Search This Blog

Monday, 16 July 2012

امانت اوردیانت Amanat aur Dayanat

امانت اوردیانت

سجاد حیدر 
-اللہ کے ایک بندے نے 1928ء میں ایک تنظیم کی بنیادرکھی۔ اس تنظیم کا مقصد واحدانسانوں کو انسانوں کی محکومیت سے نکال کر اللہ کی عبدیت میں لاناتھا۔ یہ وہ دور تھا جب عالم اسلام کے ساتھ ساتھ مصربھی برطانوی اوردیگر مغربی قوتوں کی محکومی تلے کراہ رہاتھا۔ حسن البناء شہیدنے انفرادی تربیت کو اجتماعی قوت میں ڈھال کر عالم اسلام کو پیغام عمل سے روشناس کرانے کا بیڑا اٹھایا۔ مغربی استعماراوراس کے مقامی آلہ کاروں نے اس پیغام عمل کو دبانے کے لیے ظلم وشقاوت کی انتہاکردی۔ ایک جانب عالمی اور ریاستی قوتوں کاجبرتشدد اور دوسری جانب حسن البناء شہیدکے تربیت یافتہ اخوان کے صبروبرداشت نے جدوجہد کی ایک نئی مثال رقم کردی۔ لیکن یہ تحریک قوت ایمان کی جس شان سے ابھری تھی ‘ ریاستی جبروتشددنے اس کو مزاحمت کی بجائے مدافعت کی ایسی راہ پر ڈال دیا جہاں اسلام کی اجتماعیت پھرانفرادی تربیت تک محدودہوکررہ گئی ۔ اس انفرادی تربیت تک ہی محدود ہونے کے باعث اخوان المسلمین ایک تحریک کے طورپراپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ یہی وجودبدکردار حکمران طبقے کے مقابل خدمت وایثار سے بھرپورمتبادل کرداربھی پیش کرنے میں کامیاب رہا۔ اخوان المسلمین اسی کردارکے بل پر ریاستی جبروتشدد اور شیطانی ہتھکنڈوں اورتمام ترسرکاری شرائط کو قبول کرتے ہوئے انتخابات میں بھی حصہ لیتی رہی۔ ایسے انتخابات جہاں اخوان المسلمین کے ووٹروں کو ووٹ ڈالنے کے لیے دیواروں پر سیڑھیاں لگاکرپولنگ اسٹیشنوںکے اندرکودنا پڑتا کہ ان کے ووٹوں کو صندوقچی تک پہنچنے سے روکنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں کے دروازوں پرفوج اورپولیس کے ناکے لگے ہوتے تھے‘ اس حدتک صبروبرداشت کی وجہ صرف اور صرف وہ ملکی اورعالمی حالات تھے جن کو ابدی حقیقت سمجھ کر ان سے سمجھوتا کرلیا گیاتھا۔ صرف اسی حدتک آگے بڑھنے اور کچھ حاصل کرنے کو ہی اپنی قربانیوں اور جدوجہدکا حاصل سمجھ لیاگیا تھا جس حدتک مصری حکومت آگے بڑھنے کی اجازت دینے کوتیار تھی۔ لیکن پھرتیونس میں بھڑک اٹھنے والی عوامی بغاوت کی آگ نے دیگرعرب ممالک کے ساتھ ساتھ مصرکوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ التحریرمیدان میں عوام اورحسنی مبارک کی فوج کے درمیان معرکہ تاریخ رقم ہونے لگی۔ بالآخرہزاروں مصری مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے صلے میں تیس سال سے مسلط حسنی مبارک نام کی لعنت سے مصرکو نجات دلادی۔ جبکہ مصری عوام میں دوردورتک جڑیں رکھنے والی اخوان المسلمین نے حسنی مبارک کی یقینی رخصتی تک اس تحریک سے لاتعلقی کا رویہ اپنائے رکھا۔ عام مصریوں اوراخوان المسلمین کے کارکنوں اور حمایتیوںکے برعکس اخوان قیادت نے دہائیوں پر مبنی مصلحت آمیزپالیسی کے تحت خودکو اس تحریک کا حصہ بننے سے روکے رکھا۔ اس مصلحت آمیزپالیسی کے تحت ہی (فوجی حکمرانوں کے خوف اور خدشات کو دورکرنے کے لیے) اخوان نے پارلیمنٹ کے انتخابات میں آدھی سے کم نشستوں پرالیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد صدارتی انتخابات کے حوالے سے اخوان المسلمین نے اپنا امیدوارکی یقینی کامیابی کا خوف ختم کرناتھا۔ اخوان قیادت کو خوف تھا کہ پارلیمنٹ میں اکثریت اورصدارتی عہدے پر اخوان کی موجودگی کو روکنے کے لیے حکمران ٹولہ کسی بھی انتہاتک جاسکتاہے۔ بعد میں جب عوامی مزاحمت نے فوج کو پے درپے پسپاہونے پرمجبورکیا تو اس عوامی مزاحمت کے بھروسے اوراعتمادپر نہ صرف پارلیمنٹ کے انتخاب میں پورے جوش وخروش سے حصہ لیا گیا بلکہ ان انتخابات میں ریکارڈ کامیابی سے نموپانے والے جذبوں کے بل پر صدارتی انتخاب میں بھی حصہ لینے کا فیصلہ کیاگیا۔ اخوان المسلمین کی قیادت کے تمام تراندیشوں اورمصلحتوں کے باوجود جس طرح مصری عوام نے اخوان امیدوارمحمدمرسی کو اپنے اعتمادسے نواز کر صدارتی عہدے پرفائزکیا ہے اس کے بعد اصولاً مصری عوام کی تحریک آزادی کو حتمی منزل تک پہنچ جاناچاہیے۔ ڈیڑھ سال سے زائد جاری تحریک آزادی میں ہزاروں جانوں کی قربانیوں کے بعد ووٹ کے ذریعے حاصل ہونے والی صدارت اب اخوان المسلمین کے پاس ایسی امانت ہے جس کو دیانت سے مصری عوام تک پہنچانے کی راہ میں کسی مصلحت کو رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ اخوان المسلمین نے جن خدشات اور مصلحتوں کی آڑ میں مصرکے صدارتی منصب پربیٹھنے کا سفرطے کیاہے ان مصلحتوں کی فہرست نہ صرف انتہائی طویل بلکہ انتہائی قریب کی بھی ہے۔ عین صدارتی انتخاب سے چند دن قبل اخوان کی اکثریت کی حامل پارلیمنٹ کو بیک جنبش قلم برخاست اورصدارتی اختیارات کو عوام کے منتخب صدرکی بجائے فوجی کونسل کو منتقل کردیاگیا۔ اخوان قیادت نے عوامی قوت کی ناقابل تردید مظہرہونے کے باوجود عوامی حق پر اس دن دہاڑے ڈاکے پراحتجاج کی بجائے مطالبات اوردرخواستوں کی راہ اپنائی۔ اخوان کے اس مصلحت آمیزرویوں کے بعد نظر تو یہی آتاہے کہ پارلیمانی اورصدارتی انتخابات میں بے پناہ عوامی حمایت کے باوجود اب ایک جانب امریکی‘ اسرائیلی‘ یورپی اوران کے کاسہ لیس عرب حکمرانوں کے مفادات کی نگران ومحافظ مصری فوج ہے اور دوسری جانب تنہاکسی بھی اختیارسے محروم نومنتخب صدر محمدمرسی ‘ تنہا اس لیے کہ جن مصری عوام نے قربانیوں کی بدولت اس تنہا فردکو دنیا بھرکی شیطانی قوتوں کے مقابل کھڑا کیاہے اس فرد اور اس کی جماعت کے شعور میں ابھی تک عوامی قوت کا وہ یقین واعتماد جاگزین نہیں ہوا جس عوامی قوت کے یقین نے 32 برس قبل مصرسے بھی بدترشکنجے میں جکڑے ہوئے ایران کو آزادی وخودمختاری کی راہ پرگامزن کردیاتھا۔ مصرکے صدارتی عہدے پرمحمدمرسی نامی سادہ رو اور سادہ مزاج فردکی موجودگی ایک ایسا ناقابل یقین واقعہ ہے جس کا پانچ دس سال تو کیا پانچ دس ماہ قبل تصوربھی نہیں کیاجاسکتاتھا۔ یہ انہونی اپنے طورپرمصرتک محدودرہنے کی بجائے تمام ترعالم عرب اورعالم اسلام میں انقلابات کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ ضرورت ہے تو صرف اس یقین واعتماد کی جس کی ایک زندہ وتابندہ مثال ایران کی صورت میں پہلے سے موجود ہے۔ اگراس یقین واعتماد کی بجائے خوف وخدشات کا رویہ اپنایاجاتا رہا تو اس کا انجام عالم اسلام میں ایک اورمایوسی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ ایسی مایوسی جس کی توقع پر اخوان المسلمین کی قیادت کو صدارت کے منصب پر براجمان ہونے کی اجازت دی گئی۔ التحریرمیدان میں آزادی کے بھڑکے ہوئے جن شعلوں نے حسنی مبارک کا تخت راکھ کردیا تھا وہ شعلے حسنی مبارک کے ساتھ ساتھ اس نظام کو بھی راکھ کرسکتے تھے جس کی کوکھ سے حسنی مبارک جیسی لعنتیں جنم لیتی رہتی ہیں۔ فیصلہ اب اخوان قیادت کے ہاتھ میں ہے کہ وہ دہائیوں پر مبنی مصلحتوں اورخدشات کی پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے گلے سڑے اور متعفن نظام سے سمجھوتے کی راہ اپناتے ہیں یاحسن البناء شہیداورسید قطب شہیدکی ایمانی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے مصری عوام کے ووٹوںکی امانت کو دیانت کے ساتھ لوٹانے کا حق اداکرتے ہیں۔ nn

No comments:

Post a Comment