ڈاکٹر اقبال مسعود ندوی*
دعوتِ دین کے عالمی اثرات
اسلام کی دعوت پہلے دن سے ہی جاری ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی طرف دعوت دینے کے لیے انبیاء علیہم السلام کو بھیجا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دعوت دینے والا بناکر بھیجا۔یہ دعوت اسلام کی طرف بھی ہے اور اسلام پر چلنے کی بھی ہے۔ حکمت ، موعظت اور نصح و خیرخواہی کے ساتھ ۔
ارشاد باری ہے:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ﴾۔ ﴿النحل:۱۲۵﴾
’’اے نبی! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو‘‘۔
یہ دعوت انبیاءؑ کے لیے بھی مطلوب تھی اور یہی دعوت سب کے لئے ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحاً قُلْ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْن۔ ﴿حٰمٓ سجدہ: ۳۳﴾
’’وہ کس قدر بہتر بات کرنے والا ہے جو اللہ کی طرف بلائے ، عمل صالح کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں‘‘۔
یہ دعوت اسلام کے ماننے والوں کے لیے بھی ہے کہ ان کو تذکیر سے یاد دہانی سے دعوت دی جائے۔ یہ دعوت کے ساتھ حکم بھی ہے۔ قانون بھی ہے کہ اس میں داعی، مدعو سب کے حقوق ہیں سب کی ذمے داریاں ہیں اور سب کے حدود کار ہیں۔ مگر ان سب میں مشترک بات یہ ہے کہ یہ حق کی دعوت ہے۔ حق کے لیے ہے ، اللہ کے لیے ہے۔پھر اس میں مضمون بھی درست ہے اور اسلوب بھی مناسب کہ معنی بھی ٹھیک اور ادائی بھی کہ یہی ابلاغ ہے۔ پھر یہ ایک مسلسل عمل ہے :
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ الَی الْخَیْرِ۔ ﴿آل عمران: ۱۰۴﴾
’’تم میں ﴿ہمیشہ﴾ ایسی امت رہے کہ خیر کی دعوت دیتی رہے ، بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے‘‘۔
اس کارِ خیر کی ضرورت اس وقت بھی رہتی ہے جب اسلام ابتدائی دور میںہو اور اس وقت بھی جب اسلام غالب ہو۔ اسلام کی تاریخ میں یہ کام ہمیشہ جاری رہا ،کبھی بھرپور طور پر ، کبھی کمزوری کے ساتھ۔ کبھی حکومت کے وسائل کے ساتھ کبھی صرف افراد کے اپنے وسائل کے ساتھ۔ کبھی اسلام کو کھول کر بیان کرکے کبھی اسلام کا دفاع کرکے ، کبھی اسلام پر اعتراضات دور کرکے کبھی مسلمانوں کے اندر پھیلی کمزوریوں اور انحرافات پر توجہ دلاکر کبھی تجدیدی کام کرکے کبھی اصلاح کے ذریعے کبھی کلمۂ حق کہہ کر۔کبھی ایسے افراد تیار کرکے جو ایسی مہمات میں حصہ لیں کبھی علمی اداروں کے قیام سے علم و دعوت دونوں کے افراد کار تیار کرکے۔
جب مسلمانوں کے اندر زوال آیا تو وہ اپنا منصب بھولے اور وہ ادارے کمزور ہوئے جو امت کے اپنے منصب پر قائم رہنے کے لیے ضروری تھے۔ افراد کی حد تک تو کبھی انقطاع نہیں ہوا مگر انفرادی جدوجہد سے بڑھ کر نظام کو وجود میں نہ لاسکے۔
