Search This Blog

Sunday 27 May 2012

اقبال مندی کا خواب

اقبال مندی کا خواب

-سید فصیح اللہ حسینی
تاریخ عالم یہ بتاتی ہے کہ اربوں کھربوں انسانوں میں چند ہی ایسے نفوس ہوتے ہیں جو اپنے بعد بھی تاریخ کے صفحات پر اپنی یادوں اور کارناموں کے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ 21 اپریل کا دن ایک ایسی ہی شخصیت کے کارناموں اور خدمات کو ذہن میں تازہ کرتا ہے جو ادب کی دنیا میں معمار کی حیثیت رکھتا ہے اور ایک قوم کو موت کے احساس سے چھٹکارا دلا کر زندگی کی رمق ان میں پیدا کرنے کے لیے اپنا نظریہ پیش کرتا ہے، اور خود 21 اپریل 1938ء کو اس جہاں سے رخصت ہوجاتا ہے۔ یہ محسنِ قوم ’’ڈاکٹر علامہ محمد اقبال‘‘ ہیں۔ جب ادب کا نام لیا جائے تو معمارانِ ادب کے کارہائے نمایاں کا تذکرہ بنیاد کی اینٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ معمارانِ ادب ہی دراصل ادب کے وجود کو دوام بخشنے کا طرۂ امتیاز رکھتے ہیں۔ تاریخ کی بند کتاب کو کھولنے کی جسارت کی جائے اور معمارانِ وطن کی فہرست پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو اقبال ؒ کا نام دیگر ناموں میں صداقت کے ساتھ سرفہرست نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ ان عظیم المرتبت صاحبانِ قلم میں شمار کیے جاتے ہیں جن کی نوکِ قلم سے قومی منزلت، ملّی افتخار، دین و دانش کے چشمے، مقصدیت کی تصویر اور امتِ وسط کی شیرازہ بندی سیاہی کی صورت قرطاس پہ درج ہوکر قلبِ قاری میں راسخ ہوجاتی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گزشتہ صدی میں جتنا کام اقبال کے حوالے سے کیا جاچکا ہے کسی اور مسلم مفکر کے بارے میں نہیں ہوا۔ لیکن اس کے باوجود جو پہلو قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ شخصیت کے کارنامے، اس کی خدمات، اس کے نظریات اور معاشرے پر اس کے اثرات موضوع بحث رہتے ہیں لیکن شخصیت کی تعمیر میں ملوث عوامل، افراد کا کردار اور شخصیت کے معمار کا مزاج کسی حد تک سوانح نگاروں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے، اور یہ وہ دور ہوتا ہے کہ جب شخصیت اپنے معاشرے اور قرب وجوار کے ماحول کے مطابق اثرات اپنے اندر جذب کررہی ہوتی ہے۔ یہی وہ احساس ہے جس کے زیراثر اقبال کے خاندانی پس منظر اور خوش قسمت استاد کی تربیت کے پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے، جو کہ استاد طلبہ تعلقات کے حوالے سے بھی رہنمائی کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ اقبالؒ کا بچپن پنجاب کے قدیم شہر سیالکوٹ کی خاموش وخوابیدہ گلیوں میں گزرا۔ برہمن میں سیرو کے نام سے ایک شاخ ہے اور اقبال کے آبا و اجداد کا تعلق سیرو سے تھا۔ بابا لول حج سیروئوں کی نسل میں سب سے پہلے قبولِ اسلام کی نعمت سے بہرہ ور ہوئے۔ آبا واجداد نے مختلف علاقوں میں سکونت اختیار کی اور بالآخر سیالکوٹ ہجرت کرکے مستقل مستقر اسے بنالیا۔ اقبال کے والد شیخ نور محمد سیالکوٹ میں مقیم تھے۔ جب شیخ نور محمد کی عمر چالیس برس کی ہوئی تو انہوں نے ایک خواب دیکھا کہ ایک خوبصورت پرندہ یا سفید کبوتر آسمان سے زمین اور زمین سے آسمان کی طرف اڑا جارہا ہے۔ لوگ اسے پکڑنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں۔ بالآخر وہ پرندہ ایک دم فضاء سے زمین پر آتا ہے اور سیدھا شیخ نور محمد کی گود میں آگرتا ہے۔ خواب سچے ہوتے ہیں، چنانچہ چند دن بعد نورمحمد کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جو اس سچے خواب کی تعبیر تھی۔ اقبال مندی کا خواب… خواب کی تعبیر کے دن 9 نومبر کی تاریخ تھی، سن 1877ء تھا۔ اس بچے کا نام بجا طور پر ’’محمد اقبال‘‘ رکھا گیا۔ اقبال کی والدہ ’’اماں بی‘‘ کا تعلق بھی سیالکوٹ کے ایک کشمیری گھرانے سے تھا۔ بے جی (اماں جی) ایک ملنسار، خوش مزاج اور ہمہ وقت خدمت کے لیے حاضر ایک شریف خاتون تھیں۔ بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا ان کا مقصد اور بہتر تربیت ان کا مشن ٹھیرا تھا۔ اسی والدہ کے گہوارۂ تربیت میں پرورش پانے والے بچے کو اقبال مند اور بلند تر ہونا ہی تھا۔ تربیت سے تیری میں، انجم کا ہم قسمت ہوا گھر مرے اجداد کا سرمایۂ عزت ہوا یہ تو وہ سایۂ عافیت تھا جس کے زیراثر اقبال نے پرورش پائی، لیکن یہ سایہ ان کے لیے کس طرح ثمر آور ثابت ہوا… اس کے چند مظاہر ان کے بچپن کے واقعات سے ملتے ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ ہمارے لیے تزکیہ کا باعث ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ جب میں چھوٹا تھا تو معمول تھا کہ روز فجر کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کرتا تھا۔ ایک روز والد جب نماز کے بعد درود اور وظائف سے فارغ ہوکر گھر آئے تو مجھے مشغولِ تلاوت پایا۔ پوچھا: ’’تم کیا پڑھ رہے ہو؟‘‘ میں نے جواب دیا: ’’قرآن مجید…‘‘ کہتے ہیں: ’’سمجھتے بھی ہو؟‘‘ میں نے کہا: ’’کیوں نہیں، کچھ نہ کچھ سمجھ لیتا ہوں‘‘۔ والد صاحب خاموش ہوگئے اور اٹھ کر کمرے میں چلے گئے۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ ایک روز یہی واقعہ ہوا کہ گھر میں آئے اور میں نے تلاوت ختم کرلی تو بڑی نرمی سے کہنے لگے کہ ’’بیٹا قرآن مجید وہ شخص سمجھ سکتا ہے جس پر اس کا نزول ہو۔ جب تک تم یہ نہ سمجھو کہ قرآن مجید تمہارے قلب پر اتر رہا ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ اقدس پر نازل ہوا تھا تو تلاوت کا مزہ نہیں، اور تم پوری طرح قرآن کو سمجھ بھی نہیں سکتے۔ اگر تم تلاوت اس طرح کرو جیسے یہ تم پر نازل ہورہا ہے یعنی اللہ خود تم سے ہمکلام ہے تو یہ تمہارے رگ و پے میں سرایت کرجائے گا۔‘‘ اقبال کہتے ہیں کہ والد صاحب کی باتوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ قرآن مجید دل کے راستے بھی انسانی شعور میں داخل ہوتا ہے۔ بالِ جبریل کا یہ شعر اسی واقعے کی یاد دلاتا ہے ؎ تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کشاہے نہ رازی، نہ صاحبِ کشاف اقبال آغاز میں سیالکوٹ کے مشہور عالم مولوی غلام حسین کے مکتب میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ وہاں ایک روز میرحسن، مولوی غلام حسین سے ملاقات کے لیے آئے۔ وہاں اتنے بچوں میں میر حسن کی نظر جب اقبال پر پڑی تو پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ یہ کس کا بیٹا ہے؟ جب پتا چلا کہ نور محمد کا لڑکا محمد اقبال ہے، تو نور محمد سے ملاقات کرکے اُن سے درخواست کی کہ اپنے لڑکے کو میرے پاس بٹھادو۔ میرحسن کے بے حد اصرار پر یہ اقبال اپنے اقبال کو مزید بلند کرنے کے لیے اس درویش صفت استاد کے مکتب کا درباری بن گیا۔ کوئلے کی صورت میں موجود پتھر جب تراش خراش کے بعد ہیرے کی شکل اختیار کرجاتا ہے تو دیکھنے والا ہیرے کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملانے لگتا ہے اور بے اختیار اس ہیرے کو تراشنے والے کی کاریگری اور فن کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جب ایک شخص انسانیت کے لیے نمونہ بن جائے تو انسانیت اس شخصیت کی تعمیر کرنے والے کے بارے میں بے اختیار مدح سرائی کرتی نظر آتی ہے۔ اقبال ؒکی شخصی تعمیر کے تذکرے کے موقع پر ان کے استادِ محترم کا تذکرہ نہ کیا جائے تو اقبال کی شخصیت کے رنگ پھیکے معلوم ہوتے ہیں۔ میر حسن ایک روشن فکر رکھنے والے اہلِ علم تھے جو دین ودنیا کی مصلحت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے شاگردوں کی تربیت کیا کرتے تھے۔ وہ اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ لسانیات، ادبیات اور ریاضیات کے ماہر تھے۔ ایک راسخ العقیدہ اور عبادت گزار مسلمان کی حیثیت سے ان کے شب و روز بسر ہوتے تھے۔ میر حسن کا طریقہ تعلیم اس قدر شاندار تھا کہ استاد شاگرد باہم محفل جمانے کے بہانے ڈھونڈا کرتے تھے۔ میرحسن اپنے معمولات کا آغاز نماز تہجد سے کرتے… فجر کی نمازکے بعد عزیزوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے کے لیے قبرستان کا رخ کرتے۔ اسکول پہنچ کر پڑھائی کا آغاز ہوتا۔ کوئی بغدادی قاعدہ پڑھ رہا ہے، تو کوئی حکایاتِ سعدی سمجھ رہا ہے۔ میرحسن الفاظ کی تشریح کرتے ہوئے بھی مطلب کو واضح کرنے کے لیے کئی کئی اردو، پنجابی اور فارسی کے اشعار سنادیا کرتے تھے۔ اقبال اور ان کے چند دوستوں کی استادِ محترم سے محبت کا یہ عالم تھا کہ اسکول سے فارغ ہوکر جلدی سے گھر پہنچتے اور جلدی جلدی کچھ کھاپی کر دوبارہ میرحسن کے گھرکا رخ کرتے اور شام تک وہیں قیام کرتے۔ اس دوران شام میں اکثر اپنے ہم جولیوں کے ساتھ کبوتر بھی اڑاتے۔ اقبال کو میر حسن کے ہاں اپنا وقت گزارنے میں کچھ تامل نہ تھا، جبکہ ان کے والد کی طرف سے اس معاملے میں انہیں سرپرستی حاصل تھی۔ میر حسن کا یہ عالم تھا کہ جب گھر سے سودا لینے بھی نکلتے تو کوئی طالب علم اپنی کتاب لیے آجاتا اور کچھ نہ کچھ پڑھتا جاتا۔ اُس دور میں دراصل تربیت تعلیم وتدریس کا لازمی جزو تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس دور میں استاد کی تربیت میں معاشرت کے آداب، مجلس کے اطوار، ذمہ داری کا احساس، حسنِ اخلاق، سلیقہ وشعار اور اساتذہ کی تکریم سب کچھ شامل ہوتا تھا، اور اس سب کچھ کا مقصد انسان کی کردار سازی کے سوا کچھ نہ تھا۔ اقبال نے اسی ماحول میں تربیت پائی اور جیّد اساتذہ سے فیض حاصل کیا، اس کا اعتراف اقبال خود اپنے الفاظ میں اس طرح کرتے ہیں ؎ وہ شمع بارگہِ خاندانِ مرتضوی رہے گا مثلِ حرم، جس کا آستاں مجھ کو نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو یہی وہ کردار ہے اقبال کے معماروں کا، جس کی بدولت ایسا گوہر تیار ہوا کہ جس سے عالم ادب جگمگا رہا ہے اور اس کی ضیا پاشیوں سے سارا عالم منور ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان روشنیوں کو اپنے سینوں میں جذب کیا جائے اور اس نور کے ذریعے اقبال کے نظریۂ خودی کو فروغ دیا جائے۔ کیوں کہ ہمارے لیے ہی اقبال نے کہا تھا ؎ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

No comments:

Post a Comment