Search This Blog

Friday 25 May 2012

اللہ مالک یہ مال ودولتِ دُنیا یہ رشتہ وپیوند

اللہ مالک
یہ مال ودولتِ دُنیا یہ رشتہ وپیوند

سورۂ نور کی آیت نمبرـ ۳۳ میں پہلے تو مُکاتبت کا حکم دیا گیا یعنی کسی آقا کا شرعی غلام اُس سے کہے کہ میں کما کر اِتنا مال تجھے دے دوں تو آزاد ہوجاؤں، اور مالک اسے منظور کرلے (اور اس کے لئے مستحب بھی یہی ہے)۔ پھر جب شرط پوری ہوجائے تو غلام آزاد ہوجاتا ہے۔
 پھراسی آیت میں آگے یہ فرمایا گیاکہ ’’ اور اللہ تعالیٰ کے اُس مال میں سے اُن(حاجتمندوں)کو بھی دو جو (مال) اللہ تعالیٰ نے تم کو دے رکھا ہے۔‘‘آیت کے اس ٹکڑے سے تین باتیں ثابت ہوتی ہیں:
(۱)یہ کہ اصل مالک مال اور ہر چیز کا اللہ تعالی ہی ہے۔
(۲)یہ کہ اُسی نے اپنے فضل و کرم سے اس کے ایک حصّہ کا ہمیں مالک بنا دیا ہے۔
(۳)یہ کہ جس چیز کا ہم کو مالک بنایا ہے اس پر کچھ پابندیاں بھی اُس نے لگائی ہیں۔بعض چیزوں میں خرچ کرنے کو ممنوع قرار دیا اور بعض چیزوں میں خرچ کرنے کو لازم و واجب اور بعض میں مستحب اور افضل قرار دیا ہے، اور اسے بے محل و بے موقع خرچ کرنے کو حرام قرار دیا اور برمحل و موقع پر خرچ کرنے کو حلال لیکن وہاں بھی اندھا دُھند اسراف سے منع فرمایا ہے۔(معارف القرآن)
بے شک مسلمانوں کا بلکہ ہر انسان کا عقیدہ یہی ہونا چاہئے کہ مال وجائیداد کا اور ہر کسی چیز کا۔جاندار ہویا بے جان۔ مالکِ اصلی صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
قرآن کریم میں کتنے ہی مقامات پر یہ آیت آئی ہے۔’’اور اللہ ہی کی مِلک ہیں آسمان اور زمین۔ (نور)‘‘ ، ’’اور جو کچھ بھی آسمانوں میں اور جو کچھ بھی زمین میں ہے(سب)اللہ ہی کی مِلک ہے اور اللہ ہی کافی کارساز ہے۔(نسائ)‘‘
اُس کی کارسازیٔ عالم کو ناکافی سمجھ کر کسی مخلوق کی طرف التفات کرنا اور اُس مخلوق سے کارسازی کی توقع رکھنا کیسی خرافات  ہے۔(تفسیر ماجدی)
قرآن کریم میں یہ آیاہے: ’’(اے مؤمنو!)تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ہو درآنحالیکہ آسمان اور زمین سب آخر میں اللہ ہی کے رہ جائیں گے(وہی ان کا وارثِ اصلی ہے)۔ (حدید)‘‘ ، ’’اور اللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین کا۔(آل عمران)‘‘۔’’حالانکہ اللہ ہی کے تو ہیں آسمانوں اور زمین کے خزانے البتہ منافقین ہی نہیں سمجھتے۔(منافقون)’’اور جو چیز بھی ہے ہمارے پاس اُس کے (خزانے کے) خزانے ہیں اور ہم اسے ایک مقدار معیّن ہی سے اتارتے رہتے ہیں (حسبِ حکمت و مصلحت)۔(حجر)
یہی تعلیم انبیاء ؑ بھی ہمیں دیتے آئے ہیں: پس(موسیٰؑ نے)ان کے لئے(یعنی شعیبؑ کی بیٹیوں کیلئے اُن کے گلے کو) پانی پلا دیا، پھر ہٹ کر سایہ میں آگئے اور عرض کی کہ اے میرے پروردگار!  تو جو نعمت بھی مجھے دے دے میں اس کا حاجت مندہوں۔(القصص)۔
آپؑ سایہ میں آکر بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ سے رزق کیلئے دعا کی۔ معلوم ہوا کہ کاملین کی شان اپنی ہر حاجتِ قلیل وکثیر کا حق تعالیٰ کے سامنے ظاہر کرنا ہے۔(تھانویؒ)
