اسلام کے زیر سایہ دُرست فہم کامل عمل ڈاکٹر عنایت اللہ وانی ندوی
کوئی بھی کلمہ گو اس وقت تک کامل ومکمل مسلمان نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ اس کے دل میں یہ عقیدہ پورے طور پر راسخ نہ ہو کہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے جو زندگی کے تمام گوشوں میں انسان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے اور اس میں کتربیونت اور دین ودنیا کی تقسیم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا کو جو دین یا نظامِ حیات عطا کیا ہے وہ اس طور پر عطا کیا کہ اس میں ہر ہر چیز کے لئے اس کا مناسب مقام اور اس کا موزوں حجم بھی خود ہی متعین کیا ہے جس میں کسی طرح کی کمی بیشی یا افراط وتفریط کی کوئی گنجائش نہیں ہے،اس لئے کہ اسلام مختلف شعبہ ہائے حیات اور متنوع احکام کا مجموعہ ہے ۔اس میں فرائض وواجبات،سنن ومستحبات، مباحات ومکروہات اور محرمات بھی ہیں اور وہ عقیدہ وعبادت،اخلاق ومعاشرت، معیشت وسیاست ،فن وریاضت اور زندگی کے دیگر پہلوؤں پر بھی مشتمل ہے جن میں سے کسی بھی پہلو کو نظر انداز کرنا یا بڑھا چڑھا کر پیش کرنا یا اس کو اس کا صحیح مقام نہ دینا یا اس میں کسی طرح کا بھی افراط وتفریط کرنا جائز نہیں ہے،اس کو ایک مثال کے ذریعہ بآسانی یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی بھی ملک کا نقشہ اس وقت تک مکمل اور قابلِ قبول نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ اس میں مندرجہ ذیل شرائط پوری طرح موجود نہ ہوں:
۱:- ملک کے تمام شہر ودیہات اور تمام مقامات اور سرحدیں اس میں مکمل طور پر موجود ہوں،ان میں ذرہ برابر کوئی کمی بیشی نہ ہو۔
۲:-ہر جگہ اور ہر چیز اس کے صحیح مقام پر موجود ہو۔
۳:-ہر جگہ اور ہر چیز اس کے حقیقی حجم اور صحیح شکل میں ہو۔
جب ملکی نقشہ ان تینوں شرائط پر پورا اترتا ہو اسی صورت میں اس کو صحیح اور قابل قبول نقشہ تصور کیا جا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح اسلام کا بھی مسئلہ ہے جس کا ایک مکمل نقشہ ہے جو ناقابلِ تقسیم ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ہم نے اس ’’الکتاب‘‘ (یعنی: قرآن) میں کوئی چیز چھوڑی نہیں ہے‘‘۔(سورۃ الانعام:۳۸)اس لئے اسلام بھی اسی صورت میں مقبول ، صحیح اور مکمل ہو گا جبکہ اس میں یہ سب شرائط مکمل طور پر موجود ہوں:وہ کامل ومکمل اور زندگی کے تمام گوشوں پر مشتمل ہو،اس کے احکام میں سے ہر حکم اس کے مناسب وصحیح مقام پر ہو جہاں اللہ اور اس کے رسولؐ نے اس کو متعین کیا ہو،اور اس کاہر حکم اس کے اصل حجم اور موزوں شکل میں موجود ہو،اگر اسلام کو اس کے مکمل اور صحیح نقشہ کے ساتھ سمجھا جائے اور مانا جائے تو یہ دین کا صحیح فہم اور اس کا صحیح نفاذ ہے اور یہی اسلام اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی مقبول ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر دین کو صحیح طور پر نہیں سمجھا گیا ہے اور وہ اللہ کے نزدیک بھی ناقابل قبول ہے۔ ایسے لوگوںکے بارے میں قرآن کریم میں بہت سخت وعید سنائی گئی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’بلاشبہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیںاور اللہ اور اس کے رسولوں ؑکے درمیان تفریق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر تو ایمان رکھتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ درمیانی راہ اختیار کریں تو(یاد رکھو کہ)یہی حقیقی کافر ہیں اور ایسے کافروں کے لئے ہم نے رسواکن عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘۔(سورۃ النسائ:۱۵۰۔۱۵۱)
چنانچہ اگر ہم اسلام کے صرف کسی ایک پہلو یا حکم کو اختیار کریں اور اسی پر عمل پیرا رہیں ، پھر اس کو اس کے اصل حجم اور حقیقی شکل سے کہیں زیادہ اہمیت دیں یہ سمجھ کر یہی مکمل اسلام ہے تو اس کو جُزوی اسلام کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے؟!اس صورت میں ہماری مثال اندھوں کی اس جماعت کی سی ہو گی جن کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ ان کو ایک ہاتھی مل گیا،اور جب ان سے کہا گیا کہ ہاتھی کے بارے میں بیان کریں کہ وہ کیسا ہے؟تو ان میں سے ہر ایک نے اس کو اپنے ہاتھ سے چھُو کر دیکھا،کسی کے ہاتھ میں اس کا دانت آیا تو اس نے کہاکہ ہاتھی تو ایک سپاٹ ہڈی کی طرح ہوتا ہے،کسی کا ہاتھ اس کے پیٹ پر پڑا تو اس نے کہا کہ ہاتھی ایک مسطح چیز کی طرح ہوتا ہے،کسی کا ہاتھ اس کی ٹانگ پر پڑا تو اس نے کہا کہ وہ تو ایک نرم ستون کی طرح ہے،غرض یہ کہ ہر ایک نے اسی اعتبار سے بیان کیا جتنا حصہ اس کے ہاتھ لگا اور جیسا اس کو محسوس ہوا۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہاتھی ان سب اعضاء کے مجموعہ کا نام ہے۔ یہی حال بہت سے لوگوں کااسلام کے بارے میں بھی ہے ۔بعض کہتے ہیں کہ اسلام صرف انفرادی زندگی کے لئے ہے،اجتماعی زندگی سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے،بعض کہتے ہیں اسلام صرف عبادت کی حد تک محدود ہے ،معاشرت ومعیشت ، سیاست وتجارت اور انسان کی عمومی زندگی سے اس کا کوئی سروکار نہیں ہے،بعض کا دعویٰ ہے کہ اسلام کا تعلق دل اور اندرون سے ہے ،ظاہر سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔غرض یہ کہ جزوی اسلام کی مختلف شکلیں اور متنوع دعوے!!!!لیکن کیا حقیقت یہی ہے؟کیا قرآنِ کریم اور أسوہ نبویؐ سے یہی تعلیم ملتی ہے؟ کیا نبی کریم صلعم نے زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام کو نافذ کر کے نہیں دکھایا؟ورنہ مکہ سے ہجرت اورترک وطن کی صعوبتیں برداشت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟مشرکین مکہ تو جزوی اسلام یا انفرادی اسلام کے لئے پوری طرح تیار تھے اور لے دے کی پالیسی بارہا اپنانے کی پیش کش بھی کی۔اصل بات یہ ہے کہ نبی کریمصلعم کی مکمل زندگی ایک مسلمان کے لئے مکمل أسوہ نہیں ہے جس میں زندگی کا ہر پہلو شامل ہے۔نبی کرمؐ اور صحابہ کرامؓ سے بہتر کوئی اور اسلام کی صحیح عکاسی کرسکتا ہے؟یہ تو یہود کی صفت تھی(جن کو ہم ہر نماز میں مغضوب علیہم کہہ کر ان سے برأ ت کا اعلان کرتے ہیں) جنہوں نے دین میں تقسیم کر ڈالی تھی اور ان کو سخت طریقہ سے قرآن میں وعید سناتے ہوئے کہا گیا کہ:’’کیا تم کتاب کے ایک حصہ پر تو ایمان رکھتے ہو اور ایک حصہ کا انکار کرتے ہو۔۔۔۔۔‘‘(سورۃ البقرہ: ۸۵)۔ مسلمانوں کو تو صاف اور واضح حکم دیا گیا ہے کہ: ’’اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ‘‘۔(البقرۃ؛۲۰۸)اسی کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ حسن البنا شہیدؒ نے فرمایا ہے کہ’’:ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اسلام کے جملہ احکام اور اس کی تعلیمات کامل ومکمل ہیں جو لوگوں کے دنیا وآخرت کے تمام امور کو منظم کرتی ہیں۔چنانچہ اسلام عقیدہ وعبادت بھی ہے اور وطن وشہریت بھی،نظام اور حکومت بھی اور روحانیت وعمل بھی اور مصحف وقوت بھی۔۔۔۔۔‘‘۔
نبی کریمؐ نے جو دین امت کو دیا ہے وہ ایک مکمل نظام حیات ہے اور صرف وہی دین تمام انسانیت کے لئے نجات کا ذریعہ ہے۔احادیث وسیرت میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جب کسی نے کسی غیر ضروری عمل میں مبالغہ کیا یا اس کو وہ اہمیت دی جو اس کو نہیں دینی چاہئے تھی تو نبی کریم ؐسخت ناراض ہوئے اور سختی کے ساتھ اس عمل سے روکا۔لہٰذا کسی ایک ہی جز پر پورا فوکس کرنا یا اسی کو پورا دین سمجھ لینا یا اپنی طرف سے دین میں کوئی چیز داخل کرناایک خطرناک جرم اور دین کے بارے میں ناقص فہم کا نتیجہ ہے ۔ یہ طرز عمل اسلام کے ساتھ ناانصافی ہے جس کوترک کئے بغیر نجات کا کوئی راستہ مل سکتا نہیں ہے۔
ہم سب انفرادی سطح پر،اجتماعی سطح پر،جماعتوں اور تحریکوں کی سطح پراس بات کا جائزہ لیں کہ کس کے پاس اسلام کا مکمل نقشہ ہے اور کامل اسوۂ حسنہ ہے ۔دین ہم سے یہی مطالبہ کرتا ہے کہ اس کو پہلے صحیح طور پر مکمل شکل میں سمجھا جائے اور پھر پوری طرح اس پر عمل کیا جائے۔ایک مسلمان کے سامنے اسلام کا مکمل نقشہ ہو جس میں ہر چیز کو اس کے حقیقی حجم کے ساتھ اس کا صحیح مقام دیا گیا ہواور یہی اسلام کا مکمل نقشہ ہے جس میں کمی وبیشی کی کوئی گنجائش نہیں ہے،اور اسی کے بارے میں حجۃ الوداع کے موقعہ پر تکمیل دین کا اعلان کرتے ہوئے نبی آخرالزماںؐ کی لسانِ حق بیان نے فرمایا کہ:’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر لیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کیا‘‘۔سورۃ المائدۃ:۳
Email: enayatwani@gmail.com
|
Search This Blog
Friday, 25 May 2012
اسلام کے زیر سایہ دُرست فہم کامل عمل
Labels:
RELIGION
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment