Search This Blog

Thursday, 31 May 2012

شر اور خیر


شر اور خیر

ایک روز میں نے قدرت للہ سے پوچھا “یہ جو اللہ والے لوگ ہوتے ہیں‘ یہ عورت سے کیوں گھبراتے ہیں۔”
“زیادہ تر بزرگ تو عورتوں سے ملتے ہی نہیں۔ ان کے دربار میں عورتوں کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے.”
“یہ تو ہے.” وہ بولے.
“سر راہ چلتے ہوئے کوئی عورت نظر آجائے تو گھبرا کر سر جھکا لیتے ہیں. ان کی اس گھبراہٹ میں خوف کا عنصر نمایاں ہوتا ہے. وہ عورت سے کیوں ڈرتے ہیں؟”
“شاید وہ اپنے آپ سے ڈرتے ہیں.” قدرت نے کہا۔
“لیکن وہ تو اپنے آپ پر قابو پا چکے ہوتے ہیں‘ اپنی میں کو فنا کر چکے ہوتے ہیں.”
“اپنے آپ پر جتنا زیادہ قابو پا لو اتنا ہی بے قابو ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے.”
“آپ کا مطلب ہے شر کا عنصر کبھی پورے طور پر فنا نہیں ہوتا؟”
“شر کا عنصر پورے طور پر فنا ہو جائے تو نیکی کا وجود ہی نہ رہے۔ چراغ کے جلنے کے لئے پس منظر میں اندھیرا ضروری ہے۔”
“میں نہیں سمجھا. مجھے ان جملوں سے کتاب اور دانشوری کی بو آتی ہے۔”
“انسان میں جوں جوں نیکی کی صلاحیت بڑھتی ہے توں توں ساتھ ساتھ شر کی ترغیب بڑھتی ہے. شر کی ترغیب نہ بڑھے تو نیکی کی صلاحیت بڑھ نہیں سکتی.”
“سیدھی بات کیوں نہیں کرتے آپ۔”
قدرت میری طرف دیکھنے لگے.
“کہ تمام قوت کا منبع شر ہے. نیکی میں قوت کا عنصر نہیں۔ اللہ کے بندوں کا کام ٹرانسفارمر جیسا ہے. شر کی قوت کا رخ نیکی کی طرف موڑ دو .”

اقتباس : ممتاز مفتی کی کتاب “لبیک”

No comments:

Post a Comment