حضرت موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ: اللہ(ہی) کا سہارا رکھو اور صبر کئے رہو زمین اللہ ہی کی ہے وہ جس کو چاہے اپنے بندوں میں سے اس کا مالک بنادے اور انجام کار خدا سے ڈرنے والوں ہی کے ہاتھ رہتا ہے۔ (اعراف)۔
جب یہ معلوم ہوا کہ سب کچھ اُسی اللہ کا ہے تو ہمیں اُسی کا محتاج بن کر رہنا چاہئے اور یہ عقیدہ اپنے دلوں میں راسخ کرنا چاہئے کہ وہی جب چاہتا ہے تو دے دیتا ہے اور جب چاہتا ہے تو چھین لیتا ہے(آل عمران)۔کہہ دو! اے اللہ مالک بادشاہی کے! دیتا ہے تو حکومت جسے چاہے اور چھین لیتا ہے حکومت جس سے چاہے اور عزت دیتا ہے تو جسے چاہے اور ذلت دیتا ہے جسے چاہے، تیرے ہی ہاتھ میں ہے خیر بے شک تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔(آل عمران)
جس کو چاہتا ہے کشادگی عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے تھوڑا دیتا ہے ماپ کردیتاہے یا پھر بالکل ہی تنگی سے دیتا ہے:’’اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو اُس کی مشیت ہوتی ہے خوب روزی دے دیتا ہے اور(جس کو چاہتا ہے) تنگی سے دیتا ہے۔(القصص)۔ ’’بے شک تیرا پروردگار جس کیلئے چاہتا ہے رزق بڑھا دیتا ہے اور (وہی) تنگی (بھی) کردیتا ہے۔(اسرائ)‘‘ ۔ ’’تو کہہ میرا رب ہے جو کشادہ کر دیتا ہے روزی جس کو چاہئے اور ماپ کردیتا ہے جسکو چاہئے لیکن بہت لوگ سمجھ نہیں رکھتے۔(سبا)‘‘۔
 یعنی روزی کی فراخی یا تنگی اللہ کے خوش یانا خوش ہونے کی دلیل نہیں۔ دیکھتے نہیں! دنیا میں کتنے بدمعاش،شریر،دہرئے،ملحد مزے اُڑاتے ہیں حالانکہ ان کو کوئی مذہب بھی اچھا نہیں کہتا۔ اور بہت سے خدا پرست پرہیزگار اور نیک بندے بظاہر فاقے کھینچتے ہیں، تو معلوم ہوا کہ دولت و افلاس یا تنگی و فراخی کسی کے محبوب و مقبول عند اللہ ہونے کی دلیل نہیں۔ یہ معاملات تو دوسری مصالح اور حکمتوں پر مبنی ہیں۔ جن کو اللہ ہی جانتا ہے مگر بہت لوگ اس نکتہ کو نہیں سمجھتے۔(تفسیر عثمانیؒ)
اور وہی اللہ جس کو جب چاہتا ہے تو بے حساب دے دیتا ہے:ـاور اللہ جسے چاہتا ہے بے شمار دے دیتا ہے ۔ (نور)‘‘، ’’بے شک اللہ جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق دے دیتا ہے۔(آل عمران)۔
مطلب یہ ہوا کہ دنیوی مال و دولت کا تعلق مصالح تکوینی سے ہے سو یہ مال و دولت کی افراط، یہ روپیہ کی ریل پیل، یہ بڑی بڑی تجارتی کوٹھیاں اور بڑے بڑے ساہوکارے ہرگز کوئی معیار مقبولیت یا حق و صداقت کا نہیں۔ چاہے وہ جاہ و تموّل ذاتی و شخصی ہو یا قومی و اجتماعی، کوئی اس میں بھول نہ پڑے۔ (تفسیر ماجدیؒ)؂‘
انسان محض اپنے علم وہنر مندی سے یا اپنی چالاکی اور زیر کی سے یہ سب کچھ حاصل نہیں کرسکتاجب تک اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم شامل حال نہ ہو کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ بد عقیدت لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ مال ودولت جاہ وحشمت، حکومت وامارت حاصل ہوتی ہے تو صرف اپنے علم وہنر مندی سے۔
قارون نے کہا تھا:مجھ کو تو یہ سب میری ہنر مندی سے ملا ہے۔(القصص)
