آمدِ صیام مرحبا بڑے ظالم کو مارا نفسِ امارہ کو گرمارا بشارت بشیر
نفس کے سرکش ،بے لگام اور ڈھیٹ گھوڑے کو لگام دینے کے لئے گر دشِ دوران کو ٹال کر ایک بار پھر ماہِ صیام جلوہ گر ہو رہا ہے۔دُنیا کے ہر گوشے میں ایمان و اسلام کے متوالے اِس عرصۂ رحمت کی آمد کے لئے گیارہ ماہ چشم براہ رہے۔ صیام المبارک بند گا نِ خدا کو پھر سے اللہ کے ساتھ ٹوٹا رشتہ جو ڑ نے اور پھر جوڑ کر اسے اطاعت شعارزندگی کا مرکز ومحور بنا نے کا الٰہی دستو رالعمل ہے ۔ لفظ صیام ،صوم سے نکلا ہے اور اس کے لغوی معنیٰ کسی شئے سے رُکنا یا ترک کرنا ہے۔علماء نے لکھا ہے کہ اہل عرب اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو بھوک پیاس کا عادی بنانے کے لئے باقاعدہ ان کی تربیت کرتے تاکہ مشکل اوقات میں وہ زیادہ سختی برداشت کرنے کے قابل بن جائیں۔اس طرح وہ اپنے گھوڑوں کو تندہواؤں سے نبرو آزماہونے کی تربیت بھی ایسے ہی کر دیتے ۔یہ عمل سفر اور جنگ میں بڑا کا م دیتا جب کسی بھی فرد بشر کوہوا کے تندو تیزتھپیڑوں کے ساتھ سابقہ پیش آئے۔ یہ اسے ثابت قدم رہنے اور اپنا کا م احسن طور انجام دینے کا اہل بناتا تھا ۔فاقہ اور پیاس کے عمل سے گذر نے والے اس گھوڑے کو فرس الصائم کہا جاتا تھا اور اصطلاح شرعی میں صوم یا روزہ اُس شرعی عمل کو کہتے ہیں کہ انسان طلوع فجر سے غروب آفتاب تک اپنے کو کھانے پینے اور زن و شو کے مشاغل سے روکے رہے ۔اس طرح روزہ دار کو جہاں ان اعما ل کا پا بند بنایا گیا ہے، وہیں اسے غیبت ،فحش گوئی،بدزبانی اور تمام گناہوں سے باز رہنے کی تاکید وتلقین بھی ہے۔
روزہ جسم و بدن کی بیماریوں کا زود اثر علاج ہی نہیںبلکہ ان سے ساری امت میں اولوالعز می ،ثبات قدمی اور ضبطِ نفس کی روح تازہ ہوتی ہے۔ وحدت ِامت کے لئے لازم تھاکہ یہ حُکم ایک ساتھ ایک معینہ مدت کے لئے ساری اُمت کو دیا جاتا ۔علم الا جتماع کے مبصر ین جانتے ہیں کہ وحدتِ امت ، تنظیم ملت اور ایک مثالی ڈسپلن کے پُر و قار اظہار کے لئے سب ایک ساتھ اجتما عیت کی روح کے ساتھ اس روحانی فعل اورعمل میں شامل ہوں، یہ بھی روزو ں کا ایک منشا ء ہے ۔ مغرب کے بعض مادہ پر ستوں کا یہ اعتراض کہ روزہ کے عمل سے انسان کی صلاحیتِ کا ر اور اس کے عزم و ہمت میں کمی واقع ہوتی ہے اور معاشرہ اس کا متحمل نہیں ،وہ یہ بات جان کر چلیں کہ انسان نرے تن و توش کا نام نہیں بلکہ اصل جوہر اس کی روح ہے۔ سوال یہ ہے کہ اپنے بدن کو فربہ ،چُست،توانا اور صحت مندرکھنے کے لئے انسان ساری عمر لذیذ و مرغن غذاؤں اور مقوی ما کولات و مشروبات کا اہتمام کرتا رہتا ہے اور بسا اوقات پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لئے حرام و حلال کی تمیز کے بغیر شب و روز بر سر جدو جہد رہتا ہے تو کیا روح کی طاقت و توانائی ، تازگی اور شادابی کے لئے کسی غذا،کسی علاج اور کسی دوا کی ضرورت نہیں؟