حضرت عثمان ؓ بن ابی العاص ثقفی
- طالب ہاشمی
قبولِ اسلام سے پہلے طائف کے بنوثقیف برے، متمّرد اور بدخو لوگ تھے۔ دینِ حق سے ان کی دشمنی اور سرکشی کا یہ عالم تھا کہ 10 بعدِ بعثت میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ حق کے لیے ان کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے عربوں کی روایتی مہمان نوازی کو بالائے طاق رکھ دیا اور دعوتِ توحید کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف تضحیک و تمسخرکا نشانہ بنایا بلکہ آپؐ پر پتھر برسائے۔ یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سخت زخمی حالت میں طائف سے نکلنے پر مجبور ہوگئے۔ پھر8ھ میں اہلِ حق نے طائف کا محاصرہ کرلیا تو بنوثقیف نے شدید مزاحمت کی اور پتھر اور تیر برساکر کئی مسلمانوں کو شہیدکیا۔ لیکن قدرت کی کرشمہ سازیاں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ ابھی اس واقعہ کو زیادہ مدت نہیں گزری تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ طائف کے دل پھیر دیئے اور 9ھ میں انہوں نے خودبخود آستانۂ اسلام کے سامنے سرجھکادیا۔ اس سال بنوثقیف کا ایک وفد عبدیالیل کی سرکردگی میں مدینہ منورہ آیا۔ حضرت مغیرہ ؓ بن شعبہ ثقفی جو پہلے ہی شرفِ اسلام سے بہرہ ور ہوکر مدینہ منورہ میں مقیم تھے‘ انہوں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ایماء پر اس وفدکو صحنِ مسجد میں خیمے لگاکر ٹھیرایا اور اہلِ وفد کی بہت خاطر تواضع کی۔ اس وفد نے مدینہ منورہ میں کافی عرصہ قیام کیا۔ اس دوران میں رئیسِ وفد عبدیالیل نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر کئی رعایتوںکی درخواست کی، جن میں ترکِ نماز، شراب نوشی اور سودی لین دین کی اجازت کے علاوہ جہاد سے استثنا کی رعایتیں بھی شامل تھیں۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی تین رعایتیں دینے سے یکسر انکار فرمادیا، البتہ ان کو وقتی طور پر جہاد سے مستثنیٰ کردیا اور صحابہؓ سے فرمایاکہ جب اسلام ان کے دل میں راسخ ہوجائے گا تو یہ خودبخود ہی جہاد کے لیے نکلیں گے۔ اہلِ طائف نے ارشادِ نبویؐ کے سامنے سرتسلیم خم کردیا اورکلمہ توحید پڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت سے مشرف ہوگئے۔ بنوثقیف کے وفد میں ایک صحت مند نوجوان بھی شامل تھا جو عمر میں سب سے چھوٹا تھا لیکن نہایت نیک فطرت اور دانا تھا۔ اس کی پیشانی نورِ سعادت سے چمک رہی تھی اور وہ سعادت اندوزِ اسلام ہونے کے لیے سخت بے چین تھا۔ یہ نوجوان مدینہ منورہ میں وارد ہوتے ہی اہلِ وفد سے الگ ہوگیا اور علیحدگی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر شرفِ اسلام سے بہرہ ور ہوگیا۔ وفد کے اکابر تو مختلف مسائل کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو میں مشغول ہوگئے اور اس نوجوان نے ان سے چھپ کر پہلے تو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن حکیم کا کچھ حصہ پڑھا اور پھر بڑے ذوق وشوق سے حضرت ابیؓ بن کعب انصاری سے قرآن کی تعلیم حاصل کرنے لگا۔ ایک دن سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس کا علمی شوق دیکھا تو فرمایا: ’’یہ لڑکا تفقہ فی الدین اور تعلیم قرآن کا بہت مشتاق ہے‘‘۔ رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس نوجوان کے علمی شوق اور اعلیٰ صلاحیتوں سے آگاہ ہوگئے۔ چنانچہ جب بنوثقیف کے وفد نے رخصت ہوتے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمارے لیے کوئی امام مقرر فرما دیجیے تو آپؐ نے اس نوجوان کا ہاتھ پکڑکر فرمایا: ‘‘یہ دانا آدمی ہے اور یہی تمہارا امیر اور امام ہوگا‘‘۔ تمام اہلِ وفد نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے سامنے سرجھکادیا۔ پھرآپؐ نے اس نوجوان سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’نماز پڑھاتے وقت لوگوں کی حالت کا خیال رکھنا۔ ان میں بوڑھے‘ بچے‘ بیمار‘ کمزور اور کاروباری ہرقسم کے لوگ ہوتے ہیں۔‘‘ یہ جوانِ صالح جن کو حصولِ علم کا اس قدر شوق تھا اور جن کو کم عمر ہونے کے باوجود بارگاہِ رسالتؐ سے نہ صرف دانائی کی سند عطا ہوئی بلکہ بنوثقیف جیسے زبردست قبیلے کی امارت وامامت بھی تفویض ہوئی‘ حضرت عثمانؓ بن ابی العاص ثقفی تھے۔ ………٭……… سیدنا حضرت ابوعبداللہ عثمانؓ بن ابی العاص کا شمار سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم کے ان صحابہؓ میں ہوتا ہے جو آسمانِ علم وفضل کے آفتاب و ماہتاب بھی تھے‘ اور شوق جہاد‘ شجاعت اور جوانمردی کے لحاظ سے بھی اپنی نظیرآپ تھے۔ حضرت عثمانؓ کا تعلق مشہور قبیلہ بنوثقیف سے تھا جس کا مسکن طائف کا پُرفضا اور شاداب شہر تھا۔ حضرت عثمانؓ اسی شہر میں پیدا ہوئے اور یہیں سنِ رشدکو پہنچے۔ سلسلۂ نسب یہ ہے: عثمانؓ بن ابی العاص بن بشیر بن وہمان بن عبداللہ بن ہمام بن آبان بن یسار بن مالک بن خطیط بن جشم ثقفی۔ بنوثقیف نہایت سخت مزاج اورکھردرے لوگ تھے۔ لیکن حضرت عثمانؓ نہایت سلیم الطبع اورنرم خو نوجوان تھے۔ بددِ شعورکو پہنچ کر انہوں نے دعوتِ توحیدکا چرچا سنا تو نیکی کی طرف اپنے فطری رجحان کے باعث وہ اس سے بہت متاثر ہوئے اور حق کے داعیٔ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور اسلام کی تعلیمات سے پوری طرح آگاہ ہونے کے لیے بے چین رہنے لگے۔ چنانچہ غزوہ طائف کے بعد جب بنوثقیف کے وفد نے بارگاہِ نبوت میں حاضری کے لیے مدینہ کا رخ کیا تو وہ بھی اس وفد میں شامل ہوگئے اور مدینہ منورہ پہنچ کر سب سے پہلے شرفِ ایمان سے بہرہ ور ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تبرکاً تھوڑا سا قرآن پڑھایا اور پھر وہ بڑے ذوق وشوق سے قیام مدینہ کے دوران میں حضرت ابیؓ بن کعب سے قرآن کریم اور دینی مسائل کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ اپنے علمی شوق اور اخلاص فی الدین کی بدولت وہ بہت جلد سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے موردِ الطاف بن گئے۔ اور بالآخر بارگاہِ رسالت سے بنوثقیف کی امارت اور امامت کا اعزاز حاصل کیا۔ 11ہجری میں سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکرصدیقؓ مسند نشینِ خلافت ہوئے تو دفعتاً سارے عرب میں فتنہ ارتداد (ردّہ) کے شعلے بھڑک اٹھے۔ ان شعلوں کی حرارت کا اثر طائف تک پہنچا تو حضرت عثمان ؓ بن ابی العاص بے چین ہوگئے۔ انہوں نے تمام بنوثقیف کو جمع کیا اور ان کے سامنے ایک ولولہ انگیز تقریرکی جس میں فرمایا: ’’اے ثقیف کے لوگو! تم سبقت فی الاسلام سے محروم رہے اور اُس وقت یہ نعمت حاصل کی جب عرب کے دوسرے سب قبائل اس سے بہرہ یاب ہوچکے تھے۔ اس دیرکی تلافی اس نازک گھڑی میں تم دینِ حق پر ثابت قدم رہ کر کرسکتے ہو۔ تمہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ گمراہی کے اس طوفان کا اثر قبول کرو اور شرفِ ایمان کو کھو بیٹھو۔ دیکھنا اس وقت تمہارے قدم ہرگز نہ ڈگمگانے پائیں‘‘۔ حضرت عثمانؓ کی پُراثر تقریرکا نتیجہ یہ ہوا کہ طائف پر ارتداد کے امڈتے ہوئے بادل آناً فاناً چھٹ گئے اور بنوثقیف نے فتنہ ارتداد کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ………٭……… حضرت ابوبکرصدیقؓ کے پورے عہدِ خلافت میں حضرت عثمانؓ بن ابی العاص طائف کے امیر رہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کی خلافت کے ابتدائی دور میں بھی وہ اسی منصب پر قائم رہے۔ 14ھ میں حضرت عمر فاروقؓ نے بصرہ کا شہرآبادکرایا تو وہاں کے لوگوں کی تعلیم وتعلم کے لیے ان کی نظر حضرت عثمانؓ ثقفی پر پڑی۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عثمانؓ کو بصرہ بھیج دیا۔ ایک ہی سال بعد حضرت عمر فاروقؓ کی نگاہِ مردم شناس نے حضرت عثمانؓ بن ابی العاص کو بحرین اور عمان کی امارت (گورنری) کے لیے منتخب کیا۔ حضرت عثمانؓ نے عمان کو اپنا مستقر بنایا اور اپنے بھائی حکمؓ بن ابی العاص کو اپنا نائب بناکر بحرین بھیج دیا۔ علامہ بلاذُری نے ’’فتوح البلدان‘‘ میں لکھا ہے کہ عثمانؓ بن ابی العاص نے کچھ عرصہ بعد ایک بحری بیڑا تیارکیا اور اسے ہندوستان پر حملہ کرنے کے لیے روانہ کیا۔ یہ بحری بیڑا گجرات اورکوکن بمبئی کی سرحد پر واقع بندرگاہ تھانہؔ تک پہنچا۔ مجاہدین اسلام نے اس شہرکو فتح کرلیا لیکن اس پر اپنا قبضہ دیر تک نہ رکھا، کیونکہ ان کا مقصد بحری ڈاکوئوں کا انسداد اور ہندوستان کے حالات معلوم کرنا تھا۔ چنانچہ وہ چند دن بعد تھانہؔ سے بے شمار مالِ غنیمت لے کر واپس عمان آگئے۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ ہندوستان (گجرات کاٹھیاواڑ) پر عربوں کا یہ پہلا حملہ تھا۔ حضرت عثمانؓ نے یہ بیڑا روانہ کرتے وقت حضرت عمر فاروقؓ کی اجازت نہیں لی تھی۔ اس لیے جب انہوں نے دربارِ خلافت میں اپنی کامیابی اور مالِ غنیمت حاصل کرنے کی اطلاع روانہ کی تو امیرالمومنین نے ان کی اس مہم جوئی کو پسند نہ کیا، کیونکہ ان کے خیال میں حضرت عثمانؓ نے مسلمانوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالا تھا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عثمانؓ کو ایک سخت خط بھیجا جس میں لکھا: ’’اے برادرِ ثقفی! تم نے یہ لشکر نہیں بھیجا تھا بلکہ گویا ایک کیڑے کو لکڑی پر بٹھاکر سمندر میں ڈال دیا تھا۔ اگر یہ لوگ مصیبت میں پھنس جاتے تو خدا کی قسم میں تم سے اور تمہاری قوم سے اس کا مواخذہ کرتا‘‘۔ حضرت عمرفاروقؓ کے اس تہدیدی خط کے باوجود حضرت عثمانؓ بن ابی العاص نے ہندوستان پر بحری حملوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ کیونکہ ان کے نزدیک وہاںکے مقامی حالات ایسے ہی حملوں کا تقاضا کرتے تھے۔ علامہ بلاذُریؒ کا بیان ہے کہ دوسری دفعہ حضرت عثمانؓ نے اپنے بھائی مغیرہؓ بن ابی العاص کو ایک بیڑا دے کر ہندوستان روانہ کیا۔ وہ سندھ کے مشہور شہر دیبل پہنچے اور دشمنوں کو شکست دے کر مالِ غنیمت کے ساتھ بحرین واپس آئے۔ (ایک روایت یہ بھی ہے کہ مغیرہ دیبل میں شہید ہوگئے) تیسری مرتبہ حضرت عثمانؓ نے اپنے دوسرے بھائی حکم ؓ بن ابی العاص کو ایک بیڑے کا افسر بناکر ہندوستان کی طرف روانہ کیا۔ وہ بھڑوچ کو مسخرکرکے واپس آئے۔ بعض مؤرخین کا بیان ہے کہ ان حملوں کا مقصد صرف ان بحری لٹیروں کا قلع قمع کرنا تھا جو عربوں کے جہاز لوٹ کر سندھ اورکاٹھیاواڑ کی بندرگاہوں میں پناہ لیا کرتے تھے۔ حضرت عثمانؓ نے ان حملوں کے ذریعے یہ مقصد بڑی حد تک حاصل کرلیا اور جہازوںکو بحری قزاقوں کی تاخت وتاراج سے کافی عرصہ کے لیے نجات مل گئی۔ ………٭……… 21 ہجری میں حضرت عثمانؓ بن ابی العاص کی زندگی کا وہ ولولہ انگیزدور شروع ہوا جس میں وہ عہدِ فاروقی اور عہدِ عثمانی کے نامور سپہ سالاروں کی صف میں کھڑے نظرآتے ہیں۔ اس سال حضرت عمر فاروقؓ نے ایران پر عام لشکرکشی کا ارادہ کیا۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سے متعدد عَلم تیارکیے اور ان کو اپنے چند مشہور افسروں کے سپرد کرکے مختلف شہروں اور علاقوں کی تسخیر پر مامورکیا۔ ان افسروں میں حضرت عثمانؓ بن ابی العاص بھی تھے جنہیں اصطخرکی تسخیرکا کام سونپا گیا۔ اصطخر فارس کا نہایت اہم شہرتھا اور اس پر فوج کشی گویا فارس پر فوج کشی تھی۔ اہلِ فارس کو بھی دم دم کی خبریں پہنچ رہی تھیں۔انہوں نے اپنا مرکز توج کو بناکربڑے زوروشور سے مسلمانوں کے مقابلے کی تیاری کی۔ حضرت عثمانؓ جزیرہ ابرکادان فتح کرکے طوفان کی طرح توج کی طرف بڑھے اور ایرانیوں کے تمام دفاعی انتظامات کو روندکر توج پر عَلم اسلام بلند کردیا۔ اس کے بعد انہوں نے اس شہر میں کچھ عرصہ قیام کرکے وہاں مسجدیں بنوائیں‘ اور عرب کے بہت سے قبائل آبادکیے۔ (ایک روایت یہ ہے کہ جزیرہ ابرکادان اور توج حضرت عثمانؓ کے بھائی حکمؓ بن ابی العاص کے ہاتھ پر فتح ہوئے) اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے اسلامی لشکرکو مختلف مقامات پر پھیلادیا۔ ایرانیوں کو ہر جگہ شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور سابور‘ اردشیر‘ اوراصطخر وغیرہ بہت سے اہم شہر باری باری فتح ہوگئے۔ اُس زمانے میں فارس کا گورنر ’’شہرک‘‘ نامی ایک جنگجو ایرانی سردار تھا۔ اس نے مسلمانوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے ایک جرار لشکر جمع کیا اور رامشہر میں چھائونی ڈال دی۔ حضرت عثمانؓ نے سوار بن ہمام اور اپنے بھائی حکمؓ بن ابی العاص کو شہرک کے مقابلے پر روانہ کیا۔ شہرک نے نہایت ترتیب سے صف آرائی کی اور اعلان کیاکہ جس شخص نے پیچھے قدم ہٹایا اسے قتل کردیا جائے گا۔ ادھر مسلمانوں کے جوش وخروش کی بھی کوئی انتہا نہیں تھی۔ غرض فریقین میں گھمسان کا رن پڑا۔ شہرک نے بڑی پامردی سے مقابلہ کیا۔ لیکن جوش میں بپھرے ہوئے مسلمانوں کی یلغارکے سامنے اس کی کچھ پیش نہ چلی۔ ایرانیوں کو زبردست شکست ہوئی اور شہرک میدانِ جنگ میں کام آیا۔ رامشہر کی تسخیرکے بعد حضرت عثمانؓ نے ہرم ؒ بن حیان عبدی کو قلعہ شیر پر چڑھائی کا حکم دیا۔ انہوں نے اس قلعہ کو فتح کرلیا۔ خود حضرت عثمانؓ نے جرہ‘ کازدرن نوبندخان اور ان کے نواحی علاقوں کو مفتوح کیا۔ اسی دوران میں حضرت عمرفاروقؓ نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ والی بصرہ کو حکم بھیجا کہ وہ فارس کی تسخیر میں حضرت عثمانؓ کا ہاتھ بٹائیں۔ چنانچہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے حضرت عثمانؓ کی مدد کے لیے بصرہ سے وقتاً فوقتاً امدادی دستے بھیجنے شروع کردیے ۔ کچھ عرصہ بعد وہ خود ایک فوج لے کر حضرت عثمانؓ کے پاس آگئے اوردونوں نے مل کر شیراز‘ ارجان‘ سینینر وغیرہ کو زیرنگیں کیا۔ اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے اپنے لشکرکے ساتھ حصن جنایا‘ داراب جرد‘ جہرم اور فسا پر یلغارکی اور ان کو خلافتِ اسلامیہ کا مطیع بنایا۔ 23 ہجری میں انہوں نے فارس کے دارالحکومت سابور پر چڑھائی کی۔ اُس وقت فارس کا گورنر مقتول شہرک کا بھائی تھا۔ اس کو مسلمانوں سے مقابلے کی ہمت نہ پڑی اور اس نے حضرت عثمانؓ کو صلح کا پیغام بھیجا۔ انہوں نے چند شرطوں پر اسے منظورکرلیا۔ اس طرح سارا فارس کچھ بزورِ شمشیر اورکچھ صلح کے ذریعے حضرت عثمانؓ کے ہاتھ پر فتح ہوگیا۔ ………٭……… فارس کی تسخیرکے ساتھ ہی یا اس کے معاً بعد حضرت عمر فاروقؓ نے شہادت پائی اور حضرت عثمانؓ ذوالنورین سریرآرائے خلافت ہوئے۔ حضرت عثمانؓ بن ابی العاص کی فوجی سرگرمیاں ان کے عہد میں بھی جاری رہیں۔ علامہ بلاذُری کا بیان ہے کہ حضرت عثمان ذوالنورین ؓ کی خلافت کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا کہ اہلِ سابور نے اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کردی اور اپنی آزادی کا اعلان کردیا۔ 26 ہجری میں حضرت عثمانؓ بن ابی العاص اور حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے سابور پر ایک پُرزور حملہ کیا اور باغیوںکو قرار واقعی سزا دے کر سابور پر پھر پرچم اسلام لہرادیا۔ ابن جریر طبریؒ کے بیان کے مطابق اہلِ اصطخر بھی اسی زمانے میں باغی ہوگئے تھے۔ 27 ہجری میں حضرت عثمانؓ بن ابی العاص نے دوبارہ یلغارکرکے ان کو مطیع ومنقاد بنایا۔ امیر المومنین حضرت عثمان ذوالنورینؓ کو اصطخر کی تسخیرکی خبر ملی تو وہ بہت خوش ہوئے اور حافظ ابن عبدالبرؒ کی روایت کے مطابق انہوں نے حضرت عثمانؓ بن ابی العاص کو بارہ ہزار جریب زمین بطور انعام مرحمت فرمائی۔ فتح اصطخرکے بعد حضرت عثمانؓ بن ابی العاص کی سرگرمیوں کے بارے میں کتب سِیَر خاموش ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں لکھا ہے کہ اپنے وقت کے اس رجلِ عظیم نے 55 ہجری کے لگ بھگ سفرِ آخرت اختیار کیا۔ ازدواج و اولادکے بارے میں بھی ارباب سِیَر خاموش ہیں۔ حضرت عثمانؓ بن ابی العاص کا شمار فضلائے صحابہ میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ان کو صحبت ِنبویؐ سے فیض یاب ہونے کا زیادہ موقع نہ ملا پھر بھی ان سے 29 حدیثیں مروی ہیں۔ ان کے راویوں میں سعید بن مسیبؒ‘نافع بن جبیرؒ‘ موسیٰ بن طلحہؒ اور ابن سیرینؒ جیسے اکابر تابعین شامل ہیں۔ حضرت خواجہ حسن بصریؒ حضرت عثمانؓ بن ابی العاص کے بے حد مداح تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ عثمانؓ فضل و کمال میں اپنی نظیرآپ ہیں۔ فی الحقیقت حضرت عثمانؓ بن ابی العاص کی ذات علم وعمل کی جامع تھی۔ انہوں نے اخلاص فی الدین اور راہِ حق میں سرفروشی کے جو نقوش صفحہ تاریخ پر ثبت کیے وہ تاابد فروزاں رہیں گے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ |
No comments:
Post a Comment