Search This Blog

Tuesday 15 May 2012

’’ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب‘‘


’’ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب‘‘

نعمان اعوان 
-انسان کو جب بھی کسی الجھن کا سامنا ہوتا ہے یا کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو وہ اس کے حل کے لیے متعلقہ شعبے کے ماہر سے رجوع کرتا ہے۔ مثلاً سیاست ہو یا معیشت، سائنس وٹیکنالوجی ہو یا ادب سے متعلق کوئی مسئلہ… ان کے حل کے لیے اس شعبے کے ماہرین سے رابطہ کیا جاتا ہے اور ان کی رائے کو حتمی سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ ان ماہرین کی رائے مدتوں کی ریاضت، غور و فکر اور تحقیق کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ زندگی کے دیگر مسائل کے حل کے لیے جس طرح ماہرین کی رائے لی جاتی ہے اور اس کو حتمی سمجھا بلکہ دلیل کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے، یہی طرزعمل دین کے بارے میں بھی ہونا چاہیے اور اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو من وعن تسلیم کیا جانا چاہیے، اور اگر ان احکامات کو سمجھنے میں کسی قسم کی مشکل پیش آئے تو علماء کرام سے رجوع کرکے قرآن وسنت کی روشنی میں بتائی گئی ان کی بات کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔کیونکہ علماء کرام کو دینی معاملات پر دسترس ہوتی ہے، اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ اس حوالے سے پی ایچ ڈی ہوتے ہیں تو کسی صورت غلط نہ ہوگا۔  تاہم دینِ اسلام اور اس کے بتائے گئے اصولوں سے متعلق نام نہاد مفکرین جو مسلمان بھی ہیں، کا طرزعمل تضادکا شکار ہے۔ معاشرے میں جہاں ایک طرف فحاشی، عریانی اور بے حیائی کا طوفان برپا ہے تو دوسری جانب گھرگھر پہنچ جانے والے بے لگام میڈیا کے ذریعے اس بے حیائی کو جائز ثابت کرکے سیدھے سادے مسلمانوں اور نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کی گھنائونی سازش کی جارہی ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے قرآن وحدیث کی بھی غلط تشریح پیش کی جاتی ہے، اور یہ کام یہودیوں کے اس کلیہ پر عمل پیرا ہوکر تسلسل سے کیا جارہا ہے کہ ’’جھوٹ اتنا بولوکہ سچ لگنے لگے‘‘۔ اس کام میں ماڈریٹ، سیکولر کہلانے والوں کے ساتھ نام نہاد مفکرین اور مبلغین بھی پیش پیش ہیں۔ ان نام نہاد مفکرین کے اعتراضات ہیںکہ عالمِ دین ان مسائل پر بات کرنے پر اعتراض کرتے ہیں، ان موضوعات پر بات کرنے سے ایک طوفان آجاتا ہے، فوراً دائرۂ اسلام سے خارج ہونے کا فتویٰ جاری کردیا جاتا ہے، یہ معاشرے کے ٹیبوز(Taboos) ہیں وغیرہ وغیرہ، جب کہ ان کا طرزعمل یہ ہے کہ وہ ان مسائل پر قرآن وحدیث کے احکامات اور علمائِ دین کی بات سننے اور ماننے کو تیار ہی نہیں، کیونکہ درپردہ ان کے مقاصد نفس کی تسکین اور مسلمانوں کی گمراہی ہے، نہ کہ احکامِ خداوندی کی تعمیل۔ بقول اقبال ’’خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں‘‘۔ دوسری بات یہ کہ جس عمل سے اللہ اور اس کے رسولؐ نے روک دیا اور واضح احکامات سامنے آگئے تو اس پر اہلِ ایمان کے نزدیک کسی قسم کے چونکہ چنانچہ، اگرمگرکی کوئی گنجائش نہیں۔ صحابہ کرامؓ کی زندگیاں اس حوالے سے بہترین مثال ہیں۔ موسیقی کے حرام یا جائز ہونے کے حوالے سے بھی الیکٹرانک میڈیا پر ایک ایک گھنٹے کے پروگرامات میں مختلف انداز میںگھماپھرا کر سوال اٹھایا جارہا ہے اور اسے جائز قرار دینے کے لیے انتہائی مضحکہ خیز دلیلیں دی جارہی ہیں۔ مثلاً نبی کریمؐ نے دف بجانے کی اجازت دی جوکہ ان کے نزدیک موسیقی کا آلہ ہے۔ لحنِ دائودی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی تو موسیقی تھی۔ اگر یہ کم عقل لوگ قرآن وحدیث کو پڑھیں تو یہ بات واضح ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جس طرح دیگر انبیاء کرام کو مختلف معجزات سے نوازا تھا اسی طرح حضرت دائود علیہ السلام کو دلکش آوازکا معجزہ دیا تھا جس میں وہ اللہ کا کلام پڑھتے تھے، نہ کہ نعوذباللہ کوئی گانا گاتے تھے جس میں محبوب کے وصل، فراق اور سراپا کا ذکر ہو۔ دوسری بات یہ کہ اللہ کے رسولؐ نے دف بجانے کی اجازت دی تھی اور وہ بجایا جاسکتا ہے، اس سے یہ بات کہاں ثابت ہوتی ہے کہ دف کے ساتھ ساتھ موجودہ دورکے تمام آلاتِ موسیقی اور رائج الوقت اعضاء کی شاعری اور نجانے کون کون سی شاعری جائز ہے! بقول علامہ اقبال ؎ ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق دینی معاملات کی سمجھ بوجھ اور دسترس رکھنے والے علمائِ کرام نے بھی واضح کردیا ہے کہ دف کے علاوہ ہر قسم کی موسیقی حرام ہے، اور مسلمانوں کے اکابر اماموںکا بھی موسیقی کے حرام ہونے پر اجماع ہے، جس کے بعد اس حوالے سے بحث کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ کا فرمان ہے: ’’اور بعض لوگ ایسے ہیں جو ’’لغو باتوں‘‘ کو مول لیتے ہیں کہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔‘‘ (لقمان:6) صحابیٔ رسول حضرت عبداللہؓ ابن مسعود نے قسم کھاکر فرمایاکہ ’’لھوالحدیث‘‘ یعنی لغو باتیں گانے اور آلاتِ موسیقی ہیں، جبکہ مفسرینِ قرآن اور علمائِ کرام نے بھی لھوالحدیث یعنی لغوباتوں کی تشریح گانے اور موسیقی کے آلات کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے: ’’ان میں سے تُو (شیطان) جسے بھی اپنی آواز سے بہکاسکے بہکالے، اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھالا‘‘ (بنی اسرائیل:64)۔ اس آیت کریمہ میں بھی مفسرین نے شیطان کی آواز سے مراد گانے بجانے سے لی ہے۔ رسول اکرمؐ کا فرمان ہے: ’’میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا اور حریر اور شراب اورگانے بجانے کو درست کرلیں گے۔‘‘ (بخاری جلد سوم، باب 345،صفحہ 278) ایک اور حدیث میں آپؐ کا فرمان ہے: ’’میری امت میں بعض ایسے لوگ ہوں گے جو شراب کا نام بدل کر پئیں گے اور عورتوں کے گانے اور موسیقی کے دلدادہ ہوں گے۔ اللہ ان کو زمین میں دھنسادے گا اور بعض کو قیامت تک کے لیے بندر اور سور بنادے گا‘‘۔ (ابن ماجہ) آلاتِ موسیقی اور گانے باجوں کی حرمت کے حوالے سے امام مالکؒ کا فتویٰ ہے کہ ’’ہمارے نزدیک یہ بدچلن لوگوں کا شیوہ ہے‘‘ (اغاثتہ اللھفان 1/200)۔ امام احمد بن حنبلؒ کے مطابق ’’راگ دل میں نفاق پیدا کرتا ہے‘‘ (الکافی فی فقہ ابن حنبل 4/271)۔ امام شافعیؒ کا فرمان ہے کہ ’’راگ بہت ناپسند اور باطل چیز ہے اور جو شخص راگ کا دلدادہ ہے وہ احمق ہے اور اس کی گواہی معتبر نہیں‘‘ (کتاب الام6/300)۔ امام ابوعبداللہ جعفرصادقؒ کے مطابق ’’گلوکار لونڈیاں خریدنا اور بیچنا اور انہیں گانے باجے کی تعلیم دینا کفر ہے اور انہیں سننا نفاق ہے‘‘ (الفروع من الکافی 5/120)۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی بات دینی معاملے میں حجت سمجھی جاتی ہے، اور جب تمام اکابر امام ایک بات پر اتفاق کرلیں تو اس میں اختلاف کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ انسان بیک وقت دو نظریات کا حامل نہیں ہوسکتا۔ یا وہ حق کے ساتھ ہوگا یا باطل کے ساتھ، یا بت پرست ہوگا یا وحدانیت کا قائل۔ ایسا ممکن نہیں کہ ایک شخص آدھا مسلمان اور آدھا بت پرست ہو۔ اور دینِ اسلام نے تو اس کو بالکل واضح کردیا ہے، یعنی ’’اے ایمان والو، پورے کے پورے دین میں داخل ہوجائو اور فاسد خیالات میں پڑ کر شیطان کے قدم بہ قدم مت چلو، حقیقت میں وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘ (البقرہ:208)۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کے واضح احکامات کے باوجود اگر کوئی کفر کرتا ہے اور مسلمانوں میں بے راہ روی پھیلاتا ہے تو ایسے شخص کا فیصلہ میرا رب ہی بہتر کرے گا۔ اللہ کا فرمان ہے ’’جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزومند رہتے ہیں ان کے لیے دنیا اورآخرت میں دردناک عذاب ہیں، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ نہیں جانتے‘‘۔ (النور:19)

No comments:

Post a Comment