Search This Blog

Friday 18 May 2012

پہلا مغربی سامراج اور جنوبی ہند -۰۱

  

پہلا مغربی سامراج اور جنوبی ہند -۰۱
عبدالمتین منیری

        نشات ثانیہ کے اپنے ابتدائی دنوں میں یورپی ملکوں میں دوائی کی شیشیوں میں لکھی یہ عبارت کہ ہندوستان سے درآمد کی ہوئی یا دیار عرب سے درآمد کی ہوئی بہت سے مہم جویوں او ر دولت کے متلاشیوں کے جذبہ کو ابھارتی تھی اور انہیں مشرق سے آنے والی طبیعی اشیاء مصالحہ جات اور عطریات جیسی دولت کے سرچشموں کی تلاش اور وہاں کے سفر پر اکساتی تھی۔
         اس  دور کے جغرافیائی انکشافات پر تحقیق کرنے والے ایک محقق پانیکار نے مصالحہ جات میں ایک اہم عنصر کالی مرچ کی اس زمانے میں قدر وقیمت کے بارے میں درست لکھا ہے کہ اب شاید کالی مرچ کی کاروباری لین دین میں زیادہ اہمیت نہیں رہی ، لیکن (یورپ میں جغرافیائی انکشافات کے اس ) دور میں یہ اپنی قدر و قیمت میں قیمتی پتھروں کے قدم بہ قدم ساتھ چل رہی تھی ، اس کے لئے لوگ سمندروں کے خطرات مول لیتے تھے ، کالی مرچ کے لئے مرتے اور مارتے تھے، (۱)
        ایک دوسرے محقق  نے کالی مرچ کی اس اہمیت کو بڑھاتے ہوئے یہ لکھا  ہے کہ دیار روم میں بھڑکنے والی جملہ جنگوں کے پس پردہ کارفرما سبب ملبار کی کالی مرچ اور اس کی منڈیوں پر قبضہ کی چاہت تھی، اس چھوٹے سے کالے دانے نے ابتدائی عیسوی صدیوں میں دنیا کی نظریں اپنی طرف کھینچ لی تھیںا(۲)  
        ایک دوسری حقیقت جو دور وسطی کے یورپ میں جسے ہم دور ظلمت سے تعبیر کرتے ہیں مصالحہ جات کے بارے میں یہاں کے باشندوں کا یہ عمومی اعتقاد تھا کہ مصالحہ جات اور قیمتی پتھر جنت عدن سے آتے ہیں  اور چار نہریں انہیں دنیا میں لاتی ہیں ،جغرافیہ دان اپنے نقشوں میں اسے ایک گول دائرہ  اور نصف دائرہ کی شکل دے کر وثوق سے بتاتے تھے کہ کہ یہ جنت یہاں واقع ہے،ان کا اعتقاد تھا کہ یہ مشرق میں ایک بہت اونچی ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں سے چاند کو چھوا جاسکتاہے،اسے چاروں طرف سے اونچی چہاردیواری گھیرے ہوئے ہے جنہیں ہرے درختوں کے پتوں  نے گھیر لیا ہے،پھر اس کے اطراف قلعے ہیں (۳)
          ہمیں معلوم نہیں کہ اس کہانی کے پیچھے کونسے عوامل کارفرما تھے، ہوسکتا ہے اس کا سبب اہمیت جتلاکر اس کی تجارت کوبڑھاوا دینا ہو، کیونکہ اس دیومالائی ادبی خیال نے مصالحہ جات اور قیمتی پتھروں کی قیمتیں بہت بڑھا دیں تھیں،یہاں تک کہ دور وسطی میں  ضرب المثل کے طور پر  مرچ کی طرح مہنگی   کہنا عام ہوگیا تھا ،اس زمانے میں فرانس وغیرہ کے کلیساؤں میں زمیں اور زکاۃ کا ٹیکس مصالحہ جات کی صورت  میں طلب کرنا عام سی بات تھی،اس دور میں غلاموں اور باجگذار وں کو اپنی آزادی خریدنے کے لیئے کلیسا ئی آقاؤں کو ایک رطل کالی مرچ دینی پڑتی تھی ،دوسری جانب یورپ کے زمین دارانہ دور میںمقررہ مقدار میں کالی مرچ زرعی زمین کے کرایہ کے طور پر ادا کرنی پڑتی تھی(۴)
