Search This Blog

Friday, 25 January 2013

لوٹ جا عہدِ نبی ص کی سمت....

لوٹ جا عہدِ نبی ص کی سمت....

کالم نگار  |  نذیر احمد غازی

انسان تو بہر حال انسان ہے۔ اسکی حیات کے خیر وشر کا معاملہ کبھی بھی خاموش نہیں رہتا۔ یہ کبھی نیابت خداوندی کی مسند پر رونق افروز ہونے کی جدوجہد میں شر کو شکست دے کر پارسائی اور نیکی کا سراپا بن جاتا ہے اور کبھی غفلت کی وادیوں میں گم ہو کر شیطان کی انگلی پکڑ کر کسی انجانے اندھیرے راستوں کا انتخاب کرتا ہے اور خیروشر کی معرکہ آرائی کا یہ سلسلہ قدیم ہے۔ خیر و شر کی جنگ میں کتنے مدوجزر آتے ہیں اور کتنی ہی ان دیکھی گھاٹیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زندگی کی دھوپ چھاﺅں اسی معرکہ آرائی کا دوسرا نام ہے۔ ہدایت و گمراہی کی باہمی پنجہ آزمائی نے بھی انسانی عقل و شعور کو ایک میزان ممتاز عطا کیا ہے۔ یہ میزان ممتاز محض انسان کی تجرباتی کاوشوں سے میسر نہیں آتا بلکہ اس کیلئے باطن کی روشنی اور انسانیت پروری کے فطری اور حقیقی اصولوں کی آگاہی کے سبب نصیب ہوتا ہے۔
عقل انسانی کی حقیقت فطری قوت تو وحی کی ہدایت سے نصیب ہوتی ہے اور وحی علم کائنات کا وہ واحد ذریعہ ہے جہاں پر تمام انسانی کاوشیں اعتراف کرتے ہوئے تسلیم کا سجدہ کرتی ہیں اور وحی کا اعتبار حضور محمد مصطفی کی ذات گرامی ہے بلکہ سلسلہ وحی کا ممتاز موضوع بھی ہر دور قدیم میں اور ہر عہد سابق میں حضورمحمد مصطفی کی ذات اقدس ہی رہی ہے۔ انبیاءسابقین علیھم السلام کے صحائف اور کتب اسی بعثت محمدی علی صاحبھا الصلوة السلام کو کمال انسانیت کا محور قرار دیتے آئے ہیں۔ ربیع الاول تاریخ کا ایک اہم ترین موڑ ہے۔ اسی مقدس مہینے میں کائنات کی تاریخی فضیلتوں پر افضلیت کا وہ دائمی عنوان باندھا گیا ہے کہ اسکے بعد کسی اور جہت سے انسانی افضلیت کا کوئی اور معیار قائم نہیں ہو گا۔ انسانی زندگی میں خوبصورتی کا اتارا جانا۔ بھی اسی ماہ میلاد مصطفی میں میسر آیا تھا۔
حضور محمد مصطفی کی تشریف آوری پر کعبة اللہ سے لیکر عام ذرہ کائنات معجزاتی طور پر روشن ہوتے تھے اور پھر یہ روشنی بعثت مصطفی کی برکت سے ہر اہل ایمان کے قلوب میں منتقل ہوتی تھی اور وصال مصطفی کے بعد یہ روشنی علماءربانبیّن کو عطا فرمائی گئی جن کا دل تقویٰ کا مرکز و مصدر تھا اور العلماءورثة الانبیاءکے مطابق یہی لوگ امت کے امین ہیں۔ ان کا قول ہی رہنما ہوتا ہے اور ان کا کردار ہی اعتبار ہوتا ہے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ عجب اور حیران کن حقائق سے پالا تب پڑتا ہے جب حسن ظن کے آبگینے پر حالات و واقعات کی بے رحم ضرب پڑتی ہے تو پھر مولائے بطحاعلیہ الصلواة والسلام سے چارہ گری کی طلب کی جاتی ہے۔
ماہ ربیع الاول تو تفتیش و فا کا مہینہ بنتا جا رہا ہے۔ تلاش ایمان کے تقاضے بڑھتے ہیں اس مہینے میں اور محبت کے امتحان کی تجدید ہوتی ہے اس مبارک ماہ نور میں کیونکہ محبت بغیر امتحان کے محبوب کی بارگاہ میں کوئی قیمت نہیں پاتی۔اور امت مسلمہ ایک عرصے سے اسی امتحان محبت میں مصروف ہے۔ کامیاب محبت کیلئے راہ عشاق سے روشنی میسر آتی ہے۔ راہ الفت میں بھی راہ نما درکار ہے۔ عام سادہ مسلمان اس راہ محبت نبی پر اپنی سادہ دلی اورقلبی اخلاص پر گامزن ہے لیکن راہ محبت کی بڑی شاہراہ پر مذہبی رہنماﺅں نے جانی انجانی رکاوٹیں کھڑی کی ہوتی ہیں اور وہ رکاوٹیں بڑی ہی دلفریب ہیں اور ان رکاوٹوں میں عجب تفرقہ پروری ہے۔ کہیں کہیں مذہبی قیادت لاھم لاھ.... کرتی نظر آتی ہے اور کہیں دین کو نذر سیاست کرنے کی ایک دلفریب درسگاہ ہے جہاں پر ملوکیت کے بازوﺅں کو دین نما پروں کی فراہمی کا دھندا ہوتا ہے اور کہیں مذہبی قیادتیں سیاست کا میک اپ کر کے نجات کا منافقانہ مژدہ سنانے کیلئے لوگوں کو جمع کر رہی ہوتی ہیں اور پھر جمع کر کے بقیہ لوگوں کو ڈرانے اور دھمکانے کا فریضہ سرانجام دیا جاتا ہے۔ ہمارے سادہ لوح مسلمان بھائی کسی بھی دینی نعرے پر اپنی جان کی بازی لگانے کیلئے ہمہ وقت اور ہر گاہ تیار رہتے ہیں۔ ایوب خان مرحوم سے لیکر تاحال برپا ہونے والی وہ تحریکیں جن کی سربراہی مذہبی قوتوں کو حاصل رہی ہے ان کا جائزہ ناقدین اور اہل دانش نے تو اپنی جگہ لیا ہے لیکن عوام الناس کا مسلسل اور سادہ جائزہ یہ ہے کہ....
گزشتہ ادوار کا مشاہدہ کیا جائے تو اکثر مذہبی قوتیں یا تو فوجی انقلاب کو خوش آمدید کہتی نظر آتی ہیں یا پھر سیاسی جاگیرپسند کاروباری سیاستداروں کو اپنی قوتیں اور خدمات ٹھیکے پر دیتی نظر آتی ہیں اور نعرہ عوام تک یہی پہنچتا ہے کہ علماءتو انبیاءکے وارث ہیں۔ علمائے ربانبین فی الحقیقت انبیاءکے وارث ہوتے ہیں اور وہی لوگ برکتوں کے نزول کا باعث ہوتے ہیں اور کوئی زمانہ ان سے خالی نہیں ہوتا۔ انکے حکم و ارشاد ہی سے دین کا چلن برقرار رہتا ہے لیکن وہ لوگ جو اس منصب کے امانتدار ہونے کا جھوٹا دعویٰ کریں اور اپنی جہالت اور بدنیتی کے باوجود پاک منصب پر زبردستی براجمان ہو کر تقوے کا لبادہ پہن کر سرمد بننے کی کوشش کریں تو عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ کھال پہننے سے کوئی شیر نہیں بنتا۔ وہ بے چارے جو تلاش روز گار میں گھر سے نکلتے ہیں اور حرم کی راہ سے گزر کر کوچہ¿ سیاست میں جا وارد ہوتے ہیں اور اس کوچے میں کچھ روایتی خریدو فروخت کے ماہروں نے اپنے ٹھیلے سجائے ہوئے ہیں۔ یہ روز گار کے متلاشی غریب لوگ دستار و عصا خرید کر نئے بھاﺅ پر بیچنے کیلئے دوسرے ٹھیلوں پر چلے جاتے ہیں۔ اگرچہ ہر دور میں اس طرز کی خریدوفروخت کا دھندہ جاری رہا ہے لیکن مرحوم ضیاءالحق کے دور میں پرانے دو چاند توڑ کر نئے دو ستارے، بنائے گئے تھے اور اور ان ستاروں کی چمک میں اضافے کیلئے مذہبی و مسلکی سنگار کی بہت زیادہ ضرورت تھی اس لئے دوکانیں بڑے پیمانے پر کھلوائی گئی تھیں اور ہر سطح کے روشن اداکار اپنے اپنے کام میںبڑی تندہی سے مصروف ہیں اور ان کا ہر کردار سب سے نئے عنوانوں کو جنم دیتا ہے۔
دین، سیاست، جدائی‘ چنگیزی، یہ سب ان نیم دل بلکہ زندہ دل اداکاروں کے اصول سیاست ہیں۔ نہیں بلکہ کاروبار تجارت کے پیمانے ہیں۔ جو خود ملکی دولت کو نہایت درد مندی سے لوٹتے ہیں اور پھر کسی بھی حادثاتی قسمت کے زیر اثر ملک بدر ہو جاتے ہیں پھر مقدس ہو کر لوٹتے ہیں۔ سلیقہ¿ محبت سے نئی دکان نئے مکان میں سجا کر بیٹھتے ہیں تو پھر قلندر لوگ دین سیاست زندہ بادکے نعرے ہاتھ اٹھا اٹھا کر بلند کرتے ہیں۔ جام وفا لنڈھا کر محبت کے سجدے دھنوان کی چوکھٹ پر ادا کرتے ہیں۔ دھنوان خوش ہے اور پھر وہ چھوٹے دھنوانوں کے ساتھ کچھ پہلوانوں کی جنتا ساتھ کر دیتا ہے اور خوب دنگل ہوتا ہے۔ بے چارے دین پرست سمجھتے ہیں کہ دین پر حملہ ہو رہا ہے اور ہمارے مسلکی و مذہبی شیر اکیلے بند گلی میں گھر گئے ہیں وہ اپنے جذبات کا ہتھیار لئے انکی مدد کو آگے بڑھتے ہیں کہ شاید وہ دین کا دفاع کر سکیں مگر اس دھینگا مشتی میں شیرانہ لباس تار تار ہو جاتا ہے اور اصلی وجود سامنے آ جاتا ہے۔ لوگ چپ ہو کر بددل ہو کر اور کچھ غصے میں آ کر واپس آ جاتے ہیں۔ چند دنوں بعد پھر نئے دنگل، نئی شکلیں اور نئے بلاوے لوگ بھول جاتے ہیں اور پھر اپنے جذبات کو نیا بانکپن دے کر اپنی مذہبی و مسلکی جنگ برائے بقا لڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔
اے عوام پاکستان! خدا تمہارے جذبات کو سلامت رکھے۔ تمہاری محبت دین اور پروان چڑھے۔ تمہارا فداکارانہ کردار برکتوں میں پھلے پھولے۔ یہ ماہ ربیع الاول رسول رحمت سے محبتوں اور چاہتوں کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں وفاﺅں کو قبولیت نصیب ہوتی ہے اور انسانیت کی بلندی کا اہتمام ہوتا ہے۔ اسی بارگاہ بلند مقام سے محبت و اطاعت، غلامی اتباع کا عہد کرو کہ جس نبی کریم کی اتباع سے خدا اپنے بندوں کو محبوب بنا لیتا ہے اور انسان اپنی زندگی کی معراج پا لیتا ہے....
لوٹ جا عہد نبی کی سمت رفتارِ جہاں
پھر مری پسماندگی کو ارتقا درکار ہے

No comments:

Post a Comment