Search This Blog

Wednesday 12 September 2012

TAKHLEEQ KA BEMISAL SHAHKAR - DIMAGH (BRAIN)

تخلیق کا بے مثال شاہکار دماغ



دماغ انسان کی تخلیقی قوتوں کا مرکز اور غورو تفکر کا مقام ہے۔ اسی دماغ کی ہمت سے انسان اللہ کے سر بستہ رازوں تک پہنچ سکتا ہے اور اس دماغ کی قوتوں کو اگر انسان اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں اور توفیق کے مطابق ، اللہ ہی کے لیے اللہ کے قریب پہنچنے کی خاطر استعمال کرے تو یہ اس کا بے پناہ مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ اللہ سے محبت قلب سے کی جاتی ہے اور اس کے بارے میں غور و تفکر دماغ سے کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’انسان میرا راز ہے اور میں انسان کا راز ہوں۔‘‘ اور اس راز کو دماغ کے صحیح استعمال سے ہی پایا جا سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں انسانوں کو اپنی نشانیوں پر غور کرنے کی بار بار دعوت دیتا ہے کیونکہ یہ نشانیاں اسے اللہ کی پہچان حاصل کرنے اور اللہ کے راز تک پہنچنے میں مدد کرتی ہیں۔ ’غور‘ کی دعوت ثابت کرتی ہے کہ دماغ لازماً اللہ کی پہچان حاصل کرنے اور اللہ کے راز تک پہنچنے میں مدد گارثابت ہو سکتا ہے کیونکہ غور کرنا، سوچنا سمجھنا اسی کاکام ہے۔
 دماغی انسانی جسم کے کل وزن کا صرف دو فیصد ہوتا ہے لیکن جسم کی پوری قوت کا بیس فیصد حصہ اسی کے مصرف میں ہوتا ہے۔دماغ جاندارکے اندرونی ماحول میں یکسانیت پیدا کرتا ہے اور اسے بیرونی ماحول سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ دماغ ہی ایک جاندار میں ؛ استدلال ، فراست و بصارت اور ذکاء یعنی intelligence کا منبع ہے۔
دماغ اپنے افعال کا ایک بڑا حصہ خودکار طور پر اور بلا جاندار کی شعوری آگاہی کہ انجام دیتا رہتا ہے ،  مثال کے طور پر حسی نظام کے افعال جیسے ، حسی راہ کاری ( sensory gating ) اور متعدد حسی اتحاد (multisensory integration) ، چلنا اور دیگر کئی استنباتی افعال مثلا سرعت قلب، فشار خون، سیالی توازن اور جسمانی درجہ حرارت وغیرہ۔ یہ وہ چند افعال ہیں جو دماغ جاندار کو احساس ہوئے بغیر انجام دیتا رہتا ہے۔
ان افعال سمیت کئی دیگر افعال ، دماغ اور حرام مغز (spinal chord)کی ہم اہنگ فعالیت کے ذریعہ کنٹرول کئے جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ جانداروں کے کئی سادہ روی (behaviors) مثلاreflexes اور بنیادی حرکات وغیرہ ایسے بھی ہیں جو کہ صرف حرام مغز کی سطح پر ہی نبٹا دی جاتے ہیں اور ان کے لئے عام طور پر دماغ کو مداخلت نہیں کرنا پڑتی۔
ہمارا دماغ مختلف اقسام کے خلیات سے مل کر بنتا ہے، ان خلیات میں سے کچھ تو اصل کام کرنے والے خلیات ہوتے ہیں جن کو عصبون(neurons) کہا جاتا ہے جبکہ کچھ خلیات ان اصل کام کرنے والے خلیات یعنی عصبون کو سہارا اور امداد فراھم کرنے والے خلیات ہوتے ہیں؛ ان امدادی خلیات کو سریشہ (glial cells )کہا جاتا ہے۔
دماغ کا تار نما خلیہ ،جسے عصبون کہا جاتا ہے،کا میں ایک جسم (Soma)ہوتا ہے اور اس جسم سے ایک تار یا دھاگے نما لمبا سا حصہ دم(axon) کی صورت نکلتا ہے جو اس شکل میں سیدھی جانب بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔دماغ کے عصبون خلیات ایسے ہی معلومات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں کہ جیسے بجلی کے تار بجلی کو منتقل کرتے ہیں۔
تار نما عصبون خلیات کا تانا بانا دماغ میں ایک نہایت ہی نازک اور بہت ہی اعلیٰ تنظیم کے ساتھ یوں بنا گیا ہے جیسے کوئی مہنگا قالین دھاگوں کے تانوں بانوں سے بن دیا جاتا ہے۔ یہ تار نما خلیات اپنے اپنے مخصوص راستے رکھتے ہیں اور اپنے اندر سفر کرنے والی معلومات و خیالات کو بالکل درست اور صحیح صحیح مقام تک پہنچا دیتے ہیں۔
دماغ دراصل مرکزی عصبی نظام کا ایک ایسا حصہ ہے جس میں عصبی نظام کے تمام اعلی مراکز پائے جاتے ہیں۔ اکثر جانداروں میں دماغ سر میں موجود ایک ہڈی کے صندوق میں محفوظ ہوتا ہے جسے کاسہ سر یا کھوپڑی کہتے ہیں اور چار بنیادی حسیں (بصارت، سماعت، زائقہ اور سونگھنا) اسکے بالکل قرب و جوار میں ملتی ہیں۔ فقاریہ (vertebrates)جانداروں (مثلا انسان) کے عصبی نظام میں تو دماغ پایاجاتا ہے مگر غیرفقاریہ (in vertebrates)جانداروں میں عصبی نظام دراصل عصبی عقدوں یا یوں کہہ لیں کہ عصبی خلیات کی چھوٹی چھوٹی گرہوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ دماغ ایک انتہائی پیچیدہ عضو ہے، اس بات کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دماغ میں تقریبا 100 ارب ( ایک کھرب) خلیات پائے جاتے ہیں۔ اور پھر ان 100 ارب خلیات میں سے بھی ہر ایک ، عصبی تاروں یا ریشوں کے ذریعے تقریبا 10000 دیگر خلیات کے ساتھ رابطے بناتا ہے۔
بنیادی طور پر جانداروں کی اکثر انواع کے دماغ (بشمول انسان) کو اگر کاٹ کر دیکھا جائے تو یہ اپنی ساخت میں دو الگ رنگوں میں نظر آنے والے حصوں کا مظاہرہ کرتا ہے، ایک حصہ تو وہ ہوتا ہے جو کہ عام طور پر بیرونی جانب  پایا جاتا ہے اور خاکی مادے (gray matter) پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ دوسرا حصہ وہ ہوتا ہے جو کہ اندر کی جانب ہوتا ہے اور سفید رنگت کا نظر آتا ہے اسے سفید مادہ (white matter) کہتے ہیں۔خاکی مادے میں دراصل، عصبونات کے جسم (soma) پائے جاتے ہیں جبکہ سفید مادے میں عصبونات سے نکلنے والے تار نما ریشے یعنی محوار (axon) پائے جاتے ہیں۔ چونکہ محواروں پر چربی کی بنی ہوئی ایک عزلی(insulating) تہہ چڑھی ہوئی ہوتی ہے جسکو میالین (myalin) کہتے ہیں اور اسی چربی کی تہہ کی وجہ سے سفید مادہ ، سفید رنگ کا نظر آتا ہے۔
دماغ سے نکلنے والے اعصاب کو دماغی اعصاب کہا جاتا ہے، جو کہ سر اور ملحقہ علاقوں کا دماغ سے رابطہ کرنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ جبکہ دماغ کے نچلے حصے سے ایک دم نما جسم منسلک ہوتا ہے جو ریڑھ کی ہڈی میں اتر جاتا ہے اسکو حرام مغز کہتے ہیں، حرام مغز سے نکلنے والے اعصاب کو نخاعی اعصاب کہا جاتا ہے اور یہ تمام جسم کو اعصابی نظام سے منسلک کرتے ہیں۔