پھر المیہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کا سیاسی زوال جب ہوا تو تعلیمی نظام بھی بکھرا، معاشی بدحالی بھی آئی، معاشرتی نظام بھی بکھرا اور فکری لحاظ سے ایک حیرانی اور سرگردانی کی کیفیت ہوئی۔ دوسری طرف وہ طاقتیں اٹھیں جو علمی وفکری لحاظ سے تازہ دم تھیں ۔ سیاسی لحاظ سے ایک نظام سے مربوط تھیں، عسکری طور پر ترقی یافتہ تھیں اور مادی لحاظ سے بہت آگے تک جانے کے لیے تیار افراد بھی تربیت یافتہ تھے۔ ادارے بھی فعال اور جاندار تھے اور ہدف کے لحاظ سے بھی وہ یکسو تھے۔
دھیرے دھیرے مسلمان ممالک محکومی کا شکار ہوئے۔ شروع میں مزاحمت ہوئی مگر قربانی کے علاوہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔ مغربی استعمار نے دھیرے دھیرے سیاسی، قانونی، تعلیمی، معاشرتی اور ثقافتی اثرات پھیلائے اور نشانہ یہ رہا کہ مسلمان پھر سے متحدنہ ہوں۔ اس لیے اُنھیں قومیتوں میں تقسیم کیاگیا۔ اسلام کا نظام تعلیم ختم کیاگیا۔ مغربی قوانین کے ذریعے لادینی نظام کی حکمرانی ہوئی، ایسے نظریات اٹھائے گئے کہ مسلمان خود ہی اسلام سے دور ہوں یا اسلام کو مغرب کے رنگ میں رنگیں۔ مغرب سے مرعوبیت کا دور ایسا تھا کہ مغرب ہی حق وباطل کا معیار بن گیا ۔ لیکن پھر ایسی تحریکات اٹھیں جو ایک طرف مسلمانوں کو مغرب کی مرعوبیت سے نکالنے کا ذریعہ بنیں ، دوسری طرف اسلام کی طرف واپسی اور اسلام کی سربلندی کے لیے اٹھیں۔ آزادی کی تحریکوں نے بھی سیاسی میدان میں کام کیا ۔ملک آزاد ہوئے۔
پھر ایک دور ایسا بھی آیا کہ یہ توقع ہوئی کہ اسلام نافذ ہوگا ،مگر ایسے افراد کے ہاتھوں میں باگ ڈور آئی جو نہ صرف مغرب پرست تھے بل کہ اسلام سے متنفر یا کم از کم اس سے بیزار تھے اور اسلام کے آج کے دور میں قابل عمل نہ ہونے پر یقین رکھتے تھے۔ مگر اسلام سے وابستگی اور مسلمان کہلانا ان کی مجبوری بھی تھی۔ اس لحاظ سے تحریکات کی انرجی ایسے افراد اور نظریات کے خلاف لگی۔ اسی کے ساتھ اسلام کے نمایندہ افراد میں جو مجرد روایت پرستی آگئی تھی اور جس طرح سے دین کے مسائل، فروعی نزاعی مسئلوں تک محدود ہوگئے تھے، اس وجہ سے تحریکات کو روایتی علماکی مخالفت سے واسطہ پڑا اور عوام میں اسلام کے پھیلنے میں یہ کش مکش بڑی رکاوٹ بنی۔
ایک دور ایسا گزرا جب یہ محسوس ہوگیا کہ یہ تحریکات ہی مغرب کے لیے حقیقی خطرہ ہیں۔ اس لیے ان کو روکنے میں ہر طرح کے جائز اور ناجائز سب راستے اختیار کیے گئے اور اس کی وجہ سے قید وبند کی سزائوں کے سخت سے سخت مراحل آئے۔ دعوت کا کام رکا تو نہیں مگر عوامی قبولیت سے دوری رہی۔ اس لیے کہ سخت ترین ماحول میں سامنے آنے والے کم ہی ہوتے ہیں۔ پھر یہ طے تھا کہ مغرب ایسی کسی تحریک کو اوپر آنے ہی نہیں دے گا۔مغرب کا کمال یہ تھا کہ ایک طرف ساری مجلس سجائی تھی، جمہوریت کے نام سے مساوات کے نام سے، حقوق انسانی کے نام سے ،انصاف کے نام سے مگر معیار صرف یہ تھا کہ یہ ساری اصطلاحات مغرب کے حق میں ہی رہیں اسلام کو ان سے فائدہ نہیں ہوسکتا ہے اورنہ فائدہ پہنچانے دیا جاسکتا ہے۔
