Search This Blog

Monday, 7 May 2012

صفاتِ الہٰی کے بیان کا قرآنی اسلوب


صفاتِ الہٰی کے بیان کا قرآنی اسلوب



ڈاکٹر محمد ہمایوں عباس شمس

وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں انسانوں میں غلط فہمیاں بہت کم پیدا ہوئیں، البتہ صفاتِ الہٰیہ کا صحیح عرفان اور شعور نہ ہونے کی بنا پر لوگ زیادہ کج روی کا شکار ہوئے۔ اس لیے قرآن کریم نے متعدد مقامات پر صفات الہٰی کو بار بار مختلف اسلوب وپیرائے میں بیان کرکے ان کے سلسلہ میں انسانی ذہنوں میں پائی جانے والی کج فہمیوں کا ازالہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خالق کائنات او رمخلوق کے مابین رشتہ وتعلق کی نوعیت صفات الہٰی ہی سے واضح ہوتی ہے اور ذات بار ی تعالیٰ کا عرفان بھی ان ہی سے حاصل ہوتا ہے ۔ یہ صفات عظمت الہٰی کی اس بلند ترین حقیقت کو آشکارا کرتی ہیں کہ انسان ذات الہٰی کی حقیقت تک پہنچنے میں کتنا عاجز وبے بس ہے ۔ اسی وجہ سے قرآن نے الله تعالیٰ کو ”الاسمآء الحسنٰی“ سے پکارنے کا حکم دیا ( الاسراء110) اور ”الحاد فی الاسماء“ سے منع فرمایا ( الاعراف:180) کیوں کہ یہ الحاد شرک یا کفر کی طرف لے جاتا ہے۔

قرآن مجید میں الله تعالیٰ کی صفات وافعال اوراس کے انعامات کااتنی کثرت سے ذکر اور اس کا اعادہ وتکرار اور اس قدر شرح وبسط کے ساتھ بیان کا اصل راز یہی ہے، اس لیے کہ صفات ہی محبت وشوق کا سرچشمہ ہیں ، اسی بات کو بعض ائمہ اسلام نے ”نفی مجمل او راثبات مفصل“ سے تعبیر کیا ہے ، یہی اثبات ہے ( یعنی الله تعالیٰ کی صفات کریمہ کا بیان اور اس کے دلائل وشواہد کا ذکر) جس سے انسان کے ذوق وشوق کو غذا ملتی ہے اور محبت جوش مارنے لگتی ہے، اگر نفی، رہبر عقل ہے تو اثبات، رہبرِ دل، اگر الله تعالیٰ کی یہ صفات عالیہ اور اسمائے حسنٰی ہمارے سامنے نہ ہوتے ، جن سے قرآن وحدیث بھرا ہوا ہے … تو یہ دین ایک چوبی یا آہنی نظام اور قانون کی طرح ہوتا، جس کی دلوں میں کوئی جگہ نہ ہوتی ، یہ نہ ان میں کوئی جذبہ اور گرم جوشی پیدا کرسکتا ، نہ ان کے دلوں کو گرم اور آنکھوں کو نم کرنے کی صلاحیت رکھتا … اس کے بغیر خدا اور بندہ کا تعلق ایک مردہ اور محدود تعلق ہے، جس میں نہ کوئی زندگی ہے ، نہ روح ، نہ لچک، نہ وسعت۔

حدیث پاک میں نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم کا صفات الہٰی والی احادیث کو یاد کرنے والے لیے جنت کی بشارت بھی درحقیقت انسان کو نہ صرف ان اسماء کے مفاہیم کی معرفت سے آشنا ہونے کا پیغام دیتی ہے، بلکہ انسان کو ان صفات سے متصف ہونے کا درس بھی اس میں پنہاں ہے۔

اس حدیث کی طرف ان سطور میں اشارہ کیا گیا ہے :

یہ ننانوے نام تو الله تعالیٰ کی بے شمار صفات کے ابواب کے عنوانات ہیں۔ صفات الہٰی تو لامتناہی ہیں۔ ہر نیا دن اور ہر نئی تخلیق صفات الہٰیہ میں سے کسی صفت کا پرتو ہوتی ہے ۔ انہی صفات میں سے ہر مخلوق اپنے ظرف کے مطابق فیض یاب ہوتی ہے ، پھر کائنات اور انسان کی ساری سرگرمیاں انہی صفات کا مظہر ہوتی ہیں۔ ان لامتناہی صفات کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
صفات ثبوتیہ

وہ صفات جوباری تعالیٰ کے لیے ثابت ہیں اور الله تعالیٰ کی زیبائی او رجمال کی آئینہ دار ہیں، جیسے علم ، قدرت۔
صفات سلبیہ

وہ صفات جن کی خدا سے نفی کی گئی ہے ، جیسے جہل ، عجز۔
صفاتِ فعل

وہ صفات جن کا تعلق افعال خدا سے ہے ، جیسے خالق، رازق۔

قرآن کریم میں مختلف احکام کے تذکرہ کے بعد صفاتِ الہٰیہ کا بیان ہوا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ احکام الہٰیہ کے ساتھ ان کا گہرا تعلق ہے ۔ اس کا اندازہ اصمعی کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دن انہوں نے یہ آیت پڑھی : ﴿السارقة والسارقة… ﴾ لیکن غلطی سے والله غفور رحیم کہہ دیا۔ ایک اعرابی قریب تھا، اس نے پوچھا کہ یہ کس کا کلام ہے ؟ اصمعی نے کہا الله کا۔ اس نے کہا کہ یہ الله کا کلام کیسے ہو سکتا ہے ؟ اگر الله نے معاف کر دیا اور رحم کیا تو ہاتھ کاٹنے کا حکم کیوں دیا؟ یہ حکم تو اس لیے تھا کہ وہ قدرت وغلبہ کا مالک ہے۔ گویا اعرابی نے صفات کے ذکر میں غلطی کا اندازہ ماقبل سے لگایا۔ اسی طرح ایلاء سے رجوع کرنے والوں کے لیے غفور اور رحیم کی صفات آئیں۔ قسم اٹھا کر عورت کو پریشان کیا اور قسم توڑ کر الله کے نام کی عزت کا پاس نہیں کیا۔ ایسے لوگوں کے لیے انہی صفات کا مژدہ ہونا چاہیے تھا، مگر جو طلاق کا عزم کر لیں ان کے لیے صفات سمیع اور علیم آئیں، کیوں کہ الله تعالیٰ اس ساری گفتگو کو سنتا ہے جو وہ اس سلسلہ میں عوام الناس اور اعزا واقربا سے کرتا ہے۔ وہ لوگوں سے جو چاہے کہے، مگر اس عزم طلاق کے حقیقی محرکات سے خالق کائنات آگاہ ہے ۔

قرآن کریم کی سورتوں اور آیات کے باہمی نظم وربط کو زمانہٴ قدیم سے علماو محققین نے اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے ،اس نظم کی اہمیت تو ہے ہی، مگر سورتوں میں مختلف آیات کے اختتام پر آنے والے اسمائے الہٰیہ کا بھی ماقبل حکم ربی سے مناسبت او رتعلق ضرور ہے۔ یہ بھی اعجاز قرآن کا ایک پہلو ہے۔

آیات کے اختتام پر عموماً صفات الہٰیہ مرکب صورت ( یعنی دو صفاتی ناموں کی صورت میں ) آئی ہیں ۔ صفاتی ناموں کے یہ جوڑے بھی کئی شکلوں میں ہیں۔ یقینا ان میں بھی کوئی نظم وربط او رمناسبت ہو گی۔

