Search This Blog

Tuesday 31 July 2012

نینوٹیکنالوجی :دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا؟

نینوٹیکنالوجی :دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا؟


نینو ٹیکنالوجی مادہ کی نینواسکیل پر جوڑ توڑ کوکہتے ہیں۔ اگر ہم تین یا چار اٹیم کو ایک قطار میں رکھ کر اس قطار کی لمبائی ناپیں تو وہ ایک عام میٹر کا ایک اربواںحصہ ہوگی جسے ہم نینو میٹر کہتے ہیں۔
اس لیے اگر ہم ایسی مادی چیزیں ایجاد کریں جن میں ہم اٹیم کو ایک مقررہ جگہ نصب کریں۔ آخر الامر نینو ٹیکنالوجی کا مطلب ایسی ایجاد کرنا جس کے کام کرنے کے لیے ہر اٹیم کا ہردفعہ اس مقررہ جگہ پر موجود ہوتا ضروری ہے۔اس کاریگری کا نام نینو ٹیکنالوجی ہے۔پچھلے کچھ سالوں سے نینو ٹیکنالوجی نے جو دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی ہے اس سے صاف لگنے لگا تھا کہ بیسویں صدی کے آخری سالوں میں انفارمیشن ٹیکنولوجی نے جو بڑا انقلاب پیدا کیا تھا، اکیسویں صدی میں نینو ٹیکنالوجی اس سے بڑا انقلاب لائے گا۔ ایسا انقلاب جو ہر صنعت اور زندگی کے ہر معاملے کو ایک نئی زمین پر لاکر کھڑا کرے گا۔
آئی ٹی نے واقعی سب کچھ بدل ڈالا۔ غور کرنے پر پتہ چلے گا کہ اب کچھ بچا ہی نہیں جس تک آئی ٹی کی رسائی نہ ہو۔ آج کی معیشتی مندی نے جہاں اور صنعتوں کی ترقی پر بریک لگایا ہے، وہیں آئی ٹی پر بھی اثر انداز ہوئی ہے۔
نینو ٹیکنالوجی کا حال یہ ہے کہ اس کی وجہ سے ہر ٹیکاولوجی بدل دے گی۔اس ٹیکنالوجی کا مستقبل بہت ہی روشن مانا جارہا ہے۔ اس کے باوجود یہ سوال بار بار اٹھنے لگا ہے کہ اس تکنیک سے بنے پیداوار کتنے محفوظ ہیں۔ کئی خاص ریسرچوں اور مختلف ملکوں کی حکومتی رپورٹوں میں اس کے حفاظتی پہلو پر شک ظاہر کیا گیا ہے۔ آئی ٹی کی طرح نینو بھی دنیا بھر میں حکومتی اختیارات سے دور رہی۔ لیکن اب اس پر کچھ قوانین لاگو کرنے کی بات چل رہی ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے لوگوں کے صحت اور ماحول کو بھاری نقصان پہنچ سکتا ہے۔ نینورامیٹریل کچامال اور اصل وہ ساری چیزی ہیں جو جاندار اور بے جان کے پیدائش میں خاص بلڈنگ بلاگ یا مکان میں استعمال ہونے والی اینٹ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ نینو میں مادہ کا استعمال بہت ہی چھوٹی سطح پر ہوتا ہے۔ ایک نینو میٹر ایک میٹر کا اربواں حصہ ہوتا ہے، یعنی ہائیڈروجن کے دس ایٹم ایک کے بعد ایک جوڑیں تو وہ ایک نینو میٹر ہوگا۔ ایک ڈی این اے مالیکویل ڈھائی نینو میڑ ہوتا ہے۔
