فیصلے کا لمحہ
- شہلا عبدالجبار
یمنیٰ کو بچپن ہی سے اپنا کام اول وقت میں کرنے کی عادت تھی۔ چھوٹی تھی تو رات ہی کو اپنا یونیفارم استری کرواکر ہنگ کردیتی۔ جوتوں کے اسٹینڈ میں سب سے اوپر اسی کے کالے شوز چمچماتے ہوئے نظر آتے، اور اسکول بیگ بھی بہت سلیقے سے سیٹ کیا ہوا میز پر رکھا ہوتا۔ غرضیکہ جب صبح اسکول جاتے ہوئے گھر میں ایک ہڑبونگ سی مچی ہوتی وہ سب سے پہلے تیار ہوجاتی… کبھی اسکول وین کے آنے میں دیر ہوجاتی تو وہ رو دھوکے زین بھائی کے ساتھ بائیک پر اسکول چلی جاتی۔ اسکول لیٹ جانا اسے کبھی بھی اچھا نہیں لگتا تھا… دوپہر کو کھانے کے بعد جب دوسرے بہن بھائی آرام کرتے تو وہ اپنا ہوم ورک لے کر بیٹھ جاتی… امی اسے بار بار آرام کرنے کو کہتیں مگر وہ ہوم ورک پورا کیے بنا آرام کرہی نہیں سکتی تھی… جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی گئی اس کی یہ عادت اور بھی پختہ ہوتی چلی گئی… وہ چاہتی تھی کہ اس کا ہر کام وقت سے پہلے تیار رہے… ویسے وہ تھی بھی بہت سگھڑ اور سلیقہ مند… اس کی وجہ سے دوسری دونوں بہنیں بہت لاپروا ہوگئی تھیں… ماسی کے آنے میں تھوڑی سی دیر ہوجاتی تو وہ فوراً صفائی میں جت جاتی۔ جیسے ہی اس نے ماسٹرز کیا اس کے لیے کئی رشتے آگئے… آخر قرعہ فال عثمان کے نام نکلا… بڑے ماموں جان کا فرزندِ ارجمند۔ بہت سلجھا ہوا اور نیک اطوار… ابھی حال ہی میں انجینئرنگ کی ڈگری لی تھی… مامی تو یمنیٰ کو شروع ہی سے بہت پسند کرتی تھیں … وہ تھی بھی تو بہت ہردلعزیز… سب کاخیال رکھنے والی… آہستہ آہستہ شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں… حسب عادت وہ چاہتی تھی کہ شادی سے کم از کم ایک ہفتہ قبل تمام تیاریاں مکمل ہوجائیں۔ جب وہ کسی کام میں ہاتھ ڈالتی تو تمام کزنز اسے ڈانٹنے لگتیں: خدارا تھوڑا خیال کرو۔ تم دلہن ہو… چپ چاپ بیٹھی رہو… ہم کررہے ہیں ناں کام… رات جب سب سوجاتے تو وہ چپکے سے چھوٹے موٹے کام نمٹانے کی کوشش کرتی… امی دیکھ لیتیں تو خوب ڈانٹ پڑتی… آخر خدا خدا کرکے شادی کی تقریب انجام پاگئی۔ ماموں کا گھر اس کے لیے کوئی نئی جگہ نہ تھی۔ وہی دیکھا بھالا گھر تھا اور دیکھا بھالا عثمان… نئی دلہن ہونے کے باوجود وہ ہر وقت کام کے لیے تیار رہتی۔ اسے تو زبردستی روکنا پڑتا… عثمان اپنے آپ کو بہت خوش نصیب سمجھتا کہ اسے یمنیٰ جیسی خوبصورت‘ خوب سیرت اور سلیقہ مند بیوی ملی ہے۔ صبح جاب پر جانے سے پہلے اسے اپنی ہر چیز تیار ملتی… کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اسے ناشتے کے بغیر آفس جانا پڑا ہو… شام کو وہ گھر آتا تو چائے کے ساتھ بے شمار لوازمات تیار ملتے… گھر میں اگر دعوت کا اہتمام ہو تو وہ ناشتے کے بعد ہی سے کام میں لگ جاتی۔ مامی اسے لاکھ سمجھاتیں کہ بیٹا دعوت تو رات میں ہے، ابھی آرام کرلو، دوپہر سے تیاری کریں گے… لیکن اس کی بے چین فطرت کو چین کہاں…! بس وہ چاہتی کہ شام سے پہلے پہلے ہر چیز تیار ہوجائے… ایسا نہ ہو کہ مہمان آئے بیٹھے ہوں اور ہم کام میں مصروف رہیں… وقت سے پہلے سب کچھ تیار ہوجائے تو اچھا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے چھ سال گزر گئے… اس عرصے میں وہ تین پیارے پیارے بچوں کی ماں بن گئی… رمضان آنے سے پیشتر اس کی شاپنگ مکمل ہوچکتی… اس لیے نہیں کہ اس مقدس مہینے میں عبادت میں یکسوئی رہے، بلکہ یہ اس کی عادت بن چکی تھی… اگر کبھی شادی کی تقریب میں جانا ہو تو وہ کافی دیر پہلے تیار ہوجاتی اور بچوں کو بھی تیار کردیتی… عثمان اسے لاکھ سمجھاتا کہ کارڈ پر لکھے ہوئے وقت پر جانا بیکار ہے… شادی ہال میں کوئی نہ ہوگا… حتیٰ کہ اُلّو بھی نہیں آتے بولنے کے لیے … خوار ہوں گے جلد جاکر… اور جب مقررہ وقت سے ڈیڑھ دو گھنٹے بعد جاتے تو پتا چلتا کہ ابھی تو برات آئی بھی نہیں ہے۔ وقت یونہی تیزی سے گزرتا رہا… اس کے تینوں بچوں کی شادیاں ہوچکی تھیں۔ بیٹیاں تو شادی کے بعد باہر چلی گئی تھیں اور بیٹا ایک انٹرنیشنل کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔ اس کی بہو مشال بہت خوش اسلوبی سے گھر چلارہی تھی… اب تو اسے فراغت ہی فراغت تھی… نماز تو وہ ہمیشہ پانچوں وقت کی پڑھ لیتی تھی مگر قرآن پڑھنے کا اسے وقت ہی نہیں ملتا تھا… ہر وقت کام ، کام اور کام…اگر کبھی قرآن پاک کی تلاوت کربھی لیتی تو صرف ناظرہ کی حد تک… اب وہ روزانہ قرآن ترجمہ اور تفسیر سے پڑھنے لگی تھی… آج جب وہ تلاوت کررہی تھی تو اس کے سامنے سورہ حشر کی یہ آیت تھی: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا کیا ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ یقینا تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘ سورہ حشر کی اس آیت کی وہ نہ جانے کتنی بار تلاوت کرچکی تھی مگر آج اس کا ترجمہ پڑھ کر وہ کانپ سی گئی۔ اس نے پلٹ کر اپنے ماضی پر نگاہ ڈالی۔ وہ دنیاوی معاملات میں تو بہت ذمہ دار، قابل اور ایکٹو تھی… اس کا ہر کام وقت سے پہلے تیار رہتا۔ لیکن اس نے آخرت کی کچھ بھی تو تیاری نہیں کی تھی۔ اس نے سوچا کہ اگر ابھی اس کا بلاوا آجائے تو وہ کس منہ سے اپنے رب کے سامنے پیش ہوگی! اسے تو ہر کام اپنے وقت سے پہلے کرنے کی عادت تھی مگر اس معاملے میں اس سے کیسی بھول ہوئی… اسے خیال آیا کہ ابھی تو اس کے پاس مہلتِ عمل باقی ہے… اسے جلد از جلد اپنا زادِ راہ تیار کرنا ہے،’’کل‘‘ آنے سے پہلے پہلے… تاکہ جب وہ اپنے رب کے حضور پیش ہو تو اسے یہ اطمینان رہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہے۔ |
No comments:
Post a Comment