور میں ایک تازگی، شگفتگی اور بیداری پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ایک صحیح سمت بھی دیتا ہے ۔یہ تعلیمی اور فکری ترجمان ان نازک ذہنوں کو جہالت اور لاعلمی کے زندانوں سے آزاد کر کے انھیں ادراک و فراست کے نور سے منور کرتا ہے۔ حق و باطل کے مابین امتیاز کی درست نشاندہی کرنے کا ہنر ایک متعلم کو صرف اچھے استاد سے حاصل ہو سکتا ہے۔بہترین مدرس وہ ہے جو اخلاق حسنہ، اوصاف ستودہ، روشن ضمیری، خلوص و مروّت ، تعمیری فکر اور شفقت و ہمدردی کے زیور سے آراستہ و پیراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی کے بہترین مشاہدات،محسوسات و تجربات کا جیتا جاگتا مجسمہ ہو۔
ہمیں سب سے اوّل سرکار دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اپنے ذہنوں پر ہمہ وقت ازبر رکھنا چا ہئے کہ ’’ نیک اور تعلیم یافتہ اولاد ایک بہترین صدقۂ جاریہ ہے‘‘۔ایک حقیقی مدرس کو تمام نیک خصائل کا منبع ہونا چاہئے۔ایک مشہور و معروف جرمن معلّم مارٹن لوتھر کا قول ہے ’’ کسی قوم کی کامیابی اور سر بلندی کا راز یہ نہیں ہے کہ اس کی تعداد کتنی ہے، اس کے قلعے کتنے مضبوط ہیں بلکہ اس کا تما م انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس قوم کے بیٹے علم و اخلاق کی تربیت سے کس حد تک بہرہ ور ہیں‘‘ ۔انہی خطوط پر سوچ کے پتوار چلاتے ہوئے سوامی وویکا نند نے کہا تھا ’’کہ کسی بھی قوم کی خوشحالی اور کامیابی کا تعین اس کے سیم و زر کے حوالے سے نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کی خوشحالی اس کے تعلیم یافتہ نوجوانوں پر منحصر ہوا کرتی ہے۔ ‘‘ان حوالاجات سے ماوراء ہو کر یہ تمام نیک افکار و نظریات ایک عملی صداقت کے سانچے میں تبھی منتقل ہو سکتے ہیں جب انہیں ایک رہبر کی دستگیری دستیاب ہو اور وہ رہبر کو ئی اور نہیں ایک بہترین اور ذی وقار مدرس ہی ہوتا ہے۔چنانچہ ملک و قوم کی ترقی اور سرفرازی بہت حد تک ایک اچھے مدرس سے منسوب ہوتی ہے اور ہو نی بھی چاہئے۔خام فکر کی آبیاری سے لے کر اسے سوچ اور وچار کی آزادی تک لے جانے میں استاد کا قابل ستائش کردارنظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور جب یہی عقل و فکر فیصلے کرنے کے لائق بن جاتی ہے تو پھر سماجی نظام اسے مختلف شعبوں میں مفادِ عامہ کے لئے مخصوص کر دیتا ہے۔سماج کی بہتری کے لئے فکر و نظر کا یہ لذیذ پکوان ایک استاد یا مدرس ہی تیار کرتا ہے جس کی مہک پورے سماج کو معطر کر تی ہے۔
 عصر جدید میںجو شکل وصورت حال ایک مدرس کی جابجا دکھائی دے رہی ہے وہ انتہائی دل شکن ہے۔گو اس کی وجہ معاشرے کا اجتماعی تنزل ہو یا پھر دور جدید کی چکاچوند اس کا پس منظر ہو مگر آج ایک مدرس کی جو صورت حال دکھائی دے رہی ہے وہ انتہائی دل شکن ہے۔آج ایک استاد نے اپنے آپ کو محض متعین شدہ نصاب کے ہدف کو جوں توں مکمل کرانے کا آلہ سمجھ لیا ہے اور سوچ رہا ہے کہ بچوں کو متعین نصاب میں درج چند مخصوص مضامین پڑھا کر انہیں مقررہ امتحانات کی دہلیز تک پہنچانے کے بعد اس کے فرائض منصبی یک قلم پورے ہو جاتے ہیں۔