مصر میں اسلامی نشاۃ ثانیہ کا نکتہ آغاز
-اسلامی دنیا بالعموم اور عرب ممالک بالخصوص یہود و نصاریٰ اور ان کے سرپرستوں اقوام متحدہ‘ امریکا‘ اسرائیل اور یورپ کے ہاتھوں عرصہ دراز سے مختلف سازشوں‘ جبر و استبداد قتل و غارت اور تباہی و بربادی کا شکار ہیں۔ جس کی مختلف وجوہات ہیں۔ سب سے اہم ترین وجہ اسلام سے دوہری قومیتوں کے فروغ‘ اتحاد و اتفاق کی بجائے اختلاف و انتشار‘ سیاسی فوجی اقتصادی‘ سائنسی ز بوں حالی اور بیرونی قوتوں کے آلہ کار عوام دشمن حکمرانوں کا تسلط اہل اسلام پرتازیانے برسارہا ہے۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد خلافت عثمانیہ کے خاتمہ اور ترکی میں مصطفی کمال پاشا کی سربراہی میں اسلامی ریاستوں کے بندر بانٹ اور عوامی جذبات سے متصادم حکمران مسلط کردیے گئے۔ مسلمانوں کی تعلیمی و سیاسی پسماندگی نے مغربی طاقتوں کے مکروہ عزائم کی تکمیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ ترکی میں سیکولر حکومت کے قیام نے ملی وحدت کا پارہ پارہ کردیا۔ اسی طرح عرب دنیا میں بڑی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ مصر جو عرب دنیا میں آبادی اور فوجی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے۔ شاہ فاروق کی بادشاہت کے خاتمے اور فوجی جرنیل جمال عبدالناصر (جو فخریہ انداز میں اپنے آپ کو فرعونوں کی اولاد گردانتا تھا )نے اقتدار پر قبضہ کیا تو مصر کی اسلامی شناخت پر کاری وار کیے گئے۔ نصف صدی تک مصر پر مسلط ڈکٹیٹر عوامی احساسات کے علی الرغم سیکولر ازم کا ڈھونگ رچاتے اور اپنے جبر و استبداد کے ذریعے اسلامی شعائر کی پامالی میں مصروف رہے۔ جمال عبدالناصر کے دو راستبداد میںعلماء کرام پر بے پناہ مظالم ڈھائے۔ ہزاروں اسلام پسندوں کو نہ صرف پابند سلاسل کیا گیا بلکہ شہید کیا گیا۔ مصر میں آئمہ و خطباء پرداڑھی رکھنے پرپابندی لگادی گئی۔جامعہ الازہر جو اسلامی دنیاکی قدیم ترین علمی مرکز تھا وہاں ایسی پالیسیاں اختیار کی گئیں کہ کسی اسلامی تشخص کو ختم کردیا جائے۔ا س دور استبداد میں حسن البنا اور سید قطب شہید کی اخوان المسلمون نے ہر طرح کے ظلم و ستم کے مقابل عزم و حوصلہ اور کسی بھی طرح کی غیر مسلح محض آئینی و قانونی جدوجہد جاری رکھی۔ جو صرف تنقید اسلام کی داعی اور محرک تھی۔ جمال عبدالناصر کے بعد دوسرے فوجی جنرل انوار السادات نے عنان حکومت سنبھالی تو اخوان المسلمون کے لیے کسی قسم کی تبدیلی نہ آئی بلکہ 1967 ء کی جنگ میں اسرائیل نے شام اور مصر کے جن علاقوں پر قبضے جمالیے تھے۔ انواراالسادات نے امریکی ایماء پر اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کی خاطر نہ صرف دستبرداری اختیار کرلی بلکہ اسرائیل کو تسلیم بھی کرلیا اور سفارتی تعلقات قائم کرلیے۔ نیز فلسطینی مسلمان مہاجرین جو اسرائیلی مظالم سے تنگ آکر مصر میں آباد ہوگئے ان کے خلاف کارروائیاں شروع کردیں۔ امریکا نے بڑی عیاری سے مذاکرات کے نام پر کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کروا کر اپنے پروردہ اسرائیل کو سب سے مضبوط دشمن سے محفوظ کروادیا۔ جبکہ سوائے شام کے لبنان‘ اردن وغیرہ میں اتنی طاقت نہ تھی ہ وہ اپنے مقبوضہ علاقے خالی کرواسکتے کیونکہ مذکورہ ممالک فوجی و اقتصادی اور سیاسی اعتبار سے کمزور تھے اور عراق و شام کے سوا کسی ملک کی بھی فوجی طاقت نہ ہونے کے برابر تھی۔ انوارالسادات نے اسرائیل سے معاہدہ کرکے موت کے پروانے پر دستخط کردیے جبکہ اس کے عوض مصر کو امریکی ڈالروں کی نوازشات ہوئیں اور وہ بھی ڈکٹیٹروں کے ذاتی اثاثوں میں اضافے کا سبب بنیں۔ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی نگاہوں میں ہمیشہ اسلام پسند جماعتیں کھٹکتی رہتی ہیں چونکہ یہی ایک جذبہ ایسا ہے جو بڑی بڑی طاقت کے مقابلے کی ہمت پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا امریکی اشاروں پر انوار السادات نے بھی اسلام پسندوں کو کچلنے کی پالیسی اختیار کی اور محبان اسلام بالخصوص اخوان المسلمون کو بے شمار کارکنان قید و شہید کردیے گئے اور ڈکٹیٹر اپنے سرپرستوں گو کہ راضی کرنے میں لگا رہا۔ یہاں تک کہ مصری فوج کے ایک سپاہی خالد اسلامیوی کے ہاتھوں گولیوں کا نشانہ بنا اور اس کا قصہ تمام ہوا۔ انوار السادات کے بعد حسب سابق نیا ڈکٹیٹر حسنی مبارک مصر کے تخت پر براجمان ہوا۔ اس نے اور اس کے حواریوں نے قتل و غارت کے علاوہ لوٹ مار اور کرپشن کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے یہاں تک کہ عوام الناس غربت و افلاس کے ہاتھوں بدحالی کی اتھاہ گہرائیوں میں دوبتے چلے گئے۔ آخر کار لاوا پھٹ پڑا اور اہل مصر لاکھوں کی تعداد میں تحریر اسکوائر میں مظاہرہ کے لیے جمع ہوتے چلے گئے اور سیاسی انداز میں اپنی جدوجہد کے ذریعے برسوں سے اقتدار پر قابض امریکی پٹھو حسنی مبارک کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ مصری افواج جو ملک کی سیاہ و سفید کی مالک بنی ہوئی تھیں۔ آخر کار مجبور ہوکر حسنی مبارک کو اقتدار سے علیحدہ کردیا گیا او ر عوام کے شدید احتجاج پر گرفتار بھی کرلیا گیا اور ذلت و رسوائی کی تصویر بنا جیل میں فوت ہوگیا۔ حسنی مبارک کی علیحدگی کے باوجود فوج اقتدار پر قابض رہی تاہم اہل مصر نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور فوجی جنتا کو انتخابات پر مجبور کردیا۔ جس کے نتیجے میں بدیہی طور پر اسلامی پارٹیاں اخوان المسلمون اور النور پارٹی کامیاب ہوئیں اس موقع پر مغربی ممالک کا منافقانہ کردار بھی کھل کر سامنے آگیا۔ جو دنیا بھر میں جمہوریت اور انسانی آزادی کے چیمپئن بنے پھرتے ہیں۔انہوں نے بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح اسلامی جماعتیں اقتدار میں نہ آسکیں تاہم مصری عوام نے اپنے مثالی اتحاد اور جدوجہد کے ذریعے اس سازش کو ناکام بنادیا اور قابض جرنیلوں کو اقتدار عوام کے حقیقی نمائندوں کے حوالے کرنا ہی پڑا اور اب اخوان المسلمون کے رہنما محمد مرسی کو صدارت کے عہدہ کے لیے نامزد کردیا گیا ہے۔ محمد مرسی بنیادی طور پر انجینئر اور پروفیسر ہیں اور ان کا تعلق متوسط گھرانے سے ہے۔ یقیناً محمد مرسی اور اخوان المسلمون مبارکباد کے مستحق ہیں کہ طویل ترین عدم تشدد اور کسی قسم کی غیر قانونی یا مسلح جدوجہد کے بغیر قربانیوں کی تاریخ رقم کرتے ہوئے جو مثالی کردار ادا کیا وہ یقیناً لائق ستائش ہے۔ تاہم نئی مصری حکومت اور مذہبی جماعتوں بالخصوص اخوان المسلمون اور النور پارٹی جو سلفی العقیدہ عوام کی نمائندہ دوسری بڑی جماعت ہے کو انتہائی محتاط رہنا ہوگا چونکہ مسلمانوں کے سینے میں پیوست شدہ خنجر اسرائیل اور اس کے سرپرست مغربی ممالک اس تبدیلی کو ٹھنڈے پیٹوں ہرگز برداشت کرنے والے نہیں ہیں۔ لہٰذا مصری عوام اتحاد و اتفاق سے تمامتر سازشوں کو ناکام بنادیں۔ اس وقت عرب دنیا میں مغربی سازشوں کے تحت اکھاڑ پچھاڑ کا جو سلسلہ جاری ہے مثلاً لیبیا‘ تیونس‘ عراق وغیرہ میں وہ انقلاب نہیں بلکہ اپنے گماشتیوں کو اقتدار پر فائز کروا کر عرب مسلمانوں میں تفریق و تقسیم کا پلان ہے۔ امید ہے کہ مصر جو عرب دنیا کاسب سے بڑا آبادی اور فوجی قوت کا مالک ہے وہ اپنا قائدانہ رول ادا کرے گا اور یقینا مصر میں محمد مرسی کا بحیثیت صدر انتخاب اسلامی نشاۃ ثانیہ کا نکتہ آغاز ثابت ہوگا۔
|
No comments:
Post a Comment