علم الاستشراق کیا ہے؟
| ||||||
مولوی عبدالوحید پشاوری
|
دور آخر میں دنیا کی غالب اور وسیع زبانوں میں اسلام کا تاریخی وثقافتی تعارف ایسے اہل علم کے قلم سے ہوتا رہا جن کونہ اسلام سے تعلق تھا اور نہ مسلمانوں سے اخلاص وحسنِ ظن، بلکہ ان کے ذہنوں میں صدیوں کی وہ نفرت وعداوت بیٹھی ہوئی تھی جو صلیبی جنگوں کا تعارف کرانے والے مسیحی ادب وتاریخ میں پیوست رہی ہے ۔ یہ اہل علم اصطلاحاً مستشرقین کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں اور یہ عام طور پر یہودی اور عیسائی رہے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے یہ غیر مخلص اپنی تحقیقی کاوشوں ، علمی موشگافیوں، تاریخی نکتہ سنجیوں اور تحقیق وطرز بیان میں اپنی ظاہری دیانت داریوں سے اپنے پڑھنے والوں کو خاصی حد اور خاصے وقت تک متاثر کرتے رہے، ان متاثر ہونے والوں میں جدید تعلیم یافتہ طبقہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ انہوں نے مستشرقین کی علمی بحث وتحقیق کو بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھا اور ان کی کتابوں کو اسلام کے تعارف کا معتبرترین ذریعہ او رواحد ماخذ سمجھا، پھر اسی اعتبار سے ان سے استفادہ کیا او ران کو اپنی تحقیق ومطالعہ اور اپنے علمی وفکری نقطہ ہائے نظر کی بنیاد بنایا، جس کی وجہ سے موجودہ تعلیم یافتہ طبقہ کے ذہنوں میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ وتہذیب کے متعلق تشکیک اور بے وقعتی پیدا ہوئی ۔ مغربی تعلیم گاہوں میں تعلیم پانے والے او رمغربی زبانوں میں اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کرنے والے موجودہ عالم اسلام کے رہنما وحکمران طبقہ کے دماغوں میں اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے بدگمانی، بے زاری، مایوسی اور شکوک وشبہات پیدا کرنے میں بہت بڑا حصہ انہیں مستشرقین کا ہے، جنہوں نے اسلامیات کے مطالعے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دی ہیں اوراپنے علمی نتیجہ، تحقیقی انہماک اور مشرقیات سے گہری واقفیت کی بنا پر مغرب ومشرق کے علمی وسیاسی حلقوں میں بڑی عظمت واحترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں اوران مشرقی اسلامی مباحث ومسائل میں ان کی تحقیق ونظریات کو حرف آخر اور قو ل فیصل سمجھا جاتا ہے۔ ان مستشرقین نے ایک طرف اسلام کے دینی افکار واقدار کی تحقیر کا کام کیا اور مسیحی مغرب کے افکار واقدار کی عظمت ثابت کی اور اسلامی تعلیمات واصول کی ایسی تشریح پیش کی کہ اس سے اسلامی اقدار کی کمزوری ثابت ہو اور ایک تعلیم یافتہ مسلمان کا رابطہ اسلام سے کمزور پڑ جائے اور وہ اسلام کے بارے میں متشکک ہو جائے یا کم از کم یہ سمجھنے پر مجبور ہو کہ اسلام موجودہ زندگی کے مزاج کے ساتھ نہیں چل سکتا او راس زمانہ کی ضروریات اور تقاضوں کو پورا کرنے سے عاجز ہے، ایک طرف انہوں نے بدلتی ہوئی زندگی اور تغیر پذیر اور ترقی یافتہ زمانہ کا نام لے کر خدا کے آخری اور ابدی دین اور قانون پر عمل کرنے کو روایت پرستی، رجعت پسندی اور قدامت ودقیانوسیت کا مترادف قرار دیا اور دوسری طرف اس کے بالکل برعکس انہو ں نے ان قدیم ترین تہذیبوں او رزبانوں کے احیا کی دعوت دی، جو اپنی زندگی کی صلاحیت اور ہر طرح کی افادیت کھو کر ماضی کے ملبہ کے نیچے سینکڑوں، ہزاروں برس سے مدفون ہیں اور جن کے احیا کا مقصد مسلمان معاشرے میں انتشار پیدا کرنے، اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرنے، اسلامی تہذیب وعربی زبان کو نقصان پہچانے او رجاہلیت قدیمہ کو زندہ کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس استشراق کی تاریخی بہت پرانی ہے، جو واضح طور پرتیرہویں صدی مسیحی سے شروع ہو جاتی ہے ، اس کے محرکات دینی بھی تھے، سیاسی بھی اور اقتصادی بھی ، لیکن اس کا سب سے بڑا مقصد مذہب عیسوی کی اشاعت وتبلیغ اوراسلام کی ایسی تصویر پیش کرنا ہے کہ مسیحیت کی برتری اور ترجیح خود بخود ثابت ہو او رنئے تعلیم یافتہ اصحاب اور نئی نسل کے لیے مسیحیت میں کشش پیدا ہو ، اسلام کو اپنے اعتراضات کا نشانہ بنا کر مجروح کیا جائے ، اس کی حسین ومعصوم تصویر کو بگاڑا جائے ،ا س کے حقائق میں تحریف ہو ، بھولے بھالے عوام ان کی دینی بزرگی اور قیادت کے آگے سرٹیک دیں، اسلام اس وقت مسیحیت وعیسائیت کا سخت دشمن ہے ، وہ ایسا دین ہے جو نشرواشاعت کا مستحق نہیں، اسلام کے نام لیوا خونریز ڈاکوؤں اور اُچکوّں کی ٹولی ہے جن کا دین انہیں جسمانی عیش کوشی پر آمادہ کرتا ہے ا ورکسی بھی روحانی بلندی سے دور اور بے تعلق ہے۔ اس صورت حال کی اصلاح کے لیے اور مستشرقین کی تخریبی اور تشکیکی اثرات کو روکنے کے لیے ان علمی موضوعات پر خود مسلمان محققین اوراہل نظر قلم اٹھائیں اور مستشرقین کی تمام قابل تعریف خصوصیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے مستند اور صحت مند اسلامی معلومات اور نقطہٴ نظر پیش کریں، دوسری طرف ان مستشرقین کا علمی محاسبہ کیا جائے او ران کی تلبیسات کو بے نقاب کیا جائے ، متن سمجھنے میں ان کی غلط فہمیوں او رترجمہ واخذ مطلب میں ان کی غلط فہمیوں کو واضح کیا جائے او ران کی دعوت وتلقین میں جو بدنیتی، مذہبی اور سیاسی مقاصد شامل ہیں ان کو طشت ازبام کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ یہ اسلام اور ملت اسلامیہ کے خلاف کیسی گہری اور خطرناک سازش ہے۔ |
No comments:
Post a Comment