احد کا معرکہ نبی ؐ کے ’’خود‘‘ کی زبانی
- زبیر منصوری
شدید معرکے کے اُس نازک لمحے میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی چوم رہا تھا۔ میں پوری قوت سے آپؐ کے سر مبارک سے چپکا ہوا تھا۔ مجھے اپنی کوئی فکر نہ تھی۔ اگر فکر تھی تو بس یہ کہ اس خوفناک یلغار میں کہیں دشمن کی کوئی ناپاک تلوار آپؐ کے چہرۂ انور تک نہ پہنچ سکے۔ چاہے میرے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں مگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھنے والے تیروں کے آگے ڈھال بن جاؤں۔ میرے مہربان نبیؐ کی زندگی کا نازک ترین موقع تھا اور مجھے اپنا سب کچھ ان پر قربان کردینا تھا۔ احد کے اس معرکے میں بس 7 انصاری اور 2 قریشی صحابہ ؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد سیسہ پلائی دیوار بنے کھڑے رہ گئے تھے۔ مجھے آپؐ کے سر مبارک کی حفاظت کا شرف حاصل تھا۔ میں نے چاروں طرف سے اپنے وجود کو آپؐ سے چمٹادیا تھا اور اپنی ساری توانائی کے ساتھ آپؐ کی حفاظت میں مصروف تھا۔ میرے ساتھ لٹکتی میری کڑیاں آپؐ کے چہرے اور گردنِ مبارک کی حفاظت میں ہمہ تن مصروف تھیں۔ میں اپنے شرف اور فخر پر کتنا ناز کروں کہ میری آغوش میں وہ پیشانی، وہ بال، وہ چہرہ سمٹا ہوا تھا جسے نظر بھر کے دیکھ لینے کی تاب کسی میں نہ ہوتی تھی۔ جس کی روشنی کے سامنے چاند ماند پڑجاتا تھا۔ جسے نسیم سحر جب بوسے لیتی ہوئی گزرتی تھی تو معطر ہوجاتی اور اپنی قسمت پر ناز کرتی تھی۔ آج اُحد کے اس شدید دن اُسی رخ انور کی حفاظت مجھ جیسے حقیر خود کے ذمے تھی۔ مگر آج کے دن بھلا کون میرے شرف کو پہنچ سکتا تھا۔ خالد بن ولیدؓ کا دستہ جب درے پر باقی رہ جانے والے میرے نبیؐ کے اُن 10ساتھیوںؓ کو شہید کرتا ہوا آگے بڑھا تھا تو میں لرز سا گیا تھا کہ اب کیا ہوگا! کافروں کا شکست کھاتا لشکر واپس پلٹ کے آگے بڑھنے لگا تھا۔ مسلمان تتربتر تھے۔ آپؐ کے قریب صرف 9جانثار رہ گئے تھے۔ ’’میری طرف آؤ۔ میں اللہ کا رسول ہوں‘‘ ہاں یہی تو وہ آواز تھی جو آپؐ کے لبوں سے بلند ہوئی تھی۔ پھر اس سے پہلے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار جانثار آواز کی طرف پلٹتے، مشرکین متوجہ ہوگئے اور یک بارگی حملہ کردیا۔ وہ صحابہؓ سے پہلے میرے نبیؐ تک پہنچنے کے لیے جان توڑ کوشش کررہے تھے۔ سخت معرکہ آرائی تھی۔ مجھے پھر آپؐ کے لبوں سے بلند ہوتی ہوئی آواز سنائی دی: ’’کون ہے جو ان کو ہم سے دفع کرے؟ وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا‘‘ آہ پھر کیا تھا، میرے نبیؐ کے گرد حصار بنائے کھڑے صحابیوںؓ میں سے ایک انصاریؓ دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ وہ شہید ہوئے تو دوسرے آگے بڑھے۔ انہوں نے جام جنت نوش کیا تو تیسرے، چوتھے، پانچویں، چھٹے، ساتویں سب ہی یکے بعد دیگرے جان جانِ آفریں کے سپرد کرتے چلے گئے۔ اب نازک ترین لمحہ تھا۔ دشمن کی یلغار اور صرف 2 قریشی جانثار۔ بدبخت عتبہ آگے بڑھا اور میرے نبیؐ کو پتھر دے مارا۔ آہ! آپؐ پہلو کے بل گر پڑے۔ آپؐ کا نچلا دانت مبارک شہید ہوگیا۔ ایک اور جہنمی عبداللہ بن شہاب نے آگے بڑھ کر آپؐ کی پیشانی زخمی کردی۔ عبداللہ بن قیمہ نے لپک کر کندھے پر تلوار کا وار کیا جس کو میری عزیز دوہری زرہوں نے اپنے سینے پر سہہ لیا، مگر آپؐ تک تلوار کا زخم نہ پہنچنے دیا۔ اس نے پھر تلوار ماری اور میں وہ شدید اذیت کا وقت کیسے بھلا سکتا ہوں جب میری دو کڑیاں اس شدت کی ضرب برداشت نہ کرتے ہوئے آپؐ کے چہرۂ مبارک کے اندر گھس گئیں۔ کاش میں اس لمحے کو کبھی نہ دیکھ پاتا!!! آپؐ کا دانت شہید ہوچکا تھا، سرِمبارک زخمی تھا، خون چہرے پر پھیل رہا تھا، مجھ پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ لہو کے چھینٹے تھے۔ آپؐ خون صاف کرتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے: ’’وہ قوم کیسے کامیاب ہوسکتی ہے جس نے اپنے نبی کے چہرے کو زخمی کردیا‘‘ مگر یہ کیا! اس غضب کی تکلیف میں بھی رحمت اللعالمینؐ کی زبان سے یہ سخت الفاظ رب العالمین کو پسند نہ آئے اور یہ آیت نازل ہوتی ہے: ’’آپ کو کوئی اختیار نہیں۔ اللہ چاہے تو انہیں توبہ کی توفیق دے اور چاہے تو عذاب دے کہ وہ ظالم ہیں‘‘۔ (128/3) اللہ تعالیٰ کا فرمان کیا آیا، سراپا وفادار میرے نبیؐ کی بددعا لمحوں میں دعا کے اندر تبدیل ہوگئی: ’’اے اللہ میری قوم کو بخش دے، اسے ہدایت دے وہ نہیں جانتی۔‘‘ معرکہ جاری تھا۔ اب میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت طلحہؓ اور حضرت سعدؓ تھے۔ میرے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم خود انہیں تیر دیتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ ’’چلاؤ، میرے ماں باپ تم پر فدا‘‘ ان دونوں شہ زوروں نے دشمن کا رخ موڑ کر رکھ دیا۔ اکیلے طلحہؓ 11بہادروں کے برابر لڑے۔ ان کی انگلیاں شل ہوگئیں۔ انہوں نے چن چن کر مشرکین کو اپنے تیروں کے نشانے پر رکھ لیا۔ انہیں خود 35 سے زیادہ زخم آئے، مگر بالآخر میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان جی داروں نے دشمن کا رخ موڑ ڈالا اور وہ ناکام و نامراد لوٹ گیا۔ میں نبیؐ کے چہرے کی حفاظت پر مامور وہ خوش نصیب خود ہوں جسے آپؐ نے اپنے ہاتھوں سے خود پہنا تھا۔ میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان۔ مگر معزز قارئین! اگر آپ کے نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خود پلٹ کر 2012ء کے امتیوں سے یہ سوال پوچھ لے کہ کیا تمہارے دور میں میرے نبیؐ کی ذات اور ان کا دین کسی دشمن کے نرغے میں نہیں ہے؟ کیا کوئی اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے ناپاک عزائم نہیں رکھتا؟ کیا آج وہ لہو رنگ نہیں؟ پھر کیا اسے 7 انصاری اور 2 قریشی صحابہ جیسے لوگ دستیاب ہیں؟ کیا کہیں تمہاری کھیتیوں نے تو تمہیں مصروف نہیں کرلیا؟ کہیں تم نے بیلوں کی دُم تو نہیں پکڑلی؟ کیا تمہارا پیٹ تمہارا قبلہ تو نہیں بن چکا؟ کیا میرے نبیؐ تمہیں پیچھے سے آوازیں تو نہیں دے رہے کہ ’’میری طرف آؤ میں اللہ کا رسول ہوں‘‘ کیا پھر مشرکین کی یلغار نہیں؟ دین محمد لہولہان نہیں؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو آپ کے ’’ترکش کے بہترین تیروں‘‘ کی ضرورت نہیں؟ کیا آج کا عتبہ اور ابن قیمہ یلغار پر یلغار نہیں کررہے؟ دیکھو نبیؐ کے دین کو تمہاری آج ضرورت ہے۔ دیر نہ کردینا۔ طلحہؓ اور سعدؓ کے جانشین بننا… میدانِ احد چھوڑ جانے والوں کے پیروکار نہیں۔ تہذیبوں کی اس کشمکش میں شہادتِ حق کے میدان تمہیں بلاتے ہیں۔ عمل کے بیسیوں میدان تمہاری راہ تک رہے ہیں۔ اپنے اپنے ترکش کے بہترین تیروں کو دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے وقف کردو کہ مہلتِ عمل تھوڑی ہے اور عمرِ رواں کی برف پگھلنے کو ہے۔ |
No comments:
Post a Comment