یہاں چند ایسے اسماء کااجمالی تذکرہ پیش کیا جاتا ہے۔
عزیز

اصل میں عزت کا معنی روکنا ہے ۔ ارض عزاز اس زمین کو کہا جاتا ہے جو بہت سخت ہو ۔ حاشیہ الصاوی علی الجلالین میں ہے:

”عزیز“ لا یعجزہ شیء عن انتقامہ منکم ای لاتفتلون منہ․“

گناہوں کا انتقام لینے میں اسے کوئی عاجز نہیں کر سکتا اور نہ تم اپنے آپ کو اس سے چھڑا سکتے ہو۔

اسی وجہ سے ”عزیز“ کا ترجمہ غالب کیا جاتا ہے۔ امام رازی نے اس لفظ کو زیادہ جامع انداز میں بیان کیا ہے :

”ان العزیز من لا یمنع عن مرادہ، وذلک انما یحصل بکمال القدرة، وقد ثبت انہ سبحانہ وتعالیٰ قادر علی جمیع الممکنات، فکان عزیزا علی الاطلاق․“

عزیز وہ ہے جسے کوئی بھی اس کے ارادے سے روک نہ سکے۔ یہ چیز کمال قدرت سے حاصل ہوتی ہے ۔ یہ ثابت ہے کہ الله تعالیٰ تمام ممکنات پر قادر ہے، اس لیے وہ عزیز مطلق ہے۔

جمال الدین القسامی ”العزیز“ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”ھو الغالب بقدرتہ، المستعلی فوق عبادہ، یدبر امرھم بما یرید، فیقع فی ذلک مایشق علیھم ویثقل ویغم ویحزن، فلا یستطیع احد منھم رد تدبیرہ، والخروج من تحت قھرہ وتقدیرہ․“

وہ اپنی قدرت سے غالب ہے او راپنے بندوں پر مکمل تصرف رکھتا ہے ،ان کے معاملات کی جیسے چاہتا ہے تدبیر کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں بندوں پر مشقت اور بوجھ بھی آتا ہے اور وہ حزن وملال کے شکار بھی ہوتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی الله تعالیٰ کی تدبیر رد کرنے اور اس کی تقدیر وقہر سے نکلنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔

ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:

”العزیز“ ذوالعزة وھی القوة، والشدة، والغلبة والرفعة“․

عزیز یعنی عزت والا۔ عزت کے معنی ہیں ، قوت وطاقت ، غلبہ ورفعت۔

یہ اسم مبارک درج ذیل جوڑوں کی شکل میں قرآن میں استعمال ہوا ہے ۔

(الف) حکیم:

صفت ”عزیز“ کے ساتھ سب سے زیادہ استعمال صفت ”حکیم“ کا ہوا ہے ۔ حکیم وہ ہے جو چیز کو اچھے طریقہ پر ایجاد کرے، افضل اشیاء سے بہترین طریقہ پر آگاہ ہو اور غلط کام سے روکے۔

(ب) علیم:

(ج) جبار: قوت وشدت سے اصلاح کرنے والے کو جبار کتے ہیں۔

(د) مقتدر: قدرت تامہ وکاملہ کا مالک قرآن کریم میں صفت عزیز کے ساتھ اس صفت کا ذکر سورة القمر:42 میں آیا ہے۔

(ہ) غفار(و) رحیم (ز) قوی (ح) حمید

یہ استعمالات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ پروردگار جس کو اس کائنات پر کامل غلبہ قوت واقتدار حاصل ہے وہ اس قوت وطاقت کو حکمت ، علم او ررحم کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔

یہاں عزیز اور حکیم کے قرآنی استعمالات او رانسانی زندگی پر اس کے اثرات کا جائزہ پیش خدمت ہے۔

﴿ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یتلو علیھم اٰیٰتک ویعلمھم الکتٰب والحکمة ویزکیھم انک انت العزیز الحکیم﴾․ (البقرة:129)

اے ہمارے رب! انہیں میں سے ایک برگزیدہ رسول بھیج تاکہ انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے او رانہیں کتاب اور دانائی کی باتیں سکھائے اورانہیں پاک صاف کر دے بے شک تو ہی بہت زبردست ( اور) حکمت والا ہے۔