دور حاضر کا مدرس کبھی خود کا محاسبہ ہی نہیں کرتا اور نہ اس نے کبھی اپنی قدر و منزلت کو پہچاننے کی کوشش کی۔وہ بھول گیا کہ تعلیم گاہ ایک ایسا شفا خانہ ہے جہاں ہر طرح کی فکری، نظریاتی، اخلاقی اور شعوری امراض کا مکمل علاج ہوتا ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں ذہنی انتشار کو شعار ملتا ہے اور گمراہ سوچ کو راہ راست میسر آتی ہے۔ایک مدرس کے کاندھوں پر قوم کی عقلی واخلاقی تشکیل کا ذمہ ہے اگر وہ نہیںسمجھتا تو یہ اس کی نافہمی یا کج روی ہے  لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ آج کے بیشتر مدرسین اس  پیشۂ انبیا ء اکرامؑ کی ناموس کو داغدارکئے جارہے ہیں ۔ وہ اپنے فرائض کو بالائے طاق رکھ کر برائے نام اس پیشے سے منسلک ہیں۔ علم و اخلاق کی تعلیم سے تو ان کا محض ایک رسمی واسطہ ہے۔ان کا مقصدِ وحید تو اپنے فرائض کی رسمی انجام دہی رہ گیا ہے۔انہیں اس بات سے کوئی سر وکار نہیں کہ نئی پود کے اندر قومی رحجانات کے علاوہ ذاتی انفرادیت و تشخص کا شعور پیدا کرنا بھی ان کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہے۔بچوں کو آئندہ زندگی کے لئے ثابت قدم بنانا، زندگی کے نشیب و فراز سے واقف کرانا ، فطرت کا مشاہدہ کر ا کے کائنات و مخلوقات عالم پر غور و فکر کرا کے زندگی کی اٹوٹ حقائق سے آگاہ کرنا بھی مدرس کے پیشے میں شامل ہے لیکن آج کا استاد اگر قول و فعل کے تضاد سے خود کو مبرّا نہیں کر سکتا تو ایسے میں اس سے نئی نسل کی راہنمائی کی کیا امید رکھی جاسکتی ہے ؟ اپنے طلبہ کے عیوب برہنگی سے چشم پوشی کرنے والا، تعلیم کے نام پر امتحانات میں اپنے بچوں کو غلط راہوں پہ گامزن کرنے والا، خوداپنے تقدس مآب پیشے سے منافی حرکات میں ملوث رہنے والا، اپنے فرائض سے دور بھاگ کر رزق حرام کو اپنی اولاد کے حلق سے اُتارنے والا، یہ مدرس اُبھرتی ہوئی نسل کی گمراہی اور ان کے مستقبل کی بربادی کا ارتکاب کرتا ہوا نظر میں ہے۔آج اسکولوں میں بالخصوص ان اداروں میںجو دور افتادہ علاقوں میں واقع ہیں ،پسماندگی کے شکار بچوں سے جو کھلواڑ ہو رہا ہے ،جس طرح سے اساتذ ان معصوم بچوں کو پڑھانے سے گریز کیا جارہاہے ، جس طرح ان غربت و افلاس کے ستائے ہوئے مجبور و محتاج والدین کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر ہونے سے پیشتر ہی منتشر کیا جارہا ہے، جس طرح سے ان معصوم و بے بس نونہالوں کو ذاتی کاموں میں اُلجھا کر اساتذہ ان سے استفادہ کیا جاتا رہاہے  اور جس طرح ان مہکتی کلیوں کوکھلنے سے پہلے مسل دیا جاتا ہے ، لگتا ہے کہ رب کائنات کا غضب عنقریب نازل ہونے والا ہے۔اﷲ کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی ، یہ سچائی ہمارا مدرس نہیں سمجھتا ۔ معصوم کی بد دعا ئیں رب کائنات کے جلال کو اُبال دیتی ہیں ، یہ خوف آج کے فرض ناشناس استاد اپنے دل سے نکال چکا ہے ۔آج اگر اس مقدس پیشے سے لوگوں نے بغاوت کرنا شروع کیا ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ اس پیشۂ تقدیس کے محافظین کی نا اہلی اور بے غرضی ہے۔