سودکی حلت پر ایک تحریرکاتنقیدی جائزہ
ڈاکٹر طارق سعید
-(کراچی کے ایک کثیرالاشاعت اخبارمیں اتوار15 اپریل کو جناب یاسرپیرزادہ کا ایک مضمون بعنوان ’’سود‘‘ شائع ہواہے۔ اس کے حوالے سے لندن سے ڈاکٹر طارق سعید نے اپنے خیالات کا اظہارکیاہے۔ یہ جوابی مضمون اسی اخبارمیں شائع ہونا چاہیے تھا لیکن کسی مصلحت کے تحت ایسا نہیں ہوسکا۔ ڈاکٹرطارق نے اپنا مضمون جسارت کو بھیج دیاہے جس میں یاسرپیرزادہ ہی کو مخاطب کرکے اپنے خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔یہ ایک اہم موضوع ہے اس لیے قارئین جسارت کے استفادہ کے لیے شائع کیاجارہاہے۔) برادریاسرپیرزادہ صاحب‘ 15 اپریل 2012ء کو جنگ اخبارمیں آپ کے چھپنے والے مضمون کے حوالہ سے آپ سے فون پر بات ہوئی اور پھر اس سلسلہ میں ایک برق نامہ ارسال خدمت کیا جس کا آپ نے فی الفور جواب عنایت کیا۔ اس کے لیے میں بہت شکرگزارہوں۔ مگر آپ کے مضمون کے حوالہ سے چندگزارشات آپ کے گوش گزارکرنا چاہتاہوں۔ مضمون کی تمہید میں آپ نے دوافراد کے حوالے سے سودکی حلت کی ضرورت کا ذکرکیاہے۔ مگر نعمان صاحب کا بغیر بینک اکائونٹ کے کاروبارچلانا ایک معجزہ ہی معلوم ہوتاہے کیونکہ 9/11 کے بعد بین الاقوامی مالیاتی قوانین اتنے سخت ہیں کہ آپ معمولی سے معمولی Transactionکے لیے بھی بینک کے محتاج ہیں ۔ ثانیا سابق وزیر اعظم جناب شوکت عزیز کے ڈاکومینٹیشن کے نام پر مسلط کردہ قوانین سے یہ حضرت کیوں کرنمٹتے ہوں گے سمجھ سے بالاتر ہے۔ رہامولوی صاحب کافتویٰ تو محترم فتویٰ دینا مفتی کاکام ہے عام مولوی کا نہیں۔ اورغالباً آپ نے لفظ مولوی تحقیراً لکھاہے رہا سوال موجودہ اسلامی بنکاری کا تو یہ کہانی پھرسہی… آپ کی تمہید کے دوسرے کردارماسٹرصاحب کے داماد کی بددیانتی سے سود کی حلت کس طرح سے ثابت ہوتی ہے‘ یہ بھی میری ناقص عقل سے بالاتر ہے۔ سودی بینکاری کے نظام میں بینکوں کے فیل ہونے اور فراڈ کے ذریعہ کتنے لوگ اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں یہ بھی قابل تحقیق مضمون ہے خاص طور پر 2007ء کا مشہور زمانہus prime mortgage یا Pongi schemes لیکن کیا آپ یہ بتانا گواراکریں گے کہ قومی بچت کی اوسط شرح سود 14 فیصد سالانہ ہو اور حکومت کی اعلان کردہ افراط زرکی شرح 15 فیصد سالانہ ہوتو بیچارے ماسٹر صاحب کیا دھوتے ہوںگے اورکیا نچوڑتے ہوں گے۔ آپ نے اپنے مضمون میں سرمایہ دارانہ نظام میں انسان کی بے توقیری کا ذکرکرکے دل خوش کردیا۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔ مگر بندرکی بلا طویلے کے سرپررکھتے ہوئے Barking ON the Wrong Tree کے مصداق‘ الزام اس سلسلہ میں مناسب فتویٰ کے نہ ہونے پر رکھ دیا۔ اگر کبھی موقع ملے تو اصول الفقہ کی کسی بھی کتاب میں فتویٰ کا باب ضرورپڑھیے گا۔ عزیزبھائی! اسلام کی تو اساس ہی انسان کی حرمت اور تقدس پرہے‘ حقوق اللہ سے پہلے حقوق العباد ‘ انسان کی عزت وتکریم کو کعبہ پر فضیلت اسلام نے ہی تو دی ہے۔ میرے نبیؐ ہی نے تو فرمایاکہ اجرت پسینہ خشک ہونے سے پہلے اداکردو۔ اگرآپ اس سلسلہ میں ضروری سمجھتے ہیں توسنیے ’’اسلام صرف اتناہی نہیں چاہتا کہ اجتماعی زندگی میں یہ معاشی دوڑکھلی اور بے لاگ ہو‘ بلکہ یہ بھی چاہتاہے کہ اس میدان میں دوڑنے والے ایک دوسرے کے لیے بے رحم اور بے درد نہ ہوں بلکہ ہمدرد اور مددگارہوں‘‘ (حوالہ‘مولانا مودودیؒ)۔ معاشیات اسلام‘ صفحہ 25 مطبوعہ اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈلاہور)۔ یہ سرمایہ داری کا نظام ہی تو ہے جس نے انسان کو بے توقیر کرکے اسفل السافلین بنادیاہے اوراب تاثریامی روددیوارکج کے مصداق معاشی ترقی اور اخلاقی تنزلی میں تناسب راست پایاجاتاہے۔ رہا سوال ترجمہ میں لفظ سود آنے اور کاروبارکے حرام ہونے کا تو یہ الفاظ ہی کا توجھگڑا ہے ‘ مارو اور کولیسٹرل ڈیمیج کہہ کر جان چھڑالو۔ اسلام میں لفظ اور ان کے معانی مسئلہ نہیں بلکہ کاروبارکی نوعیت‘ افرادکے رویے اور اس کے نتیجہ میں فروغ پانے والا معاشرہ اورخرابیاں قابل توجہ اور اصل ترجیح ہیں۔ محترم حسن نثارصاحب نذیرناجی صاحب جیسے تمام احباب کو گلہ ہے کہ اگرآئین پاکستان سے لفظ اسلام نکل جائے اورتمام برائیوںکے خلاف فتویٰ جاری ہوجائے تو پاکستان کے پسے ہوئے عوام کو راحت نصیب ہوجائے گی۔ مگر ان احباب میں سے کسی نے بھی ایک لفظ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لکھناگوارانہیں کیا کہ جو تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ انسان پرانسان کی حکومت اور اللہ کی بنائی ہوئی زمین پر انسان کے بنائے ہوئے قوانین سے خوش بختی کیوں کرآئے گی یہ بات میری عقل سے بالاہے کسی نے کیا خوب کہاہے کہ جتنے ازم بھی ہیں جہاں میں ان سے انساں کو کیاملاہے چھوڑکر دامن مصطفیٰ کو آدمی کرب میں مبتلا ہے اگرفتویٰ ہی چاہیے تو پھر قرآن اٹھائیے جوکہتاہے کہ ’’حضرت شعیب نے کہا اے برادران قوم اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی صاف رہنمائی آگئی ہے۔ لہٰذا وزن اورپیمانے پورے کرو لوگوں کو ان کی چیزمیں گھاٹا نہ دو‘‘۔ (الاعراف85) ۔
-یاد رہے کہ حکم خداوندی کے بعد کسی فتوے کی ضرورت باقی نہیں رہتی یہ اتمام حجت بھی ہوگیا۔مضمون کا اگلا حصہ کافی دلچسپ ہے مگر انتہائی معذرت کے ساتھ عرض کروں گاکہ آپ موضوع کے ساتھ انصاف نہیں کرپائے۔ اپنانکتہ نظرپیش کرنے سے پہلے یہ واضح کردوں کہ میں نہ تو مولانا مودودیؒ کا وکیل ہوں نہ ہی ان کو حجت مانتاہوں۔ میرے نزدیک ہدایت کا راستہ اللہ اور اس کے نبیؐ کا متعین کردہ راستہ ہے اور معیارحق آپ ؐ کی حیات مبارکہ ہے۔ ہاں میں نے مولانا مرحوم کی کتب سے اپنی زندگی میں اکثروبیشتررہنمائی حاصل کرنے کی کوشش ضرورکی ہے۔ آپ کی تحریرسے یہ تاثرملتاہے کہ آپ نے مولانا مرحوم کی مذکورہ کتاب کا مطالعہ کیاہے اور اسی سے حوالہ نقل کررہے ہیں۔علمی بحث کا اصول ہے کہ یاتو اصل ماخذ تک رسائی حاصل کی جائے وگرنہ بات ثانوی ماخذ کے حوالہ سے کی جائے۔ مگر بوجوہ آپ نے نہ تو اصل کتاب تک رسائی کی کوشش گواراکی اورنہ ہی اپنے مضمون میں اس بات کا ذکرکیاکہ آپ نے مولانا مرحوم کی تحریرنہیں دیکھی ہے۔ آپ نے مولانا مودودیؒ کے حوالہ سے جملہ مولاناجعفرشاہ پھلواروی کی کتاب کمرشل انٹریسٹ کی فقہی حیثیت مطبوعہ ارادہ ثقافت اسلامیہ لاہور1951ء کے صفحہ 13 سے لیاہے۔ یادرہے کہ اس کتاب کے سرورق سے یہ تاثرملتاہے کہ یہ کتاب مولانا پھلواروی کی تحریرہے جبکہ یہ کتاب مختلف مضامین کا مجموعہ ہے جن میں کچھ مضامین مولاناکے ہیں اورباقی دوسرے حضرات کی کاوش ہیں۔ آپ نے جو جملہ کتاب کے صفحہ 13 سے مولانا مودودیؒ کے حوالہ سے نقل کیاہے وہ جملہ جناب سیدیعقوب شاہ سے موسوم مضمون سے لیاگیاہے۔ سیدیعقوب شاہ صاحِب مملکت خداداد پاکستان کے آڈیٹرجنرل تھے اورانہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے پراویڈنٹ فنڈ میں جمع ہونے والے سودکے حوالے سے مولانا مودودیؒ سے خط وکتابت کی تھی۔ یہ مراسلت ترجمان القرآن مارچ 1957ء سے لے کر نومبر1957ء تک چھپی بعد ازاں مولانا مودودیؒ کی کتاب سود (مطبوعہ) اسلامک پبلیکیشنزلمیٹڈلاہور ‘مارچ 1991ء ) میں صفحہ 171 تا 191 شامل ہوئی۔ اس مراسلت میں سید یعقوب شاہ صاحب نے انتہائی شائستہ اندازمیں سودکے مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کی اورآخر میں حرمت سود کے قائل ہوگئے اورلکھا کہ ’’جوسودی رقم مجھے پراویڈنٹ فنڈ سے ملی تھی اسے چند روز بعد ہی ایک دوست بطور قرض لے گئے اور آج تک ان سے واپس نہیں ملی۔ لیکن اگر مل گئی تو ان شاء اللہ آپ کی ہدایت کے مطابق میں اس کو اپنی ذات پرخرچ نہ کروں گا‘‘(سود‘صفحہ 189) اس عبارت سے پتا چلتاہے کہ جناب یعقوب شاہ صاحب کی نیت مسئلہ کی تہہ تک پہنچنا‘حق کی جستجو اوررضائے الٰہی کا حصول تھا‘ جبکہ مولانا پھلواروی کی کتاب میں شائع شدہ مضمون سے ایک مختلف تاثرملتاہے۔ اب آئیے مولانا مودودیؒ سے منسوب عبارت کی طرف آپ نے اصل عبارت کی تحقیق کیے بغیر عبارت نقل کی اور وہ بھی ادھوری ۔ سید مودودیؒ ایک معروف شخصیت ہیں‘ صاحب تفسیرہیں‘ ان کی کتب دنیا کے کونے کونے میں مختلف زبانوں میں باآسانی دستیاب ہیں مگر آپ نے مولانامودودیؒ کا مافی الضمیر جاننے کی ادنی سی کوشش بھی نہیں کی۔ میں نے آپ کا مضمون پڑھنے کے فوراًبعد آپ کو فون پربتادیا تھا کہ مولانا مرحوم کی کوئی کتاب یا تحریرماضی الاسلام جیسے لایعنی نام کی نہیں ہے۔ آپ چاہیں تو روزنامہ جسارت کے مولانامودی ؒ صفحہ نمبر 17 یاIslamic Perspective: Studies INhonourOFSayyid Mowdudi(2006)سے تصدیق کرلیں کہ ایسی کوئی تحریرمولاناکے قلم سے وارد نہیں ہوئی ہے۔ یہ جملہ جو آپ نے صفحہ 13کے پیراگراف سے لیاہے مولانا مودودیؒ کی کتاب مسئلہ سود جوکہ اسلامک پبلیکیشنزلمیٹڈ کی مطبوعہ کتاب معاشیات اسلام کا حصہ ہے سے لیاگیاہے اور اس میں اپنی مرضی کی کتربیونت کی گئی ہے۔ معاشیات اسلام صفحہ 231 پر ربوٰسے متعلقہ آیات قرآنی کا ترجمہ دینے کے بعد مولانا مرحوم رقمطراز ہیں۔ ’’ان آیات سے صاف ظاہرہے کہ اصل رقم پرجو زیادتی بھی ہوگی وہ ’’ربوٰ‘‘ کہلائے گی ۔ لیکن قرآن مجید نے مطلق ہرزیادتی کو حرام نہیں کیاہے۔ زیادتی تو تجارت میں بھی ہوتی ہے۔ قرآن جس زیادتی کو حرام قراردیتاہے وہ ایک خاص قسم کی زیادتی ہے‘ اسی لیے وہ اس کو ’’الربوٰ‘‘کے نام سے یاد کرتا ہے۔ اہل عرب کی زبان میں اسلام سے پہلے بھی معاملہ کی اس خاص نوعیت کو اسی اصطلاحی نام سے یادکیاجاتاتھامگروہ ربوٰ کو بیع کی طرح جائز سمجھتے تھے جس طرح موجودہ جاہلیت میں سمجھاجاتاہے۔ اسلام نے آکر بتایا کہ راس المال میں جو زیادتی بیع سے ہوتی ہے وہ اس زیادتی سے مختلف ہے جو ’’الربوٰ‘‘ سے ہواکرتی ہے پہلی قسم کی زیادتی حلال ہے اور دوسری قسم کی زیادتی حرام‘‘ (معاشیات اسلام ‘1988‘صفحہ 231)۔ آپ ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں‘آپ ہی اپنی ادائوں پر ذراغورکریں اورمیری اصلاح فرمائیں کہ جو معانی آپ نے بذریعہ مولانا پھلواروی اخذکیے اور سادہ لوح مسلمانوںکوگمراہ کرنے کے لیے شائع کررہے ہیں وہ کہاں تک درست ہیں۔ اب آگے آپ نے بغیر حوالہ دیے مولانا پھلواروی کی مذکورہ بالاکتاب کے صفحات 67 اور 68 سے نقل کرکے لفظوں کا گورکھ دھندا شروع کردیا اور سود‘ الربوٰ انٹریسٹ اور Sury Uکی بحث چھیڑ دی ۔ یہاں آپ نے کسی مستند ڈکشنری‘ انسائیکلوپیڈیا یاکتاب کا حوالہ دینا تو درکنار مذکورہ بالا کتاب کے جن صفحات سے براہ راست استفادہ کیا ان کا حوالہ بھی نہیں دیا۔ اگرآپ کو یہی رائے اختیارکرناتھی تو کم ازکم عمر اصغرخان مرحوم تیمورقرآن‘ یا محمود‘ ابوسعود کے پائے کا کوئی فاضل پکڑتے کہ دلیل میں کوئی وزن تو ہوتا‘ بات میں کوئی اثرتو ہوتا۔
عزیزدوست! Usury اور Interest دونوں لاطینی زبان کے الفاظ USurie اور Interess سے مشتق ہیں۔ Usurieکے معانی قرض دے کر اصل زر یعنی راس المال سے زیادہ کا مطالبہ کرنا` جبکہ Inetress ایک قانونی اصطلاح ہے جو Usurie کے زمرے میں اُس وقت استعمال ہوتی ہے جب شرح سودکو ملکی قوانین میں تحفظ فراہم کردیا جائے۔ (Blackstones Commentry on the law of England) ولیم بلیک اسٹون کی کتاب کے صفحہ 1336پر لکھا ہے: When Money Islent on a contract to receive not only the principal, but also an increase by way of compensation for the use the increase is called intrest by those who think it lawful and usury by those who do not‘‘ کاش آپ نے معانی کی اس بحث کو چھیڑنے سے پہلے ارسطو‘ پلوٹو‘ کاٹو یاسسرو جیسے کسی فلاسفر سے پوچھا ہوتا کہ Usury اور Interest میں کیا فرق ہے، یا مولانا پھلواروی کی زبان میں Commercial Interest کے کیا فوائد ہیں، تو آپ سے یہ سہو نہ ہوتا۔ میں سودی نظام کے خلاف کسی عالم دین یا مفتیانِ عظام کا حوالہ اس لیے نہیں دے رہا کہ بقول جناب حسن نثار صاحب ان سے آپ کا کیا مقابلہ، گو میرے نزدیک یہ وہ خوش بخت لوگ ہیں کہ اللہ نے انہیں دین کا فہم اور شعور عنایت فرمایا۔ آپ کا دعویٰ کہ سود نفع و نقصان دونوں سے چھن کر آتا ہے، یہ جملہ مولانا پھلواروی کی کتاب کے صفحہ 73 سے ہوبہو نقل کیا گیا ہے۔ گو یہ دعویٰ دلیل کا محتاج ہے اور دلیل دینا آپ کی ذمہ داری ہے، مگر میں اس پر صرف اس قدر عرض کروں گا کہ 1433 سال پہلے بھی انماالبیع مثل الربوٰ کا راگ الاپا جاتا تھا اور آج بھی یہی جگالی کی جارہی ہے۔ میرے بھائی! کبھی فرصت ملے تو Business Profit اور Interst کا فرق اقتصادیات کی کسی کتاب سے سمجھیے گا، یا پھر Keynes کی Liquidity Preference Theory، یا سود کے دیگر نظریات کا مطالعہ کیجیے گا، اِن شاء اللہ کافی فرق پڑے گا۔ اب رہی یہ بات کہ کون سا نفع جائز ہے اورکون سا سود… اس کا جواب تو اوپر مولانا مودودیؒ کی تحریر سے مل جاتا ہے۔ مگر آپ نے مولانا پھلواروی کی کتاب کے صفحہ 68 سے سود کو نفع سے خلط ملط کرنے کا جو نظریہ لیا اور اسے استحصال اور قومی اداروں کی طاقت سے ملا کر ایک نیا قصہ چھیڑا ہے، اس سے نمٹ لیں۔ پہلے تو لفظ استحصال اور معاشی و اقتصادی استحصال کو واضح کریں پھر بتائیں کہ موجودہ سرمایہ داری نظام کیوں کر ان برائیوں سے پاک ہے! اور اگر اسلام کی تعلیمات پر ہی وارکرنا مقصود ہے تو یہ ثابت کریں کہ صرف استحصال ہی حرمت ِربا کی علت ہے اور یہ ثبوت قرآن، حدیث اور سلف الصالحین کے اجماع سے لائیں۔ یہاں یہ بات آپ کے علم میں لانا چاہوں گا کہ علم اقتصادیات میں قرض کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اولاً: پیداواری یا تجارتی قرضے ثانیاً: صارفی یا غیر پیداواری قرضے۔ استحصال (استیصال) کا زیادہ تر اندیشہ اور امکان غیر پیداواری یا صارفی قرضوں میں ہوتا ہے (مولانا پھلواروی بھی صارفی قرضوں میں سود کو مناسب نہیں سمجھتے) نہ کہ پیداواری یا تجارتی قرضوں میں۔ یاد رہے کہ عربوں میں تو دورکی بات، آج سے چند سال پہلے تک پاکستان میں بھی صارفی قرضہ جات بہت کم تھے کہ ’کار فنانس‘ جیسی لعنتیں نہیں تھیں۔ لوگ قرآن کے الفاظ میں ’’اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو دنیوی زندگی کی اس شان و شوکت کی طرف جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کو دے رکھی ہے۔ وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے دی ہیں‘ اور تیرے رب کا دیا ہوا رزقِ حلال ہی بہتر اور پائندہ تر ہے‘‘ (طٰہٰ131:)۔ لوگ مطمئن زندگی گزارتے تھے اس لیے نزولِ قرآن کے زمانے میں غیر پیداواری صارفی قرضہ جات شاذونادر ہی ہوتے تھے، جبکہ پیداواری قرضوں کا چلن عام تھا، اور مکہ کے تاجر حضرات قرض کی رقم سے بلادِ شام اور یمن کا تجارتی سفر کرتے تھے اور واپس آکر تجارتی مال بیچ کر قرض اور سود ادا کرتے تھے۔ نبی آخرالزماںؐ نے اپنے چچا عباسؓ کا جو قرض معاف فرمایا تھا وہ اسی نوعیت کا تھا۔ اگرآپ کا دل اس مولویانہ استدلال کو نہ مانے اور مطمئن نہ ہو تو ارسطو اور کینز سے رجوع فرمالیں۔ رہا مولانا پھلواروی کا یہ استدلال کہ ’’اگر کمرشل انٹرسٹ کو جائز قرار دے دیا جائے تو اس کے لیے یہ ثابت کرنا ضروری نہیں کہ یہ سو فیصد مضاربت ہے، بلکہ اس کے لیے صرف اس قدر ثابت ہونا کافی ہے کہ یہ ربوٰ نہیں ہے۔‘‘ (صفحہ 74) بھلے آدمی! اگر درج بالا جملے کو دلیل مان لیا جائے تو پھر تو سب کچھ جائز ہے۔ یعنی ’’کسی مشروب کے حلال ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ یہ سو فیصد حلال ہے، بلکہ اس کے لیے صرف اس قدر ثابت ہونا کافی ہے کہ یہ پی کر انسان جھگڑا نہیں کرتا۔‘‘ نعوذباللہ من ذالک کمرشل انٹرسٹ پر ’’مفت خوری‘‘ کی تہمت آپ کے ذہن کی اختراع نہیں ہے بلکہ بائبل کے علاوہ ارسطو اور پلوٹو جیسے فلاسفروں نے بھی اسے یہی نام دیا ہے۔ رہا سوال کہ سود سے سرمایہ زیرگردش رہتا ہے، تو برائے کرم یہ وضاحت بھی کردیں کہ کیا سرمایہ کو زیرِگردش رکھنے کے لیے صرف سودی سرمایہ کاری ہی ایک ذریعہ ہے؟ یا اس کے علاوہ بھی کچھ امکانی صورتیں ہیں۔ اس سلسلے میں اگر چاہیں تو مغربی اقتصادیات میں Shared Economy اور Debt vs Equity کی بحث ضرور دیکھیے گا۔ Destroyer Of Nation ‘ Usury بھی ایک کافی صحت افزا تحریر ہے، مگر مضمون کی طوالت سے بچنے کے لیے امریکا کے علمی مجلہ the yale کے شمارہ 22 مطبوعہ جون 1933ء میں KEYNES کی ایک تقریرکا حوالہ دیتا چلوں: "Indeed, the Transformation of Society which I Preferbly envisage May require a reduction in the rate of interest to wards vanishing point with in the next thirty years" (Keynes)(1933). "Natinoal Sufficeincy" The yale (22) p.762). بتاتا چلوں کہ آج بھی امریکا‘ جاپان اور برطانیہ میں کساد بازاری سے بچنے کے لیے شرح سودکو صفر کے قریب ترین رکھا جارہا ہے تاکہ اقتصادی ترقی اور نموکو ممکن بنایا جاسکے۔ بھائی! آپ نے بیچارے ماسٹر صاحب اور بیوہ کی مجبوریوں کا حوالہ دے کر یہ تو بتادیا کہ اگر معاشرے سے سود ختم کردیا جائے تو یہ لوگ بھوکوں مرجائیں گے، مگر یہ امر تشنہ دلیل ہے کہ ایک طالب علم اگر اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے بینک سے قرض لے اور بینک 22 فیصد‘30 فیصد کی شرح سے سود طلب کرے تو اس کا کیا جواز ہے! آپ نے حلت ِ سود کے لیے جتنے بھی دلائل مولانا محمدجعفرصاحب کے حوالے سے نکالے ہیں وہ نہ تو عقل کے معیار پر پورے اترتے ہیں اور نہ ہی اقتصادیات و معاشیات کے کسی اصول اور ضابطہ کے ترازو میں تلتے ہیں۔ رہا سوال تاجروں اور جاگیرداروں کے ظلم کا، تو اس کے لیے آپ مولوی (جسے آپ درخورِ اعتنا سمجھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں) کے فتویٰ کا انتظارکیوں کرتے ہیں؟ یہ آپ کے تجویزکردہ نسخے کی پیداوار ہیں آپ ہی نمٹیں۔ آپ کم عمر ترین سول سرونٹ ہیں، دلیل کی طاقت، تحریر اور تقریرکی قوتِ اختیار سب آپ کے پاس ہے، آپ قدم بڑھائیے اور ملک کو اس لعنت سے چھٹکارا دلائیے۔ آپ کے جو احباب لاہورکے تاجروں، لاڑکانہ کے وڈیروں، ملتان کے پیروں، لندن کے فقیروں کے قصیدے لکھیں ان کا بائیکاٹ کیجیے۔ ٹی وی پر اپنے شو کے لیے کسی ایسی ملٹی نیشنل کا اشتہار قبول نہ کیجیے جو آپ کی ذکر کردہ برائیوں میں ملوث ہو۔ میں نے یہ تحریر’’الدین نصیحتہ‘‘ کے جذبے سے لکھی ہے۔ امید ہے کہ آپ بھی اسے ایک برادرِ بزرگ کی تحریر سمجھ کر پڑھیں گے۔ اللہ آپ سے اپنے دین اور امت کی بھلائی کا کام لے۔
|
No comments:
Post a Comment