اور اگر جواب یہ جانتے ہوئے اثبات میں ہے کہ انسان کے اندر روح کا جو ہر ارضی نہیں بلکہ آسمانی ہے تو اس کی غذائیں یہ ماد لحم نہیں بلکہ اپنے خالق سے یہ روح جتنی قریب تر ہو اتنا ہی نشو ؤنما پائے گی۔روح کو تویہ چاہیے کہ دن بدن لطافت کی جانب محو ِپر واز ہوا ور وصل و وصال کا وہ سرور ازلی حاصل کرسکے جس کا نام شریعت کی اصطلاح میں جنت ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب یہ تن و توش کے سفلی جذبات و میلانات سے آزاد ہو اور جب تک یہ روح سفلی پابندیوں کی اسیر رہے گی ،فطری بلند پروازیاں اس کے نصیب میں نہیں آپائیں گی جو اس کی ا صل مطلوب و مقصود اور غا یت ومرادہیں۔
روزہ دراصل انسان کے اندر بے مثال قوت ارادی پیدا کردیتاہے ، شہوات و منکرات کے بادِسموم کا کوئی جھونکا اور شروانتشار کی کوئی قوی تر طاقت بھی اپنے مقام سے اُسے ذرابر ا بر ہلانے میں کامیاب نہیں ہوتی ۔وہ خواہشات کے ’’بادشاہ‘‘کے سامنے غلام بے دام بن کے جی حضوری کے کام میں نہیں لگارہتا ہے۔یہی عمل اس کے اندر ـصبر و تقویٰ کے اعلیٰ ترین صفات پیدا کردیتا ہے کہ خود خدائے قدوس کا ارشاد ہے کہ’’روزہ میرے لئے اور میں خود اس کا اجردوں گا‘‘ہاںیہ وعدہ آفتاب ذرے سے نہیں،شاہ گداسے نہیں بلکہ معبود عبد سے ، خالق مخلوق سے کر رہا ہے۔بقول ایک عظیم اسلامی مفکر کے کہ ’’زمینوں اور آسمانوں کی ساری باشاہتیں ساری برکتیں مل کر کیا اس اجر کے سامنے پیش کی جاسکتی ہیں؟کیسی درد ناک نادانی ہوگی کہ اتنے ارزاں سودے کو بھی اپنی غفلت و بُرائی کی نذر کردیا جائے‘‘۔حق بات تو یہ ہے کہ انسان اپنے تن و توش کی توانائی کے لئے جس قدر سامان کرے گا ،اس کی روحانی صفات اتنے ہی مضمحل اور کمزور ہوتی جائیں گی ۔فاقہ مستی اور بھوک کا روحانی ارتقا ء میں ایک خاص مقام ہے۔حضرت جنید بغدادی کا مشہور قول ہے :مجھے جو بھی سکھ چین ملا سب بھوک اور گرسنگی سے ملا۔ایک اور عالی مرتبت بزرگ کا قول ہے کہ منزل حق کی جتنی راہیں کھلتی ہیں سب بھوک اور پیاس کے راستے سے ہی گذرتی ہیں۔
حدیث نبویؐ کے الفاظ میں اس مقدس ماہ کو شہر صبر سے موسوم کیا گیا ہے اور صبر کا خاص مفہوم ردعمل کا اظہار کرنے کی طاقت ہونے کے باوجود ردعمل کے اظہار سے باز رہنا ہے۔یہ بہت صبر آزما کام ہے اور اس کی شدت وہی جانیں جو اس عمل سے گذریں ۔ مثا لا ًیوں سمجھئے کہ بلا تشبیہ روزہ ایک سپیڈ بریکر ہے کہ جب ہم جذبات سفلی کی گاڑی میں سوار ہوں تو اس کی رفتار کو توڑ دیتا ہے،اس لئے اسلام نے اس عمل کو جہنم سے ڈھال قرار دیا ہے۔