کسی بھی محفل میں جہاں سماج کے دیگر معنی خیز شرکاء موجود ہوں وہاں ایک استاد بیٹھنے سے گریز کرتا ہے ،اس لئے نہیں کہ وہ حاضرین مجلس اس کے وقار و مقام کے برابر نہیں ہیں بلکہ اس لئے کہ یہ خود اپنے اخلاقی تنزل کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہے۔ یہ کسی بھی جگہ اپنے پیشے کے تقدّس کی حفاظت نہیں کر سکتا۔دنیا میں دو چیزیں کبھی بھی بیک وقت حاصل نہیں ہو سکتیں۔ دولت اور عزت کبھی ایک ہی پائدان پر یکجا رہ کر کسی بھی انسان کو دائمی سکون قلب سے مالامال نہیں کر سکتے۔ دور جدید کے سامنے جب یہ مسئلہ در پیش آیا کہ دولت و حشمت اور حقیقی عزت و احترام میں سے کس کا انتخاب کیا جائے اور دوسری بات یہ کہ اس عالم سفلی میں انسانوں کے ذہنوں کو جبراََ غلام بنایا جائے یا پھر اس کے دل پہ بادشاہت کی جائے تو شائد یہ دنیا اس وقت درست فیصلہ نہیں لے سکی۔ دنیا نے دلوں کو جیتنے کے بجائے جسموں کو زیر کرنا یا خریدنا موزون سمجھا۔ بس یہیں سے گمراہی کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک طرح سے ناہنجارانسان نے عاقبت پر دنیائے فانی کی لذت کو ترجیح دینا مناسب سمجھا۔ اس سے دو برائیاں پنپ اُٹھیں: ایک تو انسان نے سماج کو زیر دست کرنے کے لئے دولت کا ذخیرہ کرنا شروع کیا جس کے لئے اسے ہر طرح کی سیاہ کاریوں سے اپنے آپ کو داغدار کر نا پڑا اورپھر یہ کہ انسان دین سے دور ہوا اور رب کریم کے عذاب کا نشانہ بنا، برکات ختم ہوگئیں، سکون مٹ گیا، گوناگوں مصائب میں ہر کوئی اُلجھ کررہ گیا اور ہر ایک دوسرے کو دیکھ کر آگے بڑھنے کے لئے غلط وناجائز طریقوں کا ستعمال کر نے لگا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج پوری انسانیت ایک عجیب و غریب اخلاقی بحران کا شکار ہے۔ بدقسمتی سے استاد بھی اپنے آپ کو اس مہلک بیماری سے محفوظ نہ رکھ سکا۔اس نے بھی دولت اکٹھا کرنے کی کوشش کی اور بعض اساتذہ لکھ پتی اور کروڑ پتی بھی بن گئے مگر انہیں اپنا وقا ر اور اخلاقی مقام قربان کرنا پڑا۔ٹیویشن کے نام پر کالج کھلے، ٹیویشن سینٹر قائم ہوئے، اساتذہ نے گھروں میں صبح و شام پرائیوٹ ٹیویشن کے لئے بچوں کو بلانا شروع کر دیا اور کئی اساتذہ نے تو کتابوں سے نقل شدہ تعلیمی مواد بچوں میں بیچنا شروع کر دیا۔ اس سے بہت سی اخلاقی بیماریاں پیدا ہو گئیں۔بچوںپر والدین کا کنٹرول ختم ہو گیا،معصوم لڑکے اور لڑکیوں میں بے جاقربتیں پیدا ہونے لگیں۔یہ وہ کڑوے حقائق ہیں جو نظام ِتعلیم کے دامن پر بد نما داغ دھبے ہیں اور تعلیم و تدریس کی تاریخ میں ایک انتہائی دلدوز اور منحوس باب بن کے طور درج ہیں۔ ان پر فی الفورغور و فکر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان ٹیویشن سنٹروں سے بہت ساری بیماریاں ابھر کر سامنے آئی ہیں ۔ یہ کون سے اساتذہ ہیں جو رات گئے اپنے گھروں میں ٹیویشن کا دھندا چلاتے ہیں؟ایسے اساتذہ کامقصد محض دولت اکٹھا کرنا ہے نہ کہ نوجوان نسل کی جائز تعمیر سے ان کاکوئی سرو کار ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کیا ضرورت پڑی کہ کسی طالب علم کو پرائیویٹ ٹیویشن کرنے کی ؟ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اساتذہ نے اپنے فرائض کو بخوبی اور منصفانہ طور پر نبھانا چھوڑ دیا ہے اور اب وہ دنیا کی چکاچوند ی سے متاثر ہو کراور ان بچوں کو سیڑھی بنا کر دنیاوی لالچ کی بیڑیوں میں بندھے ہیں۔
