محمد بن قاسم کا مثالی کردار
- پروفیسر محمد شکیل صدیقی
خلافتِ راشدہ میں شام اور ایران مین قیصریت اور کسرائیت کے ظلم کے خلاف مسلمان مجاہدین کی فتوحات اور کامیابیاں نہ صرف دنیا کی عسکری تاریخ کے اہم واقعات ہیں بلکہ اس کے نتیجے میں جہاں ایک طرف ظلم و استحصال پر مبنی دونوں قدیم شہنشاہیت کے محلات زمین بوس ہوگئے تو دوسری طرف مظلوم انسانوں کو ظلم اور غلامی سے نجات اور آزادی ملی اور سب سے بڑھ کر اسلام کی کرنوں سے یہ خطے اور ممالک جگمگااٹھے۔ ظاہر ہے ان عظیم الشان فتوحات کی بازگشت سے باقی دنیا بے خبر نہ رہی ہوگی ‘دیگر مظلوم اقوام و مغل کی امید بھری نظریں بھی مسلمانوں کی طرف بطور نجات دہندہ اٹھی ہوں گی جو اپنے حکمرانوں کی حرص و ہوس اور ظلم و جور کا شکار تھے۔ چنانچہ خلافت راشدہ کے بعد جب بنوامیہ برسراقتدار آئے تو جہاد و فتوحات نیا سلسلہ شروع ہوا‘ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک اور اس کے لائق فائق جرنیلوں نے دنیاکاسمتوں جغرافیہ ہی بلکہ تہذیب و تمدن کا دھارا موڑدیا۔ عظیم السان فتوحات کا یہ سلسلہ چہار سمتوں میں جاری تھا ایک طرف قتیبہ بن مسلم باہلی فتح و کامرانی سے سرشار خاقان جین کو دعوت مبارزت دے رہا تھا تو دوسری طرف محمد قاسم لقفی‘ سندھ کے راجہ کے ظلم و ستم کو للکار رہا تھا شمالی افریقہ میں موسیٰ بن نصیر سرکش بربروں کو قابو میں لانے کے لیے برسرپیکار تھا اور طارق ابن زیاد اسپین کے حکمرانوں کی جاہ طلبی‘ عیش پرستی اور عیاشی کا زور توڑنے کی منصوبہ بندی کرچکا تھا۔ مذکورہ فتوحات ومہمات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا ان ممالک کے حکمرانوں‘ امرائ‘ اراکین دربار اور نام نہاد مذہبی پیشوا سب نفسیاتی خواہشات میں مبتلا کمزور اور مظلوم انسانوں کی عزت و آبرو او رجان و مال کو کھیل تماشا بنالیا تھا ایک اور مشترکہ وجہ خواتین کی عزت و عصمت دری ان حکمرانوں کا معمول بن چکا تھا۔ اسپین میں حملے کا فوری سبب حکمران وقت کی ایک عورت کی عصمت دری ہی تو تھی۔ جب شاہ راڈرک نے اپنے ہی ایک گورنر کائونٹ جولین کی بیٹی فلورنڈا کو جو شاہ کے محل میں آداب شاہی اور تعلیم و تربیت کی غرض سے آئی تھی‘ بادشاہت کے نشے میں فلورنڈا کی عصمت کو تار تار کردیا۔ راجہ داہر نے بھی کیا کیا تھا۔ اس کی سلطنت میں ڈاکوئوں نے عورتوں بچوں کو قید اور غلام بنالیا اور وہ تماشاد یکھتارہا اموری حکمرانوں کی بعض غلطیاں ناقابل معافی ہی صحیح لیکن ان کی خوبیوں کو نظرانداز کرنا بھی انصاف اور تاریخی اصولوں کے منافی ہوگا ان ہی خوبیوں میں سے ایک خوبی ان کی وہ عظیم الشان فتوحات ہیں جس نے مظلوموں کو ظلم کے پنجے سے رہائی دلائی اور اسلام کا پیغام مفتوحہ علاقوں تک پہنچایا۔ خلیفہ ولید بن عبدالملک کے عہد کی فتوحات میں محمد بن قاسم کی قیادت میں سندھ کی فتح رمضان المبارک اور ہمارے خطے کا ایک اہم واقعہ ہرسال سندھ کی فتح 10 رمضان المبارک کو یوم باب الاسلام کے طور پر منایا جاتاہے۔ آج سندھ دھرتی جس خون آشام دور سے گزر رہی ہے اس مین محمد بن قاسم کے کردار و کارناموں کا مطالعہ اور اس کا تذکرہ سندھ مین امن و آشتی کی کرن ثابت ہوسکتا ہے۔ سندھ میں راجہ داہر کی حکومت کے خلاف عرب کی اسلامی حکومت کی عسکری مہم اور اس کی کامیابی کے درج ذیل ممکنہ محرکات قرار دیا جاسکتا ہے۔ اول‘ عرب کی اسلامی حکومت کے خلاف سندھ کے حکمرانوں کا معاندانہ طرز عمل اور اسلامی کے مخالفین کی سرپرستی۔ دوم‘ بدھ مت کے پیروکاروں کے خلاف انتقامی کارروائیاں اور انہیں بزور قوت ہندومت اختیار کرنے کی زور زبردستی۔ سوم‘ سندھ میں بدامنی اور لاقانونیت جسے ڈاکو راج کہنا زیادہ مناسب ہوگا سے تنگ اور بے زار عوام کی حکمرانوں سے نفرت۔ اور چہارم وہ فوری واقعہ ہے جس میں بحرین کے عرب قبائل بنو تمیم اور بنوعبدالقیس کے وہ خاندان جو سراندیب (سری لنکا) میں آبادتھے ان میں چند خاندانوں کے سربراہ وہیں فوت ہوگئے تو ان کے اہل و عیال بحری جہازوں سے وطن واپسی کے لیے روانہ ہوئے تو یہ جہاز جو طوفانی موجوں سے ٹکر اکر ساحل سمندر پر پہنچے جہاں سندھ کے بحری قزاقوں نے ان جہازوں کو لوٹ لیا مسافروں کو یرغمال بنالیا جس میں عورتیں بھی شامل تھیں اس حادثے میں بچ جانے والے نے عراق پہنچے اور سارا ماجرا ممالک مشرق کے سربراہ حجاج بن یوسف کے گوش گزار کیا حجاج جو اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف سختی میں شہرت رکھتا ہے اس سانحے پر بے چین ہوگیا مسلمان خواتین کی بے حرمتی اور مسلمانوں کے خلاف لوٹ مار پر طیش میں آگیا اس نے ایک احتجاجی مراسلہ قاصدوں کے ذریعے سندھ کے راجہ داہر کو ارسال کیا لیکن راجہ داہر نے یہ کہہ کر اپنی ذمہ دای سے سبکدوش ہونے کی کوشش کی کہ ’’دیبل کی بندرگاہ پر بحری قزاقوں کا قبضہ ہے اور یہ قزاق اس کی دسترس سے باہر ہیں اس لیے وہ کچھ کرنے سے قاصر ہے۔‘‘ راجہ داہر کے انکار کا واضح مطلب دعوت جنگ تھا۔حجاج نے خلیفہ ولید بن عبدالمالک کو مطلع کیا کہ سندھ میں مسلمان تاجر اور عورتیں ڈاکوئوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں اور بعض اب تک قید ہیں اس لیے اسے اجازت دی جائے کہ وہ ان کی رہائی اور ضبط شدہ مال کی واپسی کے لیے اقدامات کرے۔ حجاج نے دربار خلافت سے اجازت ملتے ہی عبداللہ بن نبھان کی قیادت میں ایک لشکر روانہ کیا وہ سندھی لشکر کے خلاف داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوگئے ایک روایت کے مطابق کلفٹن میں غازی عبداللہ شاہ کا مزار درحقیقت عبداللہ بن نبھان کا مرقد ہے۔ اس مہم کی ناکامی کے بعد حجاج اور لشکر بریل بن طہفہ بجلی کی قیادت میں روانہ کیا ان کا مقابلہ کرنے کے لیے راجہ داہر کا بیٹا جے سنگھ (جیسیہ) ایک بڑے لائو لشکر کے ساتھ آیا اس معرکہ میں بریل نے دشمن کے اسی سپاہیوں کو موت کے کے گھاٹ اتار کر جام شہادت نوش کیا۔ حجاج بن یوسف کی طبیعت پر ان پے درپے شکستوں کا ایسا اثر ہوا کہ اس نے موذن سے کہا کہ وہ جب اذان دیا کرے تو اسے بدیل کی شہادت یاد دلایا کرے تاکہ اس کے انتقام کی تدابیر سوچتا رہوں ۔ ان شکستوں نے دوسری طرف اموی خلافت کے وقار کا مسئلہ بھی پیدا کردیا تھا ان حالات میں حجاج نے قبیلہ ثقیف کے جواں سال فرزند محمد بن قاسم ثقفی کا انتخاب کیا اور فیصلہ کن جنگ کے لیے لشکر روانہ کیا۔ محمد بن قاسم جملہ عسکری تیاریوں کے ساتھ ایک عظیم مقصد کے لیے روانہ ہوا حجاج نے روانگی کے وقت نصیحت کی وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ محمد بن قاسم بلوچستان کے راستے دیبل پہنچا اور دیبل کا محاصرہ کرلیا۔ محاصرے نے طول پکڑا تو محمد بن قاسم نے ہندوئوں کے ایک مندر سے لہرانے والے پھریرے کو منجنیق سے نشانہ بنایا جس کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ جب تک یہ پھریرا لہراتا رہے گا وہ محفوظ اور مامون رہیں گے۔ منجنیق سنگ باری سے مندر کا کلس ٹوٹ گیا اور دوسرے حملے میں منڈپ بھی زمین بوس ہوگیا پھر کیا تھا؟ مندر کا یہ حشر دیکھ کر اہل دیبل ہمت ہار کر فرار ہوگئے عام حملے کے ساتھ دیبل فتح ہوگیا سراندیب کے قیدیوںکو رہا کرایا‘ بھاری مقدار میں مال غنیمت ہاتھ آیا اس کے ساتھ دیبل کے وسط میں مسجد کی بنیاد رکھ کر توحید کی صدا گونجی۔ دیبل کی فتح نے لشکر اسلامی کے مقاصد پورے کردیے تھے لیکن اس مہم کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے محمد بن قاسم نے پیش رفت جاری رکھی‘ سندھ کے شہروں کو فتح کرتا ہوا آگے بڑھا اور10 رمضان المبارک 93 ھ /20 جون 712 ء کو راجہ داہر کے ساتھ فیصلہ کن معرکہ ہوا جس میں راجہ مارا گیا‘ الور کی اس فیصلہ کن فتح نے اہل سندھ کے قلوب کو اسلام کے لیے مسخر کردیا الور کے سندھی جوق در جوق آکر اطاعت قبول کرنے لگے ‘آخری معرکہ راجہ کے داہر کے بیٹے جے سنگھ کے ساتھ ہوا یہ متحدہ ہندو لشکر کی شکست تھی۔ محمد بن قاسم اور سندھ کے ہندو حکمرانوں کے ساتھ معرکہ آرائیوں کی مذکورہ تفصیل کو معروف مورخ پروفیسر محمد اسلم نے ’’محمد بن قاسم اور اس کے جانشین‘‘کے عنوان سے کتابی صورت میں اصل ماخذ سے مرتب کیا ہے‘ اس تاریخی معرکے کے اثرات نہ صرف سندھ بلکہ پورے ہندوستان پر اشاعت اسلام کی صورت میں اثر انداز ہوئے۔ محمد بن قاسم نے فتوحات کے بعد مفتوحہ قوم سے حسن سلوک کی مثال قائم کی۔ غیر مسلم رعایا کو عزت و تکریم کے ساتھ اقتدار میں شریک کیا مذہبی معاملے میں غیرمسلموں پر جبر کے بجائے مذہبی آزادی دیں سندھ میں بدھ مت کے پیروکاروں کو ہندوئوں کے مظالم کے تحفظ فراہم کیا۔ محمد بن قاسم کی فتح سندھ اور عراق روانگی کے بعد تقریباًتین سو سال کا زمانہ جس میں بنو امیہ اور بنو عباس کے گورنر سندھ پر سرفرازہوتے رہے انہوں نے عرب ہند تعلقات کو علمی وتہذیبی بنیادوں پراستوار کیا اگرچہ اس دوران سندھ میں خودمختار حکمران خاندان آتے رہے لیکن اہل سندھ کا علمی و تہذیبی رشتہ منقطع نہیں ہونے دیا گیا۔ سندھ کی فتح‘ سیاسی‘ تہذیبی اور علمی اعتبار سے ایک جمہوری اور روشن خیالی دور کا آغاز تھا۔ کوئی نو گوایریا نہ تھا‘ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات بھی برابری اور رواداری پر قائم تھے‘ ہر شہری کی جان ومال کو تحفظ حاصل تھا۔ محمد بن قاسم نے اور اس کے جانشینوں نے رعایا پروری کی ایسی مثال قائم کی اس کی روانگی پر وہ آنسو بہاتے تھے اور اس کی یادگاریں بناتے تھے۔ سندھ کے موجودہ حکمرانوں کے دور میں آج اہل سندھ بالخصوص میں کراچی کے شہری جس بھیانک دور سے گزر رہے ہیں ان کے لیے ابن قاسم کا کردار ایک مثالی نمونہ ہے۔ سندھ آج بھی امن‘ ترقی اور خوشحالی کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ جب حکمران اتحاد ابن قاسم کی سیاسی رواداری اور رعایات پروری کو اختیار کریں ۔ یہ بات سندھ کے موجووہ حکمرانوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اگر انہوں نے راجہ داہر کی داہریت کو ترک نہ کیا تو محمد بن قاسم ضرور پیدا ہوں گے وہ اہل سندھ کو تحفظ بھی دیں گے اور سند ھ کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو شیطان عظیم امریکہ کے چنگل سے رہائی بھی دلائیں گے۔ اس سال اگر سندھ باب الاسلام کا کوئی پیغام یا سبق ہمارے دیس کے لیے حکمرانوں کے لیے ہوسکتا ہے توہ یہ ہے کہ وطن عزیز کی غیرت و محبت کا چند ڈالروں کے عوض سودے بازی آجائیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی‘ نیٹو سپلائی اور ڈرون حملوں کی سرزنش پر قوم کو اعتماد میں لے کر حجاج بن یوسف اور ابن قاسم کی غیرت و حمیت کو اختیار کریں اس کے کردار کو مشعل راہ بنائیں۔ |
No comments:
Post a Comment