خون کا ایک خلیہ پانچ ہزار نینو میٹر کا ہوتا ہے اور انسان کے ایک اکیلے بال کی موٹائی 80ہزار نینو میٹر ہوتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ نینو انجینئرنگ میں کس طرح انتہائی چھوٹی سطح پر کام ہوتا ہے۔ نینو میں مادہ کا انتہائی چھوٹا سائز تو ہوتا ہی ہے اس کے صفات بھی بدل جاتے ہیں۔ تابنے کو نینو کے درجہ پر لانے پر وہ اتنا لچیلا ہوجاتا ہے کہ کمرے کی حرارت پر ہی اسے کھینچ کر عام تانبے کے مقابلے میں پچاس گنا لمبا تار بناسکتے ہیں۔ نینو کے درجے پر سیدھی سادی بے ضرر چیزیں بھی بہت زہریلی ہوسکتی ہیں۔
اس کے ذریعے جاندار خلیوں اور دوسرے ماددوں کو بے جان ایٹموں کے ساتھ جوڑ کر کئی چیزیں بنائی جارہی ہیں۔ آج اس ٹیکنالوجی سے تیار کئے گئے سامان بازار میں آنے لگے ہیں۔ چائے، کافی اور کھانے پینے کے چیزوں کے گرنے سے پڑنے والے نشان نہیں قبول کرنے والے کپڑے اور دوا سے لے کر سنگار ‘فیشن’ کی چیزیں تک بننے لگی ہیں۔
ایسا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس طرح سے بنی دوا یاں کریم جسم کے کچھ خلیوں میں گھس کر انہیں تہس نہس کرسکتے ہیں، ڈی این اے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں یا بلڈ برین بیرئر نام کی اس چیز کو ختم کرسکتے ہیں۔ دماغ اور خون کے درمیان بنائی گئی نازک سی اس سرحد کو پار کرنا ادویات کے لئے مشکل ہے۔ کھانے پینے اور ادویات میں اس ٹیکنالوجی کے استعمال ہونے پر جہاں خوش ہونے والے بہت ہیں، وہیں سائنسدانوں اور ماحولیات کا خیال کرنے والوں کو فکر ہورہی ہے۔
ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ ٹیکنالوجی جتنی زیادہ طاقتور ہوتی ہے، انسانی معاشرے پر اس کے اثرات بھی اتنے ہی ہمہ گیر ہوتے ہیں۔ سٹین فورڈ یونی ورسٹی کے پروفیسر پال سیفو کہتے ہیں کہ یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ ہم نینو ٹیکنالوجی کے استعمال کے بارے میں پالیسیاں وضع کریں۔
ان کا خیال ہے کہ ’’گذشتہ پچاس برسوں میں ہمیں ایٹم بم اور ایٹمی ٹیکنالوجی سے جو سبق حاصل ہوئے ہیں، وہ بہت اہم ہیں۔ ہم نے پہلے ایٹم بم بنایا اور پھر ہم نے ضابطے بنائے تا کہ لوگ اندھا دھند بم برسانا نہ شروع کر دیں۔ اور ہم اب بھی نہیں جانتے کہ اِس کہانی کا اختتام کہاں ہو گا۔نئی ٹیکنالوجیوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوگا۔ لیکن ان تمام باتوں کو جاننے کے باوجود نینو ٹیکنالوجی کو اہمیت دی جا رہی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ نینو ٹیکنالوجی کے نقصانات کے مقابلے میں فائدے زیادہ ہیں۔
 جومصنوعات اس ٹیکنالوجی سے بنائی جاسکتی ہیں ان میں بڑے کمپیوٹینگ پاور کمپوٹر ، لوہے سے دس گنی مضبوط دھاتیں لیکن اس سے کئی زیادہ ہلکی، بائیلوجیکل اور فوڈ ٹشّو۔
