فربہی جسم وجاں کی عبدالرحمٰن مخلص
دورِحاضر میں لوگوں کی اکثریت دن رات محنت ومشقت اور مصائب وآلام کے بھاری بوجھ ڈھونے اور پسینے پسینے ہونے کے باوجودروز بروز ’’فربہ‘‘ ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ ڈاکٹرصاحبان اپنے مشوروں میں لوگوں کو موٹاپے کے خطرات واحتمالات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں لیکن وہ ہیں کو ’’موٹا‘‘ ہونے پر بضد ہیں ۔ موٹاپے کا احساس کرنے کا سب سے سستا اور آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے بیلٹ یا ازار بند کا گھیر دیکھ لیں ۔ اگر آپ کا پیٹ آپ کی ریڑھ کی ہڈی کے متوازی نہیں ہے ، تو آپ موٹے ہیں ، وزن چاہے بہت زیادہ نہ ہو ۔ میں حیران ہوں کہ لوگ دُبلا ہونے کے بجائے صرف فربہ ہی کیوں ہوتے جارہے ہیں حالانکہ محنت ومشقت اور غم وفکر جسم کی فالتو چربی کو گھلا دیتی ہے ۔ اگر آ پ میں ذوقِ جستجو ہو تو کبھی گہری نظر سے اپنے گردوپیش کا جائزہ لیجئے ۔ آپ کویقیناً ہر دس آدمیوں عورتوں میں کم سے کم چار چھ موٹے ملیں گے ۔ مجھے کسی کے بھی موٹا ہونے سے دُشمنی نہیں ہے لیکن اُن روّیوں سے دشمنی ہے جن کی وجہ سے وہ فربہ ہوکر شاہراہِ حیات کو مختصر بنانے میں لگے ہیں ۔ ایک روز آنجہانی سومناتھ سادھوؔنے ایک ریڈیائی انٹرویو میں کسی ماہرڈاکٹر سے یہ سوال بھی کیا : ’’ڈاکٹر صاحب !یہاں لوگ اکثر یہ کہتے ہیں کہ جس کا پیٹ بڑا ہوجائے وہ بڑا ہی ’’دھن وان‘‘ (دولت مند)ہوتاہے ۔ آپ کا اس تصور کے بارے میں کیا خیال ہے ؟‘‘ ۔ ڈاکٹر صاحب نے کچھ یوں کہا تھا : ’’توند نکلنا بڑی ہی مضر صحت چیز ہے ،اس لئے پیٹ کو ہرگز بڑھنے نہ دیا جائے !‘‘۔ اس پر سادھوؔ صاحب نے ہنس کر کہا تھا : ’’جناب!پھر تو پیٹ کا بڑھنا خوش قسمتی کی نہیں بلکہ ’’شِکس‘‘ (بدقسمتی ) کی علامت ہے !!‘‘…زندگی اپنی تمام مشکلات کے باوجود انمول ہے ۔ پھر اس کو مشہور رندِقدح خوار شاعراسرارالحق مجازؔ کی طرح مختصر کیوں بنایا جائے جنہوں نے فرمایا ہے ؎
ہم میکدے کی راہ سے ہو کر گزر گئے
ورنہ سفر حیات کا بے حد طویل تھا!