ہاں بات صبر کی چلی ہے تو یہ کیا کہ لذیذ و مرغن غذائیں آنکھوں کے سامنے ہیں،منہ میں بھی پانی بھر آتا ہے، کوئی دیکھنے بھالنے والا بھی نہیں لیکن بڑے تو بڑے چھوٹے بچے بھی ہاتھ انہیں لگانے سے کتراتے ہیں؟یہ کیا کہ پیاس کی شدت کا یہ عالم کہ زبان ہونٹوں پہ آتی ہے پُر لطف مشروبات سامنے پڑے ہیں ،کوئی روکنے ٹوکنے والا بھی نہیں لیکن ہاتھ اُس طرف جاتا ہی نہیں۔یہ کیا کہ ہر سو عیش و تنعم اور جسن و جمال کی دلفریبیاں ہیں لیکن اس جانب آنکھ اُٹھانا تو در کنار واپسی اُلٹے پاؤں شروع ہوتی ہے؟ حا لا نکہ کوئی پہرے دور اور چوکیدار بھی نہیں۔ بات اصل میں یہ ہے کہ قلب و ذہن میںیہ خیال رچا بسا ہے کہ خدا دیکھ رہا ہے اور پس خدا دیکھ رہا ہے کا تصو ر ہی تقویٰ یعنی پر ہیز گاری کہلاتا ہے اور یہی روزو ں کی روح ہے ۔
یادر ہے نعو ذ با للہ جنت کوئی ہمارا بنایا ہوا پارک یا تفریح گاہ نہیں کہ زندگی ساری بے قید گذاردی ،اب تھوڑا بہت نذرو نیاز د ے کر اس کا ٹکٹ حاصل کیا جائے۔ سود خواری اور حرام خوری وطیرہ رہا ،نمازوں سے غفلت تو رہی ہی رہی ، اُلٹے مخلص نمازیوں اور متقیوں کے کردار میں کیڑے نکالنے میں مصروف رہے ۔ حتیٰ کہ روزہ کی پُر بہار فصل اپنی جو بن پر ہو تویا تو بیمار ی کا سوانگ رچائیں یاروز ہ داروں کی کردار کشی، ان کی خامیوں کو صرف اس لئے گننا کرشروع کریں کہ اپنے گناہ عظیم پر پردہ پڑا رہے ۔ـ ’ ہوشیا ر اور چا لاک‘ ـبننے کا یہ نفاق زدہ عمل ہے اور کچھ نہیں ۔یادر کھئے کہ اگر کوئی مسجد کی نماز باجماعت میں شامل نہ ہونے کے لئے یہ عذر پیش کردیتا ہے کہ میں اپنی نماز کی نمائش نہیں چاہتا تو سنئے یہ بھی نفاق کا روگ ہے۔اگر کوئی فریضۂ حج سے یہ کہہ کر دامن جھاڑنے کی کوشش کرتا ہے کہ بھئی مجھے ’حاجی‘کہلانے کا کوئی شوق نہیں ،گھر میں بیٹھے بیٹھے بھی تو’حج‘کرنے کے بے شمار مواقع ہیں،نیکیوں کیاور بھی بہت سارے میدان کھلے ہیں زکو ٰ ۃ کیو ں دیں؟خبردار !یہ سب نفاق کی موذی بیما ریا ںہیں۔ جی ہاں! فرائض کو ٹالنا اور ان سے جی چرانے کے عمل کے لئے احکام کی نت نئی تاویلیں کرنا صریحاً نفاق و گنا ہ گا ری کے زمرے میں آتی ہیں۔فرائض تو فرائض ہیں اس ذمہ داری سے برأت کا کوئی راستہ نہیں اور اللہ کیے مقر ر کردہ فرا ئض سے دنیا کاکوئی عالم و فاضل، فلسفی ومدبر یا پیرو فقیر ان سے سندِ آزادی دینے کا اختیار نہیں رکھتا ۔اور صوم تو ’’صوم‘‘ہے بس یہ فاقہ مستی کا نام نہیںبلکہ حدو دقیود کے حصار میں رہنے کا جلی عنوان ہے اور اگر آنکھ،زبان و دل بے لگام رہے تو حدیث نبوی ؐ کے مطا بق ’’پھر بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں‘‘۔