یہ تمام مصنوعات بہت ہی سستی ہوں گی کیونکہ وہ مالیکیولر مشین سے بنائی جائیں گی۔ ان کو بنانے کا مواد ضائع شدہ اشیاء یا مٹی سے ہوگا۔ اور توانائی سورج سے۔ اس ضائع شدہ اشیاء اور مٹی کے اٹیم کی ترتیب کو تبدیل کرکے فائدہ مند چیزیں بن سکتی ہیں۔جس طرح درخت اور کھیتی باڑی میں مٹی، پانی اور سورج سے ملنے والی توانائی کے ساتھ اٹیم کی ترتیب کے تبدیل ہونے کی وجہ سے لکڑی اور اناج بنتا ہے۔
اس وقت مالیکیوکر مشین زندہ سیل میں ہیں اور نینالوجیسٹ قدرت اور نشونما ہیں۔ حقیقت میں یہ قدرتی تبدیلیاں ہم نقل کرنا چاہتے ہیں۔
اس بات کو سمجھنے میں کافی ترقی ہوچکی ہے کہ مالیکول کو کس طرح جوڑا اور ترتیب دیا جائے تاکہ کہ وہ ا یک پیچ در پیچ بناؤٹ میں تبدیل ہوجائیں۔ بہت سے سائنس داں ‘‘ نینو اسٹرکچرز‘‘ کو بنانے میں مشغول ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کچھ سالوں میں ‘‘مالیکیولر الیکٹرانکس‘‘ بہت چھوٹے کمپیوٹر سرکیٹس اور سنسر بنانے لگے گی۔ سائنس دانوں نے اب ایسی مائکرواسکوپس بنالیں ہیں جن کی مدد سے وہ نہ صرف اٹیموں کو ایک دوسرے سے علاحیدہ دیکھ سکتے ہیں بلکے سائنس دان ان ایٹموں کو ترتیب بھی دے سکتے ہیں۔
ریچرڈ فینمین پہلا سائنس دان تھا جس نے1969 میں کیل ٹیک میں امریکن فزیکل سوسائٹی سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کے ایٹموں کو مخصوص ترتیب میں بٹھایا جاسکتا ہے۔ اْنیس سوچھیاسی میں جب اریک ڈریکسلر ( جو فورسائٹ انسٹی ٹیوٹ کے چیرمین ہیں) ایم۔آئی۔ٹی میں تھے انہوں نے انجن آف کرِیشن لکھی۔ اس کتاب میں انہوں نے یہ بتایا کہ اس سب کا کیا مطلب ہے۔ اْس وقت سائنس دانوں میں اس طرح کی سوچ کے لیے تیار نہیں تھے۔ مگر نینواسٹرکچر اور مالِکیولر الیکٹرانکس میں ترقی ہونے سے اس اب ایسی سوچ کو قبول کیا جاتا ہے۔
ہمارے گھروں میں نینو ٹیکنالوجی سے کئی تبدیلیاں آئیں گی۔ بیس پچیس سال میں مضبوط اشیاء ، پاور فل کمپیوٹروں اور ساتھ ساتھ مینوفیکچرینگ کی قیمت کم ہونے سے چھوٹے مگر اسمارٹ مٹیریل سے مکانات بنائے جائیں گے۔ جن کی دیواریں چھپ سکیں گی۔ ٹی وی کاغذ سے بھی پتلے، خود بخود صاف ہونے والے فرش ، گھر کے کچرے کواسمبلروں کی مدد سے دوسری قابل استعمال اشیا جیسے صاف پانی اور غذا میں تبدیلی ممکن ہوجائیگی۔
 اگر آپ کا علاقہ زلزلے کا شکار ہوا ہے تو سمارٹ مضبوط اشیاء سے بنے گھراپنے آپ کو ٹھیک کرلیں گے۔ گھر میں موجود چیزیں ہمارے موڈ اور ضروریات کے مطابق تبدیل ہوسکیں گی۔ گھر کی تمام اشیاء مائیکرو ویو کے برابر مالیکیولر مینوفیکچرینگ سسٹم سے بنا سکیں گے۔ کاروں میں حفاظتی چیزیں ہوں گی۔ ہوا میں معلق ننی منی مشین ہوں گی جو حادثے کے دوران آپ کے اردگرد پھیل کر آپ کو چوٹ لگنے سے بچائیں گی۔ کاریں خود کو درست کرلیں گی۔ بلکہ ان کو چلانے کی بھی ضرورت ختم ہوجائیگی۔ اور وہ اپنا ایندھن خود بنائیں گی۔
نینو مشین ہمارے سبزے کو نقصان دینے والے کیڑوں سے بچائیں گی۔ نینوں مشین ان کیڑوں کو کھا جائیں گی جو نقصان دہ ہیں۔ ہم اپنی فضا کو صاف کرسکیں گے۔ ہم تمام زمینوں کے اجزا صحیح کرسکیں گے تاکہ ہر زمین کاشت کاری کے قابل ہوسکے۔ہم نابود ہوئے نباتات اور حیوانوں کو پھر سے لاسکیں گے۔ اوزون گیس کی سطح کو درست کرسکیں گے اور نیوکلیر وسٹ کا مسلہ حل ہوجائے گا۔
نینوٹیکنالوجی میں چیزیں بنانے کے لیے سب سے مفید ایٹم ‘‘ کاربن‘‘ ہے۔ کاربن ڈائی اکسائیڈ بھی کاربن سے بنتا ہے۔ جس کا نتیجہ ‘‘ گرین ہاوس افیکٹ‘‘ ہے نینو ٹیکنالوجی سے آب و ہوا میں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو مفید ہوا میں تبدیل کیا جاسکے گا۔
 مالیکیولر مینوفکچرینگ چیزوں کی ساخت میں ایٹموں کو ترتیب دیتی ہے۔اس طرح کی مینوفکچرینگ میں کوئی ویسٹ نہیں پیدا ہوگا۔
نینو ٹیک کی بایوٹیکنالوجی میں حد سے زیادہ استعمال ہوگا۔ ہمارے اپنے جسم کے سیل کے برابر مائکرواسکاپک مشین ہماری بدن کے اندر سفر کرسکیں گی اور ہماری بیماریوں سے متعلق معلومات جمع کریں گی۔ اور پھرمالیکیولرسرجری کی مدد سے ان کو درست کرسکیں گی۔ وائرس ، بِکٹیریا، کنسرسیل کی شناخت کر کے ان کو بغیرصحت مند ٹیسو پر اثر انداز ہوئے نکالا جاسکے گا۔ مالیکول کے تنظیم کو صحیح کرکے عمر کو بھی ساکن کیا جاسکے گا۔ اور ہم خیالات کے ذریعہ ہمارے جسم کے اندر کی نینو مشینوں سے بات کرسکیں گے۔ کچھ لوگ اپنے فطری عضلہ کو مضبوط مادہ سے تبدیل کرنا چائیں گے تاکہ وہ جہازوں سے کود سکیں اور زمین پر قدم رکھیں اور چلنے لگیں۔ یا ایک تیرنے والا اپنے جسم میں غیرفطری بلڈ سیل میں اتنی آکسیجن جما کرسکے کے وہ پانی کی سطح کے نیچے آدھے گھنٹے رہ سکے۔
نینو ٹیکنالوجی ہمارے دماغ کا حصہ بن جائے گی۔ نینو ٹیکنالوجسٹوں کا کہنا ہے ایک دن لائبری آف کانگرس کی ساری کتابیں بدن کے ایک سیل کے برابر کمپیوٹر میں رکھی جاسکیں گی۔ یہ کمپیوٹر انسانی دماغ کی طرح ہوگا۔ شروع شروع میں ایسے کمپیوٹر ہماری جلد کو اسکرین کی طرح استعمال کریں گے۔ لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ دماغ سے بغیر کسی ذرائع کے بات چیت کریں گے۔ ہر انسان کے پاس تمام علم ہوگااور اس کا دماغ آج کے انسان سے میں زیادہ نالج رکھے گا۔
بعض سائنسدان کا کہنا ہے آنے والے دس سالوں میں ہم اسمبلر کا پہلا ماڈل بنالیں گے۔ بعض سائنسدان کا کہنا ہے کے ایسا کبھی بھی ممکن نہیں ہوگا۔ مگر ہرسائنسدان اس بات پر متفق ہے کہ ہم نینوٹیکنالوجی کے دور میں پہنچ گئے ہیں۔ اب ہم ان اسملبر سے پیچیدہ نینو روباٹ بنائیں گے۔ یہ سافٹ وئیر انجینئروں پر منحصرہوگا یا کتنی جلدی ہم ارٹی فیشیل انٹیلی جنس رکھنے والے کمپیوٹر بناتے ہیں۔  

No comments:

Post a Comment