حقیقت کے متلا شی۲ تو راز کُن فکاں ہے اپنی آ نکھو ں پہ عیا ں ہوجا غلام نبی خاموش
اس ’خدائی عنصر‘ کے متعلق سائنس کا نظریہ یہ ہے کہ یہ بہت ہی غیر مستحکم عنصر ہے ، وہ بگ بینگ یا عظیم دھماکہ کے وقت ایک پل کے لیے آیا اور ساری چیزوں کو کمیت دے کر چلا گیا۔پہلے پہل سائنس دانوں کا دعویٰ تھا کہ یہ کائنات یوں ہی بغیر کسی باہری مداخلت کے ایک زبردست دھماکے کے نتیجے میں وجود میں آئی جسے بگ بینگBig Bangکا نام دیا گیا تھا اور اس نظریہ کو بگ بینگ تھیوری کہا جاتا تھا۔ اس تھیوری کو ایک لمبے عرصہ تک سائنس کے مروجہ نصاب کے طور پڑھایا جارہا تھا۔
ہگس بوسون ایک نیا نظریہ ہے؟
شروع میں سائنس دانوں کا خیال تھا کہ سب کچھ ایک خود کار طریقے سے ہورہاہے، نئی دنیائیں بن رہی ہیں، پرانی دنیائیں فنا ہورہی ہیں مگر 60 کے عشرے میں ایک سائنس دان پیٹر ہگز نے ایک نیا تصور پیش کیا۔ ان کا کہناتھا کہ یہ سب کچھ ایک نادیدہ قوت کررہی ہے۔توانائی اس وقت تک مادے کی شکل اختیار نہیں کرسکتی جب تک اسے ایک نادیدہ قوت کی تائید حاصل نہ ہو۔ اس نامعلوم قوت کا نام پیٹر ہگز کے نام پر ہگز بوسن پڑ گیا لیکن بعدازاں اسی موضوع پر ایک اور سائنس دان لیون لیڈرمن کی کتاب ’گاڈ پارٹیکل‘ شائع ہونے پر ہگز بوسن کو گاڈ پارٹیکل یا خدائی صفات کا ذرہ کہاجانے لگا۔اس نظریے میں کہا گیا ہے کہ دکھائی نہ دینے والی کائنات کی اس سب سے چھوٹی اکائی کے اندر ایک ایسی کشش یا توانائی موجود ہے جو دوسری چیزوں کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے اور یہی قوت کائنات کی ہر چیز کو وجود میں لانے کا اصل سبب ہے۔کائنات کی ہر چیز کا سب سے چھوٹا جزو اٹیم ہے۔ ایٹم کا سب سے چھوٹا حصہ الیکٹران ہے جس کا ایک مخصوص حجم ہے جو اسے گاڈ پارٹیکل سے ملا ہے۔ کائنات کی ہر چیز کی تخلیق میں گارڈ پارٹیکل کا کردار بنیادی ہے اور یہی پراسرار ذرہ انہیں قائم رکھے ہوئے ہے۔جدید طبعیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ کائنات بنانے میں گاڈ پارٹیکل نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ جسے ثابت کرنے کے لیے وہ کئی برسوں سے تجربات کررہے تھے۔
گاڈپارٹیکل کیسے دریافت ہوا؟
کوئی بھی سائنسی نظریہ وجود میں آنے کے بعد لیبارٹری میں اس کی سچائی کی تصدیق کی جاتی ہے۔ہگز بوسن کے نظریے کی تصدیق کا کام اگرچہ پچھلی صدی کے آخر میں شروع ہوگیا تھا لیکن بڑے پیمانے پر اس تحقیق کا آغاز پارٹیکل فزکس کی دنیا کی سب سے بڑی تجربہ گاہ لارج ہیڈرن کولائیڈر کے قیام کے بعد ہوا۔ اربوں ڈالر مالیت کی اس تجربہ گاہ میں حلقے کی شکل میں 17 میل لمبی زیر زمین سرنگ بنائی گئی جس کے دونوں سروں پر نصب طاقت ور آلات کے ذریعے جوہری ذرات کی لہریں اس انداز میں بھیجی گئیں کہ وہ اتنی قوت سے ایک دوسرے سے ٹکرائیں کہ ان کے جوہری ذرات ٹوٹ کر بکھر جائیں اور وہی شکل اختیار کرلیں جو اربوں سال پہلے بگ بینگ کے وقت تھی۔ جوہری ذروں کے ٹکراؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ڈیٹا کو ہزاروں کمپیوٹروں کے ذریعے پراسس کیا گیا۔ سائنس دانوں کی دو الگ الگ بڑی ٹیموں نے علیحدہ علیحدہ تجربات کئے اوران کے نتائج کو باربار پرکھا۔4 جولائی کو اس صدی کی سب سے بڑی سائنسی دریافت کا اعلان کرتے ہوئے سائنس دانوں کہا کہ انہیں اپنے نتائج کی صداقت پر پانچ سیگما تک یقین ہے۔ سائنسی اصطلاح میں سیگما سے مراد ایک ارب واں حصہ ہے ،یعنی اس دریافت میں غلطی کا امکان ایک ارب میں صرف پانچ ہے۔سائنس دانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس بات سے متفق نہیں ہے اور اسپس و پیش میں ہے کہ آیا اس نئی دریافت کو سائنسی دریافت تسلیم کیا جائے یا نہیں۔
گاڈ پارٹیکل کیا کرتا ہے؟
کسی بھی چیز کا ایٹم الیکٹران، نیوٹران اور پروٹان سے مل کربنتا ہے لیکن انہیں ایک مرکز پر اس طرح اکٹھا کرنے کا کام کہ وہ ایک ایٹم کی شکل اختیار کرلیں، گارڈ پارٹیکل کرتا ہے۔ جوہری اجزا ء انتہائی تیز رفتار ہوتے ہیں جنہیں گارڈ پارٹیکل اپنی جانب کھینچ کر ان کی رفتار کم کردیتا ہے اور وہ ایک اٹیم کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔کائنات میں مادے کی عام اشکال ٹھوس مائع اور گیس ہیں۔ اگر گارڈ پارٹیکل نہ ہوتا تو اس کائنات میں ستاروں، سیاروں اور کہکشاؤں اور ان پر آباد دنیاؤں کی بجائے صرف توانائی کی لہریں ہی ہوتیں۔
گاڈ پارٹیکل کس طرح کام کرتا ہے؟
پُراسرار جوہری ذرے کے نظریے کے خالق پروفیسر ہگز بوسن نے اسے ایک آسان مثال سے واضح کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پراسرار ذرہ کسی اہم پرکشش فلمی، سماجی یا سیاسی شخصیت کی مانندہوتاہے۔ جسے دیکھتے ہی لوگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کی جانب کھچے چلے جاتے ہیں۔ کوئی اس کی تصویر اتارنا چاہتا ہے، کوئی اس سے آٹوگراف لینے کا خواہش مند ہوتاہے تو ہاتھ ملانے کی آرزو میں آگے بڑھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ہجوم کا نام ایٹم ہے۔ جوہری ذرات کے ہجوم کی نوعیت اور تعداد کے لحاظ سے مختلف نوعیت کے ایٹم وجود میں آتے ہیں۔ اورپھر وہ کائنات بناتے ہیں۔
گاڈ پارٹیکل نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟
اہل سائنس کا عقیدہ ہے کہ اگر ہگزبوسن یا گارڈ پارٹیکل نہ ہوتا تو پھر کائنات میں سوائے توانائی کے کچھ بھی نہ ہوتا۔ کہکشائیں، سورج ، چاند ستارے، زمینیں اور ان کے رنگ اور رعنائیاں اور زندگی کی مختلف اشکال بھی دکھائی نہ دیتیں۔ ماہرین طبعیات کا کہناہے کہ کائنات برقی مقناطیسی لہروں اور جوہری قوتوں سے بھری ہوئی ہے اور اس وسیع و عریض کائنات میں انہیں کسی مادے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس کائنات میں بے شمار مادی اجسام تیر رہے ہیں۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ توانائی اور مادہ ایک دوسرے کا بدل ہیں اور مادہ توانائی ہی کی ایک شکل ہے۔ پھر سوال یہ اٹھا کہ آخر توانائی کا کچھ حصہ مادے میں تبدیل کیوں ہوا؟ ایڈن برگ میں واقع برطانیہ کی سکاٹ لینڈ یونیوسٹی کے سائنس دان پروفیسر ہگز بوسن نے اس الجھن کو حل کیا اورایک پراسرار جوہری ذرے کا نظریہ پیش کیا۔ تخلیق کائنات کے ماڈل کی جدید عمارت ان کے نظریے پر کھڑی ہے۔ تصوراتی پراسرار ذرے کانام ان کے اپنے نام پر ہگز بوسن رکھا گیا۔ بعدازاں اس موضوع پر گارڈ پارٹیکل کے نام سے ایک کتاب شائع ہوئی جس کے بعد پراسرار ذرہ عمومی طور پر گاڈ پارٹیکل کے نام سے مشہور ہوگیا۔