اصل میں صوم کی اس مشن سے خدا اپنے بندوں کو جوڑ کران کے اندر ون وبیر وں کی تزئین و آرائش کرنا چاہتا ہے۔ان کے دل میں رحم دلی ،شفقت وانسانیت نوازی اور صبر کے بوئے بیجوں کی سینچائی کا عمل تو روزہ سے ہی با آ ورکرنا چاہتا ہے۔ ان کے دلوں سے حرص،خود غرضی،اناپرستی ،نفاق،ریا،بے شرمی اور ظلم و جبر کے صفات رزیلہ کو نکال کر دلوں کی تطہیر اورروحوں کا تزکیہ کرنا چاہتا ہے۔
روزہ …یہ کتنا مقدس اور پاکیزہ عمل ہے کہ چودہ سو برس گذر نے کے بعد بھی مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کی خشکی و تری میں یہ روحانی حیا تِ نو کا خدائی مشن آب و تاب کے ساتھ جاری وساری ہے۔اس خدائی مشن کی سختیاں اور قواعد و ضوابط کی شدت کے ہوتے ہوئے بھی اس کے عامل اس کی پابندی کیسے ہنسی خوشی کرتے ہیں، اس پرمَلک و فلک بھی رشک کرتے ہوںگے۔اس حکم خدا وندی سے متاثر ہوکر سر ولیم میور جیسا متعصب شخص بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ’’روزہ کی سختیاں بد ستور قائم ہیں خواہ وہ کسی موسم میں بھی پڑیں اور آج تک مشرق کے میدانوں میں چلچلاتی دھوپ اور جھلساتی ہوئی بادسموم میں گرمیوں کے لمبے لمبے دنوں میں محمد صلعم کے پیر و کار صبح سے شام تک پانی کا ایک قطرہ حلق کے نیچے نہیں اُتار تے ۔اتنی سخت ریاضت قوت ایمانی اور ضبط نفس کا پورا امتحان ہے۔(لائف آف محمد۔۱۹۳)
واقعی یہ مہینہ رحمت و مغفرت کا مہینہ بھی ہے ۔علماء و واعظین بے شک خدا کے بندوں کو اس کی دہلیز پر لا کر اُن کے اندر گناہوں پر ندامت کے جذبات پیدا کرکے انہیںرُلادیں کہ رونا بھی دل کے امراض کا علاج اور گناہوں کی مغفرت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے لیکن ساتھ ہی اُنہیں ماہ صیام و قیام کے تقاضوں سے بھی آشنا کریں ۔حقوق اللہ و حقوق العباد سے آگاہ کریں اور ان کے ذہن و دل میں یہ بات اُتاریں کہ اگر روزہ کے عمل سے گذر تے ہوئے ایک دوسرے کو پچھاڑ نے،خوردنوش کی چیزوں میں ملاوٹ،ذخیرہ اندوزی، کذب بیانی،بہتان تراشی ،منافقانہ طرز عمل ،حق سے دوری اور باطل سے قربت ،چوک چوراہوں اور خلوتوں جلوتوں میں شرم و حیا کی دھجیاں بکھیرنے، شراب و شباب کی محافل کا انعقاد یا ان میں شرکت،گل و بلبل کے ترانے گانے اور حسن و عشق کی داستانیں سننے سنانے،ناچ رنگ کی محفلوں کی زینت بننے ،سود لینے یا دینے،حق تلفیاں کرنے ،رشوت کی گرم بازاری،مسیحائی کا دم بھر تے ہوئے مریضوں کو لوٹنے ،والدین کو دھتکار نے اور صرف دوستوں اور بیویوں کی ناز برداری کرنے،اقرباء کو چھوڑ کر دور کے لوگوں پر چند پیسے خرچ کر کے ناموری کی کاوشیں کرنے ،ہمسایوں اور معذوروں کے حقوق پامال کرنے، بیو پا ر میں اما نت دیا نت کے اسلا می اصولوں کو تر ک کر نے اور ہمچو قسم کی دیگر برائیوں سے باز نہیں رہے تو کو نسا روزہ اور کہاں کی تراویح ؟؟؟