پھر نائن الیون کا واقعہ برپا کیاگیا۔ جس کے بعد اسلام کے ذمے ایسی تہمت لگادی گئی کہ اب اسلام مترادف ہوا دہشت گردی ، انتہا پسندی ، غیر مسلموں، اقلیتوں، خواتین کے ساتھ زیادتی کا۔ اور پھر اس دور کے شروع ہونے سے انصاف کا خود اپنا بنایاہواپیمانہ ہی نہ رہا۔ شک وشبہ ہی جرم کے لیے کافی ہوا۔ سزا، عدالت، جرم کا ثابت ہونا غیر ضروری ہوگئے۔ بس پکڑو، مارو، ختم کرو، ستائو، کہ یہی انصاف ہے۔ اس سلسلے میں جو طاقتیں مدمقابل تھیں، وہ تو دو رخی تھیں۔ ایک طرف اسلام تھا۔ دوسری طرف مغرب۔ مگر اسلام کے نام سے مغرب کے ہم نوا افراد، ادارے بھی سرگرم تھے اور ان سب کی قیادت کہنے کوتو امریکہ کے ہاتھ میں تھی، مگر اصل باگ ڈور یہود کے ہاتھ میں تھی۔
لطف یہ ہے کہ یہودی مقاصد اور تھے مغربی مفادات کچھ اور۔ مگر اسلام دشمنی اور اسلام کو اوپر آنے سے روکنے کی خواہش پر اتفاق تھا۔ مغرب کو یہ سمجھایاگیا کہ عالم اسلام میں وسائل غلط ہاتھوں میں ہیں۔ اس لیے مغرب ان پر قبضہ کرلے۔ عالمی نظام کا نعرہ لگایا گیا ۔ عیسائی انتہا پسند گروہ یہودی ریاست کے بچاؤکے لیے کھڑے کیے گئے اور اس کش مکش کو مذہبی رنگ دیا گیا۔مگر خود یہودی مقصد عالمی یہودی غلبہ تھا۔ جس میں افراددوسروں کے استعمال ہوں وسائل دوسروں کے ہوں ، یہود صرف پس پردہ رہ نمائی کریں۔ صورت حال یہ بنائی گئی کہ مغرب اسلام کے مدمقابل ہے اور یہودی مغرب کے ساتھ ہیں۔ مگر یہودی مغرب کو بھی صرف آلۂ کار ہی دیکھتے تھے۔ ان کے نزدیک دونوں طاقتوں کا لڑ کر ختم ہونا ہی یہودی کے اوپر آنے کی لازمی شرط ہے۔ وہ نہ مسلمانوں کے ہمدرد تھے نہ مغرب کے۔ وہ تو صرف اپنے منصوبے کے تحت مغرب کے دوست نما بنے ہوئے تھے۔
مغرب میں کتنے ہی ان منصوبوں سے پریشان تھے مگر یہود نے مغرب کی جو رگ جاں اپنے ہاتھ میں لی تھی اس کے بعد کھل کر کہہ دینا بھی مشکل تھا۔ یہود کی مشکل یہ تھی کہ جس طرح سے وہ عیسائیت کو قابو میں کرچکے تھے۔ اس طرح اسلام پر بس نہیں چلا تھا۔اس لیے ان کے نزدیک حل یہی تھا کہ مسلمان کو سکون سے نہ رہنے دو الجھائے رکھو اور اندر سے باہر سے ہر طرح سازشوں سے فتنوں سے جنگوں سے ان کو اپنے اصل مقصود، مشن پر نہ آنے دو۔
ان کے منصوبوں کے لیے ایک بڑی رکاوٹ تحریکات تھیں، جو نہ صرف تحفظ اسلام میں لگی ہوئی تھیں بل کہ مسلمانوں میں بیداری بھی لا رہی تھیں۔ پھر مغرب کے منصوبوں سے آگاہ بھی تھیں اور مغرب کی سازشوں کا توڑ ہی نہیں بل کہ مغرب کا متبادل بھی بن رہی تھیں۔ یہ وہ صورت حال تھی جو نائن الیون نے پیدا کی۔لیکن اللہ تعالیٰ کا بھی ایک منصوبہ تھا۔
