اصحاب رسولؐ کی معاشی زندگی حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ
- عابد علی جوکھیو
آپ کا نام عامر بن عبداللہ بن جراح فہری قریشی اور ابوعبیدہؓ کنیت ہے۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جنہوں نے دعوتِ اسلام پر لبیک کہنے میں پہل کی۔ آپؓ ابوبکر صدیقؓ کے اسلام لانے کے دوسرے دن حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور ابوبکر صدیقؓ کے دستِ مبارک پر آپؓ نے اسلام قبول کیا۔ پھر عبدالرحمن بن عوف، عثمان بن مظعون اور ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہم ایک ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کلمۂ حق کا اعلان کیا۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ کا شمار سابقون الاولون میں ہوتا ہے۔ مکہ کی زندگی میں آپ ؓ پر بھی طرح طرح کے مصائب ڈھائے گئے، سختیاں کی گئیں، لیکن آپؓ نے تمام سختیاں جھیلیں۔ آپؓ کو امتِ محمدیہ کا امین ہونے کا لقب حاصل ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ ان کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’قریش کے تین آدمی سب سے زیادہ درخشندہ رو، سب سے زیادہ خوش اخلاق اور سب سے زیادہ باحیا ہیں۔ اگر وہ تم سے بات کریں گے تو کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے، اور اگر تم ان سے بات کرو گے تو کبھی تمہاری تکذیب نہیں کریں گے۔ وہ ہیں ابوبکر صدیقؓ، عثمان بن عفانؓ، اور ابوعبیدہ بن جراحؓ۔‘‘ جنگ ِبدر کے موقع پر آپؓ کے والد عبداللہ بن جراح کفار کی صفوں میں شامل تھے، جبکہ ابوعبیدہؓ مسلمانوں کی طرف سے تھے۔ آپؓ کے والد بار بار آپ کے سامنے مقابلے کے لیے آتے لیکن آپؓ ان سے مقابلہ کرنے سے کتراتے رہتے، بالآخر آپ کے والد عبداللہ نے آپؓ کے تمام راستے بند کردیے کہ ان کی ایمانی قوت و غیرت کا امتحان لیں سکیں۔ جب حضرت ابوعبیدہؓ نے دیکھا کہ اب ان سے مقابلے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تو آپؓ نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے والد کی کھوپڑی کے دو ٹکڑے کردیے۔ اس موقع پر حضرت ابوعبیدہؓ اور ان کے والد کے متعلق قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی: (ترجمہ) ’’تم کبھی بھی یہ نہ پائو گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ اُن لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کی ہے، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے اہلِ خاندان۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان کو پکا کردیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کرکے ان کو قوت بخشی ہے۔ وہ ان لوگوں کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ وہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں۔ خبردار رہو! اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (المجادلہ: 22) حضرت سعید بن مسیبؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابوعبیدہؓ اردن میں طاعون میں مبتلا ہوئے تو حاضرین کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’میں تم لوگوں کو ایک وصیت کرتا ہوں، اگر تم لوگوں نے اسے مان لیا تو ہمیشہ بھلائی میں رہوگے۔ نمازیں پڑھتے رہنا، رمضان کے مہینے کے روزے رکھنا، صدقہ کرنا، حج اور عمرہ کرنا، ایک دوسرے کو حق کی وصیت کرتے رہنا، اپنے امراء کو نصیحت کرنا اور امراء کے پاس آمد و رفت زیادہ نہ رکھنا۔ سنو! دنیا تم لوگوں کو موت سے غافل نہ کردے۔ اگر کسی آدمی کو ہزار سال کی عمر بھی دی جائے لیکن اُس کے لیے اس جگہ جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا جہاں تم دیکھ رہے ہو کہ میں جارہا ہوں۔ اللہ پاک نے اولادِ آدم کے لیے موت لکھ دی ہے، پس سبھی مریں گے۔ ان میں ہوشیار و دانا وہی ہے جو اس کے بندوں میں سے اپنے رب کا زیادہ فرماں بردار ہے، اور یوم آخرت کے لیے عمل کرنے میں پیش پیش ہے۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔ اے معاذ بن جبل! لوگوں کو نماز پڑھائو‘‘۔ یہ کہہ کر آپؓ کا انتقال ہوگیا۔ اللہ ان کے حال پر رحم فرمائے۔ ان کے انتقال کے بعد حضرت معاذؓ نے لوگوں میں کھڑے ہوکر کہا: ’’اے لوگو! اللہ سے اپنے گناہوں پر توبہ کرو، اس لیے کہ جو بندہ بھی اپنے گناہوں سے توبہ کرکے اللہ پاک سے ملے، اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ اس کی مغفرت کردے۔ جس کے اوپر قرضہ ہو وہ اس کو ادا کردے، اس لیے کہ بندہ قرض کے معاملے میں پکڑا جائے گا۔ تم میں سے جس کسی نے اپنے بھائی کو چھوڑ رکھا ہو (ناراض ہو) اس سے جا ملے اور صلح کرلے، کسی مسلمان کے لیے یہ مناسب نہیں کہ اپنے بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ قطع تعلقی رکھے۔ اے مسلمانو! ہم ابھی ایسے شخص کی وفات سے افسردہ ہوئے ہیں جو بالکل صاف دل والا، دھوکا نہ دینے والا، عام لوگوں سے زیادہ محبت کرنے والا اور تمام لوگوں کو نصیحت کرنے والا تھا، میں نے ان سے زیادہ ایسے عمل کرنے والا شخص نہیں دیکھا۔ مسلمانو! ان کے لیے نزولِ رحمت کی دعا کرو اور ان کے جنازے کی نماز کے لیے جمع ہوجائو۔‘‘ (الطبری) حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ بہادر اور نڈر مجاہد ہونے کے ساتھ ساتھ اس دنیا کی رنگینیوں اور رونقوں سے بھی کوسوں دور رہے۔ آپؓ ایک عظیم سپہ سالار تھے لیکن آپؓ کی زندگی انتہائی سادگی سے گزری۔ آپؓ نے کبھی بھی دنیوی عیش و آرام کو ترجیح نہ دی۔ بڑی بڑی فتوحات اور مال غنیمت کی فراوانی آپؓ کو کچھ بھی متاثر نہ کرسکی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جو بھی مال عنایت کرتے آپؓ اسے اللہ کے بندوں میں خرچ کردیتے۔ حضرت عمرؓ نے آپؓ کو کئی مرتبہ مال دیا کہ آپؓ اس کے ذریعے اپنی حالت کو بہتر بنا سکیں، لیکن آپؓ بجائے اس مال کو اپنے اوپر خرچ کرنے کے، اللہ ہی کی راہ میں دے دیتے۔ بیت المقدس کی فتح عظیم کے وقت بھی آپؓ کا خیمہ دنیوی عیش و مسرت کی چیزوں سے خالی تھا۔ جب حضرت عمرؓ بیت المقدس کی فتح کے موقع پر وہاں گئے تو کئی لوگوں نے امیرالمومنین کی دعوت کی۔ ایک موقع پر امیرالمومنین حضرت عمرؓ نے حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ سے کہا کہ بھائی! یہاں سب لوگوں نے میری دعوت کی ہے لیکن آپؓ نے نہیں کی؟ اس پر حضرت ابوعبیدہؓ نے جو اُس وقت اسلامی فوج کے سپریم کمانڈر تھے، کہا کہ اے امیرالمومنین! آپؓ کو میرے گھر میں سوائے آنسوئوں کے کچھ نہ ملے گا۔ اس کے باوجود حضرت عمرؓ نے ان سے دعوت لی۔ اور جب حضرت عمرؓ ان کے خیمے میں گئے تو آپؓ نے اپنے خیمے کے ایک کونے میں سے سوکھی روٹی کو چند ٹکڑے نکالے اور ان کو پانی میں بھگو کر امیرالمومنین کے سامنے پیش کیا۔ یہ دیکھ کر امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ کی آنکھوں میں آنسوآگئے اور آپؓ رو پڑے۔ یہ دیکھ کر حضرت ابوعبیدہؓ نے ان سے مخاطب ہوکر کہا: میں نے آپ کو کہا تھا کہ میرے خیمے میں آپؓ کو سوائے آنسوئوں کے کچھ نہ ملے گا۔ حضرت مالک الدارؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے چار سو دینار لیے اور ان کو ایک تھیلی میں رکھ کر غلام سے کہا کہ انہیں حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ کے پاس لے جائو، پھر تھوڑی دیر کے لیے انہیں چھوڑ دینا تاکہ تم دیکھ سکو کہ وہ ان کا کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ غلام وہ رقم لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ امیر المومنین فرما رہے ہیں کہ آپؓ انہیں اپنی ضروریات پر خرچ کریں۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے دعا دی کہ اللہ ان کو اپنا دیدار نصیب فرمائے اور ان کے حال پر رحم فرمائے، اس کے بعد اپنی خادمہ سے فرمایا کہ یہ سات تو فلاں کے پاس لے جائو اور یہ پانچ فلاں کے پاس، اور یہ پانچ فلاں کے پاس… یہاں تک کہ وہ ساری رقم ختم کردی۔ وہ غلام حضرت عمرؓ کے پاس واپس آیا اور آپؓ کو واقعہ کی اطلاع دی۔ (الترغیب) حضرت اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ اپنی تمنا و خواہش کا اظہار کرو۔ ایک نے کہا کہ میرے پاس یہ کوٹھری بھر درہم ہوتے جنہیں میں اللہ کے راستے میں خرچ کرتا۔ حضرت عمرؓ نے پھر فرمایا کہ تم لوگ اپنی کسی اور خواہش کا اظہار کرو، دوسرے نے کہا کہ میری تمنا یہ ہے کہ گھر بھر سونا ہوتا اور میں اس کو اللہ کے راستے میں خرچ کرتا۔ حضرت عمرؓ نے پھر فرمایا کہ اپنی خواہش کا اظہار کرو۔ ایک اور ساتھی نے کہا کہ اس گھر بھر موتی جواہرات ہوتے (یا اس جیسی کسی اور چیز کی تمنا کا اظہار کیا) اور میں اس کو اللہ کے راستے میں خرچ کرتا۔ حضرت عمرؓ نے پھر کہا کہ اپنی تمنا کا اظہار کرو۔ انہوں نے جواب دیا کہ اب ہم کسی تمنا کا اظہار نہیں کریں گے۔ حضرت عمرؓ نے کہا: لیکن میں اس بات کا خواہش مند ہوں کہ اس گھر بھرکر ابوعبیدہ بن جراحؓ، معاذ بن جبلؓ اور حذیفہ بن یمانؓ جیسے آدمی ہوتے اور انہیں میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے لیے عامل بناتا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت حذیفہؓ کی طرف مال بھیجا اور لے جانے والے سے یہ فرمایا کہ دیکھنا وہ اس مال کا کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ جب ان کے پاس مال پہنچا تو انہوں نے فوراً تقسیم کردیا، اس کے بعد حضرت معاذ بن جبلؓ کے پاس مال بھیجا اور انہوں نے بھی لگے ہاتھوں تقسیم کردیا، پھر حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ کے پاس مال بھیجا اور کہا کہ دیکھنا وہ کیا کرتے ہیں؟ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں نے تم سے جو بات کرنی تھی وہ میں نے کہہ دی۔ (الطبرانی) حضرت اسلم فرماتے ہیں کہ جب عام رماد (ایک مشہور قحط سالی کا نام ہے) ہوا اور زمین خشک ہوگئی تو حضرت عمرؓ نے حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ سے ایک کام کرایا۔ جب آپؓ یہ کام کرکے واپس لوٹے تو حضرت عمرؓ نے آپ کے پاس ایک ہزار دینار بھیجے، حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ نے کہا کہ اے ابن خطابؓ! میں نے تمہارے لیے یہ کام نہیں کیا، میں نے تو اللہ کے لیے یہ کام کیا ہے اور اس کی اجرت کے طور پر آپؓ سے کچھ بھی نہ لوں گا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے ان سے فرمایا کہ ہم لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے کاموں کے لیے بھیجا ہے اور ہم کو عطیات بھی دیے ہیں، میں ان کے لینے کو برا سمجھا تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو ناپسند کیا کہ ہم ان کا دیا ہوا قبول نہ کریں، لہٰذا اے ابن آدم! اسے قبول کرلو اور اس کے ذریعے اپنے دین اور دنیا میں بہتری لائو۔ چنانچہ حضرت ابوعبیدہؓ نے اسے قبول کرلیا۔ (بیہقی) مسلم بن اکیس مولیٰ (غلام) عبداللہ بن عامر فرماتے ہیں کہ حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ سے ملنے والوں نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے حضرت ابوعبیدہؓ کو روتا ہوا پایا تو دریافت کیا کہ اے ابوعبیدہؓ! آپ کو کس چیز نے رلایا ہے؟ حضرت ابوعبیدہؓ نے فرمایا: میں اس لیے روتا ہوں کہ جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز ان فتوحات کا تذکرہ فرمایا جو اللہ تعالیٰ عنقریب مسلمانوں کو عطا کرے گا اور ان کے مالِ غنیمت کا بھی تذکرہ کیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک شام کی فتح کا بھی تذکرہ فرمایا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوعبیدہ! اگر تم کچھ دن زندہ رہے تو تمہارے لیے تین خادم کافی ہوں گے، ایک جو تمہاری خدمت کے کام انجام دے، اور ایک خادم جو تمہارے ساتھ سفر میں رہے، اور ایک خادم جو تمہارے گھر کی خدمت کرے، اور تمہارے پاس آیا جایا کرے۔ اور گھوڑوں میں سے تمہارے لیے تین گھوڑے کافی ہیں، ایک تمہارے سفر کے لیے اور ایک تمہاری بار برداری کے لیے اور ایک تمہارے غلام کے لیے۔ اب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے بعد دیکھ رہا ہوں کہ میرا گھر غلاموں سے بھرا ہوا ہے، اور جب اصطبل پر نظر جاتی ہے تو وہ اونٹوں اور گھوڑوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھائوں گا؟ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو وصیت فرمائی تھی کہ تم میں سے مجھے زیادہ محبوب اور تم میں سے مجھ سے زیادہ قریب وہ آدمی ہوگا جو مجھ سے اسی حال میں ملے جس حال پر میں اسے چھوڑ کر جارہا ہوں۔ (الترغیب) حضرت عروہؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ حضرت ابوعبیدہؓ کے پاس تشریف لائے۔ آپؓ اپنے کجاوے کی چادر پر لیٹے ہوئے تھے اور گٹھری کا تکیہ بنا رکھا تھا۔ حضرت عمرؓ نے ان سے فرمایاکہ کیا تم نے وہ نہیں لیا جو تمہارے ساتھیوں نے لیا ہے؟ کہنے لگے: اے امیرالمومنین! یہ بستر مجھے میری خواب گاہ (قبر) تک پہنچانے کے لیے کافی ہے۔ حضرت معمرؓ اپنی حدیث میں بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر ؓ ملک شام تشریف لائے تو وہاں بڑے بڑے لوگ اور عوام الناس آپ سے ملاقات کے لیے آئے، حضرت عمرؓ نے دریافت کیا: میرا بھائی کہاں ہے؟ لوگوں نے پوچھا: کون بھائی؟ آپؓ نے فرمایا: ابوعبیدہؓ! لوگوں نے کہا کہ ابھی آپ کے پاس آئیں گے۔ جب حضرت ابوعبیدہؓ آپؓ کے پاس آئے تو آپؓ سواری پر سے اترے اور ان سے معانقہ کیا، اس کے بعد ان کے گھر تشریف لے گئے، ان کے گھر میں ان کی تلوار، ان کی ڈھال اور ان کے کجاوے کے علاوہ اور کچھ نہ دیکھا۔ (ابو نعیم) حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ نے اپنی زندگی سادگی سے گزاری۔ فتوحات اور مالِ غنیمت کی کثرت کی وجہ سے اکثر مسلمانوں کا طرز زندگی بدل چکا تھا، لیکن ان تمام مالی آسودگیوں اور فراوانیوں نے آپؓ کو بالکل بھی متا ثر نہیں کیا۔ مسلمانوںکے سپہ سالار کی حیثیت سے جب بیرونی وفود آپؓ سے ملنے آتے تو انہیں یہ پہچاننے میں مشکل ہوجاتی کہ مسلمانوں میں سے ان کا سپہ سالار کون ہے۔ جب حضرت عمر فاروقؓ ملک شام کے سفر کو گئے تو وہاں مسلمانوں کو اعلی لباس میں دیکھ کر سخت غصہ ہوئے اور اپنے گھوڑے سے اترکر ان پر غصہ کرکے سوال کیا کہ کیا تم پر اتنی جلد عجمیوں کا اثر ہوگیا ہے؟ لیکن یہیں انہوں نے امینِ امت اسلامی فوج کے سپہ سالار کو دیکھا کہ وہ اپنے اسی معمولی عربی لباس میں تھے، ان کے گھر جاکر دیکھا تو وہاں امیرالمومنین کو سوائے تلوار، ڈھال اور اونٹ کے کجاوے کے کچھ نہ ملا۔ یہ دیکھ کر حضرت عمر ؓ نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ کچھ سامانِ راحت کا بھی انتظام کرلیں۔ لیکن آپؓ نے بے نیازی کے عالم میں جواب دیا کہ: امیر المومنین میرے لیے یہی کافی ہے |
No comments:
Post a Comment