استقبال رمضان کے تقاضے!
لیاقت بلوچ
- سمجھدار کسان برسات کے موسم سے قبل ہی اپنے کھیتوں کی منڈیروں کو اونچا اور پختہ کرنا شروع کردیتا ہے، تاکہ برسات کا پانی زیادہ مقداراورزیادہ دیر تک کھیت میں کھڑا رہے اور خشک زمین رحمت خداوندی کے اس ٹھنڈے اور وافر پانی سے جی بھر کر اپنی پیاس بجھا لے تاکہ آئندہ فصل سرسبزو شاداب ہو اور اسے گرمی اور خشکی سے کوئی خطرہ نہ رہے،جو کسان برسات کے دوران بے کراں برسنے والی اس بارش سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھاتا سستی اور کاہلی کی وجہ سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھارہتا ہے اور فصل کی بوائی کے وقت محنت و مشقت سے کتراتا ہے تو اس کا نتیجہ ظاہر ہے اس کسان کے حق میں اچھا نہیں ہوتا اور جس وقت سب کسان خوشی خوشی ڈھیروں اناج لے کر اپنے گھرلوٹتے ہیں تو اس بیچارے کی بے بسی اور حالت دیدنی ہوتی ہے۔رمضان المبارک بھی نیکیوں کا موسم بہار ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت پورے جوش میں ہوتی ہے ،اور اپنے اللہ کو خوش کرکے اس کی رحمتوں بخششوں اور مغفرتوں کو سمیٹ لینے کا یہ بہترین موقع ہوتا ہے جسے کوئی بھی سمجھدار ضائع کرنا اور کھونا نہیں چاہتا ،جس طرح فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی طرف رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا جس کی زندگی میں رمضان آیا اور اس نے اپنے سابقہ گناہوں کی بخشش نہ کروالی، رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق ؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ رمضان المبارک کے آغاز میں لوگوںکواس کی اہمیت و برکت سے آگاہ کرنے کے لیے خطبات ارشاد فرمایا کرتے تھے تاکہ وہ اس ماہ مبارک کے خزانوں سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔ہمیں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے دوست و احباب،اعزہ واقارب اور عوام الناس کو رمضان کے استقبال اور اس سے بھرپور استفادے کے لیے تیار کرنا چاہیے۔حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک منادی کرنے والا آسمان دنیا پر آتا ہے اور منادی کرتا ہے کہ اے برائی اور اللہ کی نافرمانی کرنے والے اب تو شرم کراور اللہ کی نافرمانی اور برائی سے رک جا،اور اے نیکی اور اللہ کی فرمانبرداری کے راستے پر چلنے والے اور ذوق و شوق سے آگے بڑھ اور اللہ کی رحمتوں سے اپنی جھولی کو بھر لے! ماہ رمضان کو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شھر عظیم اور شھرمبارک قرار دیاہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ روایت کرتے ہیں کہ ماہ ِشعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں یہ خطبہ ارشاد فرمایا :ـ’’اے لوگو!تم پر ایک عظمت اوربرکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے۔اس مہینے کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں۔ اس کی راتوں میں بارگاہ خداوندی میں کھڑا ہونے (نماز تراویح) کو نفل عبادت قرار دیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت(سنت یا نفل)ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستر فرضوں کے برابر ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے ۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں مؤمن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزے دار کو افطار کرایاتو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہو گااور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گابغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کچھ کمی کی جائے۔ آپؐ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہؐ ! ہم میں سے ہر ایک کے پاس تو افطار کرانے کا سامان مہیا نہیں ہوتا۔آپؐ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گاجو دودھ کی تھوڑی سی لسی یا پانی کے ایک گھونٹ سے ہی کسی روزہ دار کو روزہ افطار کرا دے۔ اور جو کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلائے گااللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض (کوثر)سے ایسا سیراب کرے گاجس کے بعد اس کو کبھی پیاس نہیں لگے گی تاآنکہ وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔ اس ماہِ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے،درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آتش دوزخ سے آزادی ہے۔