مغرب بنیادی طور پر جن اوصاف کی بنا پر دنیا کی حکمرانی کر رہا تھا، وہ تھے قانون کی حکمرانی، انصاف، دیانت داری کے ساتھ اپنے قائم کردہ نظریے سے وابستگی۔ عوام کی خدمت ، انسانیت کی عظمت،اداروں کاقیام، دنیاوی سرگرمیوں میں جدت، ظلم سے مقابلہ، نائن الیون نے جو سب سے بڑا نقصان پہنچایا وہ یہ تھا کہ مغرب کا نظام جس جمہوری انداز، مشورے اور مہارت اور اہل قیادت پر مبنی تھا وہ کمزور ہونے لگا ۔ خود کے بنائے اصول ٹوٹنے لگے۔ ظلم کی لے بڑھتی گئی ، شبہ پر فیصلے ہونے لگے۔ خفیہ ایجنسیوں کی معلومات پر قسمتوں کے فیصلے ہونے لگے ، غرض مغرب کی قیادت کا جواز ختم ہونے لگا۔ اسی وقت مسلمانوں میں ہلچل مچی۔نیند سے بیداری شروع ہوئی اور دین کی طرف واپسی بھی ہوئی۔ اس دنیا کے چلانے کے اصول بھی سامنے آنے لگے۔ وہ ہوا جس کو قرآن کہتا ہے : ’’ہم نے طے کیا کہ کمز ور کو اوپر لائیں اقتدار سے نوازیں‘‘۔
اس کام میں آدھا کام تو مغرب نے کردیا کہ اسلام کے سامنے کی رکاوٹیں مغرب نے دور کرنے کا کام انجانے میں کرڈالا ۔ اسلام جب نشانہ بنا تو سارے مسلمان دہشت گردبنے اور پھر اس طرح سے وہ قومیتوں سے نکلے اور ایک امت کی شکل دکھائی دینے لگے ۔ سیکولرزم کو راستے سے ہٹاکر اب مذہبی جذبے کو ابھارا گیا اور اس طرح مذہب مذہب کے مقابل آگیا۔ گویا اب نظریہ نظریے کے مدمقابل تھا۔ اور یہی نہیں بل کہ حق کانظریہ باطل کے نظریے کے مدمقابل آیا اور اب یہ طے ہونا ہے کہ حق جیتتا ہے یا باطل۔ ورنہ اس سے پہلے سیکولرزم کے نام سے مذہب کو معرکے سے تو ہٹایا گیا تھا، منظر سے بھی غائب کردیاگیا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ مغرب نے جو خود ساختہ اصول بنائے تھے ، مغرب نے خود ہی ان کو توڑ دیا۔ اب نہ عالمی قانون رہا نہ عالمی اصول انصاف۔ نہ بین الاقوامی تعلقات ، نہ انسانی حقوق ، نہ مساوات اور نہ غیر جانبدارانہ انداز سے مسئلے حل کرنا ۔ اس طرح سے اب دنیا ایک خلا میں جی رہی ہے کہ سابقہ اصول ٹوٹ چکے ہیں۔ اسلام کے لیے موقع پیدا ہوا ہے کہ وہ اپنے اصول سامنے لائے اور ان کو متبادل بنائے۔ پھر یہ ہوا کہ قوانین اس طرح سے توڑے گئے کہ ظالم کے لیے ایک پیمانہ اور مظلوم کے لیے دوسرا ، طاقتور کے لیے ایک کمزور کے لیے دوسرا۔ اس طرح سے انصاف پسند کفر کے جواز کا راستہ بھی بند ہوگیا۔
’’اللہ عدل کرنے والی حکومت کی مدد کرتا ہے، خواہ وہ کافر انہ ہی کیوں نہ ہو‘‘
ان حالات میں تحریکات کی بالکل دوسری اہمیت سامنے آئی ۔ ایک طرف تو کوشش کی گئی کہ بے ضرر اسلام پیش کیا جائے۔ اس کا نام صوفی اسلام رکھیں ، لبرل رکھیں یا تمام مذاہب کے ساتھ رواداری کا اسلام کہیں دوسری طرف ایک متشدد عنصر کو ابھارا جائے اور نمایاں کیا جائے۔ بلکہ تیار کیا جائے کہ اس کو دیکھ کر اسلام سے تنفر پیدا ہوجائے اور اس طرح سے اصل نمایندہ اسلام اور مستند نمایندوں کو نظرانداز کیا جائے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ خود اسلام ہی نشانہ بن گیا جو نوجوان ادھر نہ آئے وہ مغرب کی طرف بھی نہ گئے۔ لیکن اس صورت حال میں تبدیلی ادھر سے آئی جہاں سے کسی کو توقع نہ تھی۔ عالم عرب میں تبدیلی کی لہرچلی تو پوری قوم شریک ہوگئی اور شرکت بھی اس طرح کہ خوف کا عنصر ہی نکل گیا ۔ جان دینا مسئلہ نہ رہا۔ اچانک زندگی کے متوالے عزت کے متوالے نظام وقت سے بے زار عوام اٹھے تو سارا نظام خس و خاشاک کی طرح بہہ گیا۔ مغرب کے جمے جمائے مہرے کہیں کے نہ رہے۔ عرب قومیت کا کہیں وجود نہ رہا اورپتا چلا کہ اچانک اسلام پسند ہی آگئے ہیں۔ مگر سوچنے کا ایک پہلو یہ ہے کہ پچھلے پچاس ساٹھ سال میں قیادت کو ابھرنے نہ دیاگیا۔ دو نسلوں کو بگاڑا گیا۔ ادارے تباہ کیے گئے۔ خریدے افراد بھرے گئے ، دوسرے ملکوں کے مفادات کا تحفظ کرنے والے اور ذاتی فائدے حاصل کرنے والے ہر جگہ چھائے رہے۔ ایسے میں نظام ہٹا تو مگر متبادل کے لیے رکاوٹیں بھی ہیں اور وقت بھی درکار ہے۔ پھر کاروبار مملکت چلانے کا تجربہ بھی چاہیے۔ اس لحاظ سے اب اس وقت تحریکات جس دور سے گزر رہی ہیں وہ آگے بڑھنے کا تو ہے مگر رکاوٹوں کو عبور کرکے۔ چیلنج سے گزرکے مقاصد کو سامنے رکھ کر غیر ضروری کام کو پیچھے کرکے ترجیحات متعین کرکے اور سب سے بڑھ کر اسلام کو مرغوب بناکے کہ لوگ زبردستی نہ مانیں بل کہ اس کے فوائد اور انعامات ان کو اس کا گرویدہ بنائیں۔
اس میں معاون نکات یہ ہیں:
﴿۱﴾ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ تحریکات مختصر دائروں سے نکل کر عوامی دائرے تک پہنچی ہیں اور عوام کے جذبات کی ترجمان بھی بنی ہیں اور عوام کی رہ نما بھی ۔ ﴿۲﴾جمہوریت، آزادی، انتخابات کے ذریعے مسلم ممالک میں جو آئے گا وہ اسلام ہوگا۔ بہ شرطے کہ صحیح اور منصفانہ انداز سے ووٹ کا موقع ملے۔ ﴿۳﴾ مغرب پہلی بار مجبور ہوا کہ وہ اسلام پسندوں کو تسلیم کرے، ان سے معاملہ کرے اور ان کا کھیل بگاڑنے کے بجائے ان سے ہی مذاکرات کرے اور اسلام پسندوں کو موقع ملا ہے کہ وہ عزت نفس کی برابری کی بنیاد پر اصولوں پر رہتے ہوئے بات کریں۔ ﴿۴﴾ انسانیت کے لیے یہ موقع ملا ہے کہ کش مکش کے بجائے افہام وتفہیم کا ماحول بنے اور اس میں اسلام کے مثبت تعمیر اور مفید پہلو سب کو نہ صرف محسوس ہوں،بلکہ نظر آئیں اور اسلام نجات دہندہ لگے نہ کہ موقع پرست ﴿۵﴾ مغرب کا مسئلہ تو محض مفادات کی بقا کا ہے مگر یہودی ریاست کے لیے پہلی مرتبہ ایک حقیقی چیلنج پیدا ہوا ہے ۔ اب یہ ہوسکا کہ وہ افہام وتفہیم سے کام لے تو اس کو موقع مل سکتا ہے۔ ورنہ کش مکش کا دائرہ بڑھے گا۔مغرب کا نفسیاتی مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف وہ اسلام کو دفن کرچکا تھا، مسلمان محکوم تھے، پھر کمزور بھی تھے ۔ پھر وہ پسماندہ ہیں غیر منظم ہیں۔ اس لیے ان کو برابری کا درجہ کیسے دیں اور مغرب کی نظر میں مسلمانوں کی پسماندگی کا سبب اسلام ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مغرب کے پاس جو مہارت ہے یا جو معلومات ہیں یا جو تجربہ ہے وہ اُسے دوسروں کو دینے کے بجائے اس سے فائدہ ہی نہیں بل کہ استحصال کرناچاہتے ہیں۔ کیوں کہ مغرب کااصول ہے کمزور کو دبائونہ کہ کمزور کے کام آؤ۔ ہاں کبھی ترس کھالوتو خوب مشہور کردو لیکن بہ ہرحال یہ حقیقت مغرب سمجھ لے تو اس کے لیے بہتر ی ہوگی۔ ورنہ اب ٹیکنالوجی کسی کی ملکیت ہے نہ اجارہ داری ﴿۶﴾اس وقت دنیا میں ایک ارتکازی کیفیت ہے۔Polarization میں کہنے کو دو سپر پاور یا ایک سپر پاور ہیں مگر درحقیقت اس وقت حق وباطل کی حد بندی اور دائرہ بندی کا عمل دو طرح سے چل رہا ہے۔ ایک خبیث اور طیب کی چھانٹ دوسرا اہل ایمان کی چھان پھٹک۔ یہ وہ عمل ہے جو جاری ہے مگر اب اس میں تیزی بھی آئی ہے اور اس کے اثرات نظر آنے لگے ہیں۔ ﴿۷﴾ اس وقت امکانات کی ایک نئی دنیا آباد ہورہی ہے اور یہ امکانات اسلام کے حق میں جارہے ہیں ۔ اور ان امکانات کا وہ حصہ جو اسلام کی راہ کی رکاوٹ دور کرنے سے ہے وہ مغرب خود ہی انجام دے رہا ہے کہ ایک طرف مغرب کے اصول نکمے ثابت ہورہے ہیں دوسری طرف اسلام کی عالمیت کے وہ اسباب سامنے آرہے ہیں جو کہنے کو تو مغرب نے اپنے لیے بنائے ہیں مگر صرف اسلام ہی وہ نظریہ ہے جس کے پاس عالمیت کے اصول ہیں۔
جب تک نظریہ عالمی نہ ہو عالمیت کا خواب بے معنی ہے۔ کسی قوم کو کسی مفاد کو، کسی طاقت کو، کسی مادی ضرورت کو عالمیت کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ یہ صرف اسلام ہے جو سارے جہاں کا ایک رب، ساری انسانیت کی وحدت، سارے لوگوں کے لیے ایک اصول ، ایک معیار حق، ایک معیار خیر اورایک معیار اتحاد کا پیغام دیتا ہے ۔ عالمیت کی یہ بنیاد ہی ہے جس کو اپناکر عالمی نظام قائم ہوسکتا ہے۔ مغرب کی یہ کوشش کہ وہ عالمی طاقت ہے خواہش اور دھونس کی حد تک تو ہے مگر یہ اللہ کے منصوبے کا وہ حصہ ہے کہ اپنے دین کا کام وہ ان سے لیتا ہے، جو اس کے ماننے والے بھی نہیں ہوتے ہیں۔ اس وقت اس طرح سے مغرب وہ ساری حد بندیاں ختم کرا رہا ہے، جو اس عالمیت میں رکاوٹ ہیں۔
یہودی اپنے منصوبے میں لگے ہیں کہ مغرب کی طاقت استعمال کرکے یہ کام کروائیں اور خود عالمی طاقت بن کر ابھریں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے یہ کام ان سے لے تو لیا ہے مگر اس کے ثمرات اسلام کو ہی ملنے ہیں ﴿۸﴾ اس وقت اسلام ایک نظریہ ہے، ایک دعوت ہے ایک قوت عمل ہے ، ایک طریق کار ہے ، ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ تحریکات نے جب یہ دعوت دی تھی اس وقت تو نہ صرف غیر مسلموں سے اس پر اعتراضات سنے تھے ،بل کہ خود سکّہ بند مسلمانوں کے لیے یہ ایک اضافی کام تھا ۔ رخصتوں کی دنیا میں رہنے والوں کے لیے یہ ایک سرپھرا سا خواب تھا۔ مگر اب یہ ایک حقیقت بنتا جارہا ہے اور اب عوامی طور پر اس کی طرف رغبت بڑھی ہے﴿۹﴾ اب طے یہ کرنا ہے کہ تحریکات کا دائرۂ کار صرف چند ضابطوں کی حد تک ہی کام کرنے میں ہے کہ کچھ مہم چلاکر ۔ کچھ منصوبے بناکر کچھ افراد تیار کرکے اور کچھ تنظیمی خاکے بناکر ذمے داری سے بری ہوں۔ یا اب پور ے اسلام کی، پوری انسانیت کے لیے ،اس طرح سے تفہیم و تنفیذ کرنی ہے کہ اسلام عملاً نافذ ہوتا دکھائی دے اس کے اثرات انسان سمیٹے۔ اب تحریک صرف مزاحمت کا نام نہیں ،بل کہ متبادل فراہم کرنے کا نام ہے﴿۱۰﴾اس مہم میں تحریک نظریاتی ہراول دستے کا کام کرے گی، اس میں ہر صاحب صلاحیت ہر خیر خواہ جس حیثیت میں ہو ، ان کو وسیع تر منصوبے کے اندر لاکر فائدہ اٹھانا ہے۔ یہ بنیادی طور پر تحریک کا اگلا مرحلہ ہے اور اس کے لیے تیاری بھی چاہیے اورذہنی ہم آہنگی بھی۔ اس کے لیے قدیم پر اصرار کے ساتھ جدید کا انتخاب بھی ضروری ہے۔ یہ کام تسلسل کا تقاضا کرتا ہے ۔﴿۱۱﴾یہ کام ترجیحات کے ساتھ انجام دینے کا ہے۔ اس میں دفعِ مضرت پہلے ہے کہ انسانیت کی تذلیل کے اسباب دور ہوں۔ اسلام کی نعمتوں سے انسان نہ صرف مستفید ہوں بل کہ اسلام کی خیرخواہی کے دل سے معتقد ہوں۔﴿۱۲﴾ یہ حقیقت ہے کہ ایک طرف یہ عظیم الشان منصوبہ ہے دوسری طرف مسلمانوں کی کم اہلی کا مسئلہ ہے۔ پھر حق وباطل کی کش مکش بھی ہے ۔ کھل کر بھی چھپ کر بھی۔ تاریخ سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے اور مستقبل کے بارے میں دی گئی خبروں میں بھی یہ حقیقت بتائی گئی ہے کہ اس کش مکش کے مقامات مشرق اوسط سے لے کر ہندو پاک تک ہیں۔ مگر یہ اسلام کی برتری اور اسلام کی پیش قدمی کے مراحل ہیں اور اسی کے ساتھ اس میں ان قوموں، افراد اور اداروں کا بھی حصہ ہے جو مغرب میں بسے ہیں یا مغرب کے علوم وفنون کے ماہر ہیں اور جن کی عصری مہارت اور دینی جذبے سے اسلام کو تقویت ملے گی۔ ﴿۱۳﴾ اس سلسلے میں ایک بہت ضروری کام یہ ہے کہ یہ امت ردعمل سے نکلے ۔ ایک مثبت نظریے کے لئے مثبت رخ اپنائے۔ دوسری ضرورت یہ ہے کہ ہم ادارے وجود میں لائیں اور اداروں کو چلانے کی تربیت حاصل کریں۔ افراد سے وابستگی اور عقیدت حدود میں رہ کر تو ٹھیک ہے مگر اجتماعی نظم اسی وقت چلے گا جب اداروں سے وابستگی ہو او ریہ سمجھ کر ہو کہ یہ ہم میں سے ہر ایک کی ذمے داری ہے اور ہر ایک اس کا حصہ ہے ۔ یہ چند افراد کا کام نہیں ہے۔ یہ پوری امت کا کام ہے اور پوری امت کو اس میں حسب استطاعت حصہ لینا ہے۔﴿۱۴﴾ یہ کام یہیں ختم نہیں ہوتا ہے کہ ہم دعوت کے عالمی اثرات ثابت کرکے مطمئن ہوجائیں، بل کہ یہ طے کریں کہ اب اس امت کو امت بنانا ہے اور اس امت کو سربلند کرنا ہے اور حق کو بلند کرکے اللہ کے کلمے کو بلند کرنا ہے۔
***
No comments:
Post a Comment