روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی
- ابو حسان
’’ایشیا‘‘ کے ماضی قریب تک، اپنی رنگینیوں کے لیے مشہور شہر ’’رنگون‘‘ (اب ’’ینگون‘‘) اور ’’بنگلہ دیش‘‘ کے جنوب مشرقی ساحلی سرحدی قصبے ’’ٹیکناف‘‘ سے آمدہ خبر ہے کہ ’’برما‘‘ (موجودہ نام ’’میان مار‘‘) کی شمال مغربی ریاست ’’اراکان‘‘ (تبدیل شدہ نیا نام ’’رکھائن‘‘) کے صدر مقام ’’اکیاب‘‘ (تبدیل شدہ نام ’’سائٹوے‘‘) میں، مسلم کش فسادات میں 70 مسلمان قتل کردیے گئے ہیں، زخمیوں کا کوئی ذکر نہیں۔ یہ شمار پہلے دن کا اور سرکاری طور پر جاری شدہ ہے، جوکہ حتمی ہے نہ مصدقہ… مقتولین و مجروحین کی حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہے، کیوں کہ قتل عام کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ یہ مسئلہ ہے کیا؟ دنیا برسوں بعد، کبھی اچانک اس نوع کی بھی کوئی خبر پڑھ لیتی ہے۔ دیکھنے سننے کی نوبت اس لیے نہیں آتی کہ سمعی و بصری ذرائع ابلاغ کے کار پردازوں کے لیے اس میں کوئی خبریت، دل چسپی اور مفاد نہیں ہے۔ پڑھنے کو بھی کچھ ملتا ہے تو وہ روایتی انداز کا، ناقص اور نامکمل ہوتا ہے اور اکثر خلاف ِ واقعہ و حقیقت بھی۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ ’’میان مار‘‘ کی ریاست ’’راکھن‘‘…… جی ہاں! یہ ’’برما‘‘ کے زیر قبضہ ریاست ’’اراکان‘‘ کی بات ہے۔ بیس ہزار مربع میل پر محیط یہ خطہ ایک مسلم مملکت تھا، جس پر 1784ء میں برما نے قبضہ کرلیا تھا۔ 1824ء میں اراکان پر برطانیہ کا تسلط ہوا۔ 1947-48ء میں انگریزوں نے انخلا کیا تو اہلِ اراکان کی شدید خواہش اور کوشش کے باوجود کشمیر، حیدرآباد اور جونا گڑھ وغیرہ ریاستوں کی طرح اراکان کو بھی خودمختاری دی گئی اور نہ پاکستان کا حصہ بنایا گیا۔ اراکان ایک مسلم اکثریتی خطہ تھا اور آج بھی ہے۔ ہرچند کہ حقیقی اور حتمی اعداد و شمار دستیاب نہیں، اور نہ قابض برمی حکومت ہی اس کا کوئی اہتمام کرتی ہے، مگر محتاط اندازہ ہے کہ آج بھی اراکان میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 60 فی صد سے کم نہیں۔ اس تعداد میں وہ مسلمان شامل نہیں ہیں جو گزشتہ صدی عیسوی کی دوسری جنگ عظیم میں، جس کا ایک بڑا محاذ اراکان بھی تھا، بچ تو گئے تھے مگر جبری انخلا اور ترک ِ وطن یا ہجرت سے محفوظ نہ رہ سکے۔ یہ مسلمان جو اراکان کے قدیم نام ’’روہنگ‘‘ کی نسبت سے خود کو ’’روہنگیا‘‘ کہلواتے ہیں، ترکِ وطن اور ہجرت کی خاص متنوع اور پرانی تاریخ رکھتے ہیں۔ یہ بڑے مذہبی، جفاکش، پرامن اور صابر و شاکر لوگ ہیں۔ انہیں بزدل نہ بھی کہا جائے، پھر بھی ان کی تاریخ بتاتی ہے کہ لڑنا بھڑنا اور اپنے جینے کے حق کے لیے مرنا مارنا انہیں پسند نہیں ہے۔ برمی بودھ فوجی (کسی زمانے میں ساتھ ساتھ اشتراکی بھی) حکومتوں کے شرم ناک ناقابلِ بیان و یقین مظالم حد سے بڑھ جاتے ہیں تو صدیوں سے پُرکھوں کی بسائی ہوئی بستیاں، زمینیں، جائداد، مسجدیں اور مدرسے… سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جہاں ٹھکانہ ملے وہاں پناہ لے لیتے ہیں۔ مرحوم مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش)، موجودہ پاکستان، بھارت، شرقِ اوسط اور مشرق بعید کے بعض ممالک میں تو ان روہنگیا مسلمانوں کی دسیوں سال سے آباد بستیاں بھی ہیں۔ یورپ، امریکا اور افریقہ سمیت دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہو، جہاں کم و بیش ان پناہ کے متلاشیوں کے قدم نہ پہنچے ہوں۔ ہر جگہ مقامی صورت حال کی رعایت سے ان کی اقامتی حیثیت بھی مختلف ہے۔ کہیں مکمل شہری کی، کہیں مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے، اور بعض مقامات پر تسلیم شدہ یا غیر تسلیم شدہ پناہ گزین کی۔ اوسطاً سال میں ایک مرتبہ ’’اراکان‘‘ میں بڑے پیمانے پر اور ’’برما‘‘ میں حسب ضرورت مسلمانوں کے خلاف فوجی کارروائی کی جاتی ہے یا مذہبی و نسلی فساد برپا کروایا جاتا ہے۔ سینکڑوں قتل، ہزاروں زخمی اور لاکھوں بے گھر کردیے جاتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ و مواصلات کی ترقی کے باعث حکومت کی ہزار کوشش کے باوجود برما بالخصوص رنگون وغیرہ بڑے شہروں سے کچھ نہ کچھ خبریں باہر نکل ہی آتی ہیں، مگر ’’اراکان‘‘ کی صورت حال بالکل مختلف ہے، وہ اس کے غیر مسلم باشندوں کے لیے تو نہیں، لیکن مسلمانوں کے لیے ضرور ایک ’’محصورہ‘‘ ہے جس سے سب کچھ چھوڑ کر، خالی ہاتھ، ننگے پائوں، تن کے کپڑوں میں، ہمیشہ کے لیے، کبھی واپس نہ آنے کے لیے باہر نکل سکتے ہیں۔ نہیں نکلیں گے تو کسی روز مار دیے جائیں گے، ورنہ فقر و فاقہ، خوف و ذلت، بیماری ومسکنت اور غلامی کی زندگی گزارتے رہیں۔ یہ مسلمان صرف نسلی ’’اِعدام‘‘ ہی کے شکار نہیں ہیں، منظم اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کے تحت گزشتہ چھ سات دہائیوں سے ہر مقتدر فوجی یا غیر فوجی ٹولہ ان کے دینی، علمی، ثقافتی اور تاریخی ارتداد کے لیے بھی کوشاں ہے۔ حکومت یا ملازمت میں کسی حصے کو چھوڑیے، ان پر تو ہر قسم کی تعلیم کے دروازے بھی بند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود پر گزرنے والی قیامت کے بارے میں یہ لوگ دنیا کو تحریراً یا تقریراً کچھ نہیں بتاسکتے۔ جہل اور ناخواندگی نے پوری قوم کو بری طرح لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ انہیں اپنے انسانی حقوق کا کوئی شعور نہیں ہے، جو کچھ ہورہا ہے اسے وہ اپنے نصیب کا لکھا سمجھتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کا کیا رونا! جب ’’او آئی سی‘‘ کو ان کی کوئی پروا نہیں۔ حقوق انسانی کی ٹھیکے دار بے شمار تنظیموں کو بھی یہ لوگ نظر نہیں آتے، کیوں کہ یہ تو ’’مسلمان‘‘ ہیں… کتے، بلی، سور جیسے جانور بھی نہیں ہیں، ورنہ ’’انجمن انسداد بے رحمی حیوانات‘‘ کے ذمہ داران تو اب تک برما کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی ضرور کرچکے ہوتے۔ اتنی انسانیت تو ابھی دنیا میں باقی ہے۔ رہ گیا اراکان کا قریبی پڑوسی مسلم ملک بنگلہ دیش… تو ماشا اللہ وہ اقتصادی و معاشی ترقی کی دوڑ میں اس قدر مست ہے کہ اس کی (بالخصوص موجودہ) حکومت کو ایسے کسی فضول اور لایعنی قضیے پر توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں۔ وہ تو 40 سال پہلے بھارتی دراندازوں سے مقابلے کا جرم کرنے والے بنگالی مسلمانوں ہی سے نمٹنے میں بری طرح مصروف ہے۔ ویسے گزشتہ عشروں میں جب اس کی معاشی حالت خاصی خراب تھی، دو سے زیادہ مرتبہ ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کو اپنے ملک میں عارضی پناہ اور برمی حکومت کی شرائط مان کر ان کی جبری واپسی کا نیک کام کرچکا ہے۔ اب معاشی استحکام حاصل ہونے پر سننے میں آرہا ہے کہ قتل عام کی حالیہ لہروں سے بچنے کے لیے بنگلہ دیش کی جانب راہِ فرار اختیار کرنے والے مسلمانوں کی کئی کشتیوں کو بنگلہ دیشی بحریہ کے سرحدی دستوں نے اپنے ساحل تک نہیں پہنچنے دیا۔ بیچ سمندر ہی میں ان کا رخ موڑ دیا۔ ’’واپس جائو! ورنہ اتنا بڑا سمندر ہے، کہیں جاکر ڈوب مرو!! ہمیں کیوں تنگ کرتے ہو؟‘‘ ذرا سی خوش حالی آنے پر پڑوسی برادر مسلم ملک کا یہ حال ہے تو اس سے مقابلتاً کم یا کہیں زیادہ دولت مند، ترقی یافتہ، خوش حال، چھوٹے بڑے، نئے پرانے پچپن/ ساٹھ… مسلم ملکوں اور ان کے حکمرانوں سے کیا توقع رکھی جائے؟ آج تو دنیا میں خلافت کا نظام ہے نہ کسی خطے میں دین قائم ہے، نہ کوئی خلیفہ معتصم باللہ ہے اور نہ کہیں حجاج بن یوسف جیسا جابر مگر باغیرت حکمران، کوئی جرنیل بھی محمد بن قاسم جیسا بہادر نہیں ہے۔ ہاں! اراکان کے مظلوم و مجبور نہتے مسلمانو! سن لو، تمہاری دادرسی کو کوئی نہیں آئے گا۔ اپنی فکر خود اور اپنی مدد آپ کرو۔ بھاگ کر بھی کہاں جائوگے؟ دیکھ تو لیا، کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ اللہ کے بھروسے پر مزاحمت کرو، اقدام نہ کرو، مگر جو کچھ میسر ہے حملہ آوروں کا اس سے مقابلہ کرکے مرو۔ بودھ تو اپنی ’’مت‘‘ پر خوب عمل کررہے ہیں، تم بھی اپنے دین کی تعلیمات اور شریعت کے احکام پر عمل کرو۔ یاد رکھو! تمہارے رب اللہ، اس کے دین اسلام، مجموعۂ ہدایت قرآن اور شارح و ہادی نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تعلیم اور اسوہ میں نہیں… بلکہ نام نہاد قانونِ بین الاقوام میں بھی کہیں ’’دفاع‘‘ کی ممانعت نہیں ہے۔ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو! |
No comments:
Post a Comment