گاڈ پارٹیکل کب وجود میں آیا؟
سائنس دان اس نظریے پر متفق ہیں کہ کائنات ایک بہت بڑے دھماکے کے نتیجے میں وجود میں آئی جسے بگ بینگ کہاجاتا ہے۔ بگ بینگ سے قبل ایک بہت بڑا گولہ موجود تھا جو اپنی بے پناہ اندرونی قوت کے باعث پھٹ کر بکھر گیا۔گولہ پھٹنے سے لامحدود مقدار میں توانائی بہہ نکلی اور تیزی سے پھیلنے لگی۔بگ بینگ کے بعد ایک سیکنڈ کے ایک ارب ویں حصے میں گارڈ پارٹیکل وجود میں آگیا اور اس نے توانائی کے بے کراں سیلاب کو اپنی جانب کھینچنا شروع کیا۔بنیادی طور پر توانائی کی دو اقسام کی ہے ، ایک وہ جو گاڈ پارٹیکل کی کشش قبول کرتی ہے اور دوسری وہ جس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ بالکل اسی طرح جسے بہت سے لوگ اہم شخصیات کی جانب پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے۔ ماہرین کا کہناہے اس وقت کائنات میں بکھری ہوئی توانائی کا زیادہ تر حصہ وہی ہے جسے گاڈ پارٹیکل اپنی جانب کھینچ نہیں سکا۔
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شائد:
ہگس بوسون یا گاڈ پاٹیکل سے متعلق سائنسی انکشافات میں یہ کہا گیا ہے کہ بگ بینگ کے بعد بکھری توانائی کو ہئیت اور کمیت دینے میں کلیدی کردار گاڑ پاٹیکل یا خدائی عنصر کا ہے۔ اگر یہ’ خدائی عنصر ‘فی الحقیقت اُس وقت موجود تھا جب بگ بینگ کا دھماکہ ہوا تو لازماً یہ سوال اُٹھے گا کہ یہ ’خدائی عنصر‘ آیا کہاں سے؟ سائنس داں یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ اگر گارڈ پارٹیکل نہ ہوتا تو پھر کائنات میں سوائے توانائی کے کچھ بھی نہ ہوتا۔ کہکشائیں، سورج ، چاند ستارے، زمینیں اور ان کے رنگ اور رعنائیاں اور زندگی کی مختلف اشکال بھی دکھائی نہ دیتیں۔یعنی توانائی نے مادہ کی شکل اختیار ہی نہ کی ہوتی۔سائنس دانوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بگ بینگ کے بعد ایک سیکنڈ کے ایک ارب ویں حصے میں گارڈ پارٹیکل وجود میں آگیا ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ خدائی عنصر چاہیے کتنے ہی کم سے کم وقت (ایک سیکنڈ کے ایک ارب ویں حصے ) میں وجود میں آیا لیکن عدم سے یونہی کیسے وجود میں آیا یہ ایک تشنہ جواب حقیقت ہے؟سائنسی انکشافات کا یہ سلسلہ نہ رکنے والا سلسلہ ہے۔
آیات قرآنی میں تخلیق ِ کائنات کا ذکر:
آئیے اب اُن قرآنی آیات پر غور کریں جن میں تخلیق کائنات کا تذکرہ آیا ہے۔
سورہ یٰسینؔ میں منکرین آخرت کے اس سوال کہ’’ کون ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا جب کہ یہ بوسیدہ ہو چکی ہوں‘‘( سورہ یٰسین:۷۸) کا جواب یوں دیا گیا:
’’ان سے کہو، انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے پہلے انہیں پیدا کیا تھا اور وہ تخلیق کا ہر کام جانتا ہے۔ وہی جس نے تمہارے لئے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کر دی اور تم اِس سے اپنے چولہے روشن کرتے ہو۔ وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ کیا اُس پر قادر نہیں کہ وہ ان جیسوں کو پیدا کر سکے؟ کیوں نہیں جب کہ وہ ماہر خلاق ہے ۔ وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ’’ ہوجا‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے۔ پاک ہے وہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا مکمل اقتدار ہے اور اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو۔‘‘( یٰسین : ۷۹ تا ۸۲)
تخلیق کائنات کے بارے میں ہی سورہ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ کیا وہ لوگ جنہوں نے( بنی کی بات ماننے سے) انکار کر دیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں جدا کیا اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی؟ کیا وہ( ہماری اس خلاقی کو) نہیں مانتے؟ اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دئے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔ اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں۔ شاید کہ لوگ اپنا راستہ معلوم کر لیں اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا۔ مگر یہ ہیں کہ کائنات کی نشانیوں کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔ اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند کو پیدا کیا۔ سب ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔‘‘( الانبیائ:۳۰تا ۳۳)
سورہ حٰم السجدہ میں تخلیق کائنات کے بارے میں یہ ربانی احکام درج ہیں:
’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! ان سے کہو، کیا تم اُس خدا سے کفر کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھہراتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں بنا دیا؟ وہی تو سارے جہاں والوں کا رب ہے۔ اُس نے( زمین کو وجود میں لانے کے بعد)اوپر سے اس پر پہاڑ جما دئے اور اس میں برکتیں رکھ دیں اور اس کے اندر سب مانگنے والوں کے لیے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق ٹھیک انداز سے خوراک کا ساماں مہیا کر دیا۔ یہ سب کام چار دن میں ہو گئے۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اُس وقت محض دھواں تھا۔ اُس نے آسمان اور زمین سے کہا ’’ وجود میں آجاؤ، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو‘‘ دونوں نے کہا ہم آگئے فرمانبرداروں کی طرح۔‘‘( حٰم السجدہ: ۹ تا ۱۱)
سائنسی تحقیق کے خاص نقاط:
جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ فزکس کا نظریہ پہلے پہل یہ تھا کہ کائنات بنگ بینگ سے پیدا ہوئی اور اس کی تخلیق کیلئے کسی غیبی طاقت (ہگس بوسون) کا کوئی عمل دخل نہیں ۔ بعد میں ایک سائنسدان پروفیسر پیٹر ہگس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ کائنات کی تخلیق کے لئے بے پناہ توانائی کا حامل ایک لطیف ذرہ ذمہ دار ہے۔انہوں نے ساٹھ کے عشرے میں سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا تھا۔ بنگ بینگ کی تھیوری کے ساتھ ایک بڑا سوالیہ یہ تھا کہ کائنات کی تخلیق کیسے یوں ہی ایک دھماکہ سے ہوئی جبکہ کوئی ظاہری سبب دکھائی نہیں دے رہا ہے جبکہ سائنس اسباب و علل پر ہی مبنی ہے۔ موجودہ تحقیقی عمل سے جو نتائج حاصل ہوئے ہیں ،اس کے خاص نکا ت یہ ہیں:
