رمضان المبارک کی اہمیت و فرضیت
- مولانا عبدالرحمن سلفی
’’ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن مجید (اول اول) اُتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق و باطل کے درمیان تمیز کی نشانیاں ہیں‘ تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اسے روزے رکھنا چاہیے البتہ جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں‘ وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پورے کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔‘‘ (سورۃ البقرہ آیت 185 پارہ 2) رمضان المبارک کا مہینہ اسلامی شریعت میں انتہائی قدر ومنزلت کا حامل ہے۔ یہ ماہ مقدس متعدد وجوہ کی بنا پر ہمارے لیے نہایت درجہ اہمیت و فرضیت رکھتا ہے۔ لغوی اعتبار سے رمضان ’’رمض‘‘ سے مشتق ہے۔ جس کے معنی جھلسا دینے‘ بھسم کردینے یا گرم ریت پر جلادینے کے ہیں۔ شرعی اعتبار سے رمضان کے معنی یہ ہوں گے کہ اس میں اہل ایمان کے گناہوں اور معصیات کو رب تعالیٰ ایسے ختم کردیتے ہیں جیسے آگ میں کسی چیز کو ڈالا جائے تو وہ اسے بھسم کرکے کھ دیتی ہے۔ بعینہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو رمضان کی آزمائشی بھٹی میں ڈال کر کندن بنا دیتا ہے۔ گویا رمضان المبارک میں بندۂ مومن مختلف عبادتیں اور ریاضتیں کرکے اپنے مالک حقیقی کو اس طرح راضی کرلیتا ہے کہ وہ گناہوں سے پاک ہوکر اپنے رب کی رضا حاصل کرتے ہوئے جنت کا حقدار ٹھیر جاتا ہے۔ رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ ہونے کی وجہ سے کائنات انسانی کے لیے رب تعالیٰ کی طرف سے آخری پیغام ہدایت نازل ہونے اور اتمام حجت کا واضح اعلان ہے۔ جیسا کہ درج بالا آیت میں واضح طور پر ہے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا‘ جو بنی نوع انسان کے لیے سامان رشد و ہدایت ہے اور اس کتاب میں کامیاب دنیاوی و اُخروی زندگی کے تمام سربستہ راز بیان کردیے گئے ہیں اور چونکہ یہ کتاب تاقیامت رہنمائی کے لیے اُتاری گئی ہے لہٰذا اس میں واضح کردیا گیا ہے کہ کیا حق ہے اور کیا باطل ہے۔ فرقان کہتے ہی اس کو ہیں جو مکمل طور پر حق و باطل میں فرق واضح کردے اور اس میں ذرہ برابر بھی شائبہ نہ ہو کہ شاید یہ صحیح ہوگا وہ صحیح ہوگا۔ نہیں بلکہ دونوں صورتیں مکمل طور پر واضح کردی گئیں کہ یہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہی اور یہ غیر اللہ اور من چاہی راہ اب انسان پر منحصر ہے کہ وہ اپنے لیے کس راستے کا انتخاب کرتا ہے۔ آیا وہ قرآن مجید و سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چل کر دنیا و آخرت کی کامیابیاں حاصل کرنا چاہتا ہے یا اپنے آبائو اجداد اور من پسند افکار و نظریات اختیار کرکے اپنے خالق و مالک کی ناراضگی کا وبال اپنے سر لینا چاہتا ہے‘ تو معلوم ہوا کہ رمضان المبارک کی اہم ترین فضلیت نزول قرآن کی بدولت ہے۔ اس ماہ مقدس میں قرآنی احکامات کے تحت متعدد عبادات بجالائی جاتی ہیں جو اس کے فضائل ومناقب اور فرضیت و اہمیت کو چار چاند لگاتی ہیں۔ مثلاً رمضان کا مہینہ روزوں کا مہینہ بھی جو اللہ نے امت مسلمہ پر فرض کیے ہیں یعنی سال کے گیارہ مہینے ہم ہمہ وقت کھاتے پیتے ہیں لیکن رمضان المبارک کے مخصوص اوقات میں روزہ رکھ کر ہمیں حلال و پاکیزہ چیزوں سے اجتناب کا حکم دے دیا گیا اور بھوک و پیاس کی شدت کو برداشت کرنے اور اس دوران ہر قسم کی لہو و لعب‘ فسق و فجور اور اللہ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں سے بچنے کی تلقین کی گئی اور ان امور کو روزہ کی مقبولیت کا ذریعہ قرار دیا گیا۔ روزہ کی فرضیت اس لیے عائد کی گئی تاکہ ہمارے اندر تقویٰ و پرہیز گاری پیدا ہوجائے۔ نیز بھوکا پیاسا رہ کر اللہ تعالیٰ کی کئی مرضیات و حکمتیں حاصل ہوتی ہیں۔ (1) تقویٰ حاصل ہوجاتا ہے کہ روزہ دار گھر میں سب کچھ موجود ہونے کے باوجود قبل از وقت تنہائی کے عالم میں بھی محض رب کی رضا کی خاطر حلال و پاکیزہ چیزیں بھی اپنے اوپر حرام کرلیتا ہے اور وہ کچھ نہیں کھاتا پیتا۔ حالانکہ اگر چپکے سے کچھ کھاپی لے تو اسے کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا‘ مگر اس کے دل میں یہ احساس موجود ہوتا ہے کہ میرا رب دیکھ رہا ہے اور وہ اپنے روزے کو ضائع ہونے نہیں دیتا۔ (2) اسی طرح روزہ دار کے دل میں دیگر مفلوک الحال مسلمان بھائیوں کی بھوک پیاس کا احساس پیدا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو انواع و اقسام کی نعمتیں میسر نہیں‘ انہیں اپنے عیش و عشرت کے سامان میں شریک کرلیں اور ان کی غربت و افلاس کو اپنی بھوک پیاس کی شدت سے تقابل کرنے کی توفیق حاصل ہوسکتی ہے اور ایک طرف اپنے اوپر کی گئی فیوض و برکات پر اللہ کا شکر ادا کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے تو دوسری طرف اللہ کے مجبور بندوں کے ساتھ حسن سلوک کا خیال بھی نیکی پر آمادہ کرتا ہے۔ (3) روزے کے ذریعہ تربیت نفس بھی ہوتی ہے کہ اگر خدانخواستہ انسان کسی ابتلاو آزمائش میں مبتلا ہوجائے تو ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کے قابل رہے۔ جیسا کہ ابتدائے اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ امام کائنات علیہ الصلوٰۃ و السلام اور آپ کے جانثار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے انتہائی نامساعد حالات میں دین کی شمع فروزاں رکھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی اور مدنی زندگی دونوں انتہائی نامساعد حالات کا شکار رہی اور سیرت کی کتابوں میں موجود ہے کہ آقا علیہ السلام نے زندگی بھر کبھی میدے کی نرم روٹی تناول نہیں فرمائی۔ اسی طرح خلافت راشدہ کے دور میں بھی کم و بیش یہی صورتحال رہی تاہم جب فتوحات بڑھتی رہیں تو اہل اسلام بھی معاشی اعتبار سے مستحکم ہونے لگے۔ البتہ یہ پُرمشقت زندگی اور اللہ‘ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کا نتیجہ تھا کہ اسلام چہار دانگ عالم میں پھیل گیا۔ لہٰذا روزے کی ایک حکمت یہ بھی ہے جو صرف ماہ رمضان میں فرض کیے گئے اسی لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: ترجمہ: ’’اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہوجائے۔‘‘ (البقرہ آیت 183 پارہ 2) گویا روزہ کے ذریعہ اہل ایمان رب کی خشیت حاصل کرتے ہیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ (بخاری) رمضان المبارک کی اہمیت و فرضیت اس لحاظ سے بھی معروف ہے کہ اس ماہ مبارک میں انفاق فی سبیل اللہ کا جذبہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ رمضان المبارک میں ایک نفل کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کی ادائیگی 70 فرضوں کے برابر ہے۔ (بیہقی) اس لیے عام طور پر لوگ زکواۃ‘ صدقات‘ خیرات اس ماہ مبارک میں بہت زیادہ کرتے ہیں اور اللہ کی رحمتوں کے حصول میں سرگرداں رہتے ہیں۔ گرچہ زکواۃ سال ہونے پر ہی دی جاتی ہے تاہم حصول ثواب کے لیے ماہ رمضان کا انتخاب کیا جاتا ہے تاکہ 70 فرضوں بلکہ قرآن کے مطابق سات سو گنا تک بھی اللہ تعالیٰ اجر و ثواب عطا فرماتا ہے۔ اسی طرح اس ماہ مبارک میں عام صدقات و خیرات کے علاوہ صدقۃ الفطر بھی دیا جاتا ہے جو روزہ میں ہونے والی کوتاہیوں کا کفارہ بن جاتا ہے اور مفلوک الحال مسلمان کی اشک شوئی کا ذریعہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ قارئین کرام! جیسا کہ عرض کیا گیا کہ رمضان المبارک نزول قرآن کا مبینہ ہے۔ اس ماہ مقدس کے آخری عشرے کی جس رات میں یہ قرآن نازل کیا گیا اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن کی برکت سے اس ایک رات کی عبادت کو بھی ہزار مہینوں سے افضل قرار دے دیا جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔ ترجمہ: ’’تحقیق ہم نے اسے (قرآن مجید کو) قدر والی رات میں نازل کیا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس میں (ہرکام) کے سرانجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (الامین) (جبرائیل) اُترتے ہیں۔ یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک (رہتی ہے)۔ (سورۃ القدر آیت 5 پارہ 30) گویا اس میں ایک رات (جو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے) کی عبادت ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل و برتر ہے۔ یہ امت مسلمہ پر رب تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ مختصر عبادتوں پر بے انتہا اجر و ثواب عطا فرما دیتا ہے تاکہ کل قیامت والے دن اہل ایمان کے اعمال میں نیکیوں کے انبار ہوں اور وہ کسی صورت جنت کے حقدار بن جائیں۔ رمضان المبارک میں ادا کی گئی نیکیاں مثلاً روزہ‘ نماز‘ تراویح (زکواۃ ‘ جو شرعی اعتبار سے امیر کے پاس بیت المال میں جمع کرانی چاہیے) صدقات‘ خیرات‘ تلاوت‘ سماعت قرآن مجید جیسی عبادتوں سے خالق کائنات اپنے بندوں پر خوش ہوتا ہے۔ اسی طرح رمضان المبارک میں ادائیگی عمرہ کی بڑی فضیلت ہے۔ احادیث مبارکہ میں ہے کہ رمضان المبارک کا عمرہ اجر و ثواب کے لحاظ سے حج کے برابر ہے یا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔ (صحیح بخاری‘ مسلم) اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے اور رات دن مسجد کے ایک گوشے میں دنیاوی معمولات اور تعلقات کو خیرباد کہہ کر یکسوئی سے یاد الٰہی میں مصروف ہوجاتے اور اس عبادت کی اتنی پابندی فرماتے کہ ایک مرتبہ اعتکاف نہ بیٹھ سکے تو شوال کے آخری دس دن اعتکاف فرمایا (بخاری) اور جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں دس دن کے بجائے بیس دن کا اعتکاف فرمایا (بخاری) اس عبادت کا مقصد جہاں شب قدر کا حصول ہے وہاں اعتکاف کے معنی ہی ’’جھک کر یکسوئی سے بیٹھ رہنا‘‘ اس عبادت میں انسان صحیح معنوں میں سب سے کٹ کر اللہ کے گھر میں یکسو ہوکر بیٹھ جاتا ہے۔ اس کی ساری توجہ اس امر پر مرکوز رہتی ہے کہ میرا رب مجھ سے راضی ہوجائے۔ چنانچہ وہ اس گوشہ خلوت میں بیٹھ کر توبہ و استغفار کرتا ہے‘ نوافل بکثرت ادا کرتا ہے‘ ذکر و تلاوت کرتا ہے‘ دعائیں و التجائیں کرتا ہے اور یہ سارے ہی کام عبادت ہیں۔ اس اعتبار سے اعتکاف گویا مجموعہ عبادات ہے۔ رمضان المبارک اپنی رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہورہا ہے اور یہ نیکیوں کا موسم بہار ہے۔ ترجمہ: یعنی رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب رمضان المبارک کی اول رات ہوتی ہے تو بڑے بڑے سرکش جن اور شیطان قید کرلیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں پھر ان میں سے کوئی دروازہ نہیں کھلتا اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں پھر ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور اللہ کی طرف سے پکارنے والا پکارتا ہے کہ اے بھلائی کے چاہنے والے آگے بڑھ یعنی اب وقت ہے جو کچھ نیکی کرنا ہے کرلے، اور اے گناہ کرنے والے اب پیچھے ہٹ جا یعنی اس خیر و برکت کے مہینے میں شرم کر اور گناہوں سے باز آجا۔ اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو جہنم سے آزاد کردیتا ہے جو آزادی کے مستحق ہیں اور یہ معاملہ ہر رات ہوتا ہے۔ (ترغیب و ترہیب‘ حاکم) اسی طرح رمضان المبارک کو صبر کا مہینہ قرار دیا گیا کہ جس طرح انسان روزے کی حالت میں بھوک پیاس کی شدت کو صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کرتا ہے۔ اسی طرح دیگر معاملات میں بھی صبر کا مظاہرہ کرے۔ چنانچہ فرمایا کہ جب کوئی روزے سے ہو تو لغو اور بے ہودہ بات نہ کرے اگر کوئی جھگڑے یا گالی گلوچ پر اتر آئے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں (بخاری) اسی طرح سحر و افطار کو بھی خیر و برکت کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ سحری کھانے والوں پر اللہ تعالیٰ رحم فرماتا ہے اور فرشتے ان کے حق میں دعا کرتے ہیں (طبرانی‘ ترغیب) سحری تاخیر اور افطار جلدی کرنا چاہیے۔ حدیث مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ترجمہ: ’’دین ہمیشہ غالب رہے گا جب تک کہ لوگ افطار میںجلدی کریں گے کیونکہ یہود و نصاریٰ افطار میں دیر کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے وہ بندے زیادہ محبوب ہیں جو افطار کرنے میں جلدی کرتے ہیں۔‘‘ (ترمذی) کسی روزہ دار کا روزہ کھلانا بھی باعث اجر و ثواب ہے بلکہ روزہ کھلانے والے کو روزہ دار کے برابر ثواب ملتا ہے اور روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ چنانچہ ارشاد خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ترجمہ: ’’جو حلال کمائی سے کسی مسلمان کو کھلا پلا کر روزہ افطار کرائے تو رمضان بھر فرشتے اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور شب قدر میں جبرائیل اس کے حق میں دعا کرتے ہیں۔‘‘ (طبرانی‘ ترغیب) کھجور سے روزہ افطا رکرنا افضل ہے ورنہ پانی سے بھی کرسکتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی بے روزہ شخص کسی مجبوری کی وجہ سے روزہ دار کے سامنے کھائے پیے تو اس مجاہدہ کی وجہ سے روزہ دار کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور فرشتے اس کے حق میں دعا مغفرت کرتے ہیں جب تک کہ اس کے سامنے کھانا کھایا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ترجمہ: ’’روزہ دار کے حق میں فرشتے استغفار کرتے ہیں جب تک اس کے سامنے کھایا جاتا ہے یہاں تک کہ اس سے فارغ ہوجائے۔‘‘ (ترمذی) اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب مسلمانوں کو صحیح معنوں میں رمضان المبارک کے مقدس نیکیوں کے موسم بہار سے مستفید ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے اور ہماری نماز‘ روزہ‘ تراویح‘ زکواۃ‘ صدقات‘ خیرات‘ عمرہ‘ اعتکاف اور ذکر و تلاوت جیسی عبادتوں کو اپنی بارگاہ میں منظور مقبول فرما کر بخشش کا ذریعہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین |
No comments:
Post a Comment