حب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اہمیت اور تقاضے
مولانا محمد مجیب الدین قاسمی
ایک مسلمان اور مومن کے لیے اپنی ذات کی معرفت و محبت اتنی ضروری نہیں جتنی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے محبت ومعرفت ضروری ہے، کیونکہ آنحضرتؐ سے محبت جزوایمان ہے اور حب نبوی کے بغیر دعوئی ایمان بھی معتبر نہیں ہوسکتا۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں ایمان باللہ کے ساتھ ایمان بالر سالت کو تکمیل ایمان کی شرط کے طور پر بیان فرمایا گیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور (قرآن) پر جو ہم نے نازل کیا‘‘ (التغابن:۸) دوسری آیت میں ارشاد ہے: ’’(اے لوگو!) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے لائو اور اس (کے دین) کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو۔‘‘ (الفتح:۹) ان آیات سے جہاں ایمان بالرسول کی اہمیت واضح ہوتی ہے وہیں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ آپؐ سے تعلق ومحبت کے بغیر دولت ایمان کا حصول بے بنیاد ہے، اس لیے ایمان بالرسالت کا تقاضا ہے کہ محب اپنے محبوب کے ہر حکم کے آگے اپنی جبین عقیدت کو اس طرح خم کردے کہ عقل وخرد اور فکر وفلسفہ کا اس میں کوئی عمل دخل نہ ہو۔ حب نبوی ایمان کی بنیاد بھی ہے اور اس کی معراج کمال بھی، اس لیے اللہ تعالیٰ پر صحیح ایمان کا معیار یہی ہے کہ سرور دو عالمؐ کے ہر قول وعمل کو بلاچون وچرا اسی طرح مان لیا جائے جس طرح آپ نے فرمایا یا عملی نمونہ پیش فرمایا، نیز آپ سے ایسی محبت کی جائے جو طبعاً، شرعاً اور عقلاً مطلوب وپسندیدہ ہو۔
محبت کی حقیقت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے معنی اور اس کی حقیقت کے سلسلے میں اہل علم حضرات نے مختلف باتیں ارشاد فرمائی ہیں، جن کی حقیقت تقریباً ایک ہی ہے۔
(۱) حضرت سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں کہ اتباعِ رسول کا نام محبت ہے۔ (۲) بعض نے کہا کہ جب نبوی امتی کے اس اعتقاد کو کہتے ہیں جس کے تحت وہ اجرائے سنت کا عادی ہو جائے، ہر شعبۂ زندگی میں سنت کی پیروی کرنے لگے اور مخالفتِ سنت سے خوف زدہ رہے۔ (۳) کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ ذکر محبوب کے دوام کا نام محبت ہے، یعنی ہر دم آپ کی سنت پر عمل پیرا رہے اور بکثرت آپ پر درودِ شریف بھیجتا رہے (۴) بعض کا ماننا ہے کہ محبوب پر جاں نثاری محبت کا دوسرا نام ہے۔ (۵) بعض حضرات کا خیال ہے کہ محبت محبوب کے شوق کو کہتے ہیں، یعنی جس محبت کے ذریعے محبوب کا قرب اور وصال نصیب ہو وہ حقیقی محبت ہے۔ (۶) چند اہل محبت نے فرمایا کہ دل کو رب کی مرضی پر چھوڑ دینا یعنی جو بات محبوب کو ناپسند ہو وہ بھی اس کو ناپسند سمجھے (۷) بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ موافقت کی جہت پر دل کے میلان کا نام محبت ہے۔
(بحوالہ عشق رسولؐ :۶۳)
مذکورہ بالا معانئی محبت میں جو بات قدرے مشترک ہے وہ یہ کہ دل اس طرف مائل ہو جو فطرت انسانی کے مطابق ہو اور قلب کو اس کے ادراک سے لذت حاصل ہو۔
اسباب محبت
عموماً محبت کی بنیاد چار چیزیں ہوا کرتی ہیں (۱) جمال (۲) کمال (۳) نوال (احسان) (۴) قرابت، کبھی کسی کے جمال جہاں آراء حسنِ اور خوبصورتی کی بناء پر اس سے محبت ہوجاتی ہے جیسا کہ حسن یوسف پر زلیخا اور مصر کی عورتیں عاشق ہوگئی تھیں اور انسان تو انسان بعض حیوان بھی جمال پر عاشق ہوجاتے ہیں، اور پروانے شمع کی روشنی پر عاشق ہیں، حتیٰ کہ جان دے دیتے ہیں، مگر اف تک نہیں کرتے۔
