Search This Blog

Thursday 8 June 2017

سحری اور افطار کا مسنون وقت



سحری اور افطار کا مسنون وقت
از:   محمد اسلم غازی

                وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِص ثُمَّ اَتِمُّواالصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ج ..... (البقرہ : 187)  ترجمہ: اور راتوں کو کھائو پیو یہاں تک کہ تم کو رات کی سیاہ دھاری سے صبح کی سفید دھاری نمایاں نظر آجائے۔ پھر رات ہونے تک اپنا روزہ پورا کرو۔
                روزہ انسان میں صبر اور تقویٰ پیدا کرتا ہے۔ صبر کا مفہوم ثابت قدمی ہے۔ یعنی روزہ اللہ کی اطاعت میں ثابت قدمی پیدا کرتا ہے۔ تقویٰ کا مفہوم اللہ کا ڈر ہے یعنی روزہ اللہ کا ڈر پیدا کرتا ہے۔ روزہ صبح صادق کے وقت سحری کرنے سے شروع اور غروب آفتاب کے و قت افطار پر ختم ہوتا ہے۔ سحری اور افطار کے آداب ملحوظ رکھنا روزہ دار کے لیے ضروری ہے۔ فی زمانہ سحری اور افطار کے بہت سے آداب کا لحاظ کیا جاتا ہے لیکن ختم سحری اور افطار کے اوقات  میں بڑی شدت برتی جاتی ہے۔ اس مضمون کے ذریعے سحری اور افطار کے مسنون اوقات کی نشان دہی اور ان میں برتی جانے والی شدت کا ازالہ مقصود ہے۔
 
                اوقات سحری و افطار کے خوشنما و دیدہ زیب رنگین کارڈ رمضان المبارک کی آمد سے ہفتہ بھر قبل سے ہی مساجد کے باہر تقسیم ہونے لگتے ہیں۔ ہر چھوٹا بڑا انتہائی شوق سے یہ کارڈ حاصل کرتا ہے تاکہ رمضان میں اُسے اوقات سحری و افطار کی معلومات بسہولت ملتی رہے۔ ان کارڈوں پر احتیاطاً سحری کا وقت صبح صادق کے آغاز سے 10منٹ قبل اور افطار کا وقت غروب آفتاب سے 5منٹ بعد درج کیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر صبح صادق  04:55 پر ہے تو ختم سحری 04:45 درج ہوگا اور غروب آفتاب 07:13پر ہے تو وقت افطار 07:18 درج ہوگا۔ محلے کی مساجد میں صبح صادق ہونے سے نصف گھنٹہ قبل سے ہی لائوڈ اسپیکر پر اعلان شروع کردیے جاتے ہیں کہ سحری کا وقت ختم ہونے والا ہے۔ بعض جگہ تو صبح صادق سے دس منٹ قبل ہی ختم سحری کا اعلان بذریعہ اذان کیا جاتا ہے جو جہالت اور دین سے عدم واقفیت کا ثبوت ہے کیونکہ صبح صادق سے قبل اذان فجر دینا غلط ہے۔ اس اذان کو سن کر کوئی نماز فجر پڑھ لے تو وہ ادا ہی نہیں ہوگی۔ صبح صادق ہونے کے بعد ہی نماز فجرپڑھی جانی چا ہیے۔ ختم سحری سے قبل مساجد کے لائوڈ اسپیکروں سے بار بار تیز آواز میں توجہ دہانی کرانا مناسب طریقہ نہیں ہے۔ اس سے بچنا چاہیے کیونکہ دیگر خلق خدا کو خواہ مخواہ پریشانی ہوتی ہے۔ اسی طرح اکثر مساجد میں مؤذن حضرات مغرب کی اذان کارڈ پر مطبوعہ وقت سے بھی دو تین منٹ بعد دیتے ہیں۔ گویا اصل غروب آفتاب کے 78منٹ بعد افطار کیا جاتا ہے جوغلط ہے۔
 
                قرآن کے مطابق رات کی سیاہ دھاری سے صبح کی سفید دھاری نمایاں نظر آنے کو صبح صادق کہا جاتا ہے۔ آسمان میں صبح صادق کے آثار اچانک نہیں بلکہ دھیرے دھیرے نمودار ہوتے ہیں جس میں چند منٹ لگتے ہیں۔ قرآن کے الفاظ ''صبح کی سفید دھاری نمایاں ہونا'' اس پر دلالت کرتے ہیں کہ سحری بلا جھجک صبح صادق تک کھائی جاسکتی ہے۔ حضور اور صحابہ کا طرز عمل بھی یہی تھا جس کے ثبوت میں چند احادیث پیش کی جارہی ہیں  :
(1)         حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ نبی نے فرمایا ''جب تم میں سے کوئی اذان کی آواز سنے اور اس وقت برتن بھی اس کے ہاتھ میں ہو تو وہ اس برتن کو اپنے ہاتھ سے نہ رکھے جب تک کہ اپنی حاجت اس سے پوری نہ کرلے۔'' (ابودائود۔ حوالہ تفہیم الاحادیث۔ جلد4صفحہ 82(
(2)         رسول اللہ نے فرمایا ''کھائو پیو، بلند ہونے اور اوپر اٹھنے والی دھاری تمہیں پریشان و مضطرب نہ کرے۔ جب تک سرخ پھیلی ہوئی دھاری نمودار نہ ہو اس وقت تک کھائو پیو۔'' (ابودائود، ترمذی، حوالہ: ایضاً صفحہ 84 ،97(
                اہل علم حضرات کا تعامل یہی ہے کہ روزہ دار پر اس وقت تک کھانا حرام نہیں ہوتا جب تک کہ سرخ دھاری افق پر نہ پھیل جائے(حوالہ: ایضاًصفحہ84)
                امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق سحری تاخیر سے کھانے کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ (حوالہ: ایضاً صفحہ84)

 اسی طرح افطار میں عجلت کرنا پسندیدہ عمل ہے۔ دلیل کے طور پر چند حدیثیں پیش ہیں:
(1)         حضرت سہل سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ''لوگ بھلائی پر رہیں گے جب تک افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے۔'' (متفق علیہ، حوالہ ایضاً صفحہ75)
(2)         حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ مجھے اپنے بندوں میں سے سب سے زیادہ پسند وہ ہیں جو افطار میں جلدی کرنے والے ہیں۔'' (ترمذی۔ حوالہ ایضاً صفحہ84)
(3)         حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ''یہ دین نمایاں اور غالب رہے گا جب تک کہ لوگ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے کیونکہ یہود اور نصاریٰ افطار کرنے میں تاخیر کرتے ہیں۔'' (ابودائود، ابن ماجہ۔ حوالہ ایضاً صفحہ89)

سحری میں تاخیر اور افطار میں عجلت پسندیدہ عمل اس لیے قرار دیے گئے ہیں کہ مسلمان اللہ کے حکم کی اطاعت ٹھیک اسی طرح کرتا ہے جس طرح ایک فوجی اپنے کمانڈر کے Caution کاشن پر فوراً عمل کرتا، اُس کے حکم کی تعمیل میں ثابت قدمی دکھاتا اور اس کی حکم عدولی سے ڈرتا ہے۔ اگر فوجی کمانڈر کے بتائے ہوئے وقت سے پہلے ہی کام بند کردے یا حکم ملنے کے سات آٹھ منٹ بعد اس پر عمل کرے تو کیا ایسا فوجی کمانڈر کے عتاب سے بچ سکتا ہے؟ ایک فوجی کی طرح مسلمان بھی یہ نہیں کرسکتا کہ اللہ نے تو فرمایا کہ صبح صادق تک اور غروب آفتاب کے فوراً بعد کھائو پیو مگر وہ صبح صادق نمایاں ہونے سے پندرہ منٹ پہلے اور غروب آفتاب کے 8منٹ بعد تک کھانے پینے سے رکے رہنے کو زیادہ محتاط اور قرین حکمت و مصلحت سمجھے۔ نعوذباللہ کیا یہ خدا سے زیادہ حکیم بننا نہیں ہے؟ کیا یہ خدا کی حکم عدولی اور اس سے بے خوفی نہیں ہے؟

                سائنس کی مدد سے انسان کو صبح صادق، طلوع اور غروب آفتاب کے اوقات ٹھیک ٹھیک معلوم ہوگئے ہیں جن میں سیکنڈ بھر کی غلطی کا امکان بھی نہیں ہے۔ یہ دراصل سائنس کا نہیں بلکہ اللہ کی قدرت کا کمال ہے جس نے اپنی کائنات میں سورج، چاند اور ستاروں کی گردش کا ایک انتہائی چست نظام ترتیب دے رکھا ہے۔ اللہ نے اپنے فضل سے اس کا علم انسانوں کو عطا کردیا ہے لیکن بعض لوگ خدا کے اس نظام پر بھروسہ نہیں کرتے۔ بعض ایسے بھی ہیں جو عذر پیش کرتے ہیں کہ گھڑیاں درست نہیں ہوتیں اس لیے افطار میں تاخیر کرنا چاہیے۔ یہ مفروضہ بالکل غلط ہے کہ تمام مسلمانوں کی گھڑیاں غلط وقت بتاتی ہیں۔ تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ دنیا کے کام کرنے کے لیے تو لوگ اپنی گھڑیاں درست اور صحیح وقت پر کرتے ہیں لیکن دینی حکم پر عمل کرنے کے لیے بجائے گھڑی ٹھیک کرنے کے افطار کے وقت میں ہی من مانی تاخیر کی جارہی ہے۔ اگر کسی کو اپنی گھڑی کے بارے میں شک ہو کہ آگے یا پیچھے ہے تو اُسے دوسروں سے صحیح وقت معلوم کرکے ٹھیک وقت پر افطار کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کا یہ رویہ قطعاً درست نہیں ہے کہ غروب کا وقت یقینی طور پر معلوم ہے اور اکثر مسلمانوں کی گھڑیاں بھی صحیح وقت بتا رہی ہیں اس کے باوجود وقت غروب کے 78 منٹ بعد افطار کریں۔ البتہ کوئی مسلمان ایسی جگہ رہتا ہو جہاں وقت طلوع و غروب کا تعین ممکن نہ ہو، نہ اُس کے پاس کوئی ٹائم ٹیبل ہو، نہ گھڑی ہو تو وہ آسمان کے آثار یعنی روشنی اور سیاہی کو اپنا رہنما بنا کر سحری اور افطار کرے۔


No comments:

Post a Comment