وہ اعصابی ریشے جو کہ مرکزی عصبی نظام یعنی دماغ اور حرام مغز سے پیغامات کو جسم کے دوسرے حصوں تک پہنچاتے ہیں انکو صادر (efferent) کہا جاتا ہے اور وہ جو کہ جسم کے مختلف حصوں سے اطلاعات اور حصوں کو دماغ اور حرام مغز میں لے کر آتے ہیں یا وارد ہوتے ہیں انکو وارد (afferent) کہا جاتا ہے۔ کوئی عصب ؛ وارد بھی ہوسکتا ہے ، صادر بھی اور یا پھر مرکب بھی۔
سائنسدانوں کی انسانی دماغ کی ہیئت اور کام کرنے کے طریقے پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ انسان کا دماغ دو حصوں پر مشتمل ہے‘ بایاں حصہHemisphere Left-اور دایاں حصہHemisphere Right۔بالکل سننے، سونگھنے اور دیکھنے کے اعضاء کی طرح۔ جس طرح دونوں آنکھیں ، دونوں کان، دونوں ہاتھ یا ٹانگیں، آپس میں مل جل کر بھی کام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی قوت میں اضافے کا باعث بننے کے علاوہ اپنے اپنے حصے کا کام علیحدہ علیحدہ بھی سر انجام دیتے ہیں اسی طرح دما غ کے دونوں حصوں کے علیحدہ علیحدہ کام ہیں لیکن یہ ایک دوسرے کے مدد گار بھی ہیں۔دماغ کے بائیں حصے کا تعلق ہماری باہر کی دنیا سے ہے اور دائیں کا تعلق اند رکی دنیا سے۔ بائیں حصے کی مدد سے ہم چیزوں کو دیکھتے ، گنتے، حساب کرتے، چیزوں کی ہیئت کے متعلق اندازہ لگاتے ہیں، یہ حصہ ہمیں روز مرہ کے کاموں ، اْٹھنے بیٹھنے، بات چیت کرنے، کھانے، دفتری کام یا خرید و فروخت وغیرہ میں مدد دیتا ہے۔ اسی حصے میں ہمارے روزمرہ معمول کے احساسات جن کا تعلق ظاہری دنیا سے ہے مثلاً خوشی ،غم، غصہ، پسند و ناپسند محبت، نفرت وغیرہ بھی پیدا ہوتے ہیں۔ جبکہ دائیں حصے کا تعلق ہماری باطنی قوتوں سے ہے۔ مثلاً تخلیق کی قوت جیسے مصوری، شاعر ی،ادب، حقیقی عشق کی قوت ، جس کے تحت انسان بڑے بڑے مصائب سے ٹکرانے کا حوصلہ پاسکتا ہے، وجدان کی قوت جس کے ذریعے باطنی اسرار تک رسائی حاصل کر سکتا ہے وغیرہ۔انسانوں کی کثیر تعداد صرف بائیں حصے کی حکمرانی میں زندگی گزار دیتی ہے اور قوتوں سے مالا مال دائیں حصے کی طرف کبھی توجہ ہی نہیں دیتی۔ روزمرہ مشینی زندگی میں اس طرح الجھے رہتے ہیں کہ تخلیق یا خالق کی طرف دھیان ہی نہیں جانے پاتا یہاں تک کہ عبادت کے دوران بھی بائیں حصے کے تحت رہتے ہیں، روبوٹ کی طرح اس کے اشاروں پر اٹھتے بیٹھتے ،رکوع اور قیام و سجدہ کرتے ہیں اور دائیں حصے کو استعمال نہ کرکے اپنے اندر موجود اپنے خالق ومالک سے کوئی تعلق نہیں جوڑتے۔ اگر غور کیا جائے تو سمجھ یہ ہی آتا ہے کہ اللہ نے انسان کے دماغ کے دوحصے اس لیے بنائے تھے کہ بائیں کے ذریعے باہر کی دنیا کے کام احسن طریقے سے سر انجام دئیے جاسکیں اور دائیں کے ذریعے اپنے اللہ سے تعلق جوڑ لیا جائے اور اس کی تمام مخلوق بشمول اپنی یعنی انسان کی حقیقت کو سمجھ پائیں۔ 
courtesy: Kashmiruzma

No comments:

Post a Comment