یہاں ان دو صفتوں کا حوالہ دینے سے مقصود یہ ہے کہ جو خدا عزیز وحکیم ہے، اس کی عزت وحکمت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی پیدا کی ہوئی اس مملکت میں سفیر بھیجے جو اس کی رعیت کو اس کے احکام وقوانین سے آگاہ کرے اور ان کو شریعت اور حکمت کی تعلیم دے ۔

﴿فان زللتم من بعد ما جاء تکم البینٰت فاعلموان الله عزیز حکیم﴾․ ( البقرة:209)

اگر روشن دلیلیں آنے کے بعد بھی تم پھسلنے لگو تو جان لو! الله تعالیٰ زبردست ( اور) حکمت والا ہے۔

عزیز کی صفت کے ذکر سے دو حقیقتوں کی طرف اشارہ مقصود ہے ۔ ایک یہ کہ خدا کوئی کم زور وناتواں ہستی نہیں ہے ، بلکہ وہ غالب وتوانا ہے۔ جو لوگ اس کی تنبیہات کے باوجود شیطان کی پیروی کریں گے ان کو وہ اس عذاب میں ضرور پکڑے گا جو شیطان کے پیروؤں کے لیے اس نے مقدر کر رکھا ہے اور جس کی اس نے پہلے خبر دے رکھی ہے۔ دوسری حقیقت یہ کہ جو لوگ ان واضح ہدایات کے بعد بھی راہِ حق کو چھوڑ کر شیطان کی پیروی اختیار کریں گے وہ خدا کا کچھ نہیں بگاڑیں گے، بلکہ اپناہی بگاڑیں گے، اس لیے کہ خدا عزیز ہے، یعنی نفع ونقصان سے بالاتر۔

اسی طرح حکیم کی صفت بھی یہاں دو حقیقتوں کو نمایاں کر رہی ہے ۔ ایک تویہ کہ اس دنیا کا خالق حکیم ہے او راس کے حکیم ہونے کا بدیہی تقاضا ہے کہ وہ اپنی ہدایت پر جمے رہنے والوں اور اس سے منحرف ہو جانے والوں کے درمیان ان کے انجام کے لحاظ سے امتیاز کرے، اگر وہ ان میں کوئی امتیار نہ کرے، بلکہ دونوں کو ان کے حال پر چھوڑ دے یا دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ حکیم نہیں ہے اور یہ دنیا ایک پر حکمت اور بامقصد کا رخانہ نہیں، بلکہ کسی کھلنڈرے کا کھیل تماشا ہے ۔ دوسرے یہ کہ بدی اور نیکی کے نتائج کے ظہور میں جو دیر ہوتی ہے وہ سب حکمت پر مبنی ہوتی ہے، بسا اوقات شیطان کے پیرو کاروں کو الله تعالیٰ مہلت دیتا ہے اور بسا اوقات اہل حق کسی آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں اس سے نہ تو اہل باطل کومغرور ہونا چاہیے اور نہ اہل حق کو مایوس ۔ بلکہ یہ یقین رکھنا چاہیے کہ وہ مہلت اور یہ آزمائش دونوں خدائے حکیم ودانا کی حکمت پر مبنی ہے۔

عبدالله یوسف علی نے لکھا ہے:

If you Back-sbide after the conviction has been brought home to you you may cause some inconvenience to the cause, or to these who counted upon you but do not be so arrogant as to suppose that you will defeat God's power and wisdom.