جو آدمی اس مہینے میں اپنے خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کرے گااللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گااور اس کو دوزخ سے رہائی دے دے گا۔‘‘(البہیقی)۔اس عظیم مہینے کی برکتوں سے مکمل استفادے کے لیے ابھی سے اپنی کمر کس لینی چاہئے، اس کے لیے ہرصاحب ایمان کو اپنے طور پر بھر پور منصوبہ بندی کرنی چاہئے ،جس کے لیے درج ذیل چند اُمور سے بھی انفرادی و اجتماعی سطح پراستفادہ کیا جاسکتاہے۔ نیت و ارادہ: رمضان المبارک کے استقبال کے لیے سب سے پہلا کا م یہ ہے کہ ابھی سے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی خالص نیت اور پختہ ارادہ کر لینا چاہئے۔یہ وہ طاقت ہے جس کے بغیر کوئی راستہ طے نہیں ہو سکتا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق نیت پر ہی تمام اعمال کا دارو مدارہے۔ ہم رمضان کے پیغام، اور اس کی عظمت و برکت کے احساس کو تازہ کر نے کیلئے ایسے کام کرنے کاعزم و ارادہ کریںکہ جن سے نہ صرف ہم خود بلکہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کے لئے بھی تقویٰ کے حصول میں ممد ومعاون بن سکیں،یہی روزے کا حاصل اورمطلوب ہے۔سب مسلمان جانتے ہیں کہ تقویٰ قلب و روح اور عمل و کردار کی اس قوت کا نام ہے ، جس سے غلط، بُرے اور نقصان دہ کاموں سے بچ کر استقامت کے ساتھ صحیح ،اچھے اور نفع بخش کام کرنے لگ جائیں ۔اچھے کاموں کی تفصیل جاننے کے لیے بہت مفید ہو گاکہ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی اس سے متعلقہ کتابوں اور پمفلٹس کے مطالعہ کاآغاز کردیاجائے۔
|
نیت و ارادہ:۔ رمضان المبارک کے استقبال کے لیے سب سے پہلا کا م یہ ہے کہ ابھی سے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی خالص نیت اور پختہ ارادہ کر لینا چاہئے۔یہ وہ طاقت ہے جس کے بغیر کوئی راستہ طے نہیں ہو سکتا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق نیت پر ہی تمام اعمال کا دارو مدارہے۔ ہم رمضان کے پیغام، اور اس کی عظمت و برکت کے احساس کو تازہ کر نے کیلئے ایسے کام کرنے کاعزم و ارادہ کریںکہ جن سے نہ صرف ہم خود بلکہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کے لئے بھی تقویٰ کے حصول میں ممد ومعاون بن سکیں،یہی روزے کا حاصل اورمطلوب ہے۔سب مسلمان جانتے ہیں کہ تقویٰ قلب و روح اور عمل و کردار کی اس قوت کا نام ہے ، جس سے غلط، بُرے اور نقصان دہ کاموں سے بچ کر استقامت کے ساتھ صحیح ،اچھے اور نفع بخش کام کرنے لگ جائیں ۔اچھے کاموں کی تفصیل جاننے کے لیے بہت مفید ہو گاکہ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی اس سے متعلقہ کتابوں اور پمفلٹس کے مطالعہ کاآغازکردیاجائے۔مولانا مودودیؒ کی کتب، کتاب الصوم،فضائل قرآن، خطبات اور اسلامی عبادات پر ایک تحقیقی نظر اور اسی طرح مولانا اشرف علی تھانوی سمیت دیگرزعمائے امت کی کتابوں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ قرآن مجید سے گہری وابستگی : رمضان اور قرآن کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔قرآن مجید اسی ماہِ مبارک میں نازل کیا گیا ۔ نمازتراویح قرآن پرتوجہ مرکوز کرنے کا بہترین نسخہ ہے۔نماز تراویح کی پابندی سے کم از کم اتنا ضرور ہوتا ہے کہ روزہ داراس ماہ مبارک میں ایک بارپورا قرآن سن لیتے ہیں۔اس مہینے کا اصل حاصل ہی قرآن سننا اور پڑھنا، قرآن سیکھنااور اس پرعمل کرنے کی استعداد پیدا کرنا ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ذریعے ہی لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا تھا۔ ہمیں بھی اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے اور وطن عزیز میں ایسی تبدیلی لانے کے لیے جو ملک وقوم کی حالت بدل دے قرآن کی راہنمائی میں آگے بڑھنا اور اس کی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا۔ دوران رمضان روزانہ قرآن کا کچھ حصہ ترجمے کے ساتھ سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرنی اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دینی چاہئے ۔