برما میں مظالم اور آنگ سان کی بے حسی
- گزشتہ ماہ ایک ایسی عورت یورپ میں داخل ہوئی جس کو 22برس تک اپنے گھر کی دہلیز دیکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی، اس عورت کا نام آنگ سان سوکی ہے اور اس عورت کا تعلق برما سے ہے جسے میانمار بھی کہا جاتا ہے، اور اس عورت کو امن کا نوبل پرائز بھی دیا گیا ہے۔ آنگ سان سوکی کو برما کی فوجی حکومت نے بائیس برس تک ان کے گھر میں قید رکھا اور دنیا کی مہذب تہذیب نے برما پر اس قدر دباوُ نہیں ڈالا جس کے تحت ایک ڈکٹیٹر حکومت انہیں رہا کرتی،اس کی وجہ یہ تھی کہ دنیا کی مہذب حکومتوں کو ابھی ان سے کوئی کام نہیں لینا تھا تاہم 22 برس بعددنیا کا سیاسی نقشہ تبدیل ہوا تو برما میں جس عورت کو 22 برس تک اپنے گھر کی دہلیز دیکھنے تک کی اجازت نہیں تھی اس کو رہائی دلوائی گئی اور برما میں جمہوریت کی داغ بیل ، ڈال دی گئی جس کا سہرا امریکا کے بعد یورپی حکومتوں کے سر ہے،کیونکہ ان ممالک کے علاوہ دنیا کی تمام حکومتیں اس کرہ ارض پر کچرے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں جنہیں امریکا اور یورپ کسی کام میں ری سائیکلنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں،آنگ سان سوکی کا پہلا دورہ سوئٹزر لینڈ کا تھا جہاں دنیا کی قسمتوں کے فیصلے ہوتے اور جہاں انسانی حقوق کے چارٹر تیار ہوتے ہیں اور جنگوں کے بعدطاقتور ممالک کمزور ممالک کے اعلی عہدے داروں سے مستقبل کے معاہدے کرتے ہیں ۔دنیا کے طاقتور ترین شخصیتیں سیر و تفریح کے لیے آتی ہیں اور جہاں ہندوستان کی اکثر فلموں کی شوٹنگ ہوتی ہے، سوئٹزر لینڈ کے اس مقام کو جنیوا کہا جاتا ہے یہاں فرنچ زبان ایسے بولی جاتی ہے جیسے پیرس میں کیونکہ یہ مقام فرانس کے ساتھ لگتاہے اس کا ایک بس اسٹاپ آدھا فرانس میں اور آدھا سوئٹزر لینڈ میں ہے ،اسی کے ساتھ یہاں جرمن زبان بھی بولی جاتی ہے ۔ آنگ سان سوکی کے اس تاریخی دورے کی جو سب سے حیرت انگیز بات تھی جس نے خود آونگ سان کی شخصیت پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے وہ یہ تھی کہ اپنے اس تاریخی دورے میں آنگ سان نے برما میں ہزاروں کی تعداد میں قتل کیے جانے والے مسلمانوں کا ذکر تک نہیں کیا، اور نہ ہی انہوں نے برما میںخونریز ہنگاموں کے دوران قتل کیے اور ریپ کی جانے والی ہزاروں خواتین اور اغوا اور قتل کیے جانے والے ہزاروں بچوں کی حالت پر کسی افسوس کا اظہارکیا۔ جمہوریت کے نام پر بائیس برس تک قید تنہائی میں رہنے والی اس عورت کے کردار پر عنقریب ضرور انگلیاں اٹھیں گی اور ایسا کرنے والا حق بجانب ہوگا۔ آنگ سان کے اس کردار نے بہت سے سوالوں کو جنم دیا ہے کہ کیا جمہوریت کا نام دنیاکو دھوکا دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؟کیا اقوام متحدہ خود اس نام کا استعمال انسانیت کے خلاف استحصال کے طور پر استعمال کررہی ہے؟اور کیا خود بائیس برس تک جمہوریت کے نام پر قید تنہائی کاٹنے والی ایک عورت جسے دوسری مظلوم عورتوں کا احساس سب سے زیادہ ہونا چاہیے اب بڑی طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہونے جارہی ہے؟ اور اگر ایسا ہے توکیا آنے والے وقت میں برما کی نومولود جمہوریت بھی ڈکٹیٹر شپ کی ایک شکل ہوگی؟ برما میں قتل ہونے سے بچ جانے والے خاندان اور ایسے بچے ،بوڑھے اور خواتین کے لیے اس وقت جو سب سے بڑی مصیبت ہے وہ روٹی ‘کپڑا اور مکان نہیں بلکہ یہ سوال ہے کہ وہ جائیں کہاں ؟ ایک برمی میاں بیوی جو کسی طرح جان بچا کر یورپ آنے میں کامیاب ہوئے ان سے بات کرنے کا موقع ملا تو ان کا کہنا تھا کہ وہاں مسلمانوں کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جائیں کہاں ؟ ان کا کہنا تھا کہ جان بچانے کے لیے نزدیک ترین جگہ بنگلہ دیش ہے لیکن بنگلہ دیش کی حکومت اب برمی مسلمانوں کو بنگلہ دیش میں داخل نہیں ہونے دے رہی حالانکہ اقوام متحدہ سے بنگلہ دیش کی اس بارے میں بات چیت ہوئی ہے کہ وہ برمی مسلمانوں کو پناہ دیگا لیکن بنگلہ دیش کے ایسا نہ کرنے کی وجہ سے برمی مسلمان دوہری مصیبت میں ہیں کیونکہ برما کی حکومت اور مسلمانوں کے خلاف بدھ مت کے پیروکاروں کو معلوم ہوگیا ہے کہ برمی مسلمانوں کے فرار کے تمام راستے مسدود ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے ان کے ظلم میں مزید شدت آئی ہے۔ ادھر مغربی میڈیا جس کی طاقت ایسی ہے کہ امریکا اور یورپی ممالک کے لیے پر جنگوں کے لیے راستہ صاف کرتا ہے اور جب چاہتا ہے امن اور صلح میں اپنا کردار ادا کرتا ہے اس میڈیا میں کہیں بھی برما میں ہونے والے انسانیت سوز مظالم پر قابل ذکرکردار نہیں حتی کہ مغرب میں اخباروں کے صفحہ اول پر برما کا کوئی ذکر نہیں ‘ اگر ہے تو طالبان کے خلاف اور اگر ہے تو پاکستانی فوج کے خلاف اور ہے تو پاکستان میں پھیلنے والی فحاشی کے افکار کا ذکر ہے، تیل کے کنووں پر بیٹھنے والے نیند میں غرق ہیں، ایٹمی بم رکھنے والے مسلمان ملک کی زبان کانٹا بنی ہوئی ہے اور انسانیت کی محبت میں صبح و شام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیمیں بیان بازی سے کام چلا رہی ہیں، یہاں مہذب دنیا سے سوال ہے کہ وہ ان مظالم کو کب روکے گی؟ جب برما میں کوئی دہشت گرد یا طالبان بن جائے گا ؟ یا جب کوئی طالبان یا دہشت گرد بن کر برما جائے گا اور خود کو کسی مندر یا ٹیمپل یا کسی مصروف بازار میں اڑا دے گا ؟تب اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی انسانی حقوق کی تنظیموں اور مسلمانوں کی او آئی سی کو ہوش آئے گا ؟ یا جب کوئی انسانیت کے خون کا بدلہ لینے کے لیے انسانیت کا خون کرے گا تب مہذب دنیا اس خون ریزی کو بندکریگی اور میڈیاکا ضمیر اس کو جگائے گا؟ کیا تہذیب کا ضمیر اس قدر مردہ ہو گیا ہے کہ انسانیت کو قتل ہوتے عورتوں کی آبرو لٹتے دیکھنے اور بچوں کو اغوا ہوتے دیکھنے میں اس کو مزہ آتا ہے اس کی تسکین ہوتی ہے ؟لیکن مہذب کہلانے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب ایسا ہوتا ہے تو پھر حزب اللہ،طالبان،حماس اور القاعدہ جیسے لوگ پیدا ہوتے ہیں جنہیں تہذہب کے دعویدار دہشت گرد کہتے ہیں ۔ دنیا میں ایسے لوگ جن کے دلوں اور ضمیر میں ابھی تک انسانیت کا کچھ درد و غم ہے آنگ سان سے یہ امید رکھتے ہیں کہ ان کو ملنے والا نوبل پرائز اس لیے دیا گیا کہ وہ امن اور بھائی چارے کی علمبردار ہیں اور وہ برما میں ہونے والے انسانیت کے اس قتال، عورتوں کی لٹنے والی آبرووں اور بچوں بوڑھوں پر ہونے والے مظالم پر بھی آواز اٹھائیں گی اور وہ ثابت کریں گی کہ ان کی نظر میں انسانیت امن اور بھائی چارہ سیاست اور نوبل پرائز سے بالا تر ہے۔
|
No comments:
Post a Comment