مذکورہ آیت کے مضمون سے ان صفات کے ربط وتعلق کے متعلق مفسرین نے درج ذیل واقعہ بھی نقل کیا ہے۔

أن قاریاً قرأ غفور رحیم، فسمہ أعرابی فأنکرہ، وقال إن کان ھذا کلام الله فلا یقول کذا، الحکیم لا یذکر الغفران عند الزلل؛ لأنہ إغراء علیہ․

ایک قاری قرآن کی یہ آیت پڑھ رہا تھا۔ اس نے بھول کر فاعلموا ان الله غفور رحیم پڑھ لیا۔ ایک اعرابی قرآن پاک سن رہا تھا۔ وہ کہنے لگا کہ یہ الله کا کلام نہیں ہو سکتا ، کیوں کہ پہلے لغزش کا ذکر ہے، اگر اس کے بعد فاعلموا ان الله غفور رحیم ہو تو اس سے لازم آئے گا کہ الله نے خود ہی گناہ پر ابھارا ہے کہ تم گناہ کرتے رہو اور میں بخشتا رہوں گا۔ یہ تو الله تعالیٰ کی حکمت کے خلاف ہے۔

﴿ھو الذی یصورکم فی الارحام کیف یشاء لا الہ الا ھو العزیز الحکیم﴾․ ( آل عمران:6)

وہی ہے جو ( ماؤں کے ) رحموں میں جس طرح چاہتا ہے ، تمہاری تصویریں بناتا ہے، اس کے بغیر کوئی معبود نہیں ( وہی) غالب اور حکمت والا ہے۔

یعنی خدا کو قدرت ہے رحم میں جس طرح چاہے آدمی کا نقشہ تیار کر دے ، خواہ ماں باپ دونوں کے ملنے سے یا صرف قوت منفعلہ سے، اسی لیے آگے فرمایا ﴿ھو العزیز الحکیم﴾ یعنی وہ زبردست ہے، جس کی قدرت کو کوئی محدد نہیں کر سکتا اور حکیم ہے جہاں جیسے مناسب جانتا ہے کرتا ہے ۔ اس نے ” حوا” کو بدون ماں کے ، مسیح کو بدون باپ کے ، آدم کو بدون ماں باپ دونوں کے پیدا کر دیا۔ اس کی حکمتوں کا احاطہ کون کرسکتا ہے۔

علامہ بقاعی کے نزدیک بھی عزیز او رحکیم اس قدرت اور حکمت کو ظاہر کرتے ہیں جس سے باری تعالیٰ مادر رحم میں تصویر سازی کرتا ہے۔

﴿ان تعذبھم فانھم عبادک وان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم ﴾․ ( المائدہ:118)

اگر تو ان کو عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر ان کو بخش دے تو بلاشبہ تو ہی سب پر غالب ( اور ) بڑا دانا ہے۔

اس آیت مبارکہ میں عزیز او رحکیم سے ظاہر ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ کا گناہ سے درگزر فرمانا نہ تو کم زوری کی علامت ہے او رنہ اس کی سزا ہی حکمت سے خالی ہوتی ہے۔ علامہ مہائمی نے لکھا ہے کہ یہاں عزت اور حکمت کا ایک تقاضا تو سزا ہے مگرعبودیت کا تقاضا ہے کہ اس سزا کو اٹھا لیا جائے

” تغفرلھم“ کے الفاظ کا تقاضا تو یہ تھا کہ آیت کے آخر پر غفور اور رحیم آتا، مگر یہاں عزیز او رحکیم آیا ہے، بظاہر ان صفات کا ماقبل مضمون سے ربط وتعلق واضح نہیں ہوتا ۔ اس مسئلہ پر امام رازی  اور علامہ میبذی نے اپنے اپنے اسلوب میں نفیس اظہار خیال کیا ہے۔

قرآن کریم میں ان دونوں صفتوں کا بالعموم اکٹھا ذکر اور اس کے قبل مضمون سے ربط وتعلق پر مولانا امین احسن اصلاحی کی یہ رائے بہت ہی جامع ہے۔

