رمضان‘ مسجد اور بچے
- ڈاکٹر خالد مشتاق
’’سر میرے شوہر کی طبیعت خراب ہے۔ انہیں ڈر لگتا ہے‘ گھبرا جاتے ہیں‘ میں تو حیران ہوں کہ یہ اتنے بہادر آدمی ہیں… لیکن…‘‘ لڑکی کا نام صائمہ اور شوہر کا نام شاہین تھا۔ یہ ایک صحتمند نوجوان تھا۔ عمر28 سال ‘ کمپیوٹر ڈپلومہ کیا ہوا تھا۔ کمپنی میں نیٹ ورکنگ کی نوکری کرتا تھا۔ شادی کو چند ماہ ہی ہوئے تھے۔ مریض کی نبض‘ بلڈ پریشن نارمل تھا۔ کوئی جسمانی تکلیف بھی نہیں تھی۔ یہ رمضان کا پانچواں دن تھا۔ خاتون نے بتایا کہ میرے شوہر شادی کے بعد دو ہفتے تک یہاں رہے پھر ان کی پوسٹنگ کچھ ماہ کے لیے کراچی سے باہر ہوئی‘ ڈیڑھ ماہ پہلے واپس آئے ہیں۔ یہ بہت ہی حوصلے والے انسان ہیں‘ ہم کہیں جارہے تھے راستے میں ایک حادثہ دیکھا۔ میرے شوہر نے گاڑی روکی‘ زخمیوں کو نکالا اور پھر ہم اسپتال گئے۔ ہم جس تقریب میں جارہے تھے‘ اُس میں نہ جاسکے۔ ان افراد کو جو زخمی ہوئے تھے ہم جانتے بھی نہ تھے۔ باقی سب لوگ سڑک پر تماشا دیکھ رہے تھے لیکن میرے شوہر نے 2 زخمیوں کو اپنی گاڑی میں ڈالا۔ جو زیادہ زخمی تھے‘ ایک ایمبولینس آگئی تھی‘ ان کو اُس میں ڈالا اور جناح اسپتال چلے گئے۔ میرے شوہر ہی نے ایمرجنسی میں اُن افراد کو دوائیں‘ پلاسٹر‘ اورجس جس چیز کی ضرورت تھی لاکر دی۔ ہم اُس وقت تک ٹھیرے‘ جب تک ان کے خاندان والے نہ آگئے۔ مجھے بھی ایک زخمی خاتون کے ساتھ کھڑا رکھا۔ خاندان میں میرے شوہر اس حوالے سے مشہور ہیں کہ وہ دوسروں کی مشکل میں کام آتے ہیں۔ میَں نے اپنے شوہر کو دیکھا کہ وہ گھر پر ہی نماز ادا کرتے ہیں۔ شادی کے شروع کے دنوں میں مَیں نے اشارتاً انہیں مسجد کی طرف توجہ دلائی‘ لیکن اُن کا رویہ میری سمجھ میں نہ آیا۔ وہ نماز ادا کرتے‘ شب معراج کی رات‘ ساری رات عبادت کی ‘روزہ بھی رکھا لیکن فجر اور عشاء کی نماز گھر پر پڑی۔ اسی طرح شب برأت کی رات ساری رات عبادت کی‘ روزہ رکھا‘ قبرستان بھی گئے لیکن نماز کے لیے مسجد میں نہیں گئے۔ میں نے کہا لیکن وہ ٹال گئے۔ رمضان شروع ہوا تو دیگر افراد مسجد گئے یہ نہیں گئے۔ میں نے انہیں پوچھا تو ٹال گئے۔ پہلا روزہ گزر گیا۔ یہ تراویح پڑھنے بھی نہیں گئے‘گھر پر تلاوت کررہے تھے۔ نماز کی باقاعدگی کے علاوہ انہوں نے تہجد بھی پڑھی۔ دوسرے دن جمعہ تھا۔ یہ پہلی مرتبہ جمعہ کے دن گھر پر تھے۔ میں نے ان کے کپڑے استری کیے اور کہا کہ آپ مسجد جائیں‘ انہوں نے صاف انکار کردیا کہ میں جمعہ کی نماز ادا کرنے مسجد نہیں جائوں گا۔ میں نے اُن سے کہا کہ آپ کا روزہ ہے‘ سب جارہے ہیں۔ کہنے لگے میں نے تم سے کہہ دیا ہے کہ میں مسجد میں نہیں جائوں گا‘ اُن کا لہجہ سخت تھا۔ میں حیران رہ گئی کہ یہ رویہ میں نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا‘ یہ اُس دن جمعہ کی نماز کے لیے نہیں گئے۔ میں نے ان کی امی سے کہا ’’امی یہ جمعہ کے لیے نہیں گئے‘‘۔ والدہ نے کہا‘ شاید طبیعت خراب ہو۔ جمعہ کے بعد میں نے اُن سے پوچھا کہ وجہ بتائیں آپ کیوں نہیں گئے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے تو 20 ‘22 سال سے مسجد کی شکل بھی نہیں دیکھی۔ میں نے حیران ہوکر پوچھا۔ کہنے لگے ہاں جمعہ کی نماز کبھی کبھار سڑک پر ہورہی ہو تو ادا کرلیتا ہوں۔ عید کی نماز عیدگاہ میں پڑھتا ہوں۔ لیکن مسجد نہیں جاسکتا۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے والدین … کہنے لگے کہ میَں بچپن میں تو جمعہ کے وقت باہر چلا جاتا تھا۔ ہمارے محلے کی مسجد میں مختلف اوقات میںجمعہ کی نماز ہوتی ہے۔ گھر والے یہی سمجھتے تھے کہ میں نماز پڑھ آیا ہوں۔ کچھ بڑے ہوئے تو جمعہ کے دن باہر ہوتے یا نوکری پر ہوتے‘ کسی کو پتا نہ چلتا۔ عید کی نماز عید گاہ میں پڑھ لیتے۔ کبھی رمضان آیا‘ جمعہ میں زبردستی لے جاتے تو اتنی دیرسے جاتے کہ مسجد میں جگہ نہ ہوتی‘ سڑک پر صفیں بچھی ہوتیں۔ دو رکعت پڑھ کر واپس آجاتے۔ میں نے اپنے شوہر سے وجہ پوچھی کہ ایک طرف تو آپ نماز ادا کرتے ہیں۔ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں‘ روزہ رکھتے ہیں‘ دوسروں کی مدد کرتے ہیں لیکن مسجد کیوں نہیں جاتے؟ وہ خاموش ہوگئے پھر بولے بس چھوڑ دو مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ یہ بتاتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے‘ میں صورتحال دیکھ کر خاموش ہوگئی۔ شام کو ہماری امی کے گھر افطار پارٹی تھی ۔ کھجور اور پانی پینے کے بعد سب نماز کے لیے گئے۔ ہمارا گھر مسجد کے برابر میں ہے۔ میرے شوہر نے رُکنے کی کوشش کی لیکن سُسر اور چند سسرالی رشتے دار انہیں زبردستی مسجد لے گئے۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی میرے شوہر۔ کہنے لگی کہ نماز کے فوراً بعد میرا بھائی آیا اور بولا چلو شاہین بھائی کو اسپتال لے گئے ہیں۔ میں اسپتال پہنچی ڈاکٹر نے ڈرپ لگائی۔ سب یہی سمجھ رہے تھے کہ روزہ سے کمزوری ہوئی ہے۔ چند رشتہ داروں نے کہا نیا داماد ہے صحیح طرح افطاری نہیں کی۔ بھوک سے طبعیت خراب ہوگئی لیکن میں نہیں مان سکتی تھی۔ جو فرد نفل روزہ تھوڑی سی سحری کے بعد رکھ سکتا ہے وہ سحری کے ساتھ روزہ رکھے اور افطار کے بعد طبیعت خراب … افطار سے پہلے تو سمجھ میں آتا ہے کہ کمزوری‘ لیکن افطار کے بعد۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کا بلڈ پریشر ابھی بھی کم ہے‘ انہیں کوئی صدمہ پہنچا ہے۔ گھر آئے تو ہنگامہ ہوگیا ہر فرد تبصرے کررہا تھا۔ کسی نے کہا سسرال میں فوڈ پوائزننگ(ہیضہ) ہوگیا کوئی بولا کم افطاری کی ہوگی۔ ایک رشتہ دار نے کہا ایسی بھی کیا جلدی تھی۔ پورا افطار کراتے پھر مسجد لے جاتے۔ میں پریشان تھی۔ رات تک شوہر کی طبیعت سنبھل گئی۔ میں نے پوچھا کیا ہوا۔ وہ بتانے لگے کہ وہ لوگ مجھے زبردستی مسجد لے گئے۔ میں نے بہت سمجھایا کوئی نہ مانا۔ مسجد میں داخل ہوئے‘ جماعت کھڑی ہوئی تھی۔ سب اس میں شامل ہوگئے‘ میَں جیسے ہی کھڑا ہوا میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا‘ گھبراہٹ طاری ہوگئی۔ میں نے اچانک پیچھے دیکھ لیا ایک نمازی دیر سے آیا اس نے کہا نماز میں کیوں اِدھر اُدھر …۔ مجھے بس اتنا یاد ہے کہ پسینے آگئے اور … ہوش آیا تو لوگ اسپتال لے جارہے تھے۔ صائمہ نے بتایا کہ میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ بچپن میں واقعہ ہوا تھا… اس کے بعد سے مسجد جانے سے خوف آتا ہے۔ صائمہ بتانے لگی کہ میں نے سائیکالوجی مضمون کے طور پر پڑھی ہے۔ میں نے اپنی ایک کلاس فیلو سے جو سائیکالوجسٹ ہے مشورہ کیا‘ اس نے مشہورہ دیا اور یہاں لے آئی۔ یہ آج سے 20 برس پہلے کا واقعہ ہے ۔ میں ایک معروف سائیکٹری اسپتال میں میڈیکل آفیسر تھا۔ یہ مریض رات 2 بجے آئے تھے۔ شاہین نے بتایا کہ بچپن میں ہمارے محلے میں مسجد تھی‘ جس میں ہم قرآن پڑھنے جاتے‘ نعتیں پڑھتے‘ کھیلتے بھی تھے۔ پھر ہم نے گھر دوسرے محلے میں تبدیل کیا۔ یہاں کے امام صاحب بہت سخت تھے۔ نمازی بھی بچوں پر بہت سختی کرتے تھے‘ میَں اور میرا بھائی اپنے محلے کی مسجد کے عادی تھے۔ رمضان آیا تو ہم خوشی خوشی فجر کی نماز سے ہی مسجد میں پہنچے۔ امام صاحب نے اعلان کیا بچوں کو پیچھے کردیا جائے۔ ہم پہلے آئے تھے اس لیے آگے کی صفوں میں تھے۔ ہم نے غور نہیں کیا۔ امام صاحب نے زور سے ڈانٹا اور ایک نمازی نے کہا سُن نہیں رہے‘ پیچھے جائو۔ مجھے بہت بُرا لگا۔ اسی دن تراویح میں ایک لڑکے کی ہنسنے پر پٹائی ہوگئی۔ اس مسجد میں ایک صاحب مسلسل پیچھے کھڑے رہتے اور بچوں کو ڈراتے رہتے‘ بات نہ کرو‘ ادھر نہ دیکھو‘ وغیرہ وغیرہ۔ چند دن بعد بہت ہی کم بچے مسجد میں رہ گئے۔ میں ایک دن مغرب میں افطار کے بعد جلدی چلا گیا۔ میں بڑوں کی صف کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔ لوگ دیر سے آئے انہوں نے پیچھے کردیا‘ پھر رکوع میں تھا کہ پانچویں صف سے پیچھے کردیا۔ اس طرح تیسری رکعت تک میں پیچھے کیا جاتا رہا ۔ ایک صاحب نے تو مجھے صف سے نکال کر دھکیلنے کی کوشش کی۔ مجھے غصہ آگیا میں نے نماز میں ہی کہہ دیا دھکا کیوں دے رہے ہیں۔وہ بولے نماز میں بولتے ہو۔ میں نے کہا کہ نماز میں مَیں چوتھی سے دسویں صف تک 6مرتبہ چل چکا ہوں اور یہ سب بڑوں نے کیا ہے۔ انہوں نے کہا گستاخ اور چانٹا ماردیا۔ میرے آنسو رُکنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ چانٹا ناک پر بھی لگا۔ نکسیر پھوٹ گئی۔ میں گر پڑا۔ وہ صاحب تو جماعت میں شریک ہوگئے‘ مجھے ہوش نہ رہا۔ اُس مسجد میں رمضان کے ابتدائی دِنوں کے تجربے کے بعد مسجد میں جانے کا دل نہیں چاہتا تھا۔ لیکن اس واقعے کے بعد تو مجھے مسجد کے نام سے بھی خوف آنے لگا۔ ایک دو مرتبہ میں مسجد گیا‘ لیکن مجھ پر ایسا خوف طاری ہوجاتا‘ دل زور سے دھڑکنے لگتا۔ چہرہ پیلا پڑ جاتا۔ اس لیے میں نے یہ طے کرلیا تھا کہ کبھی مسجد نہیں جائوں گا۔ عید کی نماز عیدگاہ میں اور جمعہ الوِداع کی عام طور پرسڑک پر ملتی ہے۔ اس لیے یہ پڑھتا ہوں۔ ہمارے خاندان کے ایک فرد نے مجھے کہا کہ مرگئے تو جنازہ کے لیے تو جانا پڑے گا۔ میں تو اتنا ڈرا ہوا ہوں کہ … میں نے کہا جنازہ توباہر ہوتا ہے ‘ اس لیے میرے باپ کی توبہ۔ میں مرکر بھی مسجد نہیں جائوں گا۔ اس مریض کو سائیکالوجسٹ ڈاکٹر صدیق صاحب کے پاس بھیجا۔ انہوں نے اس کی سائیکوتھراپی کی۔ اس کا ڈر نکالنے کی کوشش کی ۔ مریض کی بیوی نے بھی ڈاکٹر صاحب کی ہدایات کے مطابق بہت تعاون کیا۔ کسی بھی بچپن کے واقعہ سے دل میں ڈر بیٹھ جاتا ہے اور یہ ڈر ساری عمر انسان کو پریشان کرتا رہتا ہے۔ ہمارے ایک شناسا کوّے سے ڈرتے ہیں ۔ وہ کوّا دیکھ لیں تو راستہ بدل دیتے ہیں۔ ہماری ایک مریضہ خاتون بھینس سے ڈرتی ہیں۔ اگر راستے میں بھینس نظر آجائے تو ان کا رنگ تبدیل ہونے لگتا ہے۔ دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے۔ بھینس نے انہیں بچپن میں ٹکر ماری تھی۔ بعض مریض ایسے آتے ہیں جو بھائو سے ڈرتے ہیں۔ کچھ ’’فقیر بابا‘‘ سے۔ یہ سب والدین بچے کو ڈرانے کے لیے کرتے ہیں‘ جو ساری عمر کے لیے مریض کو پریشان رکھتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ بچپن کی یادیں اگر اچھی ہوں تو وہ بڑے ہوکر بہت اچھی اور پرسکون زندگی گزارنے میں مدد دیتی ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑا سائیکالوجسٹ حضرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپؐ نے بچوں کے ساتھ بچپن میں جس اعلیٰ اخلاق کا نمونہ پیش کیا ہے دنیا میں اس کی مثال نہیں۔ ٭ نبی ؐ کے ساتھ انس بن مالکؓ بہت عرصہ رہے وہ بتاتے ہیں کہ نبیؐ نے مجھے کبھی نہیں ڈانٹا۔ ٭ آپؐ کسی کام سے بھیجتے‘ میں راستے میں کھیل میں لگ جاتا۔ کام بعد میں یاد آتا۔ لیکن آپؐ نے کبھی دیر ہونے پر سرزنش نہیں کی۔ ٭ نبیؐ کے دور میں بچے مسجد نبویؐ میں آتے۔ چھوٹے بچے اپنی ماں کے ساتھ آتے۔ ٭ آپؐ اگر نماز میں بچے کے رونے کی آواز سنتے تو نماز مختصر کردیتے۔ بچے کی ماں کو اور بچے کی تکلیف کم کرنے کے لیے مسجد نبویؐ میں آپؐ فرض نماز جلدی ختم کرادیتے۔ ٭ ماں اور بچے کی اس عزت و قدر کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ ٭ نبیؐ نماز ادا کررہے ہوتے اور آپؐ کی گود میں بچے ہوتے۔ گود میں بچہ ہے اور فرض نماز ادا ہورہی ہے‘پیچھے مقتدی ہیں۔ مسجد نبویؐ کی یہ نمازیں آپؐ کی بچوں سے محبت کے اظہار کی انتہا ہیں۔ ایک مرتبہ نبیؐ نماز ادا کررہے تھے ۔ سجدہ بہت لمبا ہوگیا۔ ایک صحابیؓ سے صبر نہ ہوا‘ انہوں نے سجدہ سے سر اُٹھایا اور دیکھا تو نبیؐ کے اوپر آپؐ کے نواسے سوار تھے۔ جب وہ گردن سے اُتر گئے توآپؐ سجدہ سے اُٹھے۔ رمضان کی آمد آمد ہے۔ لاکھوں بچے مسجدوں میں ذوق شوق سے آئیں گے‘ اگر ہم ان کے ساتھ نبیؐ کی تعلیمات کے مطابق اچھا سلوک کریں‘ مسجد نبویؐ کا ماحول بنائیں اور بچوں کو مساجد میں پیار و محبت دیں تو مستقبل میں شاہین جیسے افراد نہیں بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مدینہ جیسا ماحول اپنی مساجد میں بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین |
No comments:
Post a Comment