Search This Blog

Friday, 25 May 2012

مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست Welfare State of Madinah

مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست

میر افسر امان 


’’اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے ‘‘(بنی اسرائیل۸۰) یعنی ا ے اللہ مجھے دنیا میں اقتدار عطا کر دے یا کسی حکومت کو میرا مددگار بنا دے۔تا کہ اس دنیا کے بگاڑ کو درست کر سکوں۔اسلام دنیا میں جو اصلاح چاہتا ہے وہ صرف وعظ و تذ کیر سے نہیں ہو سکتی بلکہ اس کو عمل میں لانے کے لیے سیاسی طاقت بھی درکار ہے۔اللہ نے یہ دعا خود اپنے نبی ؐ کو سکھائی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اقامتِ دین اور نفاذِ شر یعت اور اجرائے حدود اللہ کے لیے حکومت چاہنا اور اس کے لیے کوشش کرنا نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ومندوب ہے۔اللہ نے مدینے کی حکومت رسول ؐ کو عطا فرمائی ۔ رسول ؐ نے اللہ کی حدود کی حفاظت کے لیے وعظ و تذکیر کے ساتھ ساتھ اُس حکومت سے بھی مدد لی۔مدینے کی اسلامی ریاست کو سمجھنے سے پہلے ان واقعات کو سمجھ لینا ضروری ہے جو اس وقت وقوع پذیر ہوئے ۔ رسول ؐ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو کفارِ مکہ نے اُن کو وہاں بھی سکون سے نہیں چھوڑا۔ ہر وقت رسولؐ کو تکلیف پہنچانے کی کوششوں میں لگے رہے اور زبردستی جنگیں مسلط کیں جس میں غزوہ بدر،غزوہ اُحد اور غزوہ خندق شامل ہیں جبکہ اللہ کے رسول ؐ نے اول روز سے ہی ان کو کہا تھا میں ایک کلمہ ’’لا الہٰ الا ّ اللہ‘‘ تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں اگر تم اسے مان لو اس پر عمل کرو تو عرب اور عجم تمہار امطیع ہو جائے گا اس کلمے کی تعبیر کیا تھی؟ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہو گی نہ کہ کسی قوم یا قبیلے کی۔ دنیوی حکمران اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں سے عوام پر حکومت کریں گے۔ انسانیت جو دکھوں کے مارے سسک رہی ہے یہ ظلم ختم ہو گا اورہر کسی انسان کا احترام کیا جائے گا۔ ہر ایک کے ساتھ عدل اور انصاف کیا جائے گا۔ امن امان ہو گالوگ خود ایک دوسروں کے مال اور عزت کے نگہبان بن جائیں گے۔برابری اور انصاف کے ساتھ ترقی اور تعلیم کا انتظام ہو گا سب کو آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔ زکوۃ کا نظام قائم ہو گا تواتنی خوشحالی ہو جائے گی کہ لوگ دولت لیکر پھر رہے ہوں نگے مگر لینے والا کوئی نہ ملے گا ۔ انسانی حقوق میں سب برابر ہونگے ہر ایک کے ساتھ انصاف کیا جائے گا کسی کو استثنیٰ نہیں ہوگا۔ سود کا خاتمہ کر کے آذاد تجارت کا نظائم قائم کیا جائے گا جب مدینے کی اسلامی فلاعی ریاست قائم ہوئی تو رسول اللہ ؐ کی کہی ہوئی سب باتیں پوری ہوئیں۔ مدینے کی اسلامی ریاست قائم ہونے سے پہلے غزوہ بدر ہوئی اس میں مسلمانوں کو اللہ نے فتح دی اور قریش کے بڑے بڑے سورما قتل ہوئے اس پر مشتشرقین نے اپنی کتابوں میں حوالے دیے کہ اسلام قریش پر بھاری ہو گیا اور ایک ریاست بن گیا بدر کے بعد ہی اسلام کی کامیابی شروع ہوئی بدر کے بعد جنگ اُحد ہوئی جو قریش نے جنگ بدر کا بدلہ لینے کے لیے شروع کی تھی۔اسکے بعد سارے عرب کے مشرک جمع ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے ۔مدینے کے یہود نے بھی ان کا ساتھ دیا خصوصاً بنی قریضہ نے مشرکوں سے ساز باز کی مگر اللہ نے وقت پر اپنے پیارے رسول ؐ کو وحی کے ذریعے اطلاع کر دی اس محاصرے میں اللہ نے ایک رات آندھی بھیجی اورصبح مشرکوں کا نام ونشان باقی نہ رہا ۔اس پر رسول ؐ نے اصحاب ؓ سے کہا اب قریش تم پر حملہ آور نہیں ہوں سکیں گے بلکہ تم ان پر حملہ آور ہو گے۔ 8 ؁ھ کو رسول ؐ دس ہزار صحابہ ؓ کے ساتھ مکہ پر حملہ آور ہوئے اورمکہ فتح ہوا۔ امام ابن قیم ؒ لکھتے ہیں یہ وہ فتح اعظم ہے جس کے ذریعے اللہ نے اپنے دین کو،اپنے رسول ؐ کو،اپنے ا ما نت دار لشکر کو، اپنے شہر اور اپنے گھر کو کفار اور مشرکین کے ہاتھوں سے چھٹکارا دلایا۔ اس سے لوگ اللہ کے دین میںفوج در فوج داخل ہوئے اور دنیا کا چہرہ روشنی سے جگمگا اٹھا ۔ رسول ؐ نے مدینہ میں تشریف لاتے ہی مواخاۃ کا ایک مثالی نظا م قائم کیا تھا جو دنیا میں کہیں بھی موجود نہ تھا۔ ہجرت کر کے آنے والوں اورمدینہ کے اندر رہنے والوںکے ساتھ بھائی چارہ کا نظام قائم کیا۔ مہاجر کو انصار کا بھائی بنایا۔ انصاریوں نے اپنی زمینیں مہاجرین بھائیوں کو دیں اور مال اسباب میں اپنے مہاجر بھائیوں کو شریک کیا۔ دوسری طرف مہاجر بھائیوں نے اُن کا شکریہ ادا کرتے ہویٗ کہا انصار ی بھائیوں ہمیں بازار کا راستہ بتا دو،ہم خود زیست کے سامان کا انتظام اللہ کے حکم سے کر لیں گے۔اگر ایک انصاری بھائی کی دو بیویاں تھیں تو انہوں نے اپنی ایک بیوی کو طلاق دے دی تاکہ مہاجر بھائی اُس سے شادی کر لے۔اور اِس کے علاوہ اور بہت سے واقعات جو کہ مدینہ کی اسلامی ریاست میں واقعہ ہویٗ، دنیا نے دیکھے اور سنے کہ کس طرح انصاری بھائیوں نے مہاجربھائیوں کے لیے قربانیاں دیں۔ اِس کے علاوہ مدینہ میں رہنے والے دوسرے مذا ہب کے لوگوں سے میثاقِ مدینہ کے نام سے معاہدہ کیا جس کے تحت سب اپنے اپنے مذہب پر قائم رہیں۔مگر مدینہ پر اگر باہر سے حملہ آور آیٗ تو اُس کا سب مل کر مقابلہ کریں گے۔اپنے تنازعات کو رسول ؐ کے سامنے پیش کریں گے۔رسول ؐ کا جو بھی فیصلہ ہو گا مانا جایٗ گا۔ مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست میں رسول ؐ اللہ کے دس سال قیام کے دوران اسلام کے تمام قوانین اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے۔ آخر میں حجۃالوادع کے موقعے پر رسول ؐ اللہ نے لاکھ سے زائد صحابیوں ؓکے اجتماع میں اُ ن سے مخاطب ہو کر دریافت کیا ۔۔۔کیا میںنے اللہ کا پیغام آپ لوگوں تک پہنچا دیا؟ سب صحابہ ؓ نے کہا آپ نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔رسول ؐ اللہ نے اپنی انگلی آسمان کی طرف کر کے کہا اے اللہ آپ کے بندے گواہی دے رہے ہیں کہ میں نے آپ کا پیغام آپ کے بندوں تک پہنچا دیا ہے۔ آپ بھی اس بات پر گواہ رہیے کہ ٓپ کا پیغام آپ کے بندوں تک پہنچ گیا ہے ۔اس کے بعد اِس آیت کا نزول ہوا کہ ’’ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا ‘‘( المائدہ ۳) یہ دین کیا تھا جو مکمل کر دیا گیا۔دنیا کے انسانوں دستور عمل تھا جس پر رہتی دنیا تک انسانوں نے عمل کرنا ہے اور یہی اللہ کو پسند ہے۔یہ صرف مدینہ کی ایک اسلامی فلاحی ریاست ہی نہیں تھی کہ وہ قائم ہو گئی اللہ کی طرف سے اُس کے سربراہ رسول ؐ اللہ مقرر ہو گے ۔ یہ مسلمانوں کے لیے زندگی گزارنے کا دستور ہے جو اللہ تعالیٰ نے مکمل کر دیا ہے اب رہتی دنیا تک انسانوں نے اس پر عمل کرنا ہے۔ مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست میں رسول ؐ نے اس دستور پر عمل کر کے دکھایامدینے کی اسلامی ریاست میں رسول ؐ ہی قانون ساز تھے رسولؐ ہی انتظامیہ کے ذمہ دار تھے ۔رسولؐ ہی عدلیہ کے چیف جسٹس تھے ۔رسول ؐ ہی فوجوں کے کمانڈر ان چیف تھے۔رسول ؐ ہی خارجہ پالیسی بنانے والے اور خارجہ امور کے ذمہ دار تھے۔رسول ؐ ہی داخلہ پالیسی بنانے والے اور اس کو چلانے والے تھے۔رسول ؐ کے حکم سے سزائیں ناٖفذہوتی تھیں۔ رسول ؐ اللہ ہی خارجہ امور یعنی دنیا کے دوسرے ملکوں کوسفیر بھیجتے تھے۔ رسول ؐ نے دنیا کے بادشاہوں کو دعوتی خطوط لکھے تھے۔یعنی لوگوں کے بنیادی اخلاق سے لیکر ریاست کی تمام ذمہ داریاں رسولؐ کے ہاتھ میں تھیں۔ اس ریاست نے دنیا کے لیے راہنما اصولوں کا تعین بھی کر دیا۔یعنی دنیا میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہو گی۔انصاف کے معاملے میں کسی کو بھی استثنیٰ نہ ہوگا۔اگر اللہ کے رسول ؐاور مدینہ کی اسلامی ریاست کے سربرائہ کی بیٹی حضرت فاطمہ ؓسے بھی خداناخواستہ چوری کی غلطی ہو جائے تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ خزانہ اسلامی ریاست کے عوام کا ہے نہ کہ کسی حکمران کا جو کہ عوام کی فلاح بہبود پر خرچ ہو گا نہ کہ موجودہ دور کے حکمرانوں کی طرح ناجائز مراعات اور ذاتی کاموں پر ۔۔۔

No comments:

Post a Comment