کبھی کسی میں کمال وقابلیت ہو تو اس سے محبت ہوجاتی ہے۔ کبھی کسی کے احسان کرنے کی وجہ سے اس سے محبت ہوجاتی ہے، احسان ایک ایسی چیز ہے جس کی بناء پر انسان ہی نہیں بلکہ موذی جانور بھی اپنے محسن کے تابع ہو جایا کرتے ہیں، ان کے علاوہ قرابت ورشتہ داری کی وجہ سے محبت ہونا ایک بدیہی بات ہے۔ الحاصل ان چاروں اسباب میں سے کوئی ایک سبب بھی موجود ہو تو محبت کے لیے کافی ہے۔ مذکورہ بالا اسباب وعلل کی روشنی میں ذاتِ نبویؐ کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ آپؐ کی ذات گرامی ان تمام صفات وکیفیات کی جامع ہے، کیونکہ آپ میں یہ چیزیں علی وجہ الاتم والا کمل موجود تھیں جو مو جب محبت ہیں۔ خالق کائنات نے آپ کو اجمل الخلائق پیدا کیا، ہر قسم کے مکارم سے مزین کیا، ظاہری حسن وجمال اور حسن اخلاقی کے علاوہ باطنی خصوصیات وکمالات کا سرچشمہ بنایا، چنانچہ شمائل کی کتابوں میں آپ کے حسن وجمال کے متعلق بیشمار احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ساری کائنات میں آپ کو جو حسن وجمال اور ملاحت عطا کی گئی وہ کسی اور کو حاصل نہ ہوئی۔
محسن انسانیتؐ کے احسانات امتِ مسلمہ پر اس قدر ہیں کہ ان کو کسی عدد محصور میں بیان ہی نہیں کیا جاسکتا، انسانیت کی ہدایت ورہنمائی کے لیے آپ نے کیا کچھ نہیں فرمایا، آپ مومنین کے حق میں رئوف ورحیم بلکہ رحمتہ للعالمین ہیں بشیر اور نذیر ہیں، آپ ہی کی وجہ سے یہ امت خیرامت کہلائی، آپ ہی کے ذریعے سے کتاب وحکمت کی تعلیم چار دانگ عالم میں عام ہوئی، امت کے افراد کا تزکیہ ہوا، جوامت اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے جہنم کے کنارے پہنچ چکی تھی فلاح وکامرانی کی شاہراہ پر گامزن ہوئی، اس امت پر یہ تمام انعامات صرف آپ ہی کے احسانات کے بدلے مقدر ہوئے۔ آپؐ کی قرابت ہر مسلمان سے ہے بلکہ آپ کی قرابت دوسروں کی قرابت سے اقویٰ ہے، کیونکہ دنیوی قرابتیں جسمانی اور فانی ہوا کرتی ہیں اور آپ کی قرابت روحانی اور باقی ہے، آپ نے فرمایا کہ کوئی مومن ایسا نہیں جس کے لیے میں دنیا وآخرت میں سارے انسانوں سے زیادہ اولیٰ اور اقرب نہ ہوں۔ (بخاری ۲/۷۰۵) اسی مضمون کو قرآن پاک کی یہ آیات بھی واضح کرتی ہے: ’’مومنوں کے لیے نبی ان کی جانوں سے بھی زیادہ عزیز ہے۔‘‘ (الاحزاب: ۶) ایک حدیث میں ہے کہ آپ امت کے حق میں بمنزلۂ شفیق مہربان باپ کے ہیں، جب آپ کی ذات میں تمام خصائل جمیلہ وجمیع اسباب محبت موجود ہیں تو آپ کی ذات کیونکر محبت کے لائق نہ ہوگی۔
محبت کی اہمیت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ تکمیل ایمان اس پر موقوف ہے کہ آپ کی محبت سب محبتوں پر غالب ہو یعنی تمام دنیوی تعلقات پر اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو مقدم رکھا جائے، کیونکہ ایک مومن کے لیے یہی سب سے بڑا سرمایۂ افتخار ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہے: اگر تمہارے باپ تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیبیاں اور تمہارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس میں نکاسی نہ ہونے کا تم کو اندیشہ ہو اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو تم کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہوں تو تم منتظر رہو، یہاں تک تم پر اللہ تعالیٰ اپنا حکم (عذاب) بھیج دیں۔ (التوبہ: ۲۴) اس آیت میں گرچہ ترک ہجرت پر وعیدبیان کرنا مقصود ہے، مگر آیت کے عموم سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ سچا ایمان اسی وقت نصیب ہوسکتا ہے جبکہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت ساری دنیا بلکہ خود اپنی جان سے بھی زیادہ ہو اور آپ کی محبت اس درجہ ہو کہ دوسری کوئی محبت اس پر غالب نہ آسکے۔ احادیث مبارکہ سے بھی حب بنوی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ جب تک کوئی آپ سے دنیا ومافیہا کی ہر محبوب چیز کی محبت سے زیادہ محبت نہ کرے اور دوسروں کی محبتوں پر آپؐ کی محبت کو فوقیت نہ دے تو اعمال صالحہ کا بڑا سے بڑا ذخیرہ بھی اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔ کیونکہ ایمان کی بنیاد اور اصل ہی آپ کی محبت ہے، گرچہ باقی ارکان کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اولاد اور دنیا کے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔ (بخاری ۱/۷) حضرت انسؓ ہی سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے تین باتوں کو ایمانی حلاوت کے حصول کی علامت قرار دیا ہے۔ (۱) انسان کی نظر میں اللہ اور اس کے رسول کی ذات کائنات کی ہر چیز سے زیادہ محبوب وپسندیدہ ہوجائے۔ (۲) وہ اپنے مسلمان بھائیوں سے خدا کے لیے تعلق رکھے (نہ کہ کسی دنیوی غرص وذاتی منفعت کے لیے) (۳) وہ اپنے لیے کفر کو اسی طرح ناپسند کرے جیسے آگ میں جلنے کو ناپسند سمجھتا ہے۔ (بخاری ۱/۸)
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے آپ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے عزیز ہیں، یہ سن کر آپؐ نے فرمایا تم میں کوئی شخص اُس وقت تک مومن کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے لیے اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جائوں۔ حضرت عمرؓ نے تھوڑے توقف کے بعد عرض کیا بخدا یا رسول اللہ! اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ یہ سن کر آپؐ نے فرمایا اے عمر! اب تمہارا ایمان مکمل ہوا۔ (فتح الباری ۱/۸۱) اب ہر شخص خود اپنا محاسبہ کرلے کہ وہ ان علامات محبت پر کہاں تک پورا اترتا ہے اور کہاں تک کوتاہی کرتا ہے! جس سے معلوم ہوجائے گا کہ وہ اپنے صادق ومصدوق نبی مکرم سے کس درجہ عقیدت ومحبت رکھتا ہے اور اس کے نزدیک آپ کی محبت کی کس قدر اہمیت ہے۔
محبت کے تقاضے
جن باتوں کو نبی کریمؐ نے اپنی سچی محبت کی علامت قرار دیا ہے اور جو واقعی معیار محبت ہیں، اگر وہ ہماری زندگیوں میں کامل طریقے پر موجود ہیں تو ہم اپنے دعویٰ محبت میں سچے ہیں اور اگر اس میں کچھ کمی ہے تو دعویٰ بلادلیل ہوگا، چنانچہ آپ سے محبت کا اوّلین تقاضہ یہ ہے کہ ہم شریعت کے احکام اور محبوب ایز دیؐ کی تمام سنتوں اور ہدایتوں کا خیال رکھیں اور ان کو اپنا مقصد حیات بنائیں، ہماری صورت وسیرت، ہمارے اخلاق وکردار، ہمارے طور طریقے، رہن سہن، معاشرت ومعاملات سب محبوب کی سنتوں میں رنگ جائیں، آج یہ طے کرلیں کہ محبوب کی آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی نماز کو کبھی نہ چھوڑیں گے، داڑھی کی سنت کو مٹا کر محبوب خداوندی کو ناراض نہ کریں گے، کسی کی حق تلفی کے ذریعے اپنی دنیا وآخرت برباد نہ کریں گے، سود و رشوت لے کر اللہ اور اس کے رسول کی لعنت کے مستحق نہ بنیں گے، شادی بیاہ کے بے جار سوم کو جڑپیڑ سے ختم کرکے نکاح کو آسان سے آسان تر بنادیں گے، بے پردگی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ صالح معاشرہ وجود میں لائیں گے، نئی نسل کی دینی تربیت کرکے ان کی بے راہ روی پر روک لگائیں گے، معاشرے کو تمام برائیوں اور خلاف سنت کاموں سے پاک صاف کرکے محبوب رب العالمین کی شفاعت کے حقدار بنیں گے اور ان کے دست اقدس سے جام کوثر سے سیراب ہوں گے، کیونکہ محبوب سے محبت کا تقاضا یہی ہے کہ آپؐ کے مشن کی تکمیل کی جائے، آپ کی تعلیمات کو عام کیا جائے، آپ کے اخلاق و اوصاف کو اختیار کیا جائے، آپ کی سنتوں کا احیاء کیا جائے، بدعات وخرافات سے اجتناب کیا جائے بالخصوص ناموس رسالت کی حفاظت کے لیے تن من دھن کی بازی لگادی جائے، یہی سچی محبت ہے اور یہی اظہار محبت کا طریقہ ہے۔
محبت کی حقیقت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے معنی اور اس کی حقیقت کے سلسلے میں اہل علم حضرات نے مختلف باتیں ارشاد فرمائی ہیں، جن کی حقیقت تقریباً ایک ہی ہے۔
(۱) حضرت سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں کہ اتباعِ رسول کا نام محبت ہے۔ (۲) بعض نے کہا کہ جب نبوی امتی کے اس اعتقاد کو کہتے ہیں جس کے تحت وہ اجرائے سنت کا عادی ہو جائے، ہر شعبۂ زندگی میں سنت کی پیروی کرنے لگے اور مخالفتِ سنت سے خوف زدہ رہے۔ (۳) کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ ذکر محبوب کے دوام کا نام محبت ہے، یعنی ہر دم آپ کی سنت پر عمل پیرا رہے اور بکثرت آپ پر درودِ شریف بھیجتا رہے (۴) بعض کا ماننا ہے کہ محبوب پر جاں نثاری محبت کا دوسرا نام ہے۔ (۵) بعض حضرات کا خیال ہے کہ محبت محبوب کے شوق کو کہتے ہیں، یعنی جس محبت کے ذریعے محبوب کا قرب اور وصال نصیب ہو وہ حقیقی محبت ہے۔ (۶) چند اہل محبت نے فرمایا کہ دل کو رب کی مرضی پر چھوڑ دینا یعنی جو بات محبوب کو ناپسند ہو وہ بھی اس کو ناپسند سمجھے (۷) بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ موافقت کی جہت پر دل کے میلان کا نام محبت ہے۔
(بحوالہ عشق رسولؐ :۶۳)
مذکورہ بالا معانئی محبت میں جو بات قدرے مشترک ہے وہ یہ کہ دل اس طرف مائل ہو جو فطرت انسانی کے مطابق ہو اور قلب کو اس کے ادراک سے لذت حاصل ہو۔
اسباب محبت
عموماً محبت کی بنیاد چار چیزیں ہوا کرتی ہیں (۱) جمال (۲) کمال (۳) نوال (احسان) (۴) قرابت، کبھی کسی کے جمال جہاں آراء حسنِ اور خوبصورتی کی بناء پر اس سے محبت ہوجاتی ہے جیسا کہ حسن یوسف پر زلیخا اور مصر کی عورتیں عاشق ہوگئی تھیں اور انسان تو انسان بعض حیوان بھی جمال پر عاشق ہوجاتے ہیں، اور پروانے شمع کی روشنی پر عاشق ہیں، حتیٰ کہ جان دے دیتے ہیں، مگر اف تک نہیں کرتے۔
کبھی کسی میں کمال وقابلیت ہو تو اس سے محبت ہوجاتی ہے۔ کبھی کسی کے احسان کرنے کی وجہ سے اس سے محبت ہوجاتی ہے، احسان ایک ایسی چیز ہے جس کی بناء پر انسان ہی نہیں بلکہ موذی جانور بھی اپنے محسن کے تابع ہو جایا کرتے ہیں، ان کے علاوہ قرابت ورشتہ داری کی وجہ سے محبت ہونا ایک بدیہی بات ہے۔ الحاصل ان چاروں اسباب میں سے کوئی ایک سبب بھی موجود ہو تو محبت کے لیے کافی ہے۔ مذکورہ بالا اسباب وعلل کی روشنی میں ذاتِ نبویؐ کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ آپؐ کی ذات گرامی ان تمام صفات وکیفیات کی جامع ہے، کیونکہ آپ میں یہ چیزیں علی وجہ الاتم والا کمل موجود تھیں جو مو جب محبت ہیں۔ خالق کائنات نے آپ کو اجمل الخلائق پیدا کیا، ہر قسم کے مکارم سے مزین کیا، ظاہری حسن وجمال اور حسن اخلاقی کے علاوہ باطنی خصوصیات وکمالات کا سرچشمہ بنایا، چنانچہ شمائل کی کتابوں میں آپ کے حسن وجمال کے متعلق بیشمار احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ساری کائنات میں آپ کو جو حسن وجمال اور ملاحت عطا کی گئی وہ کسی اور کو حاصل نہ ہوئی۔
محسن انسانیتؐ کے احسانات امتِ مسلمہ پر اس قدر ہیں کہ ان کو کسی عدد محصور میں بیان ہی نہیں کیا جاسکتا، انسانیت کی ہدایت ورہنمائی کے لیے آپ نے کیا کچھ نہیں فرمایا، آپ مومنین کے حق میں رئوف ورحیم بلکہ رحمتہ للعالمین ہیں بشیر اور نذیر ہیں، آپ ہی کی وجہ سے یہ امت خیرامت کہلائی، آپ ہی کے ذریعے سے کتاب وحکمت کی تعلیم چار دانگ عالم میں عام ہوئی، امت کے افراد کا تزکیہ ہوا، جوامت اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے جہنم کے کنارے پہنچ چکی تھی فلاح وکامرانی کی شاہراہ پر گامزن ہوئی، اس امت پر یہ تمام انعامات صرف آپ ہی کے احسانات کے بدلے مقدر ہوئے۔ آپؐ کی قرابت ہر مسلمان سے ہے بلکہ آپ کی قرابت دوسروں کی قرابت سے اقویٰ ہے، کیونکہ دنیوی قرابتیں جسمانی اور فانی ہوا کرتی ہیں اور آپ کی قرابت روحانی اور باقی ہے، آپ نے فرمایا کہ کوئی مومن ایسا نہیں جس کے لیے میں دنیا وآخرت میں سارے انسانوں سے زیادہ اولیٰ اور اقرب نہ ہوں۔ (بخاری ۲/۷۰۵) اسی مضمون کو قرآن پاک کی یہ آیات بھی واضح کرتی ہے: ’’مومنوں کے لیے نبی ان کی جانوں سے بھی زیادہ عزیز ہے۔‘‘ (الاحزاب: ۶) ایک حدیث میں ہے کہ آپ امت کے حق میں بمنزلۂ شفیق مہربان باپ کے ہیں، جب آپ کی ذات میں تمام خصائل جمیلہ وجمیع اسباب محبت موجود ہیں تو آپ کی ذات کیونکر محبت کے لائق نہ ہوگی۔
محبت کی اہمیت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ تکمیل ایمان اس پر موقوف ہے کہ آپ کی محبت سب محبتوں پر غالب ہو یعنی تمام دنیوی تعلقات پر اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو مقدم رکھا جائے، کیونکہ ایک مومن کے لیے یہی سب سے بڑا سرمایۂ افتخار ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہے: اگر تمہارے باپ تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیبیاں اور تمہارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس میں نکاسی نہ ہونے کا تم کو اندیشہ ہو اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو تم کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہوں تو تم منتظر رہو، یہاں تک تم پر اللہ تعالیٰ اپنا حکم (عذاب) بھیج دیں۔ (التوبہ: ۲۴) اس آیت میں گرچہ ترک ہجرت پر وعیدبیان کرنا مقصود ہے، مگر آیت کے عموم سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ سچا ایمان اسی وقت نصیب ہوسکتا ہے جبکہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت ساری دنیا بلکہ خود اپنی جان سے بھی زیادہ ہو اور آپ کی محبت اس درجہ ہو کہ دوسری کوئی محبت اس پر غالب نہ آسکے۔ احادیث مبارکہ سے بھی حب بنوی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ جب تک کوئی آپ سے دنیا ومافیہا کی ہر محبوب چیز کی محبت سے زیادہ محبت نہ کرے اور دوسروں کی محبتوں پر آپؐ کی محبت کو فوقیت نہ دے تو اعمال صالحہ کا بڑا سے بڑا ذخیرہ بھی اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔ کیونکہ ایمان کی بنیاد اور اصل ہی آپ کی محبت ہے، گرچہ باقی ارکان کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اولاد اور دنیا کے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔ (بخاری ۱/۷) حضرت انسؓ ہی سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے تین باتوں کو ایمانی حلاوت کے حصول کی علامت قرار دیا ہے۔ (۱) انسان کی نظر میں اللہ اور اس کے رسول کی ذات کائنات کی ہر چیز سے زیادہ محبوب وپسندیدہ ہوجائے۔ (۲) وہ اپنے مسلمان بھائیوں سے خدا کے لیے تعلق رکھے (نہ کہ کسی دنیوی غرص وذاتی منفعت کے لیے) (۳) وہ اپنے لیے کفر کو اسی طرح ناپسند کرے جیسے آگ میں جلنے کو ناپسند سمجھتا ہے۔ (بخاری ۱/۸)
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے آپ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے عزیز ہیں، یہ سن کر آپؐ نے فرمایا تم میں کوئی شخص اُس وقت تک مومن کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے لیے اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جائوں۔ حضرت عمرؓ نے تھوڑے توقف کے بعد عرض کیا بخدا یا رسول اللہ! اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ یہ سن کر آپؐ نے فرمایا اے عمر! اب تمہارا ایمان مکمل ہوا۔ (فتح الباری ۱/۸۱) اب ہر شخص خود اپنا محاسبہ کرلے کہ وہ ان علامات محبت پر کہاں تک پورا اترتا ہے اور کہاں تک کوتاہی کرتا ہے! جس سے معلوم ہوجائے گا کہ وہ اپنے صادق ومصدوق نبی مکرم سے کس درجہ عقیدت ومحبت رکھتا ہے اور اس کے نزدیک آپ کی محبت کی کس قدر اہمیت ہے۔
محبت کے تقاضے
جن باتوں کو نبی کریمؐ نے اپنی سچی محبت کی علامت قرار دیا ہے اور جو واقعی معیار محبت ہیں، اگر وہ ہماری زندگیوں میں کامل طریقے پر موجود ہیں تو ہم اپنے دعویٰ محبت میں سچے ہیں اور اگر اس میں کچھ کمی ہے تو دعویٰ بلادلیل ہوگا، چنانچہ آپ سے محبت کا اوّلین تقاضہ یہ ہے کہ ہم شریعت کے احکام اور محبوب ایز دیؐ کی تمام سنتوں اور ہدایتوں کا خیال رکھیں اور ان کو اپنا مقصد حیات بنائیں، ہماری صورت وسیرت، ہمارے اخلاق وکردار، ہمارے طور طریقے، رہن سہن، معاشرت ومعاملات سب محبوب کی سنتوں میں رنگ جائیں، آج یہ طے کرلیں کہ محبوب کی آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی نماز کو کبھی نہ چھوڑیں گے، داڑھی کی سنت کو مٹا کر محبوب خداوندی کو ناراض نہ کریں گے، کسی کی حق تلفی کے ذریعے اپنی دنیا وآخرت برباد نہ کریں گے، سود و رشوت لے کر اللہ اور اس کے رسول کی لعنت کے مستحق نہ بنیں گے، شادی بیاہ کے بے جار سوم کو جڑپیڑ سے ختم کرکے نکاح کو آسان سے آسان تر بنادیں گے، بے پردگی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ صالح معاشرہ وجود میں لائیں گے، نئی نسل کی دینی تربیت کرکے ان کی بے راہ روی پر روک لگائیں گے، معاشرے کو تمام برائیوں اور خلاف سنت کاموں سے پاک صاف کرکے محبوب رب العالمین کی شفاعت کے حقدار بنیں گے اور ان کے دست اقدس سے جام کوثر سے سیراب ہوں گے، کیونکہ محبوب سے محبت کا تقاضا یہی ہے کہ آپؐ کے مشن کی تکمیل کی جائے، آپ کی تعلیمات کو عام کیا جائے، آپ کے اخلاق و اوصاف کو اختیار کیا جائے، آپ کی سنتوں کا احیاء کیا جائے، بدعات وخرافات سے اجتناب کیا جائے بالخصوص ناموس رسالت کی حفاظت کے لیے تن من دھن کی بازی لگادی جائے، یہی سچی محبت ہے اور یہی اظہار محبت کا طریقہ ہے۔
No comments:
Post a Comment