” قرآن مجید میں الله تعالیٰ کی ان دونوں صفات کا حوالہ بالعموم ایک ساتھ آتا ہے، اس سے اس حقیقت کا اظہار ہوتاہے کہ الله تعالیٰ اس کائنات پر پورے غلبے کے ساتھ حاوی او رمتصرف ہے ، لیکن اس کے غلبہ واقتدار کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ اس کے زور میں جو چاہے کر ڈالے، بلکہ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اس کا کوئی کام بھی حکمت ومصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔“

امام رازی کے بقول یہ صفات وعید اور وعدہ کی شان لیے ہوئے ہیں ۔ ایک مثال سے صفت ”عزیز“ میں وعید کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : جب باپ بیٹے کو یہ کہے ان عصیتنی فانت عارف لی۔ اگر تم نے میری نافرمانی کی تو تم مجھے جانتے ہو ۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے مجھے تم پر قدرت ودبدبہ حاصل ہے ۔ فیکون ھذا الکلام فی الزجر ابلغ من ذکر الضرب وغیرہ اس کلام میں زیادہ دھمکی پائی جاتی ہے جو یہ کہنے میں نہیں ہے کہ اگر تم نے میری نافرمانی کی تو میں تمہیں ماروں گا۔

حکیم میں رب تعالیٰ کے وعدہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام رازی لکھتے ہیں : ” رب تعالیٰ کی حکمت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ نیک او رگناہ گار میں فرق کرے اور ساتھ ہی یہ واضح ہوا کہ جس طرح گناہ گار کو عذاب دینا اس کے حکیم ہونے کے مناسب ہے، اسی طرح نیک کو ثواب عطا کرنا بھی اس کی حکمت کے لائق ہے ، بلکہ نیک کو ثواب عطا کرنا زیادہ ہی حکمت کے مناسب ہے او راس کی رحمت کے زیادہ ہی قریب ہے ۔

صفت عزیز انسان کی کم زوری و ناتوانی کی مظہر ہے ۔ یہ صفت انسان کو غروروتکبر سے بچاتی اور عالم اسباب میں گم ہونے سے بچاتی ہے ۔ عزیز کے ساتھ حکیم کی صفت انسان کو مصیبتوں پر صبر سکھاتی ہے اور نعمتوں کے ملنے پر شکر کی طرف راغب کرتی ہے ۔ یہ دونوں صفات حکمران طبقے کو طاقت کے نشہ میں اختیار کے اندھے استعمال سے بھی بچاتی ہیں۔

(ب) غفور:

غفر کا مفہوم ڈھانپنا ہے ۔ صفات افعال میں سے ”غفور“ ظاہر کرتاہے کہ پرورگاد عالم ہماری ظاہری وباطنی نجاستوں کو محض اپنے فضل وکرم کی بنا پر ، چادر رحمت سے ڈھانپ کر روز محشر عذاب جہنم سے بچا لیتا ہے ۔ وہ پردہ پوشی ہی نہیں کرتا ہے بخشتا بھی ہے او رسیئات کو حسنات میں بھی بدل دیتا ہے۔علامہ طیبی کے نزدیک تو فرشتوں کو ہماری بداعمالیاں بھلا دینا بھی اس کے غفور ہونے کا مظہر ہے۔

اپنے عصیاں شعار بندوں پر بے پناہ لطف وکرم کی وجہ سے ہی وہ خیر الغافرین ( سورة الاعراف:155) ہے ۔ یہ اسم مبارک قرآن کریم میں ان جوڑوں کی شکل میں آیا ہے ۔

(الف) رحیم:

قرآن میں اکثر مقامات پر غفور، رحیم سے پہلے آیا ہے، مگر ایک مقام پر الرحیم پہلے ہے۔ (سبا:2)

(ب) حلیم (ج) رب(د) عزیز (ہ) شکور (و) عفو (ز) ودود۔

یہ فہرست ظاہر کرتی ہے کہ ” غفور“ دیگر جن اسماء کے ساتھ بھی استعمال ہوا ہے وہ خالق کی طرف سے مخلوق پر محبت ، رحمت ، درگز ر اور مخلوق کی عزت افزائی کا مظہر ہے۔