یہ کم سن بچے ہمارے صحت مند مستقبل کی ضمانت ہیں ۔ اگر ان کی تعمیری وتدریسی رہبری صحیح خطوط پر اور صحیح وقت پر نہ ہوئی تو ہمیں ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ ہمارا سماج اخلاقاً زیادہ دیر تک پائیدار نہیںرہ پائے گا۔آج اساتذہ روتے ہیں کہ سماج میں ان کی عزت نہیںہے۔کیا انہوں نے کبھی اپنے اعمال کا جائزہ نہیں لیا،کبھی غور نہیں کیا کہ ایک استاد ہی اپنی بے توقیری کا خود ذمہ دار ہے۔متعلقہ مضامین پر ان کی گرفت نہیں ہو تی، دو بو ل یہ استاد بول نہیں سکتا، یہ فرائض انجام دینے میں کوتاہی کرتا ہے، اسکولوں میں یہ نہیں جاتا، دور دراز گاؤں میں واقع ا سکول تو ہفتوں ویران پڑے رہتے ہیں کہ بچے یہ نہیں جانتے کہ ان کا استاد کیسا دکھتا ہے، کیسے کپڑے پہنتا ہے، کیسے بولتا ہے ، بوڑھا ہے یا جوان؟سوچنے کی بات یہ ہے کہ پھر کس منہ سے یہ استاد سماج سے عزت و احترام کا مطالبہ کر تا ہے۔جو لوگ سکولوں میںجاتے ہیں ان میں بھی بیشتراساتذہ گاؤں کے ان معصوم بچوں کو ذاتی کاموں میں الجھا کر رکھتے ہیں اور جب امتحانات سر پہ آتے ہیں تو انہیں بنا پڑھائے لکھائے پاس کرکے اگلی  جماعتوں میں پرموٹ کر دیتے ہیں۔ انہیں کبھی بھی محنت و مشقت کرنے نہیں دیتے۔ ایسا کرنے سے انفرادی طور پر تو نئی نسل کا نقصان ہوتا ہی ہے مگر اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ قوم کا بیڑاغرق ا ہو جاتا ہے۔ آج کے دور میں استاد کا کردار بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ نئی نسل کی ذہنی نشو و نما ان کے دسترس میں ہے۔ اگر اپنے پروفیشنل کردار کو ایمانداری و دیانتداری سے نبھائیں تو نسلیں سدھر جائیں گی، قومیں سنور جائیں گی اور اس کے عوض بالآخر انہی اساتذہ کی سر بلند ی ہو گی ، ان کا وقار جو یہ اپنی خود ساختہ خامیوں کی وجہ سے کھو بیٹھے ہیں ،انہیں واپس حاصل ہو گا ، یہ پھر پہلے کی طرح سماج کے سر کا تاج بنیں گے ۔ دنیا انہیں سلام عقیدت پیش کرے گی اور زمانہ ان سے ہر کام میں مشورہ لے گا۔اساتذہ کو آج کے دور میں دنیا بہت ہوشیار ہے، لوگ قیامت کی نگاہ رکھتے ہیں،وہ ذہن میں ابھرتی سوچ اور دل میں سلگتی کی کیفیت جانتے ہیں اور حرکات و سکنات پر متواتر نظر رکھے ہو ئے ہیں، اس لئے اس کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ان سے عزت و احترام کامطالبہ کرنا محال وجنوں ہے ۔اس لئے اساتذہ کو حقیقی طور پر اپنی عادات کو بدلنا ہوگا اور حتمی طور پر تجدید فکر کرناہوگی کہ یہ استاد پھر سے دلوں پہ راج کرنے لگے ۔
……………………

No comments:

Post a Comment