حقیقت کے متلا شی سرگرداں تو راز کُن فکاں ہے اپنی آ نکھو ں پہ عیا ں ہو جا غلام نبی خاموش
قرآن میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ کی ایک خاص صفت کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ صفت انسانی تصورات سے ما وراء اللہ تعالیٰ کی طاقت و قوت کی صفت ہے اور اس کا بیان محض ان دو لفظوں میں ہوا ہے۔… کُنْ فَیَکُوْن … (ہو جا… اور وہ ہو جاتی ہے)۔ دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کو وجود میں لاتا ہے تو اُسے مادی دنیا کی طرح اسباب ڈھونڈنے کی کوئی حاجت نہیں بلکہ محض خدائی ارادہ ہی اُس چیز کی تخلیق کے لیے کافی ہوتا ہے۔ دنیا کا نظام اسباب کے ایک لگے بندھے منصوبے کے تحت کام کرتا ہے اسی لئے اسے دارالاسباب کہتے ہیں یعنی یہ دنیا بغیر کسی سبب کے یونہی الل ٹپ کام نہیں کرتی ہے۔ کسی تخلیق کے لیے ایک منصوبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیدائش اور موت کا ایک طریقہ کار متعین ہے۔ اس سب کے باوجود سارا عمل اسباب و علل کے سر نہیں چڑھایا جا سکتا ہے۔ مادی دنیا کے ارباب حل و عقد اسے غیر معمولی واقعہ قرار دے کر دامن چھڑاتے ہیںلیکن خدا کے فرمان کے مطابق اصحاب دانش اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کوئی ایسی قوت و طاقت کا مالک اس کائنات کا نظام چلا رہا ہے جو ہمارے تصورات سے بھی وراء ا لورا ء ہے، جس نے اس کائنات کو پیدا کیا، جو مالک ہے اس جہاں کا اور اس سے بڑھ کر مالک ہے کل جہانوں کا ،جس کی مرضی کے آگے کسی کا بس نہیں چلتا۔
کُن فیکون کی خدائی صفت:
اللہ تعالیٰ نے تین بڑے معاملوں میں اپنی اس صفت ’’کن فیکون‘‘ کو بیان کیا ہے۔ ایک حضرت آدم ؑ کی تخلیق سے متعلق، دوم حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کے ضمن میں اور سوم تخلیق کائنات کا معاملہ میں۔
سورہ البقرہ میں ’’کن فیکون‘‘ بسلسلہ تخلیق کائنات آیا ہے:
’’وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اور جس کا وہ فیصلہ کرتا ہے اس کے لیے بس یہ حکم دیتا ہے کہ’’ہوجا‘‘ اور وہ ہوجاتی ہے۔‘‘(البقرہ :۱۱۷)
سورہ آل عمران آیت۴۷ میں بسلسلہ واقعہ پیدائش حضرت عیسیٰ علیہ السلام لفظ کن آیا ہے اور آیت ۵۹؍ میں دو بارہ بسلسلہ تخلیق آدم علیہ السلام ’کُنْ‘کا تذکرہ آیا ہے۔ دونوں جگہ منکرین حق کے اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کیونکر ہوئی ہے اور حضرت مریم علیہ السلام کی پاکدامنی ثابت کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق بطور دلیل پیش کی ہے کہ جس اللہ تعالیٰ کو حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق میں کوئی مشکل پیش نہ آئی (جب کہ ان کا نہ کوئی باپ ہے اور نہ ماں)، حضرت عیسیٰؑ علیہ السلام کی پیدائش بِن باپ کے اُس کے لیے کیا مشکل ہے ؟سورہ یٰسین (آیت۸۲) میں ایک بار پھر لفظ کن فیکون آیا ہے اور یہاں تخلیق کائنات زیر بحث آئی ہے جبکہ سورہ مؤمن (آیت ۶۸) میں فلسفہ ٔحیات و ممات کو اللہ تعالیٰ کے دست قدرت میں ہونے کے سلسلے میں ’کن فیکون ‘استعمال ہوا ہے۔