خدا نخواستہ ایسا نہ ہوکہ خدا کے خوف سے لرزاں لوگ عید کی خوشیوں میں شامل ہوں اور ان لوگوں کے حصے میں بھوک پیاس کے سوا کچھ آئے نہیں اور وہ جو اس صبر آزما کا م کی اصل غایت یعنی ’’لعلکم تتقون‘‘ہے ، ظا ہر ی طور بہت محنت کرنے کے بعد بھی اللہ نہ کر ے حاصل نہ ہو۔ اے اللہ ہم سب کو حقیقی روز ہ دار بننے کی تو فیق دے۔ آ مین
یادر کھئے دین کے دائر ے میں پورے کے پورے داخل ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔(بقرہ)اس کے ہر حکم کی اطلاعت پر جزا کی خوشخبری اور انکار پر سزا کی وعید ہے ۔ دین کے کسی بھی چھو ٹے بڑ ے معا ملے میں نفس کی حکمرانی یا من چا ہی مرضی نہیں چلتی۔دین کی من مانی تاویلیں کا م نہیں آتی ہیں۔ہر حکم خداویبدی کی اطا عت اور اس کے منع کردہ اعما ل سے شعوری طور سے پر ہیز،یہی روح دین ہے۔ اس سلسلے میں اللہ کو حاکم مطلق مان کر اس کی اطا عت اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی اتبا ع کو زند گی کے ہر شعبے میں اپنا اوڑ ھنا بچھو نا بنا نا ہی اس روح دین کا ثمرہ ہے ۔ دعا ہے کہ آ نے والا رمضا ن المبارک ہم سب کے لئے دنیا وآ خرت کی سرخررو ئی کا ساما ن بنے ؎
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
حاصل کلام یہ کہ بڑے مقصد کے حصول کے لئے بڑی قربانیاں ہی دینا پڑتی ہیں۔جنت خالی آرزووں سے حاصل نہیں ہوتی ۔اس کے ارد گرد خار دار جھاڑیاں ہیں اور اعمال حسنہ کی بنیاد پر ہی انہیں ہٹایا جاسکتا ہے۔سارے سال فاحشات و منکرات کے سمندر میں ڈوبے رہے اور رمضان میں مساجد کی اگلی صفوں میں آکر اپنے آپ کو نمایاں کرتے ہوئے ائمہ کرام کو منٹوں ساعتوں کا پانبد بنے رہنے کا درس دینے سے جنت حاصل نہیں ہوتی ،یہ تب ہی ممکن ہے جب بدیوں اور شرکی قوتوں کے خلاف اس عرصۂ جنگ میں اپنے روح و دل کو مطہر کرنے میں کامیاب ہوں ۔ایسا ہوگا تو احادیث نبوی کی روشنی میں پھر روزہ دار جنت کے خاص درواز ے باب الریان سے داخل ہوگا۔روزہ اس کی شفاعت کرے گا۔ اس لئے لازم ہے کہ خود کو روزہ کے حصار میں قید کرے اور نفس کے سرکش گھوڑے کو زیر کرنے کے خدائی ہدایات پر عمل پیرا ہو تو پھر نفس لوامہ نفس مطمئنہ کا روپ دھارن کرے گا۔درست بات ہے ؎
نہنگ و اژدھا و شیر نر مارا تو کیا ما را
بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گرما را
courtesy: Kashmir Uzma Srinagar
|
Search This Blog
Thursday 19 July 2012
آمدِ صیام مرحبا Amade Siyam Marhaba
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment