زبانِ یار مَن ترکی…؟
- شعیب احمد ہاشمی
میں نے اپنے بچپن میں اباجی سے خلافتِ عثمانیہ کا اکثر تذکرہ سنا تھا۔ وہ میرے ماموں کو بتایا کرتے تھے کہ ’’خلافت ختم نہ ہوتی تو مسلمانوں کا یہ حال نہ ہوتا‘‘ ۔’’تحریک خلافت میں برصغیر کے مسلمانوں نے جو جوش و جذبہ دکھایا تھا وہ بہت دیدنی تھا‘‘۔ ’’گاندھی جی کو بھی مجبوراً خلافت بچائو مہم کا حصہ بننا پڑا۔‘‘ ’’مسلمان عورتیں اپنے زیور تک اتار اتار کر خلافت بچائو مہم پر نچھاور کیا کرتی تھیں‘‘۔ یہ اور اس طرح کے درجنوں جملے میں نے اتنی بار سنے تھے کہ وہ میرے کمزور حافظے کا مستقل حصہ بن چکے تھے۔ خلافتِ عثمانیہ کس بلا کا نام ہے، اسے بچانے کی کیا ضرورت تھی، میرا بچپن ان سوالات کا متحمل نہ تھا، مگر جب چھٹی ساتویں کی معاشرتی علوم میں اتاترک کا تذکرہ پڑھا تو یادداشتوں کے تصویری البم میں ایک ایسے شخص کا اضافہ ہوا جو جدید ترکی کا معمار ہے اور ترکی کو ترقی کی منزلوںسے روشناس کرانے والا باکمال لیڈر ہے۔ وقت کچھ اور آگے بڑھا، تاریخ کے مطالعہ کا جونہی ذوق پیدا ہوا تو یہ تصویر بھی دھندلانے لگی۔ معلوم ہوا کہ کمال اتاترک تو اسلامی اقدار و روایات سے منہ موڑ کر مغربی سیکولرازم اور بے راہ روی کو فروغ دینے والا باغی انسان تھا، ایک ایسا لیڈر جو عربی رسم الخط، عربی اذان، عربی نماز اور عربی قرآن تک پر پابندی لگا چکا تھا۔ کیا جدید ترکی حضرت ایوب انصاریؓ، محمد فاتح اور مولانا رومی کے ترکی سے اپنے آپ کوآزاد کرپائے گا؟ یہ سوال اکثر میرے ذہن میں کلبلاتا رہتا تھا۔ یہاں تک کہ میں یونیورسٹی میں آن پہنچا۔ پھر اچانک پاکستان کے حالات نے اتنے ہچکولے کھانے شروع کئے کہ مسلم امہ اور مسلمان ملکوں کے بارے میں پڑھنا اور سوچنا تو درکنار، خود اپنے وطن کی شکل پہچاننا بھی مشکل ہونے لگا۔ وقت اور تاریخ کو کون لگام دے سکتا ہے! میں پنجاب یونیورسٹی سے فارغ ہوا تو مزید تعلیم کے شوق نے امریکہ کے سفر پر آمادہ کردیا۔ اسی دوران ایران سے اچھی خبریں آنا شروع ہوئیں۔ ایرانی قوم نے اپنی عظیم جدوجہد سے امریکی استعمار اور رضا شاہ کی غلامی سے آزادی حاصل کرلی تھی۔ ذلتوں اور غلامیوں میں جکڑی ہوئی مسلم امہ کے لئے یہ ایک بڑی جانفزاء خبر تھی۔ کچھ ہی مدت بعد یہ خبر بھی مل گئی کہ خالصتاً جمہوری عمل کے ذریعے ترکی کی سعادت پارٹی نے ترکی میں حکومت حاصل کرلی ہے اور مسلم روایات و اقدار کے احیاء کا دور شروع ہوگیا ہے۔ ترکی کی کچھ خواتین ارکان پارلیمنٹ نے سر پر اسکارف بھی اوڑھنا شروع کردیا ہے۔ ایسے لگا جیسے تاریخ کے صحرا کے آر پار چلچلاتی دھوپ میں سفر کرنے والے مسافر کو کسی نے روح افزاء کا جام پیش کردیا ہو۔ اچانک خبر ملی ترک فوج نے جو خود کو ترک سیکولر دستور کی محافظ سمجھتی ہے، حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے، اور پھر تیز لُو کا ایک اور تھپیڑا آیا، اسکارف اوڑھنے کے جرم میں ایک خاتون رکن پارلیمنٹ کو نہ صرف پارلیمنٹ کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ ترکی کی شہریت سے بھی محروم کرکے اسے جلا وطن کردیا گیا۔ پارلیمنٹ توڑ دی گئی اور فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ ترک عوام داد کے مستحق ہیں، انہوں نے ہڑتالیں کیں نہ آگ لگائی، شیشے توڑے نہ سڑکیں بلاک کیں۔ سوچ سمجھ کر طے کیا کہ وہ پرامن جمہوری راستے ہی کو اختیار کریں گے۔ انہوں نے خاموشی سے بلدیاتی اداروں میں چلے جانے کا فیصلہ کیا۔ انسانی خدمت اور گڈ گورننس کو اپنا مقصد بنایا۔ استعمار سے فوری ٹکر لینے کے بجائے ترکی کے حالات کو سنبھالنے کی فکر کی، اور پھر سچ مچ کمال کردکھایا۔ طیب ایردوان اور عبداللہ گل کی شکل میں ترکی اور مسلم امہ کے لئے امید کے دو نئے چراغ روشن ہوگئے۔ ترکی کے ماضی کی یہی یادیں لئے جب میں پہلی بار27 اپریل کو استنبول ائیرپورٹ پر اترا تو آپ میری اندرونی کیفیات کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ میں اور الخدمت فائونڈیشن پاکستان کے نائب صدر ڈاکٹر اقبال خلیلIFRDکی سینٹر ل ایگزیکٹو باڈی کے اجلاس میں شرکت کے لئے ترکی کے ایک باوقار ہوٹل گرینڈ جواہر کی طرف رواں دواں تھے۔ ہمارے میزبان یونس صاحب دورانِ سفر استنبول سے ہمیں روشناس کراتے چلے جارہے تھے: ’’یہ جس آبنائے کے ساتھ ساتھ ہم گزر رہے ہیں یہ گولڈن ہارن کہلاتی ہے‘‘، ’’اس آبنائے پر جو پل آپ کو نظر آرہا ہے یہ ایشیاء کو یورپ سے ملاتا ہے۔ ابھی ہم ایشیاء میں ہیں اور چند ہی لمحوں بعد یورپ میں ہوں گے‘‘۔ ’’اُس پار جو وہ مینار اور گنبد آپ دیکھ رہے ہیں وہ مسجد سلیمانیہ(Blue Mosque) ہے۔ ہم ان شاء اللہ کل اُسے دیکھنے جائیں گے‘‘۔ ’’وہ جو اس پل کے پار دوسرا پل ہے ناں، اس کے بالکل پہلو میں حضرت ایوب انصاریؓ کا مزار ہے‘‘۔ جس طرح ہجرت کے موقع پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی میزبانی کا شرف حضرت ایوب انصاریؓ کو ملا اسی طرح ترکوں کو حضرت ایوب انصاریؓ کی استنبول آمد پر میزبانی کا شرف حاصل ہوا، اور جس طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا اسی طرح حضرت ایوب انصاریؓ نے ترکی کو اپنا مستقل ٹھکانہ قرار دے لیا۔ ترکی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وفا شعار ساتھی کی میزبانی پر ہمیشہ ناز رہے گا۔ میزبان یونس صاحب ہمیں استنبول کی سنہری تاریخ سے روشناس کروا رہے تھے اور ہمارے دلوں کی دھڑکنیں تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھیں۔ جلد ہی ہم گرینڈ جواہر ہوٹل پہنچ گئے۔ انٹرنیشنل فیڈریشن فار ریلیف اینڈ ڈویلپمنٹ (I.F.R.D) جس کی کانفرنس میں شرکت کے لئے ہم استنبول آئے تھے، مسلمان رفاہی تنظیموں کی ایک چھتری ہے۔ اس تنظیم میں پاکستان سمیت 11 تنظیمیں شامل ہیں۔I.F.R.D حال ہی میں اس خیال کے تحت وجود میں آئی ہے کہ قدرتی آفات یا انسانوں کے ہاتھوں آنے والی تباہیوں میں مؤثر رابطوں اور وسائل کی یک جائی سے دنیا بھر کے آفت زدوں کی بہتر خدمت کی جاسکے۔ تنظیم کا ہیڈ کوارٹر کوالالمپور (ملائیشیا) میں ہے اور اس کے اجلاس جگہ بدل بدل کر مختلف ملکوں میں ہوتے ہیں۔ اس بار میزبانی کا شرف ترکی کی تنظیم جانسویو (Cansuyo)کو حاصل ہوا۔ جانسویو ترکی کی ایک بڑی رفاہی تنظیم ہے اور پاکستان میں آنے والے زلزلے، سیلاب اور بارشوں کی تباہ کاریوں میں الخدمت کے ساتھ مل کر مؤثر کام کرچکی ہے۔ جانسویو کے پاس ترکی بھر میں جفاکش کارکنان کی مؤثر ٹیم اور د فاتر موجود ہیں، اور اس کانفرنس کے لئے ان کارکنان نے رہائش اور پروگرام کے انعقاد کے شاندار انتظامات کررکھے تھے۔ استنبول میں ہماری آمد کا سبب اگرچہ اس کانفرنس میں شرکت تھی، تاہم جدید ترکی کے بارے میں جاننے کا شوق ہمیں چین سے نہ بیٹھنے دے رہا تھا۔ میں نے اپنے میزبان سے پوچھا: حضرت ایوب انصاریؓ کے مزار پر جانے کا اچھا وقت کون سا ہے؟ یونس صاحب نے بلا توقف کہا: نماز فجر سے ایک گھنٹہ قبل۔ میں نے کہا: مگر اتنے سویرے ہمارے پہنچنے کا بندوبست کس طرح ہوگا؟ یونس صاحب بولے: صبح ساڑھے تین بجے میں آپ کے کمرے کی گھنٹی بجادوں گا۔ اتنا متحرک اور تعاون کرنے والا میزبان میں نے سوچا بھی نہ تھا۔ صبح ساڑھے تین بجے شوق نے بیدار کرکے وضو بھی کروادیا، میں اور ڈاکٹر اقبال خلیل اپنے میزبان کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ سڑکیں تقریباً خالی تھیں، اس لئے ہم پندرہ منٹ میں پہنچ گئے۔ مسجد کے قریب پہنچے تو مردوں، خواتین اور اسکول کے بچوں کا ایک جم غفیر مسجد کی طرف رواں دواں نظر آیا، ہمارے اندر داخل ہونے تک مسجد کھچا کھچ بھر چکی تھی۔ انتہائی خوبصورت لہجے میں سورۃ فرقان کی تلاوت ہورہی تھی۔ ترکی کی ساری ہی مساجد فن تعمیر میں اپنا جواب نہیں رکھتیں، اور یہ مسجد بھی وسعت، سکون اور حسن انتظام میں لاجواب تھی۔ ترکوں کی ہر مسجد کے ہال میں اذان کا ایک چبوترہ ہوتا ہے، جس پر سیدنا بلال ؓکا نام جلی حروف میں درج ہوتا ہے۔ ترک موذنِ رسول سیدنا بلالؓ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں، اس لئے یہ چبوترے حضرت بلال ؓ کے نام سے منسوب ہوتے ہیں۔ اذان، فرض نماز اور دعائوں کے خوبصورت انداز کے بعد تلاوت کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا اور ہم لوگ سیدنا ایوب انصاریؓ کے مزار کی طرف آگے بڑھے۔ خیال آیا دھرتی نے ایسا خوش قسمت انسان اور کہاں دیکھا ہوگا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو ایک جہاں میزبانی کے لئے بے قرار ہورہا تھا، مگر یہ تو صرف سیدنا ایوب انصاریؓ کے نصیب میں لکھا تھا۔آپ میزبانِ رسول ٹھیرے، پھر اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ سنا کہ ’’جو لشکر قسطنطنیہ فتح کرے گا، جنتی ہوگا‘‘ تو اس سعادت کے حصول کے لئے بڑھاپے تک انتظار کیا، آخری عمر میں جب معلوم ہوا کہ قسطنطنیہ فتح کرنے کے لئے لشکر روانہ ہورہا ہے تو بااصرار اس میں شرکت کی اور استنبول (قسطنطنیہ) پہنچ کر اپنی جان مالکِ حقیقی کے سپرد کردی۔ سورج کی کرنیں صحابیٔ رسول کے مزار کو جگمگانے لگیں توہمیں واپسی کا خیال آیا۔ اردگرد بے شمار ریسٹورنٹ ناشتہ کے لئے منتظر زائرین سے بھر چکے تھے۔ ہم اپنے میزبان کے ہمراہ واپس اپنے ہوٹل لوٹ آئے۔ ترکی کی مساجد میں خواتین کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے۔ سروں پر اسکارف اوڑھے جب وہ مسجدوں سے باہر نکلتی ہیں تو عجیب سماں بندھتا ہے۔ میں یہ منظر مسجد سلیمانیہ کے باہر کھڑا آدھے گھنٹے تک دیکھتا رہا اور اس سوچ میں غوطہ زن رہا کہ یہ واقعی وہی ترکی ہے جس میں خواتین کا سر پر اسکارف لینا قابلِ تعزیر جرم تھا! میرے قریب کھڑے ڈاکٹر اقبال خلیل نے کہا ’’ترکی اپنے اصل کی طرف لوٹ رہا ہے‘‘۔ ’’لیکن اپنے اصل کی طرف لوٹتے ہوئے ترکی کے تیزی سے ترقی کی طرف بڑھتے ہوئے قدم رکے تو نہیں۔ کیا یہ ایک عجیب معما نہیں!‘‘ میں نے کہا۔ ڈاکٹر اقبال خلیل نے میری طرف دیکھا اور کہا ’’ہرگز نہیں۔ یہ محض پراپیگنڈہ ہے۔ دنیا بھر کے سیکولر پرچارکوں نے اس پراپیگنڈے کو ہوا دی ہے کہ اسلامی اقدار و روایات کی طرف لوٹنے کا مطلب ترقی سے منہ موڑنا ہے۔ ترکی کی معیشت اس وقت دنیا کی تیسری تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت ہے۔ ترکی اپنے معاشی، معاشرتی اور سیاسی اثرات یورپ، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیاء میں پھیلا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ترکی اور ترقی اب لازم و ملزوم ہوگئے ہیں۔ ترکی کی گلیاں اور بازار ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ کا منظر پیش کرتے ہیں۔‘‘ ہم اپنے ہوٹل گرینڈ جواہر پہنچ چکے تھے۔ سیدھا ناشتے کی میز پر چلے گئے۔ دن بھرI.F.R.Dکی کانفرنس میں گزرا، مختلف ملکوں سے آئے ہوئے مندوبین کے ذہن و زبان پر استنبول ہی سوار تھا۔ رات ایک ٹی وی چینل (چینل فور) نے I.F.R.D کے ذمہ داران کو انٹرویو کے لئے اپنے اسٹوڈیو بلایا۔I.F.R.Dکے صدر، نائب صدر اور سیکرٹری کے ہمراہ میں اسٹوڈیو میں موجود تھا۔ لہٰذا I.F.R.Dکی سرگرمیاں اور ترکی کے بارے میں تاثرات موضوع گفتگو رہے۔ کانفرنس کے خاتمے کے اگلے روز میزبانوں نے مندوبین کو استنبول کی سیر کرائی۔ بہت سارے تاریخی مقامات دیکھنے کے بعد ہم گولڈن ہارن کے کنارے ایک ریسٹورنٹ میں چائے پینے بیٹھ گئے۔ میزبان یونس نے ایک جانب کشتیوں کے پڑائو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ’’یہ وہ مشہور جگہ ہے جہاں سے فلسطینیوں کی مدد کے لئے فلوٹیلا روانہ ہوا تھا، وہی فلوٹیلا جہاز جس پر بین الاقوامی سمندر میں اسرائیلی فوجیوں نے حملہ کرکے ترکی کے آٹھ رضاکاروں کو شہید کیا تھا اور دنیا بھر میں رسوائی کا داغ اپنے ماتھے پر سجایا تھا۔‘‘ اس واقعہ نے ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں ایسی خلیج پیدا کردی جس کے خاتمے کا شاید اب کوئی امکان نہیں۔ نماز ظہر کے بعد ہم اپنی میزبان تنظیم جانسویو کے دفتر گئے۔ ہر چہرہ تمتما رہا تھا۔ میزبانوں میں ایک کے سوا کوئی انگلش نہ جانتا تھا اور مہمانوں میں کسی کو بھی ترکی نہ آتی تھی، لیکن سبھی پرجوش اور خوش باش تھے۔ میں نے مترجم کے ذریعے اپنے میزبانوں کو فارسی کی مشہور ضرب المثل سنائی’’زبان یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم‘‘۔ یعنی ’’جس شخص کو میں چاہتا ہوں اس کی زبان ترکی ہے۔ مگر صد افسوس مجھے ترکی زبان نہیں آتی‘‘۔ پھر میں نے کہا کہ میرے ترک بھائیو! یہ تو محض محاورہ ہے، جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ جب آپ بولتے یا آپ کے ہونٹ مسکراتے ہیں تو ہمیں آپ کی ہر بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ سارے میزبان کھلکھلا کے ہنس پڑے۔ اسی شام ترکی کی بیش بہا خوشگوار یادیں ذہن میں سمیٹے ہم واپسی کے لئے اپنے جہاز پر سوار ہوچکے تھے۔ |
Search This Blog
Friday 13 July 2012
زبانِ یار مَن ترکی…؟ Zabane yaare maan turki
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment