Search This Blog

Friday 18 May 2012

حضرت سیدعلی ہجویری قرآن کریم کا رمز شناس

حضرت سیدعلی ہجویری
قرآن کریم کا رمز شناس

گذشتہ ایک ہزار سال کی ملی تاریخ اس حقیقت کبریٰ کی بین شہادت فراہم کرتی ہے کہ علمائے حق کے قلمی جہاد، صوفیائے کرام کے قلبی مجاہدات اور عارفین و مشائخین کے روحانی و وجدانی تجربات و مشاہدات نے کروڑوں نفوس کو اسلام کی آفاقی تعلیمات سے نہ صرف آشنا کیا بلکہ ان پاکیزہ تعلیمات کے داعی و مبلغ بنا کر رکھ دیا۔ ان نفوسِ قدسیہ کے نقوش اقصائے عالم میں صدیاں گذر جانے کے بعد بھی افرادِ امت کے دلوں میں گھر کئے ہوئے ہیں۔ خاصانِ ملت کی اسی جماعت میں غزنہ افغانستان کے علی بن عثمان ہجویریؒ جو چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہوئے، پورے برصغیر میں پابند شریعت اسلامیہ کے گروہ صوفیا میں ایک منفرد مقام پر فائز نظر آتے ہیں۔ جناب ہجویریؒ جو افغانستان سے خدمت دین کے لئے ہندوستان تشریف لائے تھے ، لشکر ابرار کے قافلہ سالار بن کر لاہور کے شہر کو اپنا مستقر بنا کر ’’داتا کی نگری‘‘ کا اعزاز عطا کر چکے ہیں   ؎
گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورخدا
ناقصاں را پیرِ کامل، کاملاں را رہنما
سیدہجویریؒ نہ صرف ایک روحانی مرشد تھے بلکہ آپ ایک اعلیٰ پایہ عالم اور صاحب طرز مصنف بھی تھے۔ آپ کی معرکتہ الآراء تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘ تصوف کے موضوع پر جامع اور مستند کتاب تصور کی جاتی ہے۔ یہ کتاب گذشتہ ایک ہزار سال سے طریقت و معرفت اور شریعت و حقیقت کے متلاشیوں کے لئے نسخۂ کیمیا سے کچھ کم نہیں۔ ’’کشف المحجوب‘‘ میں جناب ہجویریؒ نے جن موضوعات پر اظہار رائے فرمایا ہے ان میںصحت نیت، علم کے اقسام،فقر کی حقیقت، تصوف کی حقیقت، صوفیاء کے مختلف فرقے، ارکانِ دین کی اہمیت و معنویت اور اسی طرح طریقت و ولایت میں مروجہ اصطلاحات کی عالمانہ وضاحت کی ہے۔ ’’کشف المحجوب‘‘ حقیقی اسلامی تصوف سے متعلق افکار و اذکار کا ایک شاہکار ہے جس کے مطالعے سے راہِ حق کے مسافر کی سفری مشکلات آسان ہوسکتی ہیں اور قربِ الٰہی کی منزل قریب تر آسکتی ہے۔سلوک و معرفت سے وابستہ مختلف افراد کی وضاحت کرتے ہوئے لفظ ’’درویش‘‘ پر یوں اظہار رائے فرماتے ہیں :’’ سچا درویش وہ ہے جسے غیراللہ سے کوئی دلچسپی اور سرورکار نہ رہے۔ اسے صرف خدا کی رضا مطلوب ہو۔ وہ یکسو ہو کر خدا کی راہ پر چلتا ہے۔ اپنے معاملات کی بھی خوب حفاظت کرتا ہے اور کسی دینی کام کو ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ اس سارے کام میں اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ مخلوقات اسے پسند کرتی ہے یا ناپسند اور کون اسے داد دیتا ہے اور کون ملامت کرتا ہے‘‘۔   ؎
درویش خدا مست نہ شرقی نہ غربی
گھر میرا نہ دلّی نہ صفاہاں نہ سمرقند
(اقبالؒ)
علامہ اقبال نے اپنے شہرۂ آفاق کلام و پیام میں ملت اسلامیہ کے جن تیس اولیائے و مشائخ کا تذکرہ کیا ہے اور جن کے ارشادات و احسانات کو نمایاں انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے، ان میں سید علی ہجویریؒ کا نام نامی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔سید صاحب سے محبت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آپ کا مزارِ مقدس لاہور میں ہے، دوسری وجہ کہ خواجہ معین الدین چستیؒ جیسے ولی کامل اس مزار پر حاضری دے چکے ہیں۔سید ہجویریؒ نے روحانی اعتبار سے لاہور کو برصغیر میں ایک نام عطا کیا تو اقبال کے علمی اور شعری وجود نے لاہور کو بغداد کے ہم پلہ بنا دیا۔ اپنی مشہور فارسی تصنیف ’’اسرارِ خودی‘‘ میں سید ہجویریؒ کو ام الکتاب یعنی قرآن پاک کی عزت و عظمت کا پاسبان قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں    ؎
سیدِ ہجویر مخدومِ اُمم
مرقدِ او پیرِ سنجر را حرم
بندہائے کوہسار آساں گیسخت
در زمینِ ہند تخم سجدہ ریخت
عہدِ قاروقؓ از جمالش تازہ شد