’کُن فیکون ‘کی صفت اللہ تعالیٰ کی قدرت اور بے حد و حساب قوت و طاقت کی مظہر ہے۔ قرآن کریم میں منکرین حق کا جواب دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت سارے دلائل دئے ہیں، کہیں عقل سے کام لینے کی فہمائش کرتے ہوئے بارش، ہوا پانی، چھوٹے بڑے جانوروں ، کائنات میں موجود نشانیوں اور خود انسان کے اندر موجود متعدد نشانیوں کے بارے میں غور کرنے کا حکم ملتا ہے تو کہیں گزشتہ قوموں اور ملتوں کے حالات بیان کرتے ہوئے اُن کی سرکشی اور اس پر اللہ تعالیٰ کی پکڑکا تذکرہ ملتا ہے۔ ایسے واقعات جو انسانی عقل سے بڑھ کر ہیں اور جہاں انسانی دنیا کی کوئی تمثیل واقعہ کا احاطہ نہ کر سکتی ہو وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت و وسیع قوت و طاقت کا تذکرہ فرماتے ہوئے اپنے لیے اسباب سے بے نیاز ہونے کا تذکرہ کیا ہے۔ اسی ذیل میں لفظ کن فیکون کا استعمال بھی ہوا ہے۔ اللہ عزوجل ان واقعات کا تذکرہ فرماتے ہوئے منکرین کو یہ کہہ کر چپ کراتا ہے کہ اللہ کے لئے ہر کوئی کام کرنے کے لیے اسباب کا ہونا ضروری نہیں جیسا کہ سرکش قوموں کو عذاب دینے کے سلسلے میں دنیا میں کوئی نہ کوئی ایسا سبب ظاہر ہوا ہے جو عذاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ تخلیق کائنات، تخلیقِ آدم علیہ السلام اور پیدائش حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف اللہ تعالیٰ کی مرضی اور حکم سے ہوئی ہے۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے صرف یہ کہا کہ’’ہوجا‘‘ اور وہ وجود میں آگئے اور کسی ظاہری سبب کی ضرورت نہ پڑی۔
دارالاسباب دنیا میں ’’اہل دانش‘‘ صرف دلیل و منطق کے دائرہ میں بات کرتے رہے ہیں، یہی اس وقت بھی ہورہا ہے ۔ اسی حوالے سے سائنسدان ایک بہت ہی عظیم بلکہ سائنس کی تاریخ کے سب سے اہم ترین میگا پروجیکٹ پر کام کررہے ہیں۔ وہ اِس کھوج میں لگے ہیں کہ کائنات کہاں سے اور کیسے وجود میں آئی ؟ کس عنصر سے یہ تخلیق ہوئی ہے؟ اس پروجیکٹ پر اس وقت سوئزر لینڈ کے شہر جینوا میں کا م ہو رہا ہے۔ پروجیکٹ کی وسعت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس تحقیق پر اب تک اربوں ڈالر خرچ کئے جا چکے ہیں اور گزشتہ دو برس سے آٹھ ہزار سائنسدان مسلسل کام کر رہے ہیں۔ سائنسدان دعویٰ کر رہے ہیں کہ اگر وہ کامیاب ہو گئے تو تخلیق کائنات سے متعلق کئی رازوں سے پردہ اُٹھے گا۔
اہم دریافت کا سائنسی دعویٰ:
۴ جولائی ۲۰۱۲کوسوئٹزرلینڈ کے شہر جینوا میں ’لارج ہیڈرون کولائیڈر‘ منصوبے سے وابستہ سائنسدانوں نے ہگس بوسون یا ‘گاڈ پارٹیکل ’ جیسے ذرے کی دریافت کا دعویٰ کیا ہے۔ہگس بوسون وہ تخیلاتی لطیف عنصر یا ’سب اٹامک‘ ذرہ Sub-Atomic Particleہے جسے اس کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔سائنسدان گزشتہ پینتالیس برس سے ایسے ذرے کی تلاش میں تھے جس سے یہ واضح ہو سکے کہ مادہ اپنی کمیت کیسے حاصل کرتا ہے اور اس دریافت کا اعلان جنیوا میں ایل ایچ سی سے وابستہ سائنسدانوں کی ٹیم نے کیا۔(ہگس بوسون کی تھیوری کے خالق پروفیسر پیٹر ہگس ہیں جنہوں نے ساٹھ کے عشرے میں سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا تھا۔ )گزشتہ دو برس سے سوئٹزرلینڈ اور فرانس کی سرحد پر بنائی گئی ایک ستائیس کلومیٹر طویل سرنگ میں سائنسدان انتہائی باریک ذرات کو آپس میں ٹکرا کر اس لطیف عنصر کی تلاش کر رہے تھے جسے ہگس بوسون یاان کے الفا ظ میں ’خدائی عنصر ‘کہا جاتا ہے۔ سائنس داں دعویٰ کررہے ہیں کہ ایل ایچ سی میں ہگس بوسون کی تلاش کے لیے کئے گئے دونوں تجربات میں اتنی یقینی صورتحال سامنے آئی کہ اسے‘دریافت’ کا درجہ دیا جا سکے۔ تاہم ابھی اس سلسلے میں کام کرنا باقی ہے کہ آیا سائنسدانوں نے جس کا مشاہدہ کیا وہی ہگس بوسون ہے یا نہیں؟ سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنے ڈیٹا میں ایک ’اٹھان‘ دیکھی جو کہ ایسا ذرہ تھا جس کا وزن ایک سو پچیس اعشاریہ تین گیگا الیکٹرون وولٹس تھا۔ یہ ذرہ ہر ایٹم کے مرکز میں موجود پروٹون سے ایک سو تینتیس گنا بھاری ہے۔ان کے مطابق حاصل شدہ ڈیٹا کو جمع کرنے پر فائیو سگما یا پینتیس لاکھ میں سے ایک کی امکانی شرح پر انہیں یہ یقین ہوا کہ جو سگنل انہوں نے دیکھا ہے وہ ظاہر ہوگا۔ تاہم مکمل ڈیٹا ملانے پر یہ امکانی شرح بیس لاکھ میں سے ایک پر آگئی۔بوسون کو کائنات کا بنیادی تخلیقی جزو سمجھا جاتا ہے اور یہ پارٹیکل فزکس کے اس ا سٹینڈرڈ ماڈل یا ہدایتی کتابچے کا لاپتہ حصہ ہے۔ یہ ا سٹینڈرڈ ماڈل کائنات میں عناصر اور قوت کے باہمی رابطے کو بیان کرتا ہے۔اگر یہ تصدیق ہوتی ہے کہ نیا دریافت شدہ ذرہ ہگس بوسون ہی ہے تو یہ اس صدی کی سب سے بڑی سائنسی دریافتوں میں سے ایک ہوگی۔ ماہرینِ طبعیات اس ذرے کو سنہ انیس سو ساٹھ کی دہائی میں پہلی مرتبہ انسان کے چاند پر قدم رکھنے کے برابر قرار دیتے ہیں۔
اس سے پہلے ۱۴؍دسمبر۲۰۱۱ء کو سائنسدانوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں چند ایسے چھوٹے اور لطیف عناصر کا مشاہدہ کیا ہے جو کائنات کی وجہ تخلیق ہو سکتے ہیں لیکن اس تحقیق کو منطقی انجام تک پہنچانے اور کسی حتمی نتیجہ اور’’دریافت‘‘ کو تسلیم کرنے سے پہلے ابھی مزید تجربے کرنے ہوں گے۔
ہگس بوسون ہے کیا ؟
سائنسدان کہتے ہیں کہ جب ہماری کائنات وجود میں آئی اس سے پہلے بقول ان کے سب کچھ خلا میں تیر رہا تھا۔ کسی چیز کا کوئی وزن یا ثقل نہیں تھا۔ جب ہگس بوسون بھاری توانائی لے کر آیا تو تمام عناصر اس کی وجہ سے آپس میں جڑے لگے اور اُن میں ماس یا کمیت پیدا ہو گئی۔ اِن کا دعویٰ ہے کہ فطرت، قدرت اور سائنس کے بارے میں ہماری آج تک کی جو جانکاری ہے اس کے تمام پہلوؤں کی سائنسی تصدیق ہو چکی ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ کائنات کی ابتداء کس طرح ہوئی ؟ اس میںایک ہی کڑی ادھوری ہے جسے ہم اصول کے طور پر جانتے ہیںلیکن’’ بوسون ‘‘یعنی ’’خدائی عنصر یا گاڈ پارٹیکل‘‘ہے۔ ہم اِسے پکڑنے کی کگر پر پہنچ چکے ہیں۔ ہم اِسے ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس میں وقت لگ سکتا ہے ہمارے سامنے ایک دھندلی تصویر ہے جسے ہم توجہ سے پڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔گزشتہ دو برس سے سوئزر لینڈ اور فرانس کی سرحد پر بنائی گئی ایک ستائیس کلومیٹر لمبی سرنگ میں سائنسدان انتہائی باریک ذرات کو آپس میں ٹکراکر اس لطیف عنصر کی تلاش میں لگے ہیں جسے ہگس بوگن یا خدائی عنصر کہا جاتا ہے۔ہگس بوسون یا گاڈ پارٹیکل ایٹم کے اندر پایا جانے والا ایک بہت ہی مختصر ذرہ ہے جس کا وزن اندازاً (انتہائی طاقتورخورد بین سے مشاہدہ میں آنے والے)ہائیڈروجن گیس کے ایٹم سے، جو دنیا کا سب سے ہلکا ایٹم ہے، 130 گنا کم ہے۔