قارون(بھی کہتا ہے) کہ میں مالیات و معاشیات کا ماہرہوں۔ مجھے جو کچھ بھی ملا ہے، یہ میں نے اپنی قوتِ بازو سے، اپنے علم و ہنر کے زور سے کمایا ہے نہ میرے اوپر کوئی احسان ِ غیبی، نہ میری کمائی میں دوسروں کا حق۔(تفسیر ماجدیؒ)
 اصل بات تو یہ ہے کہ مال و دولت دینے والا تو صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ وہ چاہے تو علم والے کو دے چاہے تو کم علم والے کو دے چاہے تو چالاک وزیرک زبردست محنت کش کو دے چاہے تو کم چالاک کم محنت کش کو دے، چاہے تو دیندار متقی کو دے چاہے تو بے دین فاسق فاجر کو دے،کیونکہ دولت، حکومت، امارت وغیرہ کی تقسیم محض مشیت تکوینی کے مصالح کائناتی کے اعتبار سے ہوتی رہتی ہے۔اسے قربِ الٰہی، اخلاقی افضلیت وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں:’’اُسی (اللہ) کے پاس ہیں کنجیاں آسمانوں کی اور زمین کی، پھیلا دیتا ہے روزی جس کے واسطے چاہے اور ماپ کر دیتا ہے (جس کیلئے چاہے) وہ ہر چیز کی خبر رکھتا ہے۔ (شوریٰ)
تمام خزانوںکی کنجیاں اس کے ہاتھ میں ہیں۔اُسی کو قبضہ اور اختیار حاصل ہے کہ جس خزانہ میں سے جس کو جتنا چاہے مرحمت فرمائے۔ تمام جانداروں کو وہ ہی روزی دیتا ہے، لیکن کم و بیش کی تعیین اپنی حکمت کے موافق کرتا ہے۔ اسی کو معلوم ہے کہ کون چیز کتنی عطا کی مستحق ہے اور اس کے حق میں کس قدر دینا مصلحت ہوگا۔(تفسیرِ عثمانیؒ)
اور اللہ تعالیٰ بڑا وسعت والا بڑا جاننے والا ہے۔(نور)
جسے چاہئے وہ’واسِع‘غنی کرسکتا ہے، خوشحالی سے نواز سکتا ہے۔اُس کے ہاں کوئی تنگی، کمی تو ہے نہیں۔اور پھر وہ ’علیم‘ ہر ایک کی اہلیت وصلاحیت، ظرف وبساط سے خوب واقف، جسے فقر کا اہل دیکھے گا، اُسے فقیر ہی رکھے گا۔(تفسیر ماجدیؒ)
معاشیات کو، مسائل معاش کو، ربو بیت الٰہی کے عام قانون سے عملاً خارج سمجھ لینا،عصرحاضر کی سب سے بڑی گمراہوں میں سے ہے۔ قرآن پاک نے بار بار اس گمراہی پرضرب کاری لگائی ہے۔اور بار بار اعلان کیا ہے کہ جسمیات و روحانیات کے سارے دوسرے وسائل کی طرح معاشیات بھی اسی کی مشیت کے محکوم و تابع ہے۔(تفسیر ماجدیؒ)
 جنہیں مال و دولت کی فراوانی حاصل ہوچکی ہو وہ یہ نہ سمجھنے لگیں کہ یہ کوئی انہیںکے ذاتی استحقاق کا نتیجہ ہے اور بس بلکہ یہ مال و دولت، جاہ و حشمت اُن کیلئے آزمائش کا ذریعہ ہے جیسے کہ تنگ دستوں اور فقیروں کی تنگ دستی و فقر اُن کے لئے آزمائش ہوتی ہے لیکن انسان! اُسے اُس کا پروردگار جب آزماتا ہے، یعنی اُسے انعام اکرام دیتا ہے، تو کہتا ہے میرے پروردگارنے میری قدر بڑھادی، اور جب وہ اُسے(اس طرح) آزماتا ہے کہ اُسکی روزی اُس پر تنگ کردیتا ہے، تو کہتا ہے میرے پروردگارنے مجھے بے قدر کردیا؛ یہ بات نہیں[دراصل یہ دونوں حالتیں اُس کی آزمائش ہے](الفجر)۔
ناشکرے انسان کا بھی عجب حال ہوتا ہے۔ جب حق تعالیٰ کی طرف سے اُسے جاہ، مال وغیرہ کسی قسم کا بھی اکرام واعزاز عطا ہوتا ہے، تو مقصود اس سے اس کی شکر گذاری کا امتحان ہوتا ہے، لیکن وہ اپنی حماقت سے یہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ جو کچھ مجھے حاصل ہوا ہے، میری ذاتی قابلیت کا قدرتی ثمرہ ہے اور میں تو مستحق ہی اسی اکرام واعزاز کا تھا۔ گویا مقصود بالذات اسی دنیا کو سمجھتا، اور اس کی فراخی کو دلیل اپنی کامیابی کی قرار دیتا ہے۔…… ناشکرے انسان پر جب مال کی تنگی کردی جاتی ہے تو مقصود اس سے اُس کے صبرو تسلیم کا امتحان ہوتا ہے لیکن وہ ہر طرف شکایت وحکایت کا دفتر کھولے پھرتاہے، اور دنیا کی کمی کو اپنی محرومی اور بدنصیبی پر محمول کرتا ہے۔ (تفسیر ماجدیؒ)
چونکہ یہ مال ودولت حقیقت میں ہماری مِلک تو ہے نہیں بلکہ اصل مالک تو سب چیزوں کا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔مجازی مالک سب فناہوجائیں گے اور بالآخر سب کچھ بے اختیار اُسی مالک حقیقی کے پاس پہنچ جائے گا۔اسی لئے یہ مال و دولت فی نفسہٖ ہمیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا بلکہ اُس کے متعلق جو اُس مالکِ حقیقی کا حکم ہے اُسے بجا لانے سے ہی ہمیں کچھ فائدہ حاصل ہو سکتا ہے:مال اور اولاد دنیوی زندگی کی ایک رونق ہیں اور باقی ر ہ جانے والے اعمالِ صالحہ آپ کے پروردگار کے ہاں ثواب کے اعتبار سے بھی کہیں بہتر ہے اور اُمید کے اعتبار سے بھی کہیں بہتر۔(کہف)۔
یعنی مال واولاد اسی دنیوی زندگی کی ایک بہار اور اس کا ضمیمہ ہیں۔تو جب خود دنیا ہی کو ثبات نہیں تو اس کے تابع وضمیمہ کی بے ثباتی تو اور بھی بڑھ کر ہوگی۔یہ مال و اولاد کو تحقیراً محض زینت حیات دنیوی کہنا خود ان کے مال، اولاد ہونے کے اعتبار سے ہے لیکن اگر انہی کو خدا پرستی اور دین طلبی کا ذریعہ بنالیا جائے، اور ان سے اطاعت الٰہی وخدمت دین کا کام لیا جانے لگے تو یہی مال و اولاد مقصود ومطلوب بن جاتے ہیں اور ان کا شمار بھی عین باقیات صالحات میں ہونے لگتا ہے۔(تفسیر ماجدیؒ)۔
کافروں ناشکروں کا مال تو اُنہیں کچھ کام ہی نہیں آتا۔ابو لہب(جس کا نام عبدالعزٰی بن عبد المطلب ہے)آنحضرتؐ کا حقیقی چچا تھا لیکن اپنے کفرو شقاوت کی وجہ سے حضورؐ اور دین اسلام کا شدید ترین دشمن تھا۔ غرض اُس کی شقاوت اور حق سے عداوت انتہاء کو پہنچ چکی تھی۔ اُس پر جب اللہ کے عذاب سے ڈرایا جاتا تو کہتا کہ اگر سچ مچ یہ بات ہونے والی ہے تو میرے پاس مال و اولاد بہت ہے۔اُن سب کو فدیہ میں دے کر عذاب سے چھوٹ جاؤں گا۔اُس کی بیوی اُمِّ جمیل کو بھی پیغمبرؐ سے بہت ضد تھی۔جو دشمنی کی آگ ابولہب پھڑکاتا تھا، یہ عورت گویا لکڑیاں ڈال کر اُس کو اور زیادہ تیز کرتی تھی اُس کے گلے میں ایک ہار بہت قیمتی تھا اور کہا کرتی کہ لات و عزی کی قسم، اس کو محمدؐ کی عداوت پر خرچ کر ڈالوں گی۔اس پر اللہ تعالیٰ نے اُن دونوں میاں بیوی کے حق میں فرمایا:’’دو ہاتھ ٹوٹ گئے ابولہب کے اور وہ برباد ہوگیا نہ اُس کا مال (سرمایہ)اُس کے کام آیا اور نہ اُس کی کمائی(سرمایہ پرنفع)ہی کچھ کام آئی۔ (لہب) ۔’بے شک جن لوگوں نے کفر(اختیار)کیا اور وہ مرگئے اس حال میں کہ وہ کافر تھے سوان میں سے کسی سے ہرگز نہ قبول کیا جائیگا زمین بھر(بھی) سونا اگرچہ وہ اُسے(عذابِ دردناک سے بچنے کیلئے)معاوضہ میں دیناچاہیں۔(آل عمران)‘‘۔  

No comments:

Post a Comment