         الف لیلہ میں عرب سندباد جہاراں کے قصوں نے  مشرق میں مصالحہ جات کی جگہوں ان کی تجارت اور یہاں تک پہنچنے کے لئے درپیش مہم جوئی کی تکلیفوں  کے بارے میں خواب وخیال اور خرافات کو بڑھاوا دیا، یہیں سے مصالحہ جات کی تجارت نے بین  الاقوامی تعلقات کو جنم دیا اور تاریخ کے مختلف ادوار میں دور وسطی میں حلقہ وصل کا کام کیا،یہیںسے مسلسل مشرق و مغرب  کے مابین تعلقات کی کڑیاں ملتی ہیں،وہ اس طرح کہ جن راستوں سے قافلے مشرق سے مصالحہ جات لے کر جاتے تھے وہ ایشیا ء کو افریقہ سے ملانے والی اہم رگیں بن گئے اور وہ اشیاء جو اپنے اندر خوشبواور اور خوش ذائقہ رکھتی تھیںاور اسی مناسبت سے انہیں عطارہ کی اصطلاح میں سمودیا گیا تھاکئی صدیوں تک مشرق و مغرب کے مابین تبادلہ کی اہم چیز یں بن گئیں۔
         یہ اشیاء جہاں مشرق کے ملکوں اور جن شہروں اور بندرگاہ سے گزرتیں انہیں مالا مال کردیتیں، وہیں جہاں ان کی پیداوار ہوتی اور ان کی تجارت ہوتی وہاں کے باشندوں کے لئے مصیبتیں لے آتیں،یہ مصیبتیں آنی اس وقت شروع ہوئیں جب پوپ  اربن دوم
Pope Urban II (1042 [L:150] July 29, 1099))نے  ۱۰۹۵؁ء میں فرانس کے شہر کلیرمونت میں ایک بڑے مجمعے کے سامنے اعلان کیا کہ ۔۔یہی اللہ کا ارادہ ہے اور مغربی یورپ کے باشندوں کو دعوت دی کہ صلیب اٹھا کر مقدس مقامات پر قبضہ کرنے اور انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھیننے کا وقت آگیا ہے اور پھر عربی اسلامی سلطنتوں کے خلاف یورپ کی صلیبی جنگیں شروع ہوگئیں،پھر جو اس جنگ کے بلاوے کو  مغرب کے عیسائیوںکی  تائید حاصل ہوگئی تو پھر صلیب کی لکڑی کو اٹھانے اور پوپ  اربن دوم کی پکار کو بلند کرنے کی ایک دوڑ شروع ہوگئی،ان جنگوں کے انہی نعروں سے گیارہویں صدی عیسوی میں  عالم عرب و اسلام میں صلیبی یورپی توسیع پسندی کی داغ بیل پڑی ۔ جہاں ان جنگوں سے یورپ کو فتوحات ملیں وہیں تجارتی فروغ اور وسعت کے افق کھل گئے۔
           ۴۸۹ ؁ ھ!  ۱۰۹۶ ؁ء سے  ۶۹۰؁ ھ!   ۱۲۹۱ ؁ ء تک جملہ دو صدیاں پہلی صلیبی جنگوں کا دور شمار ہوتا ہے، اس دوران  ۴۹۳؁ ھ  !۱۱۰۰ ؁ ء  سے  ۵۸۲ ؁ ھ !  ۱۱۸۶ ؁ ء  میں  صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں صلیبیوں کی شکست تک جملہ (۸۶) سال بیت المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ رہا، ان صلیبی جنگوں سے یورپ کے عیسائیوں کا کیا فائدہ ہوا ، اس بارے میں فاضل مورخ ویل ڈورنٹ Will Durant   اپنی معرکۃ الاراء کتاب  قصۃ الحضارۃ Story of Civilisation میں یوں رقم طراز ہے ۔
         صلیبی جنگوں نے یورپ والوں کے مسلمانوں کے تجارتی و صنعتی طریقہ کار کو جاننے کے بعد ان میں پھرتیلے پن اور چستی کی روح بھر دی ، کیونکہ ان جنگوں سے انہیں سب سے زیادہ فائدہ یہ ہوا کہ دنیا کے مختلف شہروں کے جائے وقوع سے انہیں آگاہی حاصل ہوئی، اطالوی تاجروں نے صلیبی جنگوں کے طفیل بحر متوسط کی گذرگاہوں کے نقشے بنانا سیکھ لیا، جو راہب ، مورخ اور خبرنویس صلیبی گھڑسواروں کے ساتھ چلے تھے انہوں نے ایشیا کے ملکوں کی وسعت اور ان  کے مختلف علاقہ جات کے بارے میں نت نئی معلومات حاصل کرکے یہ معلومات اپنے لوگوں تک پہنچائیں، جس نے ان کے دلوں میں ان علاقوں کی کھوج اور یہاں تک پہنچنے کی کشش پیدا کی، اس طرح( عیسائیوں کے)  بلاد مقدسہ (فلسطین) کا سفر کرنے والوں ، یہاں کے مقدس مقامات کے زائرین کی رہنمائی اور یہاں کی ریاستوں اور شہروں کی تفصیلات  بیان کرنے والی کتابیں منظر عام پر آئیں ، عیسائی طبیبوں نے یہودی اور مسلمان طبیبوں سے علم طب حاصل کیا ، صلیبی جنگوں کے طفیل یورپ میں علم جراحت ترقی پذیر ہوا،اس طرح تجارت اور کاروبار صلیب کے زیر سایہ اور پیچھے پیچھے چلے،یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صلیب کی قیادت تجارت نے کی، گھڑ سوار صلیبی فلسطین میں مسلمانوں سے ہار گئے ، لیکن اطالوی بحری بیڑے نے بحر متوسط کو نہ صرف مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھین لیا بلکہ بیزنطینیوں سے بھی اس کا قبضہ لے لیا، یہ درست ہے کہ شہر وینس ، جنوہ ، پیزا ، املفی ، مرسلیا ، برسلونہ صلیبی جنگوں کے قبل سے مشرق کے مسلم ملکوں سے تجارت کرتے اور تنگنائے باسفور اور بحر اسود کو چیرتے آئے تھے ، لیکن صلیبی جنگوں نے اس تجارت کے دائرہ کار کی وسعت کو دور دور تک پھیلادیا ، قسطنطینیہ پر وینس والوں کا قبضہ ، عیسائی زائرین اور جنگجووں کو فلسطین پہنچانا ، ،مشرقی ممالک میں عیسائیوں اور غیر عیسائیوں کو کمک فراہم کرنا ، مشرق سے یورپ کو غلہ کی درآمد وغیرہ اسباب سے تجارت اور بحری نقل و حرکت میں ایسی پھرتی آئی کہ جس کی نظیر رومن امپائر کی سربلندی کے ایام کے بعد نہیں ملتی، یہ تجارت اپنے ساتھ یورپ کے لئے بڑی مقدار میں ریشمی کپڑے ، شکر اور کالی مرچ ، ادرک ، لونگ ، الائچی جیسے مصالحہ جات لے آئی، گیارھویں صدی کے یورپ میں یہ سب چیزیں نایاب اور آسائشی ساز و سامان تصور ہوتی تھیں ، اس تجارت سے مشرق سے مغرب کو بڑی مقدار میں مختلف نباتات جڑی بوٹیاں ، اناج اور درخت منتقل ہوئے جن سے یورپ  اس سے قبل اندلس کی اسلامی ریاست کے توسط سے متعارف ہوا تھا ، ان نئی متعار ف ہونے والی اشیاء میں مکئی ، چاول ،تل،لیموں، خربوزہ ،آڑو، شفتالو ،کھجور ، چھوٹی پیاز جوکہ شالوت اور عسقلانی کہلاتی تھی ، عسقلان  ثغر سے کشتیوں پر مشرق سے مغرب کومنتقل ہوتے تھے، شفتالو کو عرصہ تک برقوق دمشق کہا جاتا تھا ، اس طرح اسلامی ملکوں سے سفید ریشمی کپڑا ،  دمقس ، موسلین ، ساٹین ، مخمل ، کشیدہ کاری کئے ہوئے دوسرے کپڑے ، غالیچے ، رنگ و روغن ، آٹا ، عطریات ، زمین داروں اور متوسط طبقہ کے گھروں کو مزین کرنے اور ان کے مردوں اور عورتوں کو آراستہ کرنے کے لئے جواہرات پہنچتے تھے ، برونز اور صیقل کی ہوئی دھاتوں سے بنے آئینوں کی جگہ کانچ سے بنے اور دھاتوںسے ڈھکے آئینوں نے لے لی،یورپ نے مشرق سے شکر اور وینس کے آئینہ صاف کرنے کی صنعت سیکھی۔  (۵)
حوالہ جات
(Asia and Western Dominiance  p.22)   (1)
(۲)    (  محی الدین الالوائی : ثقافۃ الھند  ج ۷!۱،۲  ا۔۱۹۵۹ء ص  ۳۲)
(۳)   (Boies , Penrose,Travel and Discovery in The Renaissance p2)
(۴)       (سونیا ۔ی۔ہاو:فی طلب التوابل ص ۱۳)
(۵)  (قصۃ الحضارۃ ، عصر الایمان ،  جلد : ۴ باب ۲۳ )

No comments:

Post a Comment