الف)کائنات کی ابتداء ایک لطیف اور باریک ذرے سے ہوئی جو کہیں سے بھاری توانائی لے کر آیا اور چیز کو کمیت یا دے گیا۔
ب) اس سے پہلے کائنات میں صرف توانائی کی لہریں تھیں اور سب کچھ خلا میں تیر رہا تھا اور کسی چیز کا وزن نہیں تھا۔
ج) یہ لطیف ذرہ( جسے ہگس بوسون یا خدائی عنصر کا نام دیا گیا) کائنات کا لاپتہ حصہ ہے۔
د) یہ عنصر( خدائی عنصر) بہت ہی غیر مستحکم ہے اور عظیم دھماکہکے وقت ایک پل کے لیے آیا اور ساری چیزوں کو کمیت دے گیا۔
"کُن فیکون‘‘ اور سائنسی تحقیق کی تصدیق:
مضمون کی ابتداء میں ہی تذکرہ کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں متعدد مقامات پر اپنی بے حد و حساب طاقت کا تذکرہ ’’کن فیکون‘‘ کے الفاظ سے کیا ہے۔ جو عظیم تخلیقات اللہ تعالیٰ کے حکم’’کن‘‘ سے انجام پائیںان میں تخلیق کائنات کے علاوہ تخلیق آدم علیہ السلام، پیدائش حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور تخلیق حیات و موت بھی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمودات کی سائنسی تصدیق نہ لازم ہے اور نہ ہی اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے (کیونکہ سائنسی تحقیق ایک ارتقائی عمل اور جاری سلسلہ ہے اور کسی بھی مرحلہ پر حاصل کی گئی معلومات اور نتائج حتمی قرار نہیں دئے جاسکتے ہیں)۔تاہم اگر کہیں سائنس آج لاتعداد وسائل استعمال کرنے کے بعد اور زبردست کوشش و تجربات کے بعد وہی نتائج اخذ کرتی ہے جو قرآن نے آج سے پندرہ صدی قبل ہی بیان کئے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ سائنسی تحقیق کے نتائج پر غور کرکے انہیں تسلیم کیا جائے۔ اس کا استدلال خود قرآن کریم سے اخذ ہوتا ہے۔ قرآن پاک بار بار انسان کو غور و فکر، تدبر و تحقیق اور تفکر پر اُبھار رہا ہے۔ لطیف ذرہ ہگس بوسون یا’ خدائی عنصر ‘اللہ تعالیٰ کے حکم’’کُن‘‘ سے گہری مماثلت رکھتا ہے۔ ’’کُن‘‘ اللہ تعالیٰ کا نور ہے اور اس نور کے عظیم ذرے نے پوری کائنات کو مایہ سے ٹھوس حیثیت دی، اسے ماہیتٔ اور کمیت بخش دی، اسے عدم سے وجود عطا کیا۔ سائنسی تحقیق کے ’خدائی عنصر‘ کی خصوصیات پر غور کریں تو ’’کُن‘‘ سے اس کا تعلق بھی ظاہر ہو رہا ہے۔ سائنس دان خدا کو الگ رکھ کر’ خدائی عنصر‘ کی بات کریں یا کسی لطیف عنصر کو خدا کے برابر لا کھڑا کریں لیکن ’کُن‘ کی عظیم الشان قوت و طاقت اپنی جگہ ایک ایسی بڑی حقیقت ہے جس سے آنکھیں بند کرنا غیرممکن ہے اور دیر سویر اس بڑی قوت کوتسلیم کرنا ہی ہوگا۔واللہ اعلم بالصواب!
|
Search This Blog
Saturday 28 July 2012
حقیقت کے متلا شی۲
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment