Search This Blog

Friday 18 May 2012

پہلا مغربي سامراج اور جنوبي ہند - 3

پہلا مغربي سامراج اور جنوبي ہند - 3
عبدالمتین منیری


         جب کوئي مورخ  پندرہويں صدي ميں ہوئي پرتگالي کھوجي ٹيموں کے بحري انکشافات اور ان کے اسفار کے موضوع کو چھيڑتا ہے  تو اسے ان کھوجي ٹيموں کي جد و جہد کے پس پردہ کھڑے اس جذبہ کو بھي ديکھنا ہوتا ہے  جو ان کے اہداف  سے شانہ بشانہ ملاکر  اور ساتھ ساتھ  رواں دواں تھے،  يہ جذبہ تھا عہد وسطي کے عالمي تجارتي راستوں پر  انکي مکمل دسترس اور ان کے سرچشموں کو مسلمانوں کي سرزمينوں سے کاٹ کر پرتگال کي سرزمين کي طرف  موڑنا اور پھر يہاں سے يورپ تک  انہيں لے جانا،  اس کي وضاحت کے لئے اس وقت کے  عالمي تجارت کے راستوں کو پيش کرنا از حد ضروري ہے۔


         دور وسطي ميں سامان تجارت  کے اصلي سرچشمے  براعظم افريقہ  کے مشرقي ساحل سے شروع ہوکر  مليشيا اور چين تک پہنچتے تھے،  يہ  تجارت مختلف بري اور بحري راستوں سے ہو کر گذرتي تھي ۔ اور ان ميں سے اکثر بحر ہند سے ہوتے ہوئے بحراوقيانوس پر ختم ہوتي تھي، ان کے درميان ميں  عالم عرب اور يورپ کي منڈياں آتي تھيں ، اس تجارت کا بڑا حصہ مندرجہ ذيل راستوں سے ہوکر گذرتا تھا۔


1۔  خليج عرب ۔ ملک شام 


         مشرقي سامان تجارت کشتيوں کے راستے  ہندوستان سے بحري راستے سے خليج عرب (فارس) تک پہنچتا  ،  پھر بصرہ اور خليج کے آخري سرے تک،جہاں سے قافلے بري راستے  يا  پھر نہر فرات کے راستے سے  بغداد پہنچتے  ، پھر  يہاں سے حلب  ،  يہاں سے  مغرب کي سمت پر واقع شامي بندرگاہوں تک ، يہاں وينس اور جنوہ کي کشتياں يورپ کي منڈيوں ميں انہيں پہنچانے کے انتظار ميں تيار رہتيں(1)


         اس راستے کو  طريق اوسط (درمياني راستہ ) کہا جاتا تھا۔يورپي  صارفين  تک ہندوستاني و مشرقي سامان پہنچانے کے لئے اس   راستہ کا نصيب سب سے اچھا تھا،اپنے  بہترين  جغرافيائي جائے وقوع  اور ہندوستاني کشتيوں کے لئے براہ راست راستہ ہونے کي وجہ سے،اس راستے سے اطالوي شہروں نے  مشرقي عرب ملکوں ميں برپا صليبي جنگوں کے دوران خوب فائدہ اٹھا يا ۔


2۔ بحر احمر ۔ مصر


        يہ راستہ عدن کے جنوب ميں واقع  مشرق سے آنے والے سامان تجارت  اکٹھا  ہونے کے مرکز سے شروع ہوتا تھا،پھر يہ سامان بحري راستہ سے  بحر احمر کے مغربي ساحل پر سويز  يا (عيذاب  اور قصير) لے جايا جاتا  ، پھر قافلوں کي پيٹھوں  لاد کر قاہرہ پھر اسکندريہ اور کبھي دمياط لے جايا جاتا،يہاں سے وينس اور جنوہ کي کشتياں اسے يورپ منتقل کرتيںجہاں يہ صارفين کے لئے  خردہ فروشوں  کے پاس  پہنچتا(2)


      جب مملوک سلاطين (سلطنت غلامان ) مصر شام حجاز اور يمن کے بعض علاقوں پر عہد وسطي کے اواخر سے عہد جديد کے آغاز تک (1250ء ۔ 1517ء)  حکومت کرنے لگے  تو يہ دونوں راستے مماليک کے قبضے ميں آگئے  تو انہوں نے  اپني سرزمين سے گذرنے والے سامان تجارت پر  مختلف قسم کے زبردست ٹيکس لگا کر بے تحاشہ منافع کمانا شروع کيا (3)


        ان سلاطين مماليک کي کوشش رہي کہ فائدہ مند مصالحہ جات کي تجارت کے راز اپنے تک  محدود  رہيں ، کوئي اور قوم اس تجارت کے خفيہ رازوں سے آگاہ نہ ہو،لہذا انہوں نے اس کے لئے زبردست احتياطي تدابير اختيار کيں،اس غرض سے انہوں نے غير مسلم  سوار کشتيوں کے بحر احمر کي لہروں کو چيرنے پر اس دليل کے ساتھ  پابندي لگادي کہ يہ سمندر حجاز کے مقدس اسلامي مقامات تک جاتا ہے،  لہذا انہوں نے يہ حصار توڑنے يا مشرقي تجارت کے اصل جگہوں اور  راستوں کے بارے ميں معلومات  فراہم کرنے  والوں پر سخت سزائيں مقرر کيں (4)


        ( بحر احمر ميں جہازراني کا  يہ ضابطہ  دراصل  صلاح الدين ايوبي ؒ  نے فرانسيسي بادشاہ ارناط  ف  1187؁ء   Renaud de Ch[L:226]tillon کے  بحر احمر پر حملہ کے بعد نافذ کيا تھا)


         يہ دونوں راستے جو کہ مصالحہ جات کي تجارت کے لئے بنياد ي حيثيت رکھتے تھے  ان سے ہٹ کر ايک  تيسرا بري راستہ بھي تھا جو کہ خطرات سے پر تھا، يہ ملبار کے اندروني پہاڑوں سے نکل کر شمال کي طرف کو بڑھتا  اور مختلف آڑھے ٹيڑھے راستوں سے ہوتے ہوئے دريائے جيحون کي طرف کو نکلتا جہاں  چين و بخاري سے آنے والے راستے اسے آکر ملتے ، يہاں سے اس کي دو شاخيں نکلتي تھيں :


1۔ ايک بحر قزوين سے ہوتے ہوئے دريائے وولگا کي طرف نکلتي 


ب : دوسري  بحر اسود کي طرف جاتي جو طرا بزون پھر قسطنطينيہ تک پہنچتي ۔


         چودھوي صدي کے اواخر اور پندرھويں صدي کے اوائل ميں سلطنت عثمانيہ کي  توسيعي جنگوں کے ظہور  پذير ہونے کي وجہ سے اس راستے مين زبردست رکاوٹيں آئيں (5)


         باہم متنازع گروپوں ميں  اختلافات اور سياسي تنازعات کي وجہ سے  ان عربي و اسلامي زمينوں سے گذرنے والے دو ميں سے کوئي ايک راستہ يا دونوں بند ہوتا رہتا، جس کي وجہ سے يورپ کو مشرقي  اشياء  کي رسد بند ہوجاتي  اور تاجروں کو اس تيسرے راستے کو اپنانے کي ضرورت پيش آتي حالانکہ ايشياء کے وسيع و عريض خطے پر پھيلے ہونے کي وجہ سے يہ راستہ بھي چنداں محفوظ نہ  ہوتا(6)  


         قرون وسطي کے آخري حصے ميںيہ اہم پيش رفت ہوئي کہ مصالحہ جات تيار کرنے والے تمام مراکز اور راستے مسلمانوں کے ہاتھوں ميں آگئے اور ان علاقوں کے روابط ہندوستان کي مقامي اسلامي حکومتوں جيسے افغان اور مغل کے ساتھ، ملقا  کي مسلم سلطنتوں کے ساتھ ، مصر شام اور حجاز کے مماليک سلاطين  (سلطان غلامان) کے ساتھ ، اور مشرقي افريقہ کي اسلامي امارتوں کے ساتھ مضبوط ہوگئے ،اور يورپ مکمل طور پر مسلم تجارت کے مکمل کنٹرول سے  نکلنے کے اسباب ووسائل کے حصول  کي جد وجہد ميں مگن ہوگيا ،اور اس  بات کي ضرورت اس وقت شديد تر ہوگئي جب مسلم عثماني سلطنت نے اناضول کو فتح کيا  اور  1453؁ء ميں مشرقي يورپ کے پايہ تخت قسطنطينيہ پر  قبضہ کرليا۔


  اس ميں شک نہيں کہ مشرقي يورپ پر عثمانيوں کے بڑھتے سيلاب نے بابائے روم کواز سرنو مسلمانوں کے خلاف دوسري صليبي جنگ شروع کرنے کي صدادينے پر اکسايا   (7)


        بعض مورخين کي رائے  ہے کہ دور جديد  کي ابتدا ميں جو جو جغرافيائي کھوجي ٹيميں نکليں  ان کا اولين مقصد عثماني ترکوں کي ايشائے کوچک اور بحرمتوسط کے مشرقي ساحلوں کي طرف پيش قدمي کو روکنا  اور انہيں ہندوستان کو مغرب  سے ملانے والے  قديم تجارتي راستوں سے کاٹنا  اور مشرق سے مصالحہ جات کے حصول کے لئے درپيش مشکلات کا حل تلاش کرنا ہے۔يہاں سے اس سامان تجارت کي اصل جگہوں تک نئے راستوں سے پہنچنے کي ا نہيں سخت  ضرورت پيش آئي ۔ليکن فرانسيسي مورخ رولان موسينيہ اس رائے کو رد کرتے ہيں،اور وہ جواب ديتے ہيں کہ ترکوں کي جنگوں کي  وجہ سے تجارت ميں کبھي کبھار دڑاريں پڑتي رہيں،ليکن ترکوں نے بذات خود کبھي مغرب والوں سے تجارتي معاملات ميں دشمني کا رويہ نہيں اپنايا،  انہوں نے ہميشہ وينس اور جنوہ کي حکومتوں کے ساتھ معاہدوں پر اپني رضامندي ظاہر کي اور ان کي تجديد  اور مابين الملکي  معاہدوں کي پاسداري کرتے رہے،انہوں نے  فارس سے گزرنے والے  قافلوں  اور  خليج عرب اور بحر احمر  کے بحري گزرگاہوں کي آزادي  کے تحفظ کا ہميشہ خيال رکھا،سليم اول نے  1517؁ء ميں مصر فتح کرتے ہي مماليک سلاطين  کے ساتھ وينس والوں کے معاہدوں کي تجديد کي،او ر مماليک نے مصالحہ جات کي تجارت پر جو ٹيکس بڑھائے تھے انہيں کم کئے(8)


          مگر ہم يہ کہ سکتے ہيں کہ عثماني ترکوں کے يورپ ميںغزوات نے  اس وقت نفسياتي طور پر اہم کردا ر ادا کيا ،جب  دوبارہ اسلام مشرقي يورپ پر حملہ کرنے ميں کامياب ہوگيا ،حالانکہ  1453؁ ء ميں اندلس ميں يورپ کے جنوبي اور مغربي اطراف ميں اسلام ختم ہورہا تھا،اس نفسياتي صورت حال کو  سلطان عثماني محمد الفاتح کے مشرقي آرتھوڈکس کليسا کے مرکز قسطنطينيہ کو عثماني سلطنت کا دارالخلافہ بنانے  اور اس کانام تبديل کرکے دارالاسلام (اسلامبول ) رکھنے نے اور تقويت دي(9)


            اس موقعہ کو پوپ کاليکٹس سوم   58؁۔1455؁Calixtus III  نے اسلام مخالف جذبات ابھارنے کے لئے استعمال کيا  ، اس نے سقوط قسطنينيہ کے بعد نصراني مذہب ميں ايک نئي عبادت کي بنياد ڈالي  اور عيسائيوں کو اس کي ادائيگي کا حکم ديا  ، اس نے اسے  نماز خوشخبري کا نام ديا ،اس دوران عثماني ترکوں پر خصوصيت کے ساتھ نصرت کي دعا مانگي جاتي تھي،اس پوپ نے يورپ والوں کو مسلمانوں کے خلاف ہر جگہ اکٹھا کرنے کي بھرپور کوشش کي (10)


             ان سب  اسباب سے نئے اسلامي ريلے کے بارے ميں  تمام نصراني دنيا ايک ڈر اور خوف ميں مبتلا ہوگئي،  رومن کيتھولک چرچ نے  قسطنطينيہ اور وہاں کے مشرقي کليسا  کے سقوط کے بعد اس ڈر کو مغربي اور مشرقي عيسائي دنيا پر اپني روحاني  چودھراہٹ قائم کرنے کے لئے خوب استعمال کيا ، اور مشرقي اور مغربي کليسا کے درميان جو دشمني  1054؁ء کے بعد ختم نہيں ہوئي تھي وہ ان کے درميان مکمل قطع تعلقي پر منتج ہوئي ۔يہاں سے رومن کليسا کے اندلس کے نصراني بادشاہوں سے جذباتي تعلقا ت ابھرنے لگے  جنہوں  نے اپنے کندھوں پر دوسري صليبي جنگ چھيڑنے کي ذمہ داري اٹھالي تھي ، اور  شايد يہ تعبير درست ہو کہ  انہوں نے کليسا  اور اسکے پاپاوں کي آشيرواد سے جزيرہ نمائے ايبيريا سے اسلامي وجود کو ختم کرنے اور مغربي يورپ سے اسلام اور اس کي سلطنت کو نيست و نابود کرکے پوري نصراني دنيا پر رومن کليسا کي سياسي اور روحاني چودھراہٹ  مسلط کرنے کا ٹھيکہ اٹھا رکھا تھا،اسي وجہ سے رومن کليسا اور اس کے پاپاوؤںنے پرتگال اور اسپين کي متبادل تجارتي راستوں تک رسائي حاصل کرکے مسلمانوں کو ان کے گھروں ميںگھس کر ضرب لگانے انہيں ان کے ملکوں کے پيچھے سے گھير کر  ہميشہ کے لئے تباہ کر نے اور تجارتي دولت کو ان سے چھين لينے اور اس طرح اقتصادي عامل (مصالحہ جات کے اصل مراکز تک براہ راست پہنچ کران کے اونچے ٹيکسوں سے بچنے )، اور ديني عامل يہ کہ  يورپ کي جغرافيائي کھوجي دستوں کي تحريک کے ذريعے ( مسلمانوں کو پيچھے سے مارنے  اور عالم اسلام کو تباہ کرنے)کي کوششوں کي بھرپور ہمت افزائي کي۔






حوالہ جات


1۔ Boies Penrose:Travel And Discovery In Renaissance (1402-1692)U.K 1960


 p 16.17


2۔ نعيم ذکي فہمي  :طرق التجارۃ الدوليۃ   (القاہرۃ  (1973)  ص 


3124۔  سعيد عبد الفتاح عاشور  :  مصر في عہد دولۃ سلاطين المماليک البحريۃ  (القاہرۃ  1962)  ص 


4208۔ شوقي الجمل : تاريخ کشف افريقيا و استعمارھا  (القاہرۃ ، 1971) ص  


560۔اسماعيل نور الربيعي : المرحلۃ المرحلۃ الثانيۃ من التنافس (مجلۃ الوثيقہ  ع29 س 15 البحرين 1996)  ص 


689۔ج ج لويمر : دليل الخليج (القسم التاريخي  ۔الدوحۃ  1967ء)    ج1،ص 


79۔سعيد عبد الفتاح عاشور : الحرکۃ الصليبيۃ (القاہرۃ  1990) ج 2  ص 


8989۔ رولان موسينيہ  :تاريخ الحضارات العام(لبنان 1987ء)  ج 4 ص 39)


9۔ عبد العزيز الشناوي :  المراحل الاولي للوجود البرتغالي (قطر 1976ء) ج 2 ص 


10618۔حمزہ الصيرفي : النفوذ البرتغالي في الخليج العربي  (الرياض 1983ء)  ص 

No comments:

Post a Comment