غور و فکر
- سلمیٰ مدثر
’’نازش یار میرے ساتھ شام کو شاپنگ کو چلوگی؟‘‘ ’’کیوں بھئی خیریت‘‘… ’’ہاں خیریت ہی ہے، بس رمضان سر پر آرہے ہیں، تھوڑی بہت شاپنگ اس سلسلے میں کرنی ہے‘‘۔ حمیرا اس کو مطمئن کرتے ہوئے بولی۔ اور جب شام کو اس نے حمیرا کو لان کے سوٹوں سے لے کر امپورٹڈ ڈنر سیٹ اور کٹلری کا سامان خریدتے دیکھا تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔ ’’حمیرا یہ شاپنگ تم نے صرف رمضان کے مہینے کے لیے کی ہے؟‘‘ وہ اس کو لان کے پورے دس سوٹ خریدنے پر حیرت سے پوچھ رہی تھی جن کی قیمت ہزاروں میں تھی۔ ’’ہاں یار رمضان میں کبھی سسرال تو کبھی میکے افطار پارٹی میں آنا جانا لگا رہتا ہے، اور پھر کسی نہ کسی کی روزہ کشائی کی تقریب بھی آہی جاتی ہے، اور تمہیں پتا ہے کہ میں کہیں جاتے ہوئے ایک دفعہ کے کپڑے دوبارہ نہیں پہنتی ہوں۔‘‘ ’’اچھا…!‘‘ نازش نے گردن ہلائی۔ پڑوس والی آنٹی پریشانی سے پوچھ رہی تھیں ’’ارے نازش! ماسی تم سے چھٹی کا کچھ کہہ کر گئی؟‘‘ ’’نہیں تو آنٹی، ماسی نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ مگر جمیلہ جو ساتھ والے گھر میں کام کرتی ہے وہ بتارہی تھی کہ ہماری ماسی کے بچے کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہے، اس وجہ سے وہ کام پر نہیں آرہی۔‘‘ ’’بس بیٹا ان لوگوں کو چھٹی کرنے کے بہانے چاہیے ہوتے ہیں۔ابھی میں نے تین دن پہلے ہی اس کے کان میں آواز ڈالی تھی کہ رمضان آنے والے ہیں، پورے گھر کی صفائی اچھی طرح سے کرنی ہے، اور دیکھو یہ چھٹیاں کرکے بیٹھ گئی۔ میں نے بھی پیسے نہیں کاٹے تو میرا نام نہیں۔‘‘ وہ غصہ سے بولیں۔ ’’امی، ارسہ خالہ آئی ہیں۔‘‘ نازش نے باورچی خانہ میں کام کرتی امی کو اطلاع دی۔ ’’ہاں ہاں تم خالہ کوبٹھائو، میں آرہی ہوں‘‘۔ اور ارسہ خالہ امی سے گرمجوشی سے ملتے ہوئے کہہ رہی تھیں: ’’رمضان آنے والے ہیں، میں نے سوچا ٹائم ملے نہ ملے، مل کر آجائوں۔‘‘ ’’اچھا ہوا آگئیں، میں بھی تمہیں یاد کررہی تھیں‘‘ امی نے جواب دیا۔ ’’یقین مانو اس مہینے میں تو لمحے بھر کو بھی فرصت نہیں ملتی، چاہے پورے سال چولہے پر کڑاہی نہ رکھو مگر رمضان کے مہینے میں تو جب تک گرم گرم پکوڑے دستر خوان پر نہ ہوں افطاری کا مزہ ہی نہیںآتا، پھر سب کی پسند کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے، اور اب کے تو اللہ کا شکر ہے بچوں کے اسکول کی چھٹیاں بھی رمضان میں ہورہی ہیں، تو انشاء اللہ راتوں کو جاگ کر خوب عبادت کروں گی اور صبح کی نماز پڑھ کر خوب فرصت سے سوئوں گی، ارشد کے ابو سے بھی میں نے کہہ دیا ہے کہ آفس جاتے ہوئے مجھے نہ اٹھایئے گا، ماسی کو بھی دوپہر کو بلائوں گی‘‘ ارسہ خالہ گرمجوشی سے رمضان کے حوالے سے اپنی پلاننگ بتارہی تھیں۔ ’’وہ تو سب ٹھیک ہے، مگر تم بڑی بھابھی سے مل کر آئیں؟ کافی عرصے سے تمہارا اور ان کا میل جول نہیں ہے، اس بابرکت مہینے کے آنے سے پہلے اپنا دل اگر رشتہ داروں سے صاف کرلیا جائے اور محبت، میل جول کو بڑھایا جائے تو اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے‘‘ امی ارسہ خالہ کو سمجھاتے ہوئے بولیں۔ ’’مگر باجی رمضان صرف میرے لیے ہی نہیں آرہے، غلطی ان کی ہی تھی، اب ملنے میں بھی ان کو چاہیے پہل کریں، میں کوئی گری پڑی نہیں ہوں جو ان کے گھر جائوں‘‘ ارسہ خالہ اپنی ضد پر قائم رہیں۔ اور دو دن کے بعد ہی ساتھ والے گھر میں استقبالِ رمضان کے سلسلے کے پروگرام میں جب درس دینے والی خالہ رمضان اور روزوں کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ روزوں کا اصل مقصد تو تقویٰ کا حصول ہے اور بہت سے مسلمان ایسے ہوتے ہیں جن کو روزے سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا، تو نازش نے دیکھا کہ ارسہ خالہ اور حمیرا کچھ فکرمند سی ہیں۔ اللہ کرے یہ فکرمندی وہ ہو جس کے بارے میں اللہ قرآن میں کہتا ہے ’’تم کیوں نہیں غور و فکر کرتے‘‘۔ نازش نے دل ہی دل میں دعا کی۔ |
No comments:
Post a Comment