صرف غفور اور رحیم کے چند قرآنی استعمالات کا تذکرہ کیا جاتا ہے،تاکہ ان کے مقابل مضمون سے ربط وتعلق اور انسانی زندگی پر اثرات کا جائزہ لیا جاسکے۔

(۱) حلّت وحرمت کے مسائل کے تذکرہ کے بعد حالت اضطرار میں حرام کے استعمال کی اجازت کے بعد غفور او ررحیم کااستعمال ہوا ہے۔

﴿انما حرم علیکم المیتة والدم ولحم الخنزیر وما اہل بہ لغیر الله فمن اضطر غیر باغ ولاعاد فلا اثم علیہ ان الله غفور رحیم﴾․ ( البقرة:173)

الله نے تمہارے اوپر حرام قرار دیا ہے مردہ کو ، خون کو ، سور کے گوشت کو اور ایسے مذبوحہ کے گوشت کو جس پر الله کے سوا کسی او رکا نام لیا گیا ہو۔ جو شخص مجبور ی میں ہو اور وہ ان میں سے کوئی چیز کھائے، بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو یا ضرورت کی حد سے تجاوز کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، الله بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

سورة المائدہ: آیت:3، سورة الانعام، آیت:145اور سورة النحل، آیت:150 میں بھی اسی طرح یہ صفات آئی ہیں۔

اس آیت مبارکہ او راسی مضمون کی دیگر آیات کے اختتام پر غفور اور رحیم کی صفات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ حالت اضطرار میں حرام کھانے پر الله تعالیٰ تمہارا مواخذہ نہیں کرے گا۔ یہ اس کی صفت غفور کا تقاضا ہے اور یہ رخصت عطا کرنا اس کی صفت رحیم کاتقاضا ہے۔

اسی طرح استغفار کا حکم دیا تو اس کے بعد بھی انہیں صفات کو بیان کیا گیا، تاکہ الله تعالیٰ کی بخشش وعطا اور رحمت وکرم کا پتا چل سکے۔

﴿ثم افیضوا من حیث افاض الناس واستغفروا الله ان الله غفور رحیم﴾․(البقرة:199)

پھر جہاں سے اور سب لوگ پلٹے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو او رالله سے معافی چاہو، یقینا وہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

امام رازی فرماتے ہیں:

”فھذا یدل قطعا علی انہ تعالیٰ یغفر لذلک المستغفر، ویرحم ذلک الذی تمسک بحبل رحمتہ وکرمہ“․ (رازی، فخر الدین، مفاتیح الغیب)

اس سے یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ مغفرت طلب کرنے والے کی مغفرت فرماتا ہے او راس شخص پر رحم فرماتا ہے جو اس کے حبل رحمت اور دین کرم کا سہارا لیتا ہے۔

(ب)﴿ واستغفرلھن الله ان الله غفور رحیم﴾ ․ (الممتحنة:12)

اور الله تعالیٰ سے ان ( خواتین) کے لیے مغفرت مانگا کرو۔ بے شک الله تعالیٰ غفور رحیم ہے۔

الله تعالیٰ اپنے محبوب صلی الله علیہ وسلم کو حکم دیتے ہیں کہ جو عورتیں ان شرائط کو قبول کر لیں او ران باتوں کی پابندی پر آمادہ ہو جائیں تو آپ ان کی بیعت فرما لیں اور اس کے ساتھ ان کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں ۔ بے شک الله تعالیٰ غفور اور رحیم ہے ۔ جب آپ کے ہاتھ اٹھیں گے تو انہیں خالی نہیں لوٹایا جائے گا، بلکہ الله تعالیٰ آپ کی دعا کی برکت سے ان کے عمر بھر کے گناہوں کو ، جن میں شرک وکفر سر فہرست ہے ، بخش دے گا اور ان کے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے گا۔ 


No comments:

Post a Comment