سائنسدان علم طبیعات کے اس ماڈل پر کام کر رہے ہیں جس میں کائنات کے اندر عناصر اور قوت کے باہم رابطے یا تعلق کو بیان کیا گیا ہے۔ تخلیق کے بعد کے تمام مراحل سے متعلق سائنسدان تجربات کی بنیاد پر متفق اور اپنے حاصل شدہ نتائج پر مطمئن ہیں لیکن وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہگس بوسون تخلیق کائنات کا بنیادی جزو ہے اور اسی سے کائنات وجود میں آئی ہے۔ ایک ایسے لطیف اور چھوٹے(باریک) عنصر جو کسی خوردبین کے مشاہدے میں بھی نہیں آیا ہے۔ اس وسیع و عریض کائنات کا بنیادی عنصر جانا جاتا ہے۔ اسی لیے سائنس داں اسے خدائی عنصر کا نام دیتے ہیں۔ سائنس دان اِسے کائنات کی کتاب کا لاپتہ حصہ قرار دیتے ہیں۔ا س تجربہ کے دوران لارج ہیڈرون کو لائیڈر میں پروٹونز کو روشنی کی رفتار سے ٹکرایا گیا جس میں ویسی ہی حالت پیدا ہوئی جیسی کائنات کی تخلیق سے ٹھیک پہلے بگ بینگ کے واقعہ کے وقت تھی۔ تجربہ کے دوران پروٹونز نے ایک سیکنڈ میں۲۷؍ کلو میٹر لمبی سرنگ کے گیارہ ہزار سے بھی زیادہ چکر کاٹے ۔ اس عمل کے دوران پروٹون مخصوص جگہوں پر آپس میں ٹکرائے جس سے توانائی پیدا ہوئی۔ سائنسدان دیکھنا چاہتے ہیں جب پروٹون آپس میں ٹکرائے تو کیا کوئی تیسرا عنصر موجود تھا جس سے پروٹون اور نیوٹرون آپس میں جڑ جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ’’ماس‘‘MASS یا کمیت کی تخلیق ہوتی ہے۔
یہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا سائنسی تجربہ ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں اگر ہمیں ہگس بوسون یا ان کی دانست میں’خدائی عنصر‘مل گیا تو یہ ثابت ہو جائے گا کہ علم طبعیات صحیح سمت میں کام کر رہی ہے۔ اس کے برعکس اگر یہ ثابت ہوا کہ ایسی کوئی چیز نہیں تو سائنس کے بارے میں موجودہ نظریہ بدل جائے گا اور کافی کچھ نئے سرے سے شروع کرنا ہوگا۔موجودہ تجربہ کے دوران کنٹرولڈ طریقہ پر بہت ہی چھوٹے پیمانے پر ویسے ہی حالات پیدا کئے جا رہے ہیں جو ’ خدائی عنصر ‘کے آتے وقت پیش آئے تھے۔ یہ سارا عمل قابو میں رکھ کر دیکھنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ کائنات کس طرح وجود میں آئی۔ تجربہ کے دوران دیکھا گیا کہ جس طرح ہگس بوسون کا خاتمہ ہونے سے پہلے اس کی شکل بدلتی ہے اس طرح کے کچھ انتہائی لطیف ذرات دیکھے گئے ہیں جس سے سائنسدانوں کو امید پیدا ہوئی ہے کہ یہ تجربہ کامیاب ہو گا۔
………جاری ہے………
ای میل :- almeeqat.sti@gmail.com
فون نمبر:- 9797007533
|
Search This Blog
Friday 27 July 2012
حقیقت کے متلا شی سرگرداں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment