اصحاب رسولؐ کی معاشی زندگی‘ حضرت ابوبکر صدیق ؓ
-عابد علی جوکھیو
ہم نے اپنے گزشتہ مضامین میں اسلام میں مال کے تصور پر مفصل بحث کی، جس میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں سے بھی چند ایک مثالیں بیان کیں۔ اب ہم یہاں صحابہ کرامؓ کی معاشی زندگی اور معاشی معاملات بیان کرنے کی سعی کررہے ہیں۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے براہِ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض حاصل کیا، اور ان کی زندگیاں ہمارے لیے مشعلِ راہ بھی ہیں۔ اس سلسلے میں ہم سب سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے معاشی تصورات اور معاشی زندگی پر گفتگو کریں گے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ: نام: عبداللہ، کنیت: ابوبکر، لقب: صدیق اور عتیق تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اسلام سے قبل ایک بڑے تاجر کی حیثیت رکھتے تھے اور آپ ؓ کی دیانت، راست بازی اور امانت کا خاص شہرہ تھا۔ اہلِ مکہ آپؓ کو علم، تجربے اور حسنِِ خلق کے باعث نہایت معزز سمجھتے تھے۔ آپؓ بنیادی طور پر تاجر تھے۔ جس وقت آپؓ اسلام لائے آپؓ کے پاس کافی دولت تھی۔ آزاد مردوں میں آپؓ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی اور ایمان لائے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنی تمام دولت ان غلاموں کو آزاد کرانے میں صرف کردی جو اسلام لانے کی وجہ سے کفارِ مکہ کے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں پر ایسا ظلم برداشت نہ کرسکتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو انہیں آزاد کرانے کا اشارہ فرماتے تو حضرت ابوبکرؓ ان غلام مسلمانوں کی منہ مانگی قیمت ادا کرکے انہیں آزاد کردیتے تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن فہیرہ، جاریہ ؓ بنی مومل، نہدیہؓ، بنت نہدیہؓ کے علاوہ بیسیوں غلام آپ نے اسی طرح آزاد کرائے تھے۔ (فتح الباری ج۔7، ص:192) حضرت ابوبکر ؓ صدیق کے پاس قبولِ اسلام کے وقت چالیس ہزار درہم تھے۔ انہوں نے یہ تمام دولت راہِ خدا میں خرچ کردی۔ (ابن سعد) حضرت ابوبکر ؓصدقات و خیرات میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ ؓ کو صدقہ نکالنے کا حکم دیا۔ اُس وقت حضرت عمر ؓکے پاس معمول سے کچھ زیادہ مال موجود تھا، انہوں نے خیال کیا کہ آج ابوبکرؓ سے سبقت لے جانے کا موقع ہے، چنانچہ وہ اپنا آدھا مال بارگاہِ رسالت میں لے کر آگئے۔ یہ دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا کچھ اپنے اہل و عیال کے لیے بھی چھوڑا ہے؟ بولے ’’اسی قدر‘‘۔ لیکن ابوبکر ؓاپنا سارا مال لے آئے، جب ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے عرض کیا کہ ’’ان کے لیے اللہ اور اس کا رسول ہی کافی ہیں‘‘۔ آپؓ کی فیاضی کا یہ عالم تھا کہ وفات کے وقت بھی فقراء اور مساکین کو فراموش نہ کیا اور اپنے مال میں سے ان کے لیے ایک خمس کی وصیت فرمائی۔ (کنزالعمال) ہجرت ِمدینہ کے بعد مسلمانوں کے لیے مسجد کی تعمیر ایک اہم معاملہ تھا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے لیے ایک زمین منتخب کی جو یتیموں کی ملکیت تھی۔ انہوں نے یہ زمین مفت فراہم کرنے کی پیشکش کی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ زمین ان یتیموں سے خریدی اور اس کی قیمت حضرت ابوبکرؓ سے دلوائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان خدمات کا اعتراف اپنی وفات سے چند یوم قبل ان الفاظ میں فرمایا: ’’سب لوگوں میں ابوبکرؓ کا احسان مال اور صحبت کے لحاظ سے مجھ پر زیادہ ہے‘‘۔ (یہ سن کر آپؓ آبدیدہ ہوکر عرض کرتے کہ ’’یارسول اللہ! جان اور مال سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔‘‘) (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب مناقب المہاجرین) ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ’’ابوبکرؓ کے مال کے علاوہ کوئی مال میرے لیے اتنا مفید ثابت نہیں ہوا‘‘۔ جب آپؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو دوسرے دن کپڑے کی گٹھری کندھوں پر اٹھائے اسے فروخت کرنے نکلے۔ حضرت عمرؓ نے دیکھا تو کہا ’’اب آپؓ کو مسلمانوں کے کاموں پر توجہ دینا چاہیے‘‘۔ آپؓ نے فرمایا ’’پھر بچوں کو کہاں سے کھلائوں؟‘‘ حضرت عمرؓ کہنے لگے ’’چلو ابوعبیدہ بن ابی الجراحؓ کے پاس چلتے ہیں (ابوعبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی اس وقت بیت المال کے خزانچی تھے)‘‘ چنانچہ تینوں صحابہؓ نے مل کر خلیفۃ المسلمین کا وظیفہ مقرر کیا جو ایک متوسط درجے کے فرد کے اخراجات کا تخمینہ لگاکر چار ہزار درہم سالانہ طے کیا گیا۔ بخاری کی روایت ہے کہ جب خلافت کی ذمہ داریوں کی وجہ سے آپؓ اپنا ذاتی کام نہ کرسکے تو صحابہؓ سے فرمایا کہ میری قوم جانتی ہے کہ میرا پیشہ میرے اہل و عیال کا بار اٹھانے سے قاصر نہ تھا اور اب میں مسلمانوں کے کام میں مصروف ہوگیا ہوں اس بنا پر آلِ ابوبکر اس مال میں سے کھائیں گے اور مسلمانوں کے لیے تجارت کریں گے۔ صحابہؓ نے اسے منظور کرلیا۔ (بخاری۔کتاب الاحکام۔ باب رزق الحاکم و العاملین علیہا) ابن سعدؒ نے حضرت ابوبکرؓ کے وظیفے کی تفصیل یہ بیان کی ہے کہ آپؓ کو دو چادریں ملتی تھیں، جب وہ پرانی ہوجاتیں تو انہیں واپس کرکے دوسری لیتے تھے۔ سفر کے موقع پر سواری اور خلافت سے پہلے جو خرچ تھا اسی کے موافق اپنے اور اپنے متعلقین کے لیے خرچ لیتے تھے۔ (طبقات ابن سعد ج3ص131) حضرت سہل بن ابی حثمہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ کے زمانۂ خلافت میں بیت المال سخ میں تھا، ہر شخص جانتا تھا کہ اس کی کوئی بھی پہریداری نہیں کرتا تھا، آپؓ سے عرض کیا گیا کہ اے خلیفۂ رسول! آپؓ بیت المال پرکوئی پہریدار مقرر کیوں نہیں کرتے؟ آپؓ نے فرمایا: بیت المال پر کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔ میں نے عرض کیا: کیوں؟ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: اس پر تالا لگا ہوا ہے اور جو کچھ اس میں ہوتا ہے وہ لوگوں کو دے دیا جاتا ہے، اس میں کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ جب حضرت ابوبکرؓ سخ سے مدینہ منتقل ہوئے تو بیت المال کو بھی منتقل کردیا گیا، اور جس گھر میں آپؓ رہتے تھے اُس میں بیت المال کا دفتر بنالیا۔ آپؓ کے پاس قیلہ، جہینہ اور ابوسُلیم کی کانوں سے بہت سارا مال آیا، پورے مال کو اسی دفتر میں رکھا گیا، آپؓ اس مال کو لوگوں میں تقسیم کرتے رہے، آپ ؓ تقسیم کے دوران آزاد، غلام، مرد و عورت سب کی برابری کا خیال رکھتے تھے۔ اس مال سے سامانِ حرب (جنگی سامان) خرید کر فی سبیل اللہ تقسیم کردیتے۔ ایک سال آپؓ نے اونی چادریں خریدیں اور سردیوں میں مدینہ کی بیوائوں میں تقسیم کردیں۔ جب حضرت ابوبکر ؓ کی وفات ہوئی اور انہیں دفنا دیا گیا تو حضرت عمر ؓ نے امینوں کو بلایا اور ان کو لے کر حضرت ابوبکر ؓکے بیت المال میں داخل ہوئے۔ آپؓ کے ساتھ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف اور عثمانؓ بن عفان تھے۔ جب بیت المال کو کھولا گیا تو اس میں کوئی درہم و دینار نہ تھا۔ البتہ مال کے کچھ نشانات ملے۔ زمین کریدنے پر اس میں سے صرف ایک درہم ملا۔ اُس زمانے میں ایک شخص درہم کا وزن کیا کرتا تھا۔ حضرت ابوبکر ؓکے پاس جو مال آتا تھا وہی اس کا وزن کیا کرتا تھا۔ جب ان اصحاب ؓ نے اس سے حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے ہوئے مال کی تفصیل معلوم کی تو اس نے بتایاکہ آپؓ کے پاس کل دو لاکھ دینار آئے تھے۔ (کنزالعمال ج3) خلیفہ بننے کے بعد آپؓ کی آمدنی تو یہی وظیفہ تھا جبکہ انفاق فی سبیل اللہ کی عادت پہلے سے موجود تھی۔ جب کوئی حاجت مند آتا اور آپؓ کے پاس دینے کو کچھ نہ ہوتا تو بیت المال سے قرض لے کر حاجت مند کو دے دیتے۔ چنانچہ آپؓ کے دو سالہ دورِ خلافت میں آپؓ کے نام اس طرح کا چھ ہزار درہم قرضہ ہوگیا تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے وقتِ وفات پر فرمایا کہ میں جب سے مسلمانوں کے معاملات کا والی بنا ہوں، ان کا ایک درہم و دینار نہیں کھایا، ہاں ہم نے ان کے موٹے آٹے کو اپنے پیٹ میں ڈالا ہے، اور موٹے کپڑے سے اپنی پیٹھ ڈھانکی ہے۔ میرے پاس مسلمانوں کے مالِ فئی (مالِ غنیمت) میں سے نہ تھوڑا ہے اور نہ زیادہ، سوائے اس حبشی غلام کے، پانی لانے والے اونٹ اور اس پرانی چادر کے۔ اور جب وفات کا وقت آیا تو اپنے صاحبزادے کو بلاکر فرمایا کہ میرا فلاں باغ بیچ کر بیت المال کے چھ ہزار روپے ادا کیے جائیں اور میرے مال میں جو چیز فاضل نظرآئے وہ عمرؓ بن خطاب کے پاس بھیج دی جائے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ وفات کے بعد جائزہ لیا گیا تو صرف یہ چیزیں زیادہ نکلیں: ایک غلام، ایک لونڈی اور دو اونٹنیاں۔ چنانچہ یہ تمام چیزیں اسی وقت حضرت عمر ؓکے پاس بھیج دی گئیں۔ خلیفہ دوئم کی آنکھوں سے عبرت کے آنسو نکل آئے، روکر بولے: ’’ابوبکر! خدا تم پر رحم کرے، تم نے زہد کا دامن نہ چھوڑا اور کسی کو نکتہ چینی کا موقع نہ دیا (طبقات ابن سعد ج 3)۔ ’’اور مکان بیچ کر آٹھ ہزار درہم کی وہ رقم جو میں نے دو سال کے دوران بیت المال سے بطور وظیفہ لی ہے وہ بھی واپس کردی جائے‘‘ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات سنی تو فرمایا ’’ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعد میں آنے والوں کو تھکا دیا‘‘۔ (کنزالعمال، ج 2) |
No comments:
Post a Comment