حق ز حرفِ او بلند آوازہ شد
پاسبانِ عزت اُمّ الکتاب
از نگاہش خانۂ باطل خراب
خاکِ پنجاب از دمِ او زندہ گشت
صبحِ ما از مہر او تابندہ گشت
ترجمہ:
ہجویر کے سردار اور امتوں کے مخدوم، جن کا مقبرہ پیرسنجر(معین الدین چشتیؒ) کیل ئے نہایت محترم ہے۔
پہاڑوں کی رکاوٹوں کو آسانی سے بدل کر، ہندوستان میں سجدہ کا بیج بویا، آپ کے کردار سے حضرت عمر فاروقؓ کا زمانہ تازہ ہوگیا۔ جن کی تبلیغ سے دین کا بول بالا ہوگیا۔ آپ قرآن مجیدکی عزت کے نگہبان تھے ، آپ کی نگاہ سے باطل کا گھر برباد ہوگیا، آپ کے مبارک نفس سے پنجاب کی سرزمین زندہ ہوگئی، ہماری صبح کو آپ کے سورج نے روشن کیا۔
1933میں اپنے سفر افغانستان کے دوران اقبال نے مختلف شہروں کے اہم مقامات دیکھے اور چند مزارات پر حاضری بھی دی، جن میں سلطان محمود غزنوی اور حکیم سنائی کے مزارات شامل ہیں لیکن اقبال نے غزنین اور مقامات کی رہنمائی کرنے والے معمر ترین بزرگ ملا قربان سے کہا کہ میں سید علی ہجویریؒ کے والد مکرم کی قبر پر فاتحہ پڑھنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ اقبال والد ہجیری کے مقبرے پر حاضر ہوئے اور فاتحہ پڑھی۔ غزنین سے ہجرت کر کے حضرت ہجویریؒ مختلف ممالک کا سفر کرتے رہے اور اپنے گہرے مشاہدے، انقلابی جذبے اور ولولے کے ساتھ زندگی کے آخری برسوں میں لاہور کو اپنا مستقل قرار گاہ بنایا۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں حکایات و قصص کے ذریعے نئی نسل کو اسلاف کے نقطہ ہائے نظر اور ان کے کارناموں سے باخبر کرنے کی فاضلانہ کوشش کی ہے۔ چنانچہ سید علی ہجویری کے حوالے سے بھی ایک حکایت بیان کی ہے جو نصیحت آموز بھی ہے اور چشم کشا بھی۔ فرماتے ہیں کہ ایک شخص وسطی ایشیا کے ایک شہر مروؔ سے لاہور آکر حضرت سید علی ہجویریؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں دشمنوں کی صفوں میں گھرا ہوا ہوں اور ہر طرف سے خطرات کے تیروں کے نشانے پر ہوں۔ آپ مجھے دشمنوں میں زندگی گذارنے کا کوئی طریقہ بتائیں۔ حضرتؒ نے فرمایا   ؎
راست می گویم عدوہم یارِ تست
ہستی اور رونقِ بازارِ تست
ہر کہ دانائے مقاماتِ خودی است
فضل حق داند اگر دشمن قوی است
کِشت انساں را عد و باشد سحاب
ممکناتش را بر انگیزد ز خواب
سنگِ رہ آب است اگر ہمت قوی است
سیل را پست و بلند جادہ چیست
ترجمہ:
حقیقت میں تیرا دشمن تیرا دوست ہے۔ اس کے وجود سے تیرے بازار کی رونقیں ہیں جو شخص اپنی ذات کے مقاماتِ شعور سے واقف ہے وہ دشمن کے طاقتور ہونے کوخدا کا فضل تصور کرتا ہے۔ انسان کی کھیتی کے لئے دشمن کا وجود گویا ابرِرحمت ہے جس سے اس کی سوئی ہوئی صلاحیتیں اور ممکنات بیدار ہو جاتی ہیں۔ اگر آدمی کی ہمت طاقتور ہو، تو راستے کے پتھر بھی پانی ہو جاتے ہیں۔سیلاب راستے کی پستی اور بلندی کو کیا سمجھتا ہے؟‘‘
جناب ہجویریؒ کی نصائح سے اقبال زندگی میں جدوجہد ،حرکت اور پیغامِ عمل اخذ کرتے ہوئے اپنے پیش کردہ نظریۂ خودی کو نئی جہات، نئے ابعاد اور بزرگانِ ملت کے تصورات سے مربوط کرتا ہے۔سید ہجویریؒ نے جو نصیحتیں مروؔ کے باشندے کو کیں، ان کو اقبال نے دیگر مقامات پر مختلف پیرایوں میں پیش کیا ہے   ؎
۱۔ مصافِ زندگی میں سیرتِ فولاد پیدا کر
۴۔گلتاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہوجا
۳۔ گذر جا بن کے سیلِ تند خو کوہ و بیاباں سے
۲۔ شبستاں محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا
اقبال کے خیال میں سعی پیہم،سخت کوشی اورنبردآزمائی سے ہی زندگی کے اسرار و معارف منکشف ہو جاتے ہیں۔ عرفانِ ذات، خود شناسی اور خودی درحقیقت ’’کشف المحجوب ‘‘بن جاتی ہے۔ ’’اسرارِ خودی‘‘ میں اقبال نے جناب علی مرتضیٰؓ ، جناب بوعلی قلندرؒ اور جناب سید علی ہجویریؒ کی شخصیات کوقوت، پیکار، توانائی اور جہد مسلسل کے عمدہ ترین استعارات کے طور پیش کیا ہے    ؎
پس طریقت چیست ؟ اے والا صفات
شرع را دیدن بہ اعماقِ حیات

No comments:

Post a Comment