یکم رمضان سے ہی اس ارادے کے ساتھ قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھنا شروع کر دیا جائے کہ آئندہ رمضان تک پورا قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھنے کی استعداد پیدا ہو جائے،یہ نہ ہو سکے تو بھی چار ،پانچ آیات روزانہ ترجمے کے ساتھ پڑھنا اپنا معمول بنا لینا چاہئے،ان شا ء اللہ ایک دن آئے گا کہ آپ بھی اللہ کے پیغام کو براہ راست سمجھنے کے قابل ہو جائیں گے…اللہ تعالیٰ کی مدد بھی ضرور شامل حال ہوگی۔جو لوگ اللہ کے راستے میں چلنے کی کوشش کرتے ہیں ، اللہ ان کی ضرور رہنمائی کرتا ہے۔ رمضان نیکیوں کا موسم بہار ہے، اور روزے کی وجہ سے لوگوں کے دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔اس قلبی کیفیت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اگر محلہ کے چند اہل خیر مل کردس یاسہ روزہ فہم قرآن کلاس کا اہتمام کرلیں تو یہ قرآن فہمی اور قرآن سے قربت پیدا کرنے کیلئے بہترین ہوگا۔ سب روزہ داروں کو باجماعت تراویح کا خاص اہتمام کرنا چاہئے ،کچھ لوگ افطاری کے بعد زیادہ سیر ہوکر کھالینے کی وجہ سے ہونے والی سستی اور طبیعت کے بوجھل پن کی وجہ سے گھر میں ہی تراویح پڑھ لینے میں سہولت سمجھتے ہیں حالانکہ وہ اپنے اس رویے سے نہ صرف جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے حکم خداوندی (ورکعوامع الراکعین)کو پس پشت ڈال دیتے ہیں بلکہ تراویح میں قرآن کریم سننے کی سعادت سے بھی محروم رہتے ہیں ۔نماز تراویح قرآن کی دعوت کو عام کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔…اکثر مساجد میں نماز تراویح میں مکمل قرآن پاک سنایا اور سنا جاتاہے۔جس دن قرآن کا آخری پارہ تلاوت کیا جاتا ہے،اس دن ختم قرآن کی پُروقار اور ایمان افروز تقاریب منعقد ہوتی ہیں۔ ہمیں بھی چاہئے کہ اپنے اردگرد مساجد میں ہونے والی ایسی تقاریب میں شرکت کریںاورعوام الناس کو بھی ان میں شرکت کی دعوت دیں۔ برائیوں کا بہترین علاج: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ’’ روزہ( گناہوں سے بچنے کے لیے) ڈھال ہے،پس اس کو ڈھال بنائو۔روزہ دار بدکلامی کرے نہ چیخے چلائے، اگر کوئی اس کو براکہے یا اس سے لڑے تو یہ کہہ کر الگ ہو جائے کہ میں روزے سے ہوں،میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ ان برے کاموں میں مشغول ہوں۔‘‘ ہر مسلمان کو اپنی خامیوں کی ایک فہرست بنانا چاہئے اوراکٹھے نہیں تو ایک ایک کر کے ان سے بچنے کا اہتمام کرے۔…غیبت ، چغلی ، لعن طعن ،بدگمانی ، تکبر ، ظلم ، غصہ ،جھوٹ ،وعدہ خلافی ،بد نگاہی، حسد ،بغض وغیرہ…یہ سب اخلاقی برائیاں ہیں… اور ماہ رمضان ان برائیوں کا علاج کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے … اس موقع کو ضائع مت کیجیے۔ باجماعت نمازوں کااہتمام: اذان نماز کی صرف اطلاع نہیں ہے بلکہ دیگر کام چھوڑ کر مساجد کی طرف آنے کا حکم ہے (حیی علی الصلوٰۃ حیی علی الفلاح)… ہمیں بھی چاہئے کہ اذان کے بعد سب کام چھوڑ کر مسجد پہنچیں اور پہلی صف میں نماز ادا کرنے کی کوشش کریںتاہم تکبیر تحریمہ کسی صورت فوت نہ ہونے پائے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا فرمان ہے کہ’’ جس شخص کو یہ بات پسند ہوکہ وہ مطیع و فرمانبردار بندے کی حیثیت سے روزِ قیامت اللہ سے ملے،تو اس کو پانچوں نمازوں کی دیکھ بھال کرنی چاہیے اور انہیں مسجد میںجماعت کے ساتھ ادا کرنا چاہیے…اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھو گے جیسا کہ یہ منافق لوگ اپنے گھروں میں نماز پڑھتے ہیںتو تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے کو چھوڑ دو گے اور اگر تم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے کو چھوڑا تو صراط مستقیم کو گم کر بیٹھوگے۔‘‘حضور ﷺ نے اذان سن کر مسجد پہنچنے کی طاقت رکھنے کے باوجود گھر میں نماز پڑھنے کو سخت ناپسند فرمایا ہے ۔ …گھر سے وضو کرکے آنامستحب ہے اور مسجد میں پہنچ کر تحیۃ المسجدکے دو نوافل ادا کرنا چاہئے۔باقاعدگی کے ساتھ نمازِ تراویح کا اہتمام کیا جائے۔آنحضرتؐنے فرمایا ہے کہ ’’جوشخص یہ نماز[تراویح] پڑھتا ہے اس کو پوری رات کے قیام کا ثواب ملے گا۔‘‘ …رات کے آخری تہائی حصے میں پڑھی جانے والی نمازتہجد بھی تقویٰ کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے، اس کا بھی التزام کرنے کی کوشش کریں۔ رمضان المبارک میں تو اس کا اجر کئی گنازیادہ ہے۔
No comments:
Post a Comment