Search This Blog

Saturday 7 September 2013

عقیدۂ ختم نبوت ایمان کی خشت اول


مولانا حافظ عبدالرحمان سلفی …

قال تعالیٰ! ترجمہ: محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ اللہ کے پیغمبر اور انبیاء (کی نبوت) کی مہر (یعنی اس کو ختم کر دینے والے ہیں) اور اللہ ہر شے سے (خوب) واقف ہے (الاحزاب پ۲۱۔ آیت ۴۰)
امام الابنیاء سید المرسلین ختمی مرتبت محمد رسولؐ پر بحیثیت آخری پیغمبر عقیدہ وایمان پر مسلمان کا طرۂ امتیاز ہے۔ آپؐ کے بعد قیامت تک اب کوئی دوسرا نبی آنے والا نہیں ظلی نہ بروزی اور نہ ہی کسی دوسرے معانی ومفہوم میں کہ جس پر نبی کا اطلاق ہوتا ہو۔ دور رسالت وصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لے کر آج تک امت مسلمہ جہاں رب تعالیٰ ے واحد یکتا ہونے پر ایمان کامل رکھتی ہے بعینہ شافع محشر ساقی کوثر محمدؐ کے خاتم النبین ہونے پر بھی غیر متزلزل ایقان رکھتی ہے۔ آپؐ کے بعد کسی بھی معانی میں دعوائے نبوت کرنے والا کذاب واجب القتل اور محبوب رب العالمینؐ کی نبوت ورسالت کی آخری چادر عصمت پر حملہ کرنے کے مترادف ہے۔ ایسا شخص مردود، جہنمی اور اہل اسلام کے نزدیک یہودو نصاریٰ سے بدتر قابل نفرین گردانا جاتا ہے۔ ہمیشہ اہل اسلام اور ان کی حکومتوں نے ایسے تاپنجار ظالموں کی نہ صرف سرکوبی کی بلکہ ان کے مقتدا سمیت تمام ماننے والوں کے خلاف جہاد بالسیف کیا اور انہیں نابود کیا۔ مسیلمہ کذاب نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے تمام تر مشکل حالات کے باوجود سب سے پہلے اس بے ایمان کی سرکوبی کے لیے اسامہ بن زیدؓ کی سربراہی میں دستہ روانہ فرمایا اور اسے کیفر کردار تک پہنچایا۔ اسی طرح دیگر جھوٹے مدعیان نبوت اسودحسنیٰ ودیگر خاتون کا بھی لحاظ کیے بغیر تمام جھوٹے پیغمبروں کا انجام موت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ وہ عقیدہ ہے جس کے بغیر اسلام کا تصور حیات ہی نہیں کیا جاسکتا لہٰذا امت مسلمہ کے کسی بھی مکتبہ فکر نے تمام تر اختلافات کے باوجود کبھی سمجھوتا نہیں کیا کیونکہ عقیدۂ ختم نبوت اہل اسلام کی شہہ رگ حیات ہے یہ وہ آفاقی نظریہ ہے جو قرآن مجید واحادیث شریفہ سے قطعی ثابت ہے اور پوری امت کا اس مسئلہ پر اجماع ہے۔ جیسا کہ اوپر درج شدہ سورۃ احزاب کی آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ محمدؐ تم مردوں میں سے کسی کے والد نہیں یعنی آپؐ کے بعد کوئی کھڑا ہو کر یہ دعویٰ نہ کرسکے کہ چونکہ امام کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بیٹا یا پوتا ہوں لہٰذا میں بھی نبوت میں کسی طرح شریک ہوںیا خونی رشتے کی بناء پر مجھے بھی نبوت میں شراکت کا کوئی حق حاصل ہے۔ اسی طرح خوب وضاحت سے بیان کردیا گیا کہ آپؐ تو اللہ کے پیغمبر اور تمام انبیاء کی نبوت پر مہر ہیں یعنی اب آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا ہے۔ چنانچہ حدیث مبارکہ ہے۔ ترجمہ! ابی بن کعبؓ راوی ہیں! کہ نبی کریمؐ نے فرمایا میری مثال دیگر انبیاء میں ایسی ہے جیسے کسی نے ایک اچھا کامل گھر بنایا لیکن ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی تو لوگوں نے اس کی عمارت کو پسند کرلیا لیکن خالی جگہ پر تعجب کیا پس وہ خالی جگہ میں نے آکر پرُکردی۔ میرے آنے کے بعد نبوت کا محل مکمل ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ نبوت کی عمارت اب قیامت کے لیے کامل ہوچکی اور اس میں کسی قسم کی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔
برصغیر میں انگریز کی آمد نے جہاں مسلمانوں کے لیے سیاسی و اقتصادی تباہی و بربادی کا سامان کیا۔ وہیں اسلام کے پاکیزہ چہرہ کو داغدار کرنے کے لیے (معاذ اللہ) کئی سازشیں تیار کی گئیں تاکہ ایک جانب وحدت امت پارہ پارہ ہو تو دوسری جانب اہل اسلام ان کے پیدا کردہ فتنوں کی سر کوبی میں مصروف ہو کر انگریز کے خلاف جدوجہد آزادی سے صرف نگاہ پر مجبور ہوجائیں۔ اندرونی خلفشار اہل اسلام کو اپنے مسائل میں الجھائے رکھے اور سامراج ہندوستان کی دولت سمیٹ کر اپنے ملک میں جمع کرتا رہے۔ اس کے لیے انگریزی سامراج نے جہاں دیگر ہتھکنڈے اختیار کیے وہیں مرزا غلام احمد قادیانی کی صورت میں فتنہ اکبر کھڑا کیا تاکہ اس عظیم فتنے کے وجود سے وحدت امت پارہ پارہ ہو جائے۔ انگریزی سامراج کے زیر سایہ یہ فتنہ خوب پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی تاہم علماء اسلام نے اس کذاب و دجال کی عقدہ کشائی کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ سب سے پہلے اسلامیان برصغیر کو آگاہ کرنے اور کفر سے بچانے کے لیے ممتاز عالم دین مولانا ابوسعید محمد حسین بٹالوی نے اس مردود کو مناظرہ کا چیلنج دیا اور کفر کا فتویٰ صادر کرکے امت کو اس نئے چیلنج سے آگاہ کیا۔ اسی طرح چونکہ انگریزی حکومت تھی لہٰذا اسلامی سزا جاری نہیں ہوسکتی تھی البتہ علمی میدان میں اہل اسلام نے اس مردود کا خوب مقابلہ کیا۔ مولانا ثناء اللہ امر تسری رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا مردود سے دو سو سے زائد مناظرے کیے اور بحمداللہ تعالیٰ ہر معرکہ میں کامیاب و کامران رہے۔ یہاں تک کہ خود مرزا غلام احمد قادیانی نے زچ ہو کر مولانا ثناء اللہ امر تسری رحمۃ اللہ علیہ کو مباہلہ کا چیلنج دے ڈالا اور اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ جھوٹے کو سچے کی زندگی میں موت دے تا کہ حق ظاہر و غالب ہو اور باطل ذلیل و رسوا ہو جائے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبرؐ کی ختم نبوت کی آبرو کی اس طرح لاج رکھی کہ مردود مرزا لاہور میں بیماری میں مبتلا ہو کر بیت الخلا میں واصل جہنم ہوا اور مناظر اسلام کئی برس زندہ رہے یہاں تک کہ قیام پاکستان کے بعد مولانا ثناء اللہ امر تسری پاکستان ہجرت کرکے سرگودھا میں تشریف لے آئے اور 1949ء میں ان کا انتقال ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مرزا مردود کے واصل جہنم ہونے کے بعد اس کی ذریت و جماعت اجتماعی توبہ کرکے رجوع اسلام کرتی اور فتنہ انگیزی سے باز آجاتی تاہم اس گروہ نے پاکستان بننے کے بعد سر ظفر اللہ جس نے بد بختوں کی سر پرستی میں خوب پر پرُزے نکالے اور اہم عہدوں پر قابض ہوگئے یہاں تک کہ 1952ء اور 1973ء میں ان کے خلاف بڑے پیمانے پر تحریکیں چلیں اور ہزاروں علماء کرام و عوام نے نہ صرف جانوں کے نذرانے پیش کیے اور پابند سلاسل کیے گئے لیکن قیام پاکستان کے بعد اس سو سالہ گمراہ فتنہ کو بھٹو مرحوم نے علماء کرام کے دبائو مرزا ناصر احمد سے قومی اسمبلی میں مناظروں میں کامیابی کے بعد بالآخر ستمبر میں قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا اور انہیں مسلمانوں سے علیحدہ قرار دیا گیا۔ البتہ آج بھی یہ گمراہ ٹولہ اپنی سر گرمیوں سے باز نہیں آیا۔ اسلام اور پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیاں اور امریکا و یورپ وغیرہ میں اسلامی لبادہ اوڑھ کر اسلام کو رسوا کر رہا ہے۔ اندرونی سطح پر بدین تھرپار کر، گوجرانوالہ اور دیگر شہروں کے پسماندہ علاقوں میں ان پڑھ غریب مسلمانوں کو روپے پیسے کا لالچ اور بیرون ملک ویزوں کی آفر دے کر عیسائیت و قادیانیت اسلام و پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ شدید ضرورت ہے کہ پاکستانی مسلم حکومت ان پر کڑی نگارہ رکھے اور ان گمراہ کافر گروہوں کو تبلیغ سے قانوناً روکا جائے تاکہ سادہ لوح مسلمانوں کو ان کی چالبازیوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حامی و ناصر ہو۔ آمین یا رب العالمین
بہ شکرءیہ جسارت

No comments:

Post a Comment