روزے کے لیے متعین و مخصوص موسم نہ ہونے کے
فوائد
ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم (پیرس)
یہودی،
عیسائی اور ہندو یا تو خالص شمسی حساب کرتے ہیں یا قمری سال میں وقت بہ وقت کبیسہ (Intercalation) کر کے ایک مہینہ کا اضافہ کرتے ہیں تاکہ قمری
سال کی مدت بھی اتنی ہی طویل ہوا کرے جتنی شمسی سال کی ہے اس لحاظ سے ان کے روزے ہمیشہ
ایک ہی موسم میں آتے ہیں ۔ مسلمان قمری حساب کا حساب کرتے ہیں ان کی جنتری چاند کے
مہینوں کے لحاظ سے ہوتی ہے جس میں کبیسہ(Intercalation) نہیں کیا جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روزہ
رکھنے کا مہینہ رمضان بتدریج باری باری سال کے ہر موسم میں آتا ہے ۔
قمری
سال کے مہینوں سے حساب کرنا بہتر ہے یا شمسی سال کے مہینوں سے ؟ جس کرۂ ارض پر ہم
بستے ہیں اس کا موسم ہر جگہ یکساں نہیں ہے لوگ ہر موسم کی شدت سے تکلیف محسوس کرتے
ہیں ۔ خواہ گرمی کی شدت ہویا سردی کی۔ اس طرح کسی علاقہ کی گرمی اور سردی کے موسم محض
اضافی امر ہیں ۔ مثلاً جاڑ ے کا موسم مکہ میں بڑ ا خوشگوار ہوتا ہے اور وہ قطبوں کے
قریب (کناڈا، شمالی یورپ میں ) ایسا نہیں ہوتا۔ گرما قطب شمالی اور جنوبی کے قریب بہترین
موسم ہے لیکن خط استواء کے پاس اور ریتلے صحرا میں ایسا نہیں ہے ۔ موسم بہار ہرجگہ
ایک معتدل موسم ہو سکتا ہے ، لیکن خطِ استواء کے قریب بہت سے ملکوں میں (مثلاً جنوبی
ہندوستان میں )موسم بہار ہوتاہی نہیں ، یہاں کے لوگ موسمِ بہار جانتے ہی نہیں ۔ اور
ان ملکوں میں صرف تین موسم ہوتے ہیں ۔ سردی، گرمی اور بارش۔ ایک ایسے مذہب کیلئے جو
تمام دنیا میں پھیلا ہوا ہے ، اگر ہم روزہ رکھنے کیلئے کوئی خاص زمانہ مقرر کر دیں
تو بعض لوگوں کیلئے مدامی طور پر آسانی ہو گی اور بعض لوگوں کیلئے مدامی سختی اورتکلیف
یا کسی اور طرح زمین کے بعض علاقوں کے باشندوں کیلئے سہولت بخش نہ ہو گا لیکن اگر روزہ
رکھنے کے زمانے میں موسم باقاعدگی کے ساتھ بدلتے رہیں تو آسانی اور سختی باری باری
سے آتے رہیں گے اور کوئی شخص روزہ کا قانون بنانے والے پر خفا نہ ہو گا۔ ا سکے علاوہ
روزہ رکھنے کیلئے موسموں کی اس تبدیلی کا یہ مطلب بھی ہے کہ لوگ ہر قسم کے موسم میں
روزہ رکھنے کے عادی ہوجائیں اور یہ عادت کاٹ کھانے والے جاڑ ے میں اور جھلسانے والے
گرما میں کھانے اور پینے سے رک جانے کی یہ قابلیت ، مومن کو صبر کرنے کی قوت عطا کرتی
ہے مثلاً جنگ کے محاصرہ کے وقت ، غذا اور غلہ کے تاجروں اور آب رسانی کے عملے کی ہڑ
تال کے وقت جبکہ کھانا ، پانی مشکل سے ملتا ہے یا ملتا ہی نہیں ۔
(اقتباس: روزہ کیوں؟ از
ڈاکٹر حمیداللہ)
No comments:
Post a Comment