مغرب کی تقلید اور نوجوان نسل
- انتخاب: عروبہ علی
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی کسی بھی معاشرے کی بنیاد اس کے نظریات اور افکار پر ہوتی ہے۔ نظریے سے مراد کسی تہذیبی، سیاسی یا معاشرتی لائحہ عمل سے ہے جو کسی بھی قوم کا مشترکہ نصب العین ہو، لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ نظریہ ہی وہ بنیاد اور ستون ہے جسے وسعت دے کر قومیں پروان چڑھتی ہیں اور قومی زندگی کا نظام وجود میں آتا ہے۔ اگر عقیدے اور نظریے کی اہمیت نہ ہو تو کوئی بھی قوم اپنے پیروں پر نہیں کھڑی ہوسکتی۔ قانون بھی اسی کے زیر سایہ پروان چڑھتے ہیں اور سیاسی سرگرمیاں بھی اسی سے ہم رشتہ ہوکر رہتی ہیں۔ ہمارے دین اسلام نے جو کہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، ہماری زندگی کے ہر ہر پہلو کے متعلق رہنمائی کی ہے۔ جب نظریات و افکار کی جڑیں کمزور ہونے لگیں تو مغربی افکار و تہذیب ان کی جگہ لینے لگتے ہیں، اور عام مشاہدہ ہے کہ اس صورت حال میں نوجوان نسل تقلید میں سب سے آگے رہتی ہے۔ آج ہمارے ملک میں مغربی افکار کے اثرات تیزی سے نمایاں ہورہے ہیں۔ پہلے جن افعال کو اسلامی تعلیمات کی رو سے معیوب سمجھا جاتا تھا اب وہ برائی، برائی محسوس نہیں ہوتی، اور انہیں وہ تمام خیالات پرانے اور دقیانوسی معلوم ہوتے ہیں جو کبھی مسلم تہذیب کا خاصا تھے۔ انہیں جدیدیت اور روشن خیالی کے نام پر اس دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے جس میں گرنے کے بعد انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ ہماری نوجوان نسل کو مقصدِ زندگی سے ہٹاکر ’’کھا لے، پی لے، جی لے‘‘ کے راستے پر ڈال دیا گیا ہے۔ اگر ہم اپنے قومی نظام تعلیم کو نظریہ اسلام سے ہم آہنگ کردیں تو اس کے ذریعے مغربی تقلید کے اثرات کافی حد تک کم ہوسکتے ہیں۔ کاش کہ ہماری نوجوان نسل میں اس امر کا شعور پیدا ہوکہ مغربی تقلید ان کے معاشرے میں بھی انہی برائیوں کا باعث بن رہی ہے جس میں آج مغربی معاشرہ خود مبتلا ہے۔ مسلم ممالک میں بے عملی اور اخلاقی تباہی دشمنانِ اسلام و پاکستان کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ اجاڑا ہے تمیز ملت و آئین نے قوموں کو میرے اہلِ وطن کے دل میں کچھ فکرِ وطن بھی ہے |
No comments:
Post a Comment