مجازؔ مرحوم نے اگر بادہ کشی سے راہِ حیات کو مختصر کیا تو کیا یہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اسے بدن کی فربہی سے مختصر ترین بنالیں؟!میں کوئی ڈاکٹر نہیں ہوں لیکن تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں عرض کروں گا کہ ہماری جسمانی فربہی میں جن عوامل کا عمل دخل ہے ،اُن کی فہرست کچھ یوں ہے ۔(۱)- کھان مان میں بے لگام آزادی؛(۲)-لمحیات وروغنیات کا بے تحاشہ استعمال ؛(۳)- محنت کی بقدر ضرورت کمی ؛(۴)- فکر وتردد سے بے توجہی او رصرفِ نظر ؛(۵)- مالِ حرام اور غذائے حرام کی طرف زبردست رغبت ؛ (۶)- مالِ حلال اور غذائے حلال سے حذر؛(۷)- غور وفکر کرنے کی کمی ؛(۸)-بولنے کی زیادتی اور سننے کی کمی ؛(۹)- دنیا کی انتہائی محبت اور آخرت فراموشی ؛(۱۰)- احساسِ جوابدہی کا فقدان؛(۱۱)-خوف وخطر کا عادی بننے کی عادت ؛(۱۲)-نیند کی کثرت ؛(۱۳)- ضرورت سے زیادہ نرم اور آرام دہ بستروں کی افراط ؛(۱۴)- نرم اور گداز تکیوں اور کرسیوں کا استعمال ؛(۱۵)- حرکت وعمل میں تساہل ۔(آماس کی بیماری کو الگ رکھا جائے ۔)
میرے خیال میں موٹاپے یا فربہی کی دوقسمیں ہیں ۔پہلی جسم کی فربہی اور دوسری روح یا جان کی فربہی ۔ جسم کی فربہی یہ ہے کہ ہڈیوں کے ڈھانچے پر کسی مارواڑی سیٹھ کی طرح خوب گوشت اور چربی ہو کہ اُٹھنے بیٹھنے میں دشواری ہو۔ روحانی فربہی میںجسم کی بھاری یا لاغر ہونے کو کوئی دخل نہیں ہے ۔ کوئی فربہ بھی روحانی طور سے برگزیدہ ہوسکتاہے اور کوئی نحیف وناتواں بھی لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ اکثر روحانی برگزیدگی رکھنے والے لوگوں کے جسم پر گوشت کم اور کھال زیادہ ہوتی ہے ۔ جسم کی فربہی خورد ونوش کی کثرت سے حاصل کی جاسکتی ہے لیکن روح کی بالیدگی ذکر وفکر اور ’’ہوش وحواس‘‘سے حاصل کی جاسکتی ہے۔اگرچہ اس میں زورِ بازو کو دست رس حاصل نہیں ہے لیکن خدائے بخشندہ چاہے تو بے زور و زر بھی عطا کرسکتاہے ۔ روحانی پاکیزگی اور بالیدگی حاصل کرنے کے لئے ، میرے خیال میں ایک نسخہ یہ ہے کہ انسان اپنے حواسِ خمسہ سے وہی کام لے جس کے لئے وہ عطا کئے گئے ہیں ۔ مثلاً آنکھوں سے آیاتِ حق کو دیکھے ، کانوں سے اقوالِ بلیغ سنے ، زبان سے شکر وثناء کا حظ اور ذائقے کا لطف اٹھائے ، ناک سے فقط صاف وپاک اور معطر چیزیں ہی سونگھے اور کھال سے اُن چیزوں کا درک حاصل کرلے جنہیں عام طور سے محسوس نہیں کیا جاسکتا ۔
اکثر انسان زیادہ بولنے اور کم سننے کے عادی ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنی ذات کا اظہار چاہتے ہیں ۔بہت ہی کم لوگ کم گو ہوتے ہیں۔ کم گو انسانوں کی زندگی زیادہ تہہ دار اور گہری ہوتی ہے ۔ چنانچہ کہا گیا ہے ؎
کم خور و کم خواب کم گفتار باش
گرد ِخور گردند چوں پر کارباش
(کم کھانے والے ،کم سونے والے اور کم بولنے والے بن کر ہروقت پرکار کی طرح اپنی ذات کے گرد گھوم کو اس کا محاسبہ کرتے رہو۔)
ایک محفل خاص میں ایک بسیار گو کسی بزرگ کی باتیں سنتے سنتے اُگتا گئے ۔ وہ بار بار بولنے کی کوشش کرتا تھا لیکن موقع محل نہ پاکر خاموش رہتا۔جب اس حال میں اُسے گھٹن کا احساس ہونے لگا تو اُس نے اُس محفل سعادت سے بھاگنے کی سوچی ۔ خدارسیدہ بزرگ نے اُس کی کیفیت بھانپ لی اور اسے مخاطب کئے بغیر حاضرینِ مجلس سے کہا ؎
چار پا فربہ شود از راہِ نوش
ہوشمند فربہ شود ازراہِ گوش
(حیوان منہ سے یعنی کھانے پینے سے فربہ بن جاتاہے اور ہوشمند کانوں سے یعنی سننے سے فربہ بن جاتاہے۔)
جو فربہی منہ کے راستے حاصل ہوتی ہے وہ بہرحال عارضی اور فنابدوش ہے لیکن جو فربہی کانوں کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے ، وہ جان و روح کی فربہی ہے جو فنا سے ناآشنا ہوتی ہے ۔ یہ بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ جسم فانی اور روح لافانی ہے ۔جب جسم کو ایک بار پھر جوابدہی کے لئے کھڑا کردیا جائے گا تو اُس میں روح کا دخول لازمی ہوگا۔
-------------------------------------------
رابطہ:-سیر جاگیر سوپور (کشمیر)
ای میل : armukhlis1@gmail.com ؛موبائل: 9797219497
|
Search This Blog
Sunday 22